
گزشتہ سال اکتوبر سے بزرگ قوم پرست بلوچ رہنما سردار عطاء اﷲ مینگل نے اپنے آبائی مقام وادھ میں رہائش اختیار کرنے کا فیصلہ کیا۔ ان کے صاحبزادے اختر مینگل جو بلوچستان نیشنل پارٹی (مینگل گروپ) کے صدر بھی ہیں، کو ملٹری انٹیلی جنس (MI) کے دو اہلکاروں کے مبینہ اغوا کے فوراً بعد ہی گرفتار کر لیا گیا۔ بلوچستان کے ضلع کوہلو اور ڈیرہ بگٹی میں فوجی آپریشن کے دوسرے ہفتے میں سکیورٹی فورسز نے وادھ میں چھاپے مارے۔ بڑی تعداد میں ہیلی کوپٹروں کو علاقے میں پرواز کرتے دیکھا گیا اور قوم پرست، خاص طور سے بی این پی، کے اس طرح کی سرگرمیوں کو جلاوان یعنی خضدار اور اس کے اطراف میں فوجی آپریشن کی راہ ہموار کرنے کی کوشش کا نام دیتے سنے گئے۔ سردار عطاء اﷲ مینگل اب بوڑھے اور کمزور ہو گئے ہیں۔ ابھی حال ہی میں وہ کراچی علاج کی غرض سے تشریف لائے تھے۔ خرابیٔ صحت کے باوجود وہ وادھ میں رہ رہے ہیں، شاید ان کوششوں کا ادراک کرتے ہوئے جو حکومت علاقے میں ان کے اثرات کو ختم کرنے کے لیے انجام دے رہی ہے۔ ڈیرہ بگٹی اور کوہلو دونوں جگہ حکومت کے دلالوں کو حکومت کی حمایت حاصل ہے جبکہ ریاستی وفاقی وزیر سینیٹر میر محمد ناصر مینگل کو وادھ میں عطاء اﷲ مینگل کے مقابلے پر کھڑا کر دیا گیا ہے۔ وادھ میں عطاء اﷲ مینگل نے نیوز لائن سے گفتگو کرتے ہوئے بلوچستان کی صورتِ حال پر اظہارِ خیال کیا ہے۔
س: بلوچستان کی تازہ صورتِ حال کے متعلق آپ کا کیا اندازہ ہے؟
ج: بلوچستان میں صورتِ حال ایک نازک دور میں داخل ہو گئی ہے۔ ہر وہ نوجوان جسے تھوڑی سی بھی سیاسی بصیرت حاصل ہے اور تھوڑی سی بھی دلچسپی بلوچستان میں ہے، اس ملک سے مکمل طور پر مایوس نظر آتا ہے۔ اس کا احساس ہے کہ پاکستان کے وجود سے اس کی قومی شناخت وقت سے پہلے زوال سے دوچار ہو گئی۔ یہ کہنا مبالغہ نہیں ہو گا کہ بلوچستان ایک ایسے نکتے پر پہنچ گیا ہے جہاں سے اس کی واپسی ممکن نہیں۔ میں اس وقت کو یاد کرتا ہوں جب صوبائی خودمختاری میں انتہائی معمولی اضافے کو بھی بہت بڑی چیز خیال کیا جاتا تھا۔ آج اگر ہم صوبائی خودمختاری کا لفظ بھی بولتے ہیں تو ہمیں عوام کی جانب سے سوائے لعنت ملامت کے اور کچھ ہاتھ نہیں آتا۔
س: کیا یہ تلخی نواب محمد اکبر خان بگٹی کے قتل کے سبب ہے؟
