گیارہ ستمبر ۲۰۱۳ء کو امریکا نے ان حملوں کی یاد منائی جو بارہ سال قبل کیے گئے تھے۔ اس موقع پر یہ بات بھی یاد کی جانی چاہیے کہ امریکا نے ان حملوں کے جواب میں قانون سے خطرناک انحراف کا آغاز کیا تھا، جس کے نتیجے میں لاکھوں انسانوں کو موت کے گھاٹ اتارا گیا اور بے شمار لوگوں کو مقدمات چلائے بغیر غیر معینہ مدت کے لیے قید کردیاگیا۔ ان پالیسیوں کے باعث آج بھی سیکڑوں افراد گوانتا نامو اور بگرام میں انصاف تک رسائی سے محروم ہیں۔
نائن الیون کے ردعمل میں بش حکومت نے ایک ماہ کے اندر اندر افغانستان پر حملہ کیا تو دہشت گردی کے خلاف جنگ میں سب سے پہلے جنیوا کنونشنز نشانہ بنے۔ جنیوا کنونشنز کے آرٹیکل ۵ میں کہا گیا ہے کہ اگر زمانۂ جنگ میں پکڑے جانے والے لوگوں کے بارے میں یہ امر یقینی نہ ہو کہ وہ فوجی ہیں یا عام لوگ تو ان کی گرفتاری کے مقام کے نزدیک اور گرفتاری کے فوری بعد فوجی افسروں پر مشتمل بااختیار ٹربیونل قائم کیاجائے، جو عینی شاہدین کو بلاکر تصدیق کرے کہ گرفتار کیے جانے والے افراد فوجی ہیں یا عام شہری۔ ۱۹۹۱ء میں ہونے والی پہلی جنگ خلیج کے دوران امریکی فوجیوں نے ۱۱۹۶ ؍ایسے افراد کو گرفتار کیا، جن کی اصل شناخت معلوم نہیں تھی۔ بااختیار ٹربیونل بنائے گئے جن کی کارروائی کے بعد دریافت ہوا کہ ۸۸۶؍افراد عام شہری تھے جنہیں غلطی سے گرفتار کرلیاگیا تھا۔ غلطی کی شرح ۷۴ فیصد تھی۔ ان افراد کو رہا کردیا گیا تھا لیکن نائن الیون کے بعد ایسے بااختیار ٹربیونل قائم کرنے کی روش ترک کردی گئی۔
بش حکومت نے متکبرانہ انداز میں اعلان کیا کہ امریکا کی حراست میں موجود تمام افراد دشمن کے غیر قانونی جنگجو ہیں۔
۷ فروری ۲۰۰۲ء کو صدر بش نے ایک میمورنڈم جاری کیا، جس کا عنوان ’’طالبان اور القاعدہ کے گرفتار ارکان کے ساتھ اچھا سلوک‘‘ تھا۔ اس میمورنڈم میں انہوں نے کہا تھا کہ القاعدہ اور طالبان سے تعلق رکھنے والے قیدیوں پر جنیوا کنونشنز کا اطلاق نہیں ہوتا، تاہم تمام قیدیوں کے ساتھ انسانی سلوک روا رکھا جائے گا اور ان سے ایسا برتاؤ کیاجائے گا جو فوجی ضرورت کے مطابق اور جنیوا کنونشنز کے اصولوں سے ہم آہنگ ہو۔
یہ محض لفاظی تھی۔ اس میمورنڈم کے بعد قیدیوں پر بلالحاظ اور بلاجواز تشدد کیاگیا، جس کا سلسلہ جون ۲۰۰۶ء تک جاری رہا۔ ہمدان بنام رمز فیلڈ مقدمے میں بش حکومت کے قائم کردہ فوجی کمیشن میں مقدمات چلائے جانے کے نظام کے قانونی یا غیر قانونی ہونے سے متعلق سوال اٹھائے گئے تھے۔ جون ۲۰۰۶ء میں امریکی سپریم کورٹ نے صدر امریکا کو یاد دلایا کہ جنیوا کنونشنز کا آرٹیکل ۳ تمام قیدیوں پر تشدد سے روکتا ہے۔ نیز ان کے ساتھ توہین آمیز اور ذلت آمیز سلوک سے بھی منع کرتا ہے۔ تب قیدیوں پر تشدد کرنے والی بش حکومت کا قانون کو مسخ کرنے کا سلسلہ ختم ہوا تاہم کسی کو بھی تشدد کرنے پر جواب دہ قرار نہ دیاگیا۔ بہرحال جنیوا کنونشنز سے بش حکومت کی بیزاری کے باعث گوانتا نامو اور افغانستان کے سب سے بڑے قید خانے بگرام میں قیدیوں کے لیے ماحول مسموم ہی رہا۔ بش کی اختراعات کے نتیجے میں لوگوں کو گرفتار کیے جانے کے وقت شناخت کرنے کا عمل یکسر موقوف کردیاگیا۔
جارج بش کی خطرناک اختراعات کے تحت، جو بارک اوباما کے دورِ صدارت میں بھی برقرار ہیں، افغانستان میں جنیوا کنونشنز کے آرٹیکل ۵ کے تحت ٹربیونل قائم کرنے کے بجائے نظرثانی کا سلسلہ شروع کیاگیا۔نظر ثانی کا عمل گرفتاری کے ۱۸ مہینوں بعد ہوتا ہے اور اس کی اس سے قبل کوئی مثال نہیں ملتی۔ نتیجتاً بہت بڑی تعداد میں ایسے لوگوں کو قید رکھا گیا جنہیں بالکل بھی قید نہیں رکھا جانا چاہیے تھا۔ بلاشبہ یہ عمل منفی نتائج پیدا کرنے کا باعث بنا، کیوں کہ اس سے افغان عوام کے ذہن و دل میں امریکا کے لیے نفرت جاگزیں ہوگئی۔
بگرام کے قید خانے کو تعمیر نو کے بعد ’’پروان قیدخانے‘‘ کا نام دیاگیا۔ اسے ۱۰؍ ستمبر ۲۰۱۲ء کو افغان حکام کے کنٹرول میں دیاگیا تھا، جس سے امریکا مزید ذمہ داری سے بچ گیا۔ باایں ہمہ ۶۷ غیر افغان قیدی اوباما حکومت کی تحویل ہی میں رہے۔ ان میں سے چند کو ۲۰۰۲ء میں دوسرے ملکوں سے گرفتار کیاگیا تھا اور غیر معمولی داروگیر کے دوران بگرام میں رکھا گیا تھا۔ امریکی حکام نے ان قیدیوں میں سے بعض کو القاعدہ کے کارکن قرار دیا تھا۔ بعض قیدیوں کو رہا کیے جانے کے قابل قرار دیاجاچکا ہے لیکن وہ اب بھی قید میں ہیں۔ ۲۰۰۹ء میں ان میں سے تین افراد کے مقدمات واشنگٹن ڈی سی کے ڈسٹرکٹ جج جان ڈی بیٹس نے سُنے۔ جج نے حکم دیا کہ ان قیدیوں کو عدالت میں پیش ہونے کا حق دیاجائے۔ اس سے قبل گوانتا نامو میں قید افراد کو بھی یہ حق دیا جاچکا تھا۔ دونوں زندانوں میں قید افراد کے مقدمات میں اس یکساں فیصلے کا سبب یہ تھا کہ ان کے مقدمات ایک جیسے تھے۔ بہرحال اوباما حکومت نے یہ فیصلہ تسلیم نہیں کیا اور اس کے خلاف اپیل کردی۔ اب جبکہ ایک سال بعد افغانستان میں جنگ ختم ہونے کو ہے، یہ قیدی ہنوز قانون کے جال میں پھنسے ہوئے ہیں۔
