اسرائیل پر جنگی جرائم کا مقدمہ چلانے میں عالمی طاقتیں رکاوٹ ہیں!

غزہ کے ۱۵ لاکھ محصور فلسطینیوں پر اسرائیلی بمباری ایسی جارحیت ہے جسے بین الاقوامی قوانین میں اجتماعی سزا سے تعبیر کیا گیا ہے۔ ٹوکیو میں جنگی مجرمین کے خلاف جن الزامات کی بنیاد پر فیصلے کیے گئے۔ انہی جرائم کا ارتکاب صہیونی فوج نے فلسطینی عوام کے خلاف کیا۔ اسرائیلی جنگی مجرموں کو عدالت کے کٹہرے میں لانے میں سب سے بڑی رکاوٹ وہ عالمی طاقتیں ہیں جو دنیا میں قانون نافذ کرنے کی اہلیت رکھتی ہیں۔ عالمی طاقتوں کے زیر اثر ذرائع ابلاغ اسرائیلی جرائم کو ’’دفاعی حق‘‘ قرار دے رہے ہیں۔ اسرائیل نے اقوام متحدہ کی رکنیت کی شرائط کی خلاف ورزی کی ہے لہٰذا اس کی رکنیت ختم کر کے اسے دنیا کے لیے نشان عبرت بنا دینا چاہیے۔

یہ خیالات بین الاقوامی قوانین کے ماہر اور مصری اسمبلی برائے عالمی قانون کے رکن حسن عمر کے ہیں جن کا اظہار انہوں نے ایک انٹرویو کے دوران کیا ہے جو نذر قارئین ہے۔


س: سب سے پہلے یہ جاننا چاہیں گے کہ رواں سال کے شروع میں غزہ جنگ کے دوران اسرائیلی رہنما جن جنگی جرائم کے مرتکب ہوئے ہیں عالمی قوانین ان کے بارے میں کیا کہتے ہیں؟۔

ج: غزہ جنگ میں اسرائیلی فوج نے فلسطینیوں کی نسل کشی کا ارتکاب کیا۔ غزہ کی تمام ساتوں راہداریاں بند کر کے ۱۵ لاکھ فلسطینیوں پر اسرائیلی جنگی طیاروں اور ٹینکوں نے بمباری کی بین الاقوامی قوانین میں ایسی جارحیت کو اجتماعی سزا سے تعبیر کیا جاتا ہے جو کہ انسانیت کے خلاف خطرناک ترین جرم ہے۔ اسی طرح اسرائیلی فوج نے بین الاقوامی طور پر ممنوعہ اسلحہ استعمال کیا جس کے نتیجے میں ۱۳۰۰ سے زائد فلسطینی شہید اور ۵۳۰۰ زخمی ہوئے جن میں زیادہ تر تعداد بچوں اور خواتین کی تھی۔ صہیونی فوج نے جسموں کو جلا دینے والے فاسفورس بموں اور وسیع پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیاروں کا بھی استعمال کیا اور شہریوں کی حفاظت کے تمام بین الاقوامی معاہدوں اور قوانین کو پسِ پشت ڈالتے ہوئے انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں کیں۔ بالخصوص جنیوا معاہدہ (چہارم) کی خلاف ورزی کی گئی جس میں جنگ کے دوران خواتین، بچوں، طلبہ، ڈاکٹرز، طبی عملے اور صحافیوں کو حفاظت فراہم کی گئی ہے۔

س: غزہ جنگ کے دوران اسرائیلی فوج نے جو جرائم کیے ہیں کیا ان جرائم کو ثابت کرنے کے لیے کوئی مشکلات ہیں؟

ج: جنگی جرائم کے ثبوتوں میں کوئی مشکل نہیں۔ نظام روم، نسل کشی معاہدہ اور چاروں جنیوا معاہدوں میں جنگی جرائم کے حوالے سے جو کچھ ذکر کیا گیا ہے صہیونی فوج نے غزہ پر جارحیت کے دوران اس کا ارتکاب کیا ہے۔ بچوں اور خواتین کو جان بوجھ کر قتل کیا گیا۔ ایمبولینسوں، مساجد، گوداموں اور تمام شہری اہداف کو شعوری طور پر نشانہ بنایا گیا۔ بین الاقوامی قوانین میں جن مقامات کو تحفظ فراہم کیا گیا ہے انہیں عملاً نشانہ بنایا گیا۔ یہ سب کچھ دنیا نے ٹیلی ویژن چینلوں اور دیگر ذرائع ابلاغ کے ذریعے دیکھا اور سنا۔