ج: نواب محمد اکبر خان بگٹی کی شہادت کے بعد بلوچستان کی سیاست نے نیا موڑ لیا ہے۔ اس نے عوام کو دو گروہوں میں تقسیم کر دیا ہے۔ ایک گروہ وہ ہے جو روٹی کے ایک چھوٹے سے ٹکڑے کے لیے ہر ذلت کے سامنے اپنا سرِ تسلیم ختم کر دیتا ہے اور دوسرا گروہ وہ ہے جو پاکستان کے ساتھ اپنے تعلق کی نوعیت کو ایک آقا اور غلام کے تعلق کی نوعیت بتاتا ہے۔ ایک تیسرا گروہ جو اعتدال پسند کے نام سے جانا جاتا ہے وہ اب بلوچستان میں ناپید ہے۔ اس بڑی تبدیلی کے پیچھے جو سبب کارفرما ہے، وہ نواب محمد اکبر خاں بگٹی کا قتل ہے۔
س: کیا آپ بلوچستان کی سیاست میں کسی انقلابی تبدیلی کی پیش بینی کرتے ہیں؟
ج: بلوچستان ایک خودمختار، خوشحال اور خودکفیل ملک ہو سکتا ہے۔ بلوچستان کی جغرافیائی حیثیت کو نظرانداز نہیں کیا جاسکتا اور یہ چیز اُسے دنیا میں ایک منفرد مقام عطا کرتی ہے۔ بلوچستان کا مستقبل بہت زیادہ تابناک ہے، بشرطیکہ اس کے قدرتی وسائل پر اس کی ملکیت کے حق کو تسلیم کر لیا جائے۔
س: بلوچستان معدنی ذخائر کے معاملے میں کافی امیر ہے، اس کے علاوہ اس کے پاس ایک طویل ساحلی پٹی ہے۔ ان وسائل کے باوجود کیوں یہاں کے عوام زندگی کی بنیادی سہولتوں سے بھی محروم ہیں؟
ج: اگر ہم بلوچستان کا موازنہ عرب ریاستوں سے کرتے ہیں تو پاتے ہیں کہ بلوچ سرزمین بھی انہی وسائل سے مالا مال ہے یعنی تیل اور گیس کے ذخائر اور طویل ساحلی پٹی سے۔ آج عرب ایک خوشحال قوم ہیں، اس لیے کہ وہ اپنے وسائل پر اپنے حقِ ملکیت سے لطف اندوز ہوتے ہیں۔ معدنی ذخائر اور ساحلی پٹی پر اُن کا اپنا کنٹرول ہے لیکن یہاں بلوچ کی دولتوں پر پنجاب مالک بنا بیٹھا ہے۔ بلوچ خود اپنے مادرِ وطن میں دوسروں کا غلام ہے۔ حتیٰ کہ انھیں صاف پانی بھی میسر نہیں ہے۔
س: تاریخ کے مختلف ادوار میں بلوچ قومی تحاریک کی ناکامی سے متعلق کوئی بات نہیں کر رہا ہے۔ کیا ان تحاریک کا ایک تنقیدی جائزہ ضروری نہیں ہے؟
ج: پاکستان کے ساتھ اپنے تلخ تجربات کے سبب بلوچ اپنے آپ کو حکمرانوں کی خواہشات کے مطابق نہیں ڈھال سکتے ہیں اور نہ ہی حکمراں ہمارے ساتھ یکساں شہری کا برتائو کر سکتے ہیں۔ قوم پرستانہ کوششیں جو رہی ہیں، وہ ایک غلامانہ قوتِ ارادی کے تحت رہی ہیں۔ پہلی بار بلوچستان کی جدوجہد میں معروضی حالات نے جگہ پائی ہے۔ اس سے پہلے Subjective Will کا ہاتھ زیادہ رہا ہے لہٰذا اس کی وجہ سے مطلوبہ نتائج نہیں حاصل ہو سکے۔ اس وقت اگر بلوچ کوئی بڑی غلطی نہیں کرتے ہیں تو حالات کی تبدیلی بلوچستان کے حق میں جائے گی۔ اگر بلوچی صورتِ حال کا صحیح اندازہ لگاتے ہیں اور کسی دامِ تزویر میں اپنے آپ کو گرفتار نہیں ہونے دیتے ہیں تو انھیں کامیابیاں مل سکتی ہیں۔