گوانتا نامو اور بگرام میں ابتدا ہی سے ایک بڑا مسئلہ یہ تھا کہ امریکا نہ صرف قیدیوں کی شناخت کا تعین کرنے میں ناکام رہا بلکہ اپنے اتحادیوں افغانستان اور پاکستان کے گرفتار کیے ہوئے افراد کو اپنی تحویل میں لے کر بھی اس نے پانی کو مزید گدلا کیا۔ امریکا کے ان اتحادیوں نے اس زمانے میں بے شمار افراد کو پکڑ کر امریکا کے حوالے کیا، جب امریکا مشتبہ افراد کی گرفتاری پر بڑی رقوم انعام کی مد میں ادا کر رہا تھا۔ واضح رہے کہ امریکا نے القاعدہ یا طالبان سے تعلق رکھنے کے شبہ میں گرفتار کیے گئے افراد کے عوض اوسطاً پانچ ہزار ڈالر فی کس ادا کیے تھے۔
بش حکومت نے اس معاملے کو درست انداز میں نمٹانے کے بجائے گوانتا نامو، افغان جیلوں، سی آئی اے کے حراستی مراکز میں یا ان کے تحت چلائی جانے والی بلیک سائٹس میں قیدیوں پر تشدد اور دوران تفتیش انہیں رشوت دے کر یا دھمکاکر اقبالِ جرم کرانے کی روش برقرار رکھی۔ ان قیدیوں سے مسلسل بے رحمانہ تفتیش کی جاتی۔ یہاں تک کہ وہ تفتیش کنندہ کی مرضی کی باتیں شروع کردیتے تھے۔ ایک قیدی نے ایسی ہی تفتیش سے تنگ آکر ۱۲۰ دیگر قیدیوں پر جھوٹے یا ناقابل اعتبار الزامات لگائے۔ اس کا نتیجہ وہی نکلا جس کا ڈر تھا یعنی یہ کہ انٹیلی جنس آپریشن غیر معمولی حد تک بے نتیجہ ثابت ہوا۔ قیدیوں نے جھوٹے بیان دیے جس سے تفتیش کاروں کو کوئی فائدہ نہیں ہوا۔ حکومت نے سرکاری سطح پر اب تک اس ناکامی کا اعتراف نہیں کیا ہے۔ گوانتا نامو امریکی حکومت کی بہت بڑی ناانصافی ہے۔ صدر اوباما اور ان کے مشیر گوانتا نامو سے متعلق غلط بیانات دیتے رہے۔ وہ یہی تاثر دیتے رہے کہ گوانتا نامو میں قید تمام ۱۶۴؍ افراد خطرناک ہیں حالانکہ ان میں سے درجن بھر افراد ہی دہشت گردی میں ملوث پائے گئے ہیں۔ انٹر ایجنسی گوانتا نامو ریویو ٹاسک فورس اوباما نے پہلی مرتبہ صدارت کا عہدہ سنبھالنے کے بعد قائم کی تھی۔ اس فورس نے ۸۴ قیدیوں کو رہائی کے قابل قرار دیا تھا۔ لیکن کانگریس کے خوفزدہ جنونی ارکان کی قانون سازی کے باعث آج بھی یہ قید میں ہیں۔
فروری میں گوانتا نامو کے قیدیوں نے بھوک ہڑتال شروع کی، جس پر امریکا کے اندر اور پوری دنیا میں کافی غصے کا اظہار کیاگیا اور اوباما نے ۲۳ مئی کو قومی سلامتی سے متعلق معاملات پر اپنی اہم تقریر میں وعدہ کیا کہ گوانتا نامو سے قیدیوں کی رہائی کا سلسلہ ایک بار پھر شروع کردیا جائے گا۔ مگر چار ماہ میں صرف دو افراد کو رہا کیا گیا ہے۔
نائن الیون کو ہونے والے حملوں پر بارہ سال بیت جانے کے بعد صدر اوباما کے پاس موقع ہے کہ وہ جرأت مندانہ اقدام کرتے ہوئے بگرام میں قید غیر ملکیوں کو یا تو آزاد کریں یا ان پر فردِ جرم عائد کریں۔ انہیں گوانتا نامو کا قید خانہ بند کرنے کے لیے بھی ضروری اقدامات کرنے چاہئیں۔
(“It’s time to end the injustice of Guantanamo and Bagram” Al-Jazeera- Sept12th 2013)
Leave a Reply