
اپنی نشاۃِ ثانیہ کے ابتدائی دور میں ترکی کسی حد تک تشدد کی طرف مائل تھا۔ مگر خیر، چند واقعات کو جواز بناکر کوئی تفہیم نہیں کی جاسکتی۔ آپشن صرف یہ بچا تھا کہ ان سے نمٹنے کے لیے چند ایک مثبت پہلو تلاش کیے جائیں اور جو منفی پہلو تھے ان پر مستقبل کے لیے تعمیری اقدامات کی بنیاد ڈالی جاتی۔
ترکی میں نشاۃِ ثانیہ کے پہلے مرحلے کے دوران پہلی بار خرابی ۱۹۲۳ء میں پیدا ہوئی، جب خلافت کا ادارہ ختم کیا گیا اور سیکولر ترکی کی بنیاد ڈالی گئی۔ عقلی، علمی، سماجی اور سیاسی اعتبار سے اسلام کا ورثہ ختم کرنے پر زیادہ زور دیا گیا۔ سیکولر عناصر کی یہ کوشش پورے ترک شعور کے خلاف بغاوت کے مترادف تھی۔
کچھ ہی مدت کے بعد ترکی زبان کا رسم الخط بھی عربی سے بدل کر لاطینی کردیا گیا۔ کتب خانے کم رہ گئے۔ یہ سب کچھ ۱۹۶۰ء کے عشرے تک چلتا رہا۔ اس کے بعد ترک جرائد میں اسلامی تعلیمات نمودار ہونے لگیں۔ مگر تب بھی سب کچھ اعلیٰ طبقے تک محدود تھا۔ عام آدمی تک ایسے جرائد کی رسائی نہ تھی، جن میں اسلامی تعلیمات شامل ہوا کرتی تھیں۔ مگر خیر، بہت سی رکاوٹوں اور قباحتوں کے باوجود لوگ اسلام سے جُڑے رہے۔ انہوں نے اسلامی تعلیمات کو ہر حالت میں سینے سے لگائے رکھا۔
اذان پر مدتوں پابندی عائد رہی۔ اسلامی تعلیمات پر عمل کرنا بھی انتہائی دشوار تھا۔ حد یہ ہے کہ ۹۹ فیصد مسلم آبادی والے ملک میں اسلامی تعلیمات کے مطابق تدفین بھی ممکن نہ تھی۔
اسلامی تعلیمات کے احیاء کے ابتدائی دور میں وہ دینی کتب زیادہ مقبول ہوئیں جن میں اعلیٰ طبقے کی اصلاح پر زیادہ توجہ دی گئی تھی یا زور دیا گیا تھا۔ امام غزالی کی کتاب احیائے علومِ دین اس دور میں خاصی مقبول ہوئی اور اسلامی تعلیمات سے گہرا شغف رکھنے والے ہر ترک گھرانے میں یہ کتاب ضرور ہوا کرتی تھی۔
اسلامی تحاریک کے پرچم تلے تیار کیا جانے والا علمی مواد بھی خاصا مقبول ہوا۔ مولانا سید ابو الاعلیٰ مودودیؒ کی تفہیم القرآن، علامہ اقبالؒ کی تصنیفات اور ابوالحسن علی ندویؒ کی کتب کے بھی تراجم ہوئے۔ ۱۹۷۰ء کے عشرے میں سید قطب شہیدؒ کی کتب ’’معالم فی الطریق‘‘ اور ’’فی ظلال القرآن‘‘ کے تراجم ہوئے جنہیں غیر معمولی مقبولیت ملی۔ یہ بات البتہ ذہن نشین رہے کہ عرب دنیا میں سید قطب شہیدؒ کو جو مقام حاصل ہے اور ان کی کتب کو جس طرح برتا جاتا ہے، وہ کیفیت ترکی میں پیدا نہ ہوئی۔ ترکی میں سید قطب شہید کو اسلامی تعلیمات کے مبلغ سے زیادہ دانشور کی حیثیت میں لیا گیا ہے۔ ترکی میں دائیں اور بائیں بازو کے علم دوست حلقوں نے سید قطب شہید کو فلسفی اور ادبی شخصیت کے طور پر دیکھا ہے۔ انہیں روشن خیال، فلسفیانہ تصورات کا حامل، ثقافتی اور دانش ورانہ تصورات و اثرات کا حامل قرار دیا جاتا ہے۔
اخوان المسلمون نے سید قطب شہیدؒ کی کتب کو اسلامی تعلیمات کے مآخذ کے طور پر استعمال کیا۔ یہ کتب اسلامی تحاریک کے لیے بنیاد کا فریضہ انجام دیتی آئی ہیں۔ ۱۹۸۰ء اور ۱۹۹۰ء کے عشروں میں بہت سی دوسری اسلامی کتب کے بھی تراجم ہوئے۔ یہ تمام مطبوعات عوامی حلقوں کے ساتھ ساتھ مذہبی اور خالص صوفی حلقوں میں بھی مقبول ہوئیں۔ نجم الدین اربکان کو پسند نہ کرنے والوں اور بالخصوص سیکولر ذہنیت کے لوگوں نے بھی سید قطب شہید اور مولانا مودودی کی کتب میں گہری دلچسپی لی۔
