
تین مارچ کو امریکی کانگریس میں بن یامین نیتن یاہو کی قیامت خیز تقریر زیادہ مدد گار ثابت نہیں ہوئی۔ تقریر کا مقصد امریکا کو یہ سمجھانا تھا کہ آخر وہ ایران کے ساتھ ایک ایسی نیوکلیائی ڈیل کیسے کرے، جو ایران کو ایٹم بم بنانے سے روک سکے۔
اسرائیلی وزیراعظم کی تقریر کے دوران ری پبلکن بار بار کھڑے ہو کر داد دیتے رہے، جبکہ ڈیموکریٹس کی جانب سے ملا جلا ردِ عمل آیا۔ اپنی تقریر میں اسرائیلی وزیراعظم اس بات کی وضاحت کرتے رہے کہ امریکی حکومت اور دیگر عالمی قوتوں کا جو معاہدہ ایران کے ساتھ طے پانے جا رہا ہے، وہ اتنا ناقص ہے کہ وہ ایران کے لیے ایٹم بم بنانے کی راہ مسدود کرنے کے بجائے ہموار کرتا ہے۔
نیتن یاہو نے ممکنہ نیوکلیائی ڈیل کے ان نکات کا بطورِ خاص ذکر کیا جو اُن کے خیال میں بے وقوفانہ اور غیر دانشمندانہ ہیں۔ خاص طور پر یہ نکتہ کہ دس سال بعد ایران کے نیوکلیئر پروگرام پر عائد پابندیاں ختم ہو جائیں گی۔ نیتن یاہو کا کہنا تھا کہ جو معاہدہ ہونے جا رہا ہے، وہ اپنی موجودہ شکل میں ایران کو وسیع نیوکلیئر انفرا اسٹرکچر برقرار رکھنے کی آزادی دیتا ہے اور حقیقتاً بم بنانے سے روکنے کے لیے صرف انسپکٹروں کے کردار پر بھروسا کیا گیا ہے۔ نیتن یاہو نے کہا کہ مشرقِ وسطیٰ میں فتح مندی، جبر اور دہشت پر تلی ہوئی حکومت کے لیے ایک دہائی کا عرصہ پلک جھپکنے جتنے وقفے کے برابر ہے۔
نیتن یاہو نے اپنے خطاب میں نیوکلیئر ڈیل کا کوئی ایسا متبادل خاکہ پیش نہیں کیا جو ایران اور ان تمام یورپی ممالک کے لیے بھی قابلِ قبول ہو جو امریکا کے ساتھ مل کر اس پر کام کر رہے ہیں۔ بلکہ انہوں نے تین مزید ایسی شرائط پیش کر دیں جو ایران پر پابندیاں ختم کرنے سے پہلے عائد کی جانی چاہئیں۔ پہلی شرط یہ کہ ایران مشرقِ وسطیٰ میں پڑوسیوں کے خلاف جارحیت بند کرے۔ دوم، وہ دنیا میں دہشت گردی کی حمایت ختم کرے۔ سوم، وہ میرے ملک کو نیست و نابود کرنے کی دھمکیاں دینا بند کرے۔
بارک اوباما نے نیتن یاہو کی تقریر کے بعد ناراض لہجے میں کہا کہ جو منصوبہ نیتن یاہو پیش کر رہے ہیں، اس کے نتیجے میں تو ایران کے ساتھ سرے سے کوئی نیوکلیئر ڈیل طے پا ہی نہیں سکے گی۔ ایسا معاہدہ جو ایران کے نیوکلیئر انفرا اسٹرکچر کو دس سال کے لیے منجمد کر دے اور ساتھ ساتھ اس کی سخت نگرانی ہوتی رہی، واحد بہترین ممکنہ حل ہے۔ بارک اوباما نے اس اجلاس میں شرکت نہیں کی جس میں نیتن یاہو نے یہ خطاب کیا تھا۔ اوباما نے کہا کہ اس سے زیادہ کچھ حاصل نہیں کیا جا سکتا۔ حتیٰ کہ پابندیوں کا بھی فائدہ نہیں ہو گا۔ یہاں تک کہ فوجی کارروائی بھی اتنی سودمند ثابت نہ ہوگی جتنا کہ یہ معاہدہ جو ہم پیش کر رہے ہیں۔
جس چیز نے اوباما کے غصے کو اور ہوا دی، وہ یہ تھی کہ اسرائیلی وزیراعظم کا دورہ صرف کانگریس کے ری پبلکن رہنمائوں کی دعوت پر طے پایا تھا۔ اس سلسلے میں وائٹ ہائوس سے کسی قسم کی مشاورت نہیں کی گئی۔ جبکہ یہ دورہ اسرائیل میں انتخابات سے محض دو ہفتے قبل ہوا ہے۔ یہ پروٹو کول کی ایسی توہین تھی جس کی بظاہر کوئی نظیر نہیں ملتی۔
نیتن یاہو کی تقریر اگرچہ ناقص سفارت کاری کا مظہر تھی، لیکن اس نے یہ راہنمائی تو ضرور کی ہے کہ آنے والے مہینوں میں امریکا کی داخلی سیاست میں ایران معاہدے کی بحث کیا صورت اختیار کرے گی۔
