عباسی دور کا سب سے نامور سائنس داں اور انسانی تاریخ کا پہلا با ضابطہ کیمیا داں جابر بن حیان ہے۔ یورپ کے تمام محققین اس بات پر متفق ہیں کہ تاریخ میں پہلا کیمیا داں جابر بن حیان ہے۔سونا بنانے کی دھن نے جابر بن حیان کو علم کیمیا کا موجد بنا دیا جس پر انہوں نے بہت سے تجربے کیے اور مشہور ہو گئے۔ آج پوری دنیا انہیں فن کیمیا کا باوا آدم تسلیم کرتی ہے۔ اہل یورپ میں وہ جیبر (Geber) کے نام سے مشہور ہیں جو جابر کی بگڑی ہوئی شکل ہے۔
جابر بن حیان، عرب کے جنوبی حصے یمن کے ایک قبیلے ’’بنوازد‘‘ کے فرد تھے ان کے خاندان کے لوگ یمن چھوڑ کر کوفہ میں آباد ہو گئے تھے، اس شہر میں ان کے والد احمد حیان کی عطر کی دوکان تھی۔ یہ دوسری صدی ہجری کا ابتدائی زمانہ ہے جب بنوامیہ کے مظالم کے رد عمل