یہ تبدیلی ترکی میں اخوان المسلمون کے موجود یا مضبوط ہونے کی دلیل بہر حال نہ تھی مگر اس سے یہ ضرور پتا چلتا ہے کہ علمی اور ثقافتی سطح پر عربوں اور ترکوں کے رشتے مضبوط ہوتے جارہے تھے۔ اس پورے عمل میں ادارے تھے، نہ سیاسی وابستگی کو کچھ عمل دخل تھا۔
۱۹۶۰ء کے عشرے کے آخر میں ابھرنے والی اربکان کی تحریک کا بھی اخوان یا کسی اور عرب اسلامی پارٹی سے کوئی تعلق نہ تھا۔ مگر ہاں اس سے عرب ترک تعلقات میں نئے دور کا آغاز ضرور ہوا اور علمی سطح پر رابطے بھی بہتر ہوئے۔
نجم الدین اربکان اور ان کے ساتھی ابتدا ہی سے عالمی اسلامی اداروں سے رابطے میں رہے ہیں۔ اسلامی کانفرنس کی تنظیم، مسلم ورلڈ لیگ، ورلڈ اسمبلی آف مسلم یوتھ اور دوسری درجنوں قومی، اسلامی جماعتوں اور تحاریک سے نجم الدین اربکان اور ان کے رفقائے کار کے روابط استوار ہوئے۔ دنیا بھر میں اسلامی تناظر رکھنے والوں سے وہ بہتر طور پر آشنا ہوئے۔ اسلامی تنظیموں اور تحاریک کے قائدین اور نمائندوں سے ملاقاتوں نے معاملات کو مزید بہتر بنایا۔ سعید رمضان اور دیگر اہم اسلامی شخصیات سے رابطے قائم ہوئے، جو دن بہ دن مضبوط ہوتے گئے۔
نجم الدین اربکان اخوان کے رکن نہیں تھے۔ اخوان کے رہنماؤں سے ان کے رابطے انفرادی سطح کے تھے۔ مختلف ممالک کے مخصوص حالات کے تناظر میں بات ہوتی تھی۔ خصوصی اجلاسوں میں بہت کچھ جاننے کو ملتا تھا اور ترک قائدین مسلم دنیا کو درپیش مسائل سے بہتر طور پر آشنا ہو پاتے تھے۔ بہت سے اجلاس مدینہ کی اسلامی یونیورسٹی میں بھی کیے گئے۔ ان اجلاسوں کا انعقاد یقینی بنانے میں سعودی عرب کے ادبی اور ثقافتی اداروں نے مرکزی کردار ادا کیا۔ ان اجلاسوں میں اخوان کے ارکان کے علاوہ ان کے مخالفین اور بالخصوص وہ لوگ بھی شریک ہوتے تھے جو امریکا اور یورپ کے لیے کھل کر کام کرتے تھے۔ ترکوں کو بلقان کے خطے اور مشرقی یورپ میں آباد ہم نسل افراد سے تعلقات استوار کرنے کا موقع ملا۔ یہ تعلقات خالص اسلامی نوعیت کے مسائل کے حوالے سے تھے۔ نجم الدین اربکان یا ترکی میں کوئی اور اخوان کا رکن نہیں ہوسکتا تھا۔ ترک سیکولر حلقے یہ الزام بار بار دہراتے تھے۔ اخوان کے سابق مرشدِ اعلیٰ مہدی عاکف کو ایک مرحلے پر یہ بیان دینا پڑا کہ نجم الدین اربکان اخوان المسلمون کے رکن نہیں ہیں۔
اخوان المسلمون پر الزام تراشی کوئی نئی بات نہ تھی۔ ترکی میں اسلامی تعلیمات اور رجحانات کی طرف جھکاؤ رکھنے والوں کو کبھی بخشا نہیں گیا۔ ان پر طرح طرح کے الزامات عائد کرکے ساکھ کو نقصان پہنچانے کی کوشش کی جاتی تھی۔
مصر میں ۲۵ جنوری ۲۰۱۱ء کے کامیاب انقلاب کے بعد عوام کو مبارک باد دینے کے لیے پہنچنے میں پہل ترک وزیر اعظم رجب طیب اردوان نے کی۔ ترکی میں عوامی سطح پر خاموش انقلاب برپا کرنے میں جسٹس اینڈ ڈیویلپمنٹ پارٹی کامیاب رہی تھی، اس لیے اردوان مصری عوام کو ان عوامل کے بارے میں بتانا چاہتے تھے، جو ترکی کی کایا پلٹنے میں مرکزی کردار کے حامل رہے تھے۔ اردوان کا قاہرہ پہنچنا اس لیے بھی اہمیت رکھتا ہے کہ خطے کے بیشتر ممالک ترقی کے حوالے سے ترکی کو رول ماڈل سمجھتے ہیں۔