س: کیا بین الاقوامی عدالتوں میں ماضی میں کوئی ایسے فیصلے کیے گئے ہیں جن کو اسرائیلی جرائم کے خلاف دلیل کے طور پر پیش کیا جا سکتا ہے؟

ج: جی ہاں اس کی مثالیں موجود ہیں۔ نور برج اور ٹوکیو میں جنگی مجرموں کے خلاف جن جرائم کی بنیاد پر فیصلے کیے گئے۔ انہی جرائم کا ارتکاب آج فلسطینی عوام کے خلاف صہیونی رہنما اور ان کی فوج کر رہی ہے۔ اس لیے اگر کوئی چاہے تو عالمی سطح پر ایسے جنگی جرائم کی روک تھام کے لیے موجودہ قوانین استعمال کر سکتا ہے۔ معاہدہ فرسائے ۱۹۱۹ء کی شق نمبر ۲۲۷ کے مطابق جرمن اور جاپانی جنگی مجرمین کے خلاف فیصلے سنائے گئے۔

س: وہ کون سے اہم ادارے اور عدالتیں ہیں جن کے ذریعے صہیونی رہنمائوں کے خلاف جنگی جرائم کے مقدمات چلائے جا سکتے ہیں؟

ج: عرب، یورپ اور امریکا کی عدالتوں میں یہ مقدمات چلائے جا سکتے ہیں۔ کسی شہری کو کسی بھی ایسے ملک کی عدالت میں رجوع کرنے کا حق حاصل ہے جنہوں نے جنیوا معاہدہ کو منظور کر رکھا ہے۔ اس طرح کی بہت سی مثالیں موجود ہیں۔ صبر ا اور شاتیلا میں فلسطینیوں کا قتلِ عام کرنے اور انسانیت کے خلاف جرائم کا ارتکاب کرنے پر بیلجیم کی عدالت میں مقدمہ دائر کیا گیا۔ جنوبی لبنان پر نہتے شہریوں کو قتل کرنے کے جرم میں اسرائیلی وزیر دفاع اور چیف آف آرمی اسٹاف سمیت بعض اسرائیلی رہنمائوں کے خلاف اسپین کی عدالت میں مقدمہ دائر کیا گیا۔ ان عدالتوں کے علاوہ عالمی عدالت ہے جس کی بنیاد ۲۰۰۲ء میں رکھی گئی۔ یہ پہلی عدالت ہے جو نسل کشی کے ملزموں کے خلاف مقدمہ چلانے کا حق رکھتی ہے۔ عالمی عدالت نے چار اہم مسائل کے متعلق تحقیقات کی ہیں جن میں شمالی یوگنڈا، ڈیموکریٹک کانگو، وسطی افریقہ اور دارفور شامل ہیں۔

س: جب بین الاقوامی قانون اسرائیل کی وحشیانہ کارروائی کو جرم قرار دیتا ہے اور جرائم کے ثبوت کے دلائل بھی موجود ہیں تو پھر ان صہیونیوں کو عدالت کے کٹہرے میں لانے میں کیا رکاوٹ ہے؟

ج: متعدد شہری تنظیموں نے اسرائیلی جرائم کے خلاف ثبوت اکٹھے کیے ہیں۔ بعض تنظیمیں مختلف عدالتوں میں جانے کی تیاری بھی کر رہی ہیں۔ لیکن اسرائیلی صہیونیوں کو سزا دلوانے میں متعدد امور رکاوٹ ہیں سب سے بڑی رکاوٹ وہ طاقتیں ہیں جو دنیا میں قانون نافذ کرنے کی اہلیت رکھتی ہیں۔ وہ طاقتیں اسرائیلی مجرموں کو سزا دینے میں نہ صرف عدم دلچسپی کا اظہار کرتی ہیں بلکہ وہ اسرائیلی قیادت کا دفاع کرتی ہیں۔ مزید برآں عالمی اور علاقائی سطح پر جو گٹھ جوڑ ہے وہ اس حق کو استعمال کرنے نہیں دینا چاہتا جس میں سرفہرست اقوام متحدہ ہے۔ اسرائیلی مجرموں کے خلاف مقدمے میں ایک اور رکاوٹ بین الاقوامی سطح پر صہیونی اثر و رسوخ ہے، بالخصوص میڈیا جو اسرائیلی جرائم کو دفاعی حق قرار دے کر پیش کر رہا ہے۔ میڈیا دنیا پر ظاہر کر رہا ہے کہ فلسطینی دہشت گردی کے انسداد کے لیے اسے دفاعی حق حاصل ہے۔

س: عالمی عدالت کی جانب سے بوسنیا کے خلاف جنگی جرائم کا ارتکاب کرنے والے سربیا کے رہنمائوں کو بری کر دیا گیا جب کہ دارفور میں سوڈانی صدر عمر البشیر کو جنگی جرائم کا مرتکب قرار دیا گیا ہے۔ آپ ان دو فیصلوں کی روشنی میں صہیونیوں کے خلاف مقدمہ کو کس طرح دیکھتے ہیں؟

ج: ہم عجیب و غریب تضادات کی دنیا میں زندگی بسر کر رہے ہیں۔ سوڈان کے صدر عمر بشیر کی گرفتاری کے وارنٹ تو جاری کر دیئے جاتے ہیں لیکن جن ملزموں کے خلاف الزامات ثابت ہوئے ہیں اور ان کے جرائم کی پوری دنیا شاہد ہے ان کو بری قرار دے دیا گیا۔ عمر البشیر کی گرفتاری کے وارنٹ کو ہم جہاں ایک سیاسی اور قانونی زلزلہ تصور کرتے ہیں وہاں اس بات کی اہمیت اور زیادہ بڑھ جاتی ہے کہ اسرائیلی رہنمائوں کے خلاف مقدمات چلائے جائیں۔ امریکی ویٹو اور یورپی ساز باز کی وجہ سے اسرائیلی رہنمائوں کو سزائیں دینا بلاشبہ مشکل ہے لیکن صہیونیوں کے خلاف مقدمہ چلائے جانے سے رکے ہوئے پانی میں ہلچل تو پیدا ہو گی۔

س: آپ کے خیال میں صہیونی رہنمائوں کو عدالت کے کٹہرے میں لانے کے لیے کون سے اقدامات زیادہ مفید ہونگے؟

ج: سب سے پہلے تو جنیوا معاہدہ چہارم میں شریک ممالک کا فوری اجلاس بلایا جانا چاہیے۔ جس میں اسرائیلی فوجی اور سیاسی قیادت کے خلاف عالمی عدالت میں مقدمہ چلائے جانے کا فیصلہ کیا جائے۔ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں ایسی قرارداد لانے کی کوشش کی جائے جس کے ذریعے اسرائیل کی رکنیت ختم کر کے اسے مبصر کا درجہ دیا جائے۔ رکنیت ختم کرنے کی وجہ یہ ہے کہ اسرائیل اقوام متحدہ کی رکنیت کی شرائط پر پورا نہیں اترتا اس نے اقوام متحدہ کی ۱۹۴۹ء کی قرار داد نمبر ۲۷۳ کی ان شرائط کی پابندی نہیں کی جس کی بناء پر اسے اقوام متحدہ کی رکنیت دی گئی تھی۔ اس قرار داد میں تقسیم کے اصولوں کی پابندی، فلسطینی پناہ گزینوں کی واپسی، بیت المقدس کی حیثیت اور اقوام متحدہ کے معاہدوں کے احترام کا کہا گیا تھا۔ لیکن اسرائیل نے ان تمام معاہدوں اور شرائط کی خلاف ورزی کی۔

(بشکریہ: ماہنامہ ’’محور‘‘ لاہور۔ ستمبر ۲۰۰۹ء)

Be the first to comment

Leave a Reply

Your email address will not be published.


*