’’افغانستان کو چلانا ہماری ذمہ داری ہے!‘‘

جب تک افغان صدر حامد کرزئی اپنی حکومت کو (کرپٹ عناصر سے) پاک نہیں کریں گے اور اپنے عوام کا اعتماد حاصل کرنے میں کامیاب نہیں ہوں گے تب تلک افغانستان سے امریکی فوجیوں کی واپسی ممکن نہ ہوگی۔ نیوز ویک کے لیے للی ویمتھ نے افغان صدر سے انٹرویو کیا ہے جس کے اقتباسات یہاں پیش کیے جارہے ہیں۔


للی ویمتھ: ۲۰۱۰ء میں آپ اپنے ملک کو کیسا دیکھ رہے ہیں؟

حامد کرزئی: جو کچھ ہم نے اب تک حاصل کیا ہے اس سے زیادہ کی امید ہے۔ مجھے امید ہے کہ نئے سال میں افغانستان کے سرکاری اور سیاسی ادارے مستحکم ہوں گے اور مزید خوش حالی آئے گی۔ مجھے اس بات کا بھی یقین ہے کہ ۲۰۱۰ء کے دوران عالمی برادری افغانستان کے استحکام اور خوش حالی کے حوالے سے اپنی کمٹمنٹ پوری کرے گی، بالخصوص سیکیورٹی کے معاملے میں۔ مجھے یقین اور امید ہے کہ نئے سال میں افغانستان دہشت گردی پر مزید قابو پائے گا اور ساتھ ہی ساتھ زراعت، کان کنی اور توانائی کے شعبے بھی مستحکم ہوں گے۔

للی ویمتھ: صدر اوباما کی حالیہ تقریر کے بارے میں آپ کی کیا رائے ہے جس میں انہوں نے کہا ہے کہ افغانستان میں مزید ۳۰ ہزار امریکی فوجی تعینات کیے جائیں گے، جس کے ساتھ انہوں نے امریکی فوجیوں کے انخلا کی ابتدا کے لیے ڈیڈ لائن کا اعلان بھی کیا ہے؟

حامد کرزئی: جو منصوبہ صدر اوباما نے پیش کیا ہم اس کی حمایت کرتے ہیں۔ ہمارے لیے سب سے بڑھ کر بات یہ ہے کہ امریکی صدر نے یقین دہانی کرائی کہ فوجی کارروائیوں کے دوران سویلین ہلاکتوں کی تعداد کم رکھنے کی کوشش کی جائے گی۔ صدر اوباما نے افغان معیشت کو مستحکم کرنے اور دو سال کے اندر زراعت، کان کنی اور دیگر شعبوں کو مضبوط کرنے کے حوالے سے افغان عوام کی اہلیت میں اضافے کے جس منصوبے کا اعلان کیا ہے وہ بھی خوش آئند ہے۔ مجھے امید ہے کہ صدر اوباما کے منصوبے پر اگر ہم نے مل کر عمل کیا تو دو سال کی مدت میں افغانستان اپنی سیکیورٹی کی ذمہ داریاں نبھانے کے قابل ہوجائے گا۔

للی ویمتھ: افغانستان سے واپسی کی تاریخ کا اعلان کرکے صدر اوباما نے آپ کے انتہا پسند حریفوں کو کیا پیغام دیا ہے؟ کیا یہ سمجھا جائے گا کہ امریکا کمزور پڑگیا ہے؟

حامد کرزئی: میں نہیں سمجھتا کہ ایسا ہے۔ جہاں تک افغانستان کا تعلق ہے، عالمی برادری ہمیشہ تو ہمارے ساتھ، اس ملک میں نہیں رہے گی۔ عالمی برادری کے فوجی، امدادی کارکن اور دوسرے افراد ایک نہ ایک دن تو نکل ہی جائیں گے۔ ہمیں اس وقت کے بارے میں سوچنا ہے۔ تب افغانستان کو چلانے کی ذمہ داری افغانوں کے کاندھوں پر ہوگی۔ ملک کو محفوظ رکھنا، معیشت کے پہیے کو چلائے رکھنا اور عوام کو بہتر معیار زندگی کی فراہمی یقینی بنانا ہماری ہی ذمہ داری ہوگی۔ ہم ہی کو حکمرانی کا عمدہ معیار بھی پروان چڑھانا پڑے گا۔ میں تو اسے بھی نعمت سمجھتا ہوں کہ ہمارے سامنے ایک ڈیڈ لائن ہے۔ دہشت گردوں کو اس سے یہ نہیں سمجھنا چاہیے کہ ڈیڑھ سال بعد ان کا دور پلٹ آئے گا۔ اب ہمیں اپنا کام مکمل کرکے دوستوں کو خدا حافظ کہنا چاہیے۔

للی ویمتھ: کیا آپ کو ایسا لگتا ہے کہ صدر اوباما نے جس منصوبے کا اعلان کیا ہے سب کچھ اس کے مطابق ہوتا جائے گا؟