ایوانِ نمائندگان کے اسپیکر جون بوہنر کا اسرائیلی وزیراعظم کو واشنگٹن مدعو کرنے کا بنیادی مقصد یہی تھا کہ وہ ریپبلکن کے اس موقف کا مشاہدہ خود کر لیں کہ بارک اوباما ایک ناکارہ اور بے وقوف لیڈر ہیں، جو امریکا کے دشمنوں کو چھوٹ پر چھوٹ دیے جا رہے ہیں۔
اس تناظر میں نیتن یاہو پر یہ دبائو تو نہ ہونے کے برابر تھا کہ وہ اپنے خطاب میں تنقید کے علاوہ بھی کچھ کریں۔ اس کے باوجود اپنی تقریر میں انہوں نے خاص طور پر اوباما کی تعریف کی، انھیں اسرائیل کا دوست قرار دیا اور اس تاثر پر شدید افسوس کا اظہار کیا کہ ان کا دورہ ’’سیاسی‘‘ مقاصد کے لیے تھا۔
اس خطاب سے جون بوہنر کو دوہرا فائدہ حاصل ہوا۔ نیتن یاہو کے دورے سے پیدا ہونے والی ہلچل نے دائیں بازو کی جانب سے اٹھنے والی احتجاجی آوازوں کو خاموش کر دیا اور ٹھیک اسی دن ری پبلکن نے خاموشی کے ساتھ اوباما کے تارکینِ وطن سے متعلق پروگرام کو نافذ ہونے سے روکنے کی کوشش ترک کردی۔ اس پروگرام کا مقصد ہوم لینڈ سکیورٹی ڈپارٹمنٹ کی فنڈنگ کو برقرار رکھنا ہے تاکہ لاکھوں تارکینِ وطن کو ملک بدری سے بچایا جاسکے۔
اس پروگرام کے حوالے سے ری پبلکن کو اپنے موقف سے پیچھے ہٹنا ہی پڑتا۔ لہٰذا اس خبر کو دبانے کے لیے یہ ایک اچھا دن تھا۔ ورنہ عام دنوں میں امریکا کی قومی سلامتی پر سخت موقف رکھنے والی جماعت کے لیے بڑا مشکل ہوتا کہ وہ امریکا کی داخلی سلامتی کے نظام کو بند کرنے پر راضی ہو۔
سینٹ کے ری پبلکن راہنما مچ مک کولن نے نیتن یاہو کی جانب سے پیش کیے جانے والے خدشات کو بڑا سراہا اور جلد بازی کرتے ہوئے اس قانون پر ووٹنگ کی تاریخ دس مارچ دے دی جس کی منظوری کے بعد ایران کے ساتھ حتمی سودا کرنے کا اختیار کانگریس کو حاصل ہو گا اور اس کے ساتھ ساتھ اوباما کا پابندیاں ختم کرنے کا اختیار محدود ہو جائے گا۔
اس طرزِ عمل نے معتدل نقطۂ نظر رکھنے والے ڈیموکریٹس کو بھی ناراض کر دیا۔ اِن ڈیمو کریٹس کے اوباما اور ان کے سیکرٹری اسٹیٹ جان کیری کی جانب سے ایران کے ساتھ معاہدے پر واضح تحفظات ہیں۔ لیکن وہ ان مذاکرات کو ۲۴ مارچ سے پہلے تہس نہس نہیں کرنا چاہتے جو عبوری معاہدے پر پہنچنے کی آخری تاریخ ہے۔
نیو جرسی سے تعلق رکھنے والے ڈیمو کریٹ سینیٹر رابرٹ مینڈس ایران پالیسی پر سخت موقف کے حامل ہیں۔ وہ امریکی کانگریس میں اس قانون کو پیش کرنے والوں میں شامل تھے جس کی منظوری کے بعد ایران معاہدے کو حتمی شکل دینے سے پہلے کانگریس کے سامنے پیش کرنا پڑے گا۔ لیکن تین مارچ کو رابرٹ مینڈس نے کافی ناراضی کا اظہار کیا۔ انھوں نے کہا کہ اگر ری پبلکن اس بِل پر کارروائی کے لیے جلد بازی کرنے کی کوشش کرتے رہے تو وہ اپنے پیش کردہ بِل کو خود ہی روک دیں گے۔
عجیب بات یہ ہے کہ دونوں جماعتوں میں موجود کئی ارکان اوباما کے محدود ہدف کے حوالے سے پریشان ہیں۔ اوباما کا ہدف صرف یہ ہے کہ ایران کو ایک حقیقی ایٹم بم بنالینے سے روکا جائے۔ مگر کئی ارکان نیتن یاہو کے مقررہ ہدف کو ترجیح دیں گے۔ یعنی ایران کو ایک ایسی نیوکلیئر ریاست بننے سے روکنا جس کے پاس حقیقی ایٹم بم تو نہ ہو مگر وہ جب چاہے آگے بڑھ کر ایٹم بم بنانے کی صلاحیت رکھتی ہو۔
نہیں معلوم کہ اسرائیلی وزیراعظم کا یہ دورہ اسرائیل میں موجود رائے دہندگان کو متاثر کر پائے گا یا نہیں۔ لیکن اس خطاب نے واشنگٹن میں ایران پالیسی پر دونوں جماعتوں کے اتفاق کو تو ضرور مشکل بنا دیا ہے۔
(مترجم: طاہرہ فردوس)
“Israel’s prime minister: Bibi in DC”.
(“The Economist”. March 7, 2015)
Leave a Reply