س: کس قسم کا دامِ فریب؟
ج: وہ دامِ فریب جسے پاکستانی مقتدرہ نے خلق کیا ہے۔ وہ پھر صوبائی خودمختاری کے لیے کمیٹیاں قائم کریں گے۔ وہ متوازی فہرست (Concurrent List) سے کچھ اختیارات صوبہ کو بھی منتقل کرنے کی پیش کش کر سکتے ہیں۔ اگر بلوچ ان چھوٹی چیزوں کی لالچ میں آگئے تو وہ موقع کھو بیٹھیں گے۔
س: Selig Harrison کا خیال ہے کہ حالیہ بلوچ قومی تحریک ماضی کی جدوجہد کی بہ نسبت زیادہ مضبوط اور منظم ہے۔ آپ کا کیا خیال ہے؟
ج: ماضی قریب میں Selig Herrison نے اس ملک کا دورہ نہیں کیا ہے تاہم اس کے مشاہدات سے اندازہ ہوتا ہے کہ بلوچستان میں حالات کی تبدیلیوں پر اُس نے نظر جمائی ہوئی ہے۔ اس کا مشاہدہ درست ہے۔
س: کیا آپ پونم کی کارکردگی سے مطمئن ہیں؟
ج: پونم ان چھوٹی سیاسی پارٹیوں کو جن کا تعلق چھوٹی قومیتوں سے ہے، ایک پلیٹ فارم پر جمع کرنے کی ایک کوشش تھی تاکہ مشترکہ جدوجہد کی جاسکے۔ بدقسمتی سے اس سمت میں اُسے کوئی بڑی کامیابی نہیں مل سکی۔
س: عدلیہ کے حالیہ بحران سے متعلق آپ کی کیا رائے ہے؟
ج: میں آپ کو واضح کر دوں کہ اس ملک میں ریاست کے تمام ستون بشمول پارلیمنٹ، انتظامیہ، عدلیہ اور پریس بہت پہلے تباہ ہو چکے ہیں۔ یہ ادارے قبر میں دفن کردیے گئے لیکن لوگوں نے آنکھیں بند کر رکھی ہیں اور سوچتے ہیں کہ یہ ہنوز موجود ہیں۔ اگر ان کا وجود ہوتا تو نہ ہی ضیاء دور کے لیے اور نہ ہی پرویز مشرف کے اقدامات کے لیے یہاں کوئی جگہ ہوتی۔ ماضی کے آمروں کی طرح جنرل پرویز مشرف نے بھی نہیں سمجھا کہ ہر چیز آخری حد کو پہنچ چکی ہے۔ انھوں نے صورتِ حال کا غلط اندازہ لگایا اور عدلیہ کے ردِعمل کا سامنے آنا یقینی تھا۔ یہ بہت ہی مایوس کن بات ہے کہ وہ سیاسی جماعتیں جو پرویز مشرف کے غیرجمہوری رویوں سے تنگ تھیں، صرف اس وقت حرکت میں آسکیں جب انھیں چھپنے کے لیے وکلا کی پشت مل گئی۔ یہ اُن کا فرض تھا کہ وہ وکلا سے دو قدم آگے بڑھ کر پولیس کی لاٹھیوں کا سامنا کرتیں۔ لیکن انھیں وکلا پر انحصار کرنا پڑا کہ وہ انھیں پلیٹ فارم مہیا کریں اور ان کی یہ کمزوری بہت بڑا عامل ہے جنرل پرویز مشرف کی آمریت کو طول دینے میں۔ بینچ اور بار اپنی ذمہ داریاں پوری کر رہے ہیں لیکن وہ میدان میں تنہا رہ گئے ہیں۔
(بشکریہ: ’’نیوز لائن‘‘۔ شمارہ: مئی ۲۰۰۷ء)
Leave a Reply