اردوان کے مصر پہنچنے اور مصری عوام سے مخاطب ہونے پر ایک بڑی غلط فہمی کو بھی پنپنے کا موقع ملا۔ ترکی نے سیکولر ماڈل کی حدود میں رہتے ہوئے ترقی کی ہے۔ ایسے میں اردوان کی قاہرہ آمد کا یہ مطلب لیا گیا کہ وہ مصر میں بھی سیکولر
ماڈل کو فروغ دینا چاہتے ہیں۔ ساتھ ہی یہ بھی سمجھا گیا کہ وہ اخوان کو سیکولر اپروچ اپنانے کی تحریک دینا چاہتے ہیں۔ اس سے بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ ترکی جسٹس اینڈ ڈیویلپمنٹ پارٹی بہت سے معاملات میں اور بالخصوص فکری حوالے سے اخوان المسلمون سے یکسر مختلف ہے۔
اخوان کے سیاسی ونگ کے وائس چیئرمین ڈاکٹر اعصام الاریان نے بھی کہا ہے کہ ہم ترکی کا اور ایک باصلاحیت قائد کی حیثیت سے اردوان کا خیر مقدم کرتے ہیں، مگر حقیقت یہ ہے کہ پورے خطے کے لیے ترکی رول ماڈل کا کردار ادا نہیں کرسکتا۔ پورے خطے کے مستقبل کو واضح رُخ دینے میں ترکی کا تجربہ زیادہ مرکزی کردار کا حامل نہیں ہوسکتا۔ وہ اس امر کی وضاحت کر رہے تھے کہ مستقبل میں مصر میں اخوان یا کسی اور اسلامی جماعت کے تحت قائم ہونے والی حکومت ترکی کے تجربے پر منحصر نہیں ہوگی۔
حقیقت یہ ہے کہ ترکی میں برسر اقتدار جماعت جسٹس اینڈ ڈیویلپمنٹ پارٹی کا اخوان المسلمون سے کوئی تعلق نہیں۔ یہ باتیں وہی لوگ کر رہے ہیں جو یہ سمجھتے ہیں کہ بہتر حکمرانی کے لیے مغرب کے لیے نرم گوشہ رکھنے والی جماعتوں سے بہتر روابط کا استوار رکھنا ناگزیر ہے۔ مصر میں رونما ہونے والی تبدیلیوں کے حوالے سے ترکی کا موقف اس کے اپنے ماضی کے تناظر میں زیادہ آسانی سے سمجھا جاسکتا ہے۔ مصر میں منتخب حکومت کا تختہ فوج نے اُلٹ دیا اور ۵۲ فیصد ووٹوں سے منتخب ہونے والے صدر کو برطرف کردیا۔ یہ عوام کی رائے کی صریح توہین تھی۔ ترکی میں بھی منتخب حکومتوں کا تختہ الٹا جاتا رہا ہے۔ جمہوریت کو فوج نے آسانی سے چلنے نہیں دیا۔ ترقی یافتہ اقوام میں سب سے زیادہ فوجی بغاوتوں کا سامنا ترکی نے کیا ہے۔ ترک قیادت کو اچھی طرح اندازہ ہے کہ جب جمہوریت کی بساط لپیٹ دی جاتی ہے، تب کیا ہوتا ہے، ملک اور قوم کو کن مراحل سے گزرنا پڑتا ہے۔ مصر کے عوام کے لیے ترک حکومت کی طرف سے امداد کا تسلسل اسی تناظر میں ہے۔ ترک قیادت جانتی ہے کہ جمہوریت کا تختہ الٹے جانے پر امداد کا روک دیا جانا عوام کے خلاف جانے والا فیصلہ ہے۔ ترک عوام کی طرف سے مصر کے عوام کے لیے بنیادی پیغام یہ ہے کہ حالات کی خرابی سے بد دل اور پریشان نہ ہوں بلکہ اپنی خرابیوں کو خوبیوں میں تبدیل کریں۔ ترکی نے مصر میں فوجی بغاوت کی مخالفت کی ہے تو اس کا بنیادی سبب یہ نہیں ہے کہ اس بغاوت سے اخوان کو نقصان پہنچا ہے بلکہ اِس لیے ہے کہ اصل نقصان عوام کو پہنچا ہے۔
ِِ
(“It’s Erdogan’s Turkey, not the Brotherhood’s”.. “Middle East Monitor”. Sept. 17, 2013)
Leave a Reply