حامد کرزئی: امید کی جانی چاہیے کہ ہم اس میں کامیاب ہوں گے۔ بہر حال اگر ڈیڈ لائن کے مطابق کامیابی نہ بھی ملے تو کوئی بات نہیں۔ ڈیڈ لائن تبدیل کی جاسکتی ہے۔ کوئی بھی ڈیڈ لائن حتمی نہیں ہوا کرتی۔

للی ویمتھ: آپ اور امریکی حکام اس پر متفق ہیں؟

حامد کرزئی: میں نے انہی سے سنا ہے کہ اس ڈیڈ لائن پر بھی نظر ثانی کی جاسکتی ہے۔ حالات کے مطابق اس میں کوئی بھی تبدیلی لائی جاسکتی ہے۔

للی ویمتھ: کیا آپ یہ سمجھتے ہیں کہ ڈیڑھ سال بعد یعنی جولائی ۲۰۱۱ء میں افغان فوج اور پولیس اس قابل ہوچکی ہوگی کہ طالبان اور القاعدہ سے اپنے طور پر نمٹ سکے؟

حامد کرزئی: ملک کے بیشتر علاقوں پر افغان حکومت کی عملداری ہے۔ افغان فوج اور پولیس اپنا کام کر رہی ہے۔ کابل میں بھی سب کچھ ہمارے ہاتھ میں ہے۔ ڈیڑھ سال میں مزید علاقے ہمارے کنٹرول میں ہوں گے اور بالخصوص وہ جنہیں مختلف خطرات لاحق ہیں۔ مجھے امید ہے کہ جب میری مدت صدارت ختم ہوگی تب تک افغان حکومت پورے ملک میں سیکیورٹی کی ذمہ داری قبول کرنے کے قابل ہوسکے گی۔

للی ویمتھ: پاکستان سے ملحق سرحد افغانستان کے لیے ایک بڑا مسئلہ ہے؟

حامد کرزئی: یہ ایک اہم فیکٹر ہے۔ افغانستان اور اس کے اتحادی (بشمول پاکستان) مل کر سیکیورٹی کے لیے جو کچھ کریں گے اسی پر اس بات کا مدار ہے کہ افغان سرحد کے دونوں جانب شدت پسندی اور دہشت گردی پر کس طرح قابو پایا جاسکے گا۔ اس وقت پاکستانی بھائی جس طرح تعاون کر رہے ہیں اسی طرح تعاون کرتے رہے تو مجھے یقین ہے کہ کامیابی آسان تر ہوتی جائے گی۔

للی ویمتھ: آپ کا اشارہ اس آپریشن کی جانب ہے جو پاکستانی فوج مختلف علاقوں میں کر رہی ہے۔ کیا یہ سب درست ہے؟

حامد کرزئی: پاکستانی فوج چند علاقوں میں جو کچھ کر رہی ہے وہ دوسرے اور بالخصوص افغانستان سے ملحق علاقوں میں بھی کرے گی، اس کی توقع ہے۔

للی ویمتھ: کیا آپ کو لگتا ہے کہ پاکستانی فوج عسکریت پسندی سے نمٹنے کے معاملے میں سنجیدہ ہے؟

حامد کرزئی: انہوں نے گزرے ہوئے سال میں سنجیدگی کا مظاہرہ کیا ہے۔

للی ویمتھ: آپ کہتے رہے ہیں کہ پاکستان دہشت گردی کا مرکز ہے۔

حامد کرزئی: جی ہاں۔

للی ویمتھ: صدر اوباما کہتے رہے ہیں کہ پاکستان سے طویل المیعاد تعلقات کی ضرورت ہے۔ پاکستان کی صورت حال کو آپ کس نظر سے دیکھتے ہیں؟

حامد کرزئی: پاکستان اور افغانستان کو مل کر کام کرنا چاہیے۔ گزرے ہوئے سال میں دونوں ممالک نے ایک دوسرے سے خاصا تعاون کیا ہے۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان نے عمدہ کردار ادا کیا ہے۔ دہشت گردوں کے خلاف جو آپریشن کیا جارہا ہے اس میں پاکستانی فوج اور عوام نے بھاری قیمت ادا کی ہے۔ جو کچھ پاکستانی فوج اور حکومت نے کیا ہے اس کی تعریف نہ کرنا زیادتی ہوگی اور جو نقصان پاکستانی شہریوں کو برداشت کرنا پڑا ہے اس پر ہمیں شدید ملال ہے۔ دونوں ممالک کے درمیان تعاون کو ہم مزید بلندی تک لے جائیں گے تاکہ حقیقی سلامتی اور سالمیت کو یقینی بنایا جاسکے۔

للی ویمتھ: مگر کہا جارہا ہے کہ پاکستانی فوج صرف پاکستانی طالبان سے نمٹے گی، ان عناصر سے نہیں جو امریکا کے مخالف ہیں؟

حامد کرزئی: یہ محض قیاس آرائی ہے۔ ہمیں پاکستان کو یہ بتانے کا موقع دینا چاہیے کہ وہ دہشت گردی کے خلاف تمام ضروری اقدامات کرے گا۔ اس مرحلے پر منفی انداز سے سوچنا سودمند نہ ہوگا۔

