
دنیا آج مسائل میں گھری ہوئی ہے، پالیسی مرتب کرنے والے بھی تذبذ ب کا شکار نظر آتے ہیں۔مگر کوئی بھی مسئلہ اتنا اہم نہیں ہے کہ جتنا سیاست میں اسلحہ کا عمل دخل اور اس کو حاصل کرنے کی دوڑ میں شامل ہونا ہے۔اس مقابلے کی فضا کو ختم کرنا اور اسلحہ کی دوڑ سے کنارہ کشی ہی پالیسی سازوں کی اولین ترجیح ہونی چاہیے۔ موجودہ صورت حال بہت تشویش ناک ہے۔
بڑی تعداد میں ٹینک، بکتر بند گاڑیاں اور فوجی یورپ لائے جا رہے ہیں۔ نیٹو اور روسی افواج کے ہتھیار جو پہلے ایک فاصلے پر ہوا کرتے تھے،اب بالکل ایک دوسرے کے نشانے پر ہیں۔جہاں ریاستیں عوام کی بنیادی ضروریات پوری کرنے کے لیے مشکلات کا شکار ہیں،وہیں فوجی اخراجات میں مسلسل اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ایسے مہلک ہتھیاروں کے لیے فنڈ بہت آسانی کے ساتھ مہیا کر دیے جاتے ہیں، جو کہ بڑے پیمانے پر تباہی پھیلانے کا باعث بن سکتے ہیں۔ ایک آبدوزصرف ایک حملے سے آدھا بر اعظم تباہ کرسکتی ہے، اورایسے دفاعی میزائل سسٹم جو تزویراتی توازن میں بگاڑ پیدا کرسکتے ہیں۔
سیاست دان اور فوجی رہنما سمیت مشیرانِ دفاع اب خطرناک عزائم کا اظہار کرتے ہیں۔ ذرائع ابلاغ پر موجود تمام شخصیات بھی اِسی دھن میں ہیں۔ یوں نظر آرہا ہے جیسے دنیا کسی جنگ کی تیاری میں ہے۔ ۱۹۸۰ء کی دہائی کے دوران امریکا کے ساتھ مل کر ہم نے ایک لائحہ عمل مرتب کیا تھا جس کے نتیجے میں ایٹمی ہتھیاوں کی تعداد میں کافی حد تک کمی ہوئی تھی اور ایک بڑا خطرہ ٹل گیا تھا۔ اب تک روس اور امریکا نے جو رپورٹ NPTR کانفرنس میں پیش کی ہے، اس کے مطابق سرد جنگ کے زمانے کے ۸۰ فیصد ہتھیاروں کو ناقابلِ استعمال بنا دیا گیا ہے۔ کسی حادثے یا ٹیکنیکل خرابی کی صورت میں ایٹمی جنگ کے امکان بہت حد تک کم ہو گئے تھے۔ یہ سب ایٹمی ہتھیار رکھنے والے ممالک کے سربراہان کی مثبت سوچ کی وجہ سے ممکن ہو پایا تھا۔ انھیں احساس ہو گیا تھا کہ ایٹمی جنگ کسی صورت قابلِ قبول نہیں ہو سکتی۔
نومبر ۱۹۸۵ ء میں جنیوا میں ہونے والی پہلی کانفرنس میں سویت یونین اور امریکا کے رہنماؤں نے اس بات کا اعلان کیا کہ ’’ایٹمی جنگ کبھی جیتی نہیں جاسکتی لہٰذا اسے لڑ نا فضول ہوگا۔ ہماری افواج ایک دوسرے پر برتری حاصل کرنے کی کو شش نہیں کریں گی۔‘‘ اس اعلان سے دنیا نے سکون کا سانس لیا۔
مجھے۱۹۸۶ ء میں ہونے والا Politburo کا وہ اجلاس یاد آرہا ہے، جس میں مختلف ’’دفاعی ڈکٹرائن ‘‘ پر گفتگو کی گئی تھی۔ اختتام پر جو دستاویز تیار کی گئی اس میں ’’کسی بھی حملے کا ہر طریقہ سے جواب دیا جائے گا‘‘ جیسی سخت زبان استعمال کی گئی تھی، جس کی پولٹ بیوروکے ارکان نے مخالفت کی اور کہا کہ ایٹمی ہتھیاروں کا استعمال صرف جنگ روکنے کے لیے کیا جائے اور اصل مقصد دنیا کو ان مہلک ہتھیاروں سے پاک کرنا ہونا چاہیے۔
آج بہرحال دنیا میں ایٹمی جنگ کے امکانات ظاہر اور عالمی طاقتوں کے تعلقات خراب ہوتے جارہے ہیں۔اور اسلحہ تیار کرنے والی صنعتیں اپنی فعالیت کا مظاہرہ کر رہی ہیں۔ہمیں اس صورتحال کو ختم کرنا ہوگا۔ ہمیں مذاکرات کے ذریعے سے مشترکہ حکمت عملی بنانی ہوگی اور مسائل کا سیاسی حل نکالنا ہو گا۔
ایک سوچ یہ پائی جاتی ہے کہ مذاکرات کا مرکزی نکتہ دہشت گردی کا خاتمہ ہونا چا ہیے۔ یقیناً یہ بہت اہم اور فوری کام ہے، مگر تعلقات کے ضمن میں یہ ناکافی ہے۔ہمیں ایک دفعہ پھر اپنی توجہ اسلحہ کی دوڑ کے خاتمے اور ایٹمی جنگ سے دنیا کو بچانے کی طرف مرکوزکرنی ہو گی۔نہ صرف یہ بلکہ اسلحے کی مقدار میں کمی اور دفاعی میزائل نظام کو بھی زیر بحث لانا ہو گا۔
اس دورجدید میں جنگ کو باقاعدہ طور پر غیر قانونی قرار دینا چاہیے، کیونکہ نہ ہی اس سے غربت کا خاتمہ ہو سکتا ہے،نہ ماحولیاتی کشیدگی میں کمی کی جا سکتی ہے،نہ مہاجرین کا مسئلہ حل ہو سکتا ہے اور نہ ہی درپیش دیگر مسائل کا حل جنگ سے ممکن ہے۔
میں سلامتی کونسل کے ارکان سے اپیل کرتا ہوں کہ اس معاملے میں پہلا قدم وہ اٹھائیں اورسربراہان مملکت کی سطح پر اس قرارداد کو منظور کر وائیں کہ ایٹمی جنگ ناقابل قبول ہے اور کبھی بھی نہیں لڑی جانی چاہیے۔اور میرے خیال میں یہ اقدام ڈونلڈ ٹرمپ اور ولادی میر پوٹن کی جانب سے ہونا چاہیے،کیوں کہ دنیا کے ۹۰ فیصد ایٹمی ہتھیار ان ممالک کے پاس ہیں اور اس لیے ان کی ذمہ داری بھی زیادہ ہے۔صدر فرینکلن ڈی روز ویلٹ نے کہا تھا کہ’’ آزادی کا ایک اہم جز خوف سے آزادی ہے‘‘۔آج کروڑوں لوگ اس خوف کے سائے میں زندگی گزار رہے ہیں۔اس کی وجہ اسلحہ کی دوڑ، ایٹمی ہتھیار اور خطر ناک فوجی جنگیں ہیں۔اگر دنیا کو اس خوف سے آزاد کردیا جائے تو باقی مسائل کا حل بھی مشکل نہیں۔
(ترجمہ: عبدالرحمن کامران)
“Mikhail Gorbachev: ‘It All Looks as if the World Is Preparing for War’.” (“Time”. Jan. 26, 2017)
Leave a Reply