للی ویمتھ: آپ نے عندیہ دیا ہے کہ طالبان سے گفت و شنید ہوسکتی ہے اور اس کے نتیجے میں حکومتی امور کو عمدگی سے نمٹایا جاسکتا ہے۔ کیا آپ کو طالبان سے بات چیت ممکن دکھائی دیتی ہے؟

حامد کرزئی: فوجی آپریشن کے ساتھ ساتھ ایک ایسے امن عمل کی بھی ضرورت ہے جس کے ذریعے ہم ان طالبان کو معاشرے کے مرکزی دھارے میں واپس لاسکیں جو القاعدہ یا کسی اور نیٹ ورک کا حصہ نہیں، جنہیں ملک سے نظریاتی بنیاد پر نفرت نہیں اور جو آئین کے خلاف بھی نہیں۔ ہمیں ہر حال میں اس بات کو یقینی بنانا چاہیے کہ جو طالبان معاشرے میں دوبارہ فعال ہوکر نارمل زندگی بسر کرنا چاہتے ہیں انہیں قبول کیا جائے۔

للی ویمتھ: کیا آپ نے اس محاذ پر بھی کام کیا ہے؟

حامد کرزئی: ہم اس محاذ پر بھی خاصی مدت سے کام کر رہے ہیں۔ صدر اوباما نے جس حکمت عملی کا اعلان کیا ہے اس کی روشنی میں ہم القاعدہ اور دیگر دہشت گرد نیٹ ورکس سے الگ ہونے والے طالبان کو دوبارہ معاشرے کے مرکزی دھارے میں لاسکیں گے۔

للی ویمتھ: صدر اوباما نے کہا ہے کہ جو لوگ دہشت گردی کا راستہ چھوڑ دیں گے ان کی مدد کی جائے گی۔ ان سے کس مدد کی توقع ہے؟

حامد کرزئی: ہم ماضی میں بھی امن عمل کی بات کرتے رہے ہیں مگر امریکا اور دیگر اتحادیوں کی جانب سے خاطر خواہ مدد نہیں ملی۔ اب صدر اوباما نے جس حکمت عملی کا اعلان کیا ہے اس کی روشنی میں ہمیں اس حوالے سے خاصی مدد ملنے کی توقع ہے۔

للی ویمتھ: کس نوعیت کی امداد متوقع ہے؟

حامد کرزئی: طالبان کو معاشرے میں دوبارہ ضم ہونے کے لیے اپنائے جانے کی ضرورت ہے۔ انہیں ملازمتیں بھی درکار ہوں گی اور سب سے بڑھ کر یہ کہ انہیں تحفظ کا احساس ملنا چاہیے۔ کوئی انہیں ہراساں نہ کرے۔ جب وہ ہتھیار پھینک کر دوبارہ معاشرے میں آئیں تو انہیں قبول کیا جائے اور ان کی نیت پر شک نہ کیا جائے۔ انہیں ان کے علاقوں اور گھروں میں واپسی کی اجازت ملنی چاہیے تاکہ وہ حقیقی نارمل زندگی گزار سکیں۔

للی ویمتھ: امریکا چاہتا ہے کہ آپ کرپشن ختم کرنے کیلئے پوری سنجیدگی کے ساتھ کچھ کریں۔ آپ اس حوالے سے کیا کرنا چاہیں گے؟

حامد کرزئی: کرپشن کا خاتمہ لازم ہے۔ ہم اس حوالے سے جو کچھ بھی ضروری ہوا کریں گے۔ اتحادیوں کو بھی ہمارا ساتھ دینا ہوگا۔ کرپشن ختم کرنے کے لیے جو کچھ انہیں کرنا ہے وہ انہیں لازمی طور پر کرنا ہوگا۔

للی ویمتھ: جو کچھ افغانستان میں ہو رہا ہے اسے کیا پشتون بغاوت کہنا درست ہوگا؟ طالبان کی حیثیت سے پشتونوں نے افغانستان پر حکومت کی تھی۔ اب انہیں ایسا لگتا ہے کہ اقتدار ان سے چھیننے کے بعد تاجک اور دیگر گروپوں کے حوالے کردیا گیا ہے۔

حامد کرزئی: ایسا نہیں ہے۔ ۳۰ سال کے دوران جو کچھ افغانستان اور پاکستان میں دوسری قومیتوں کے ساتھ ہوا ہے وہی پشتونوں کے ساتھ بھی ہوا ہے۔ اب ہمیں اس بات کو یقینی بنانا ہوگا کہ پشتونوں کو تحفظ ملے، ان کے بچے اسکول جائیں اور پڑھ لکھ کر متوازن اور معیاری زندگی بسر کریں۔

(بحوالہ: ہفت روزہ ’’نیوز ویک‘‘۔ ۴ جنوری ۲۰۱۰ء)

Be the first to comment

Leave a Reply

Your email address will not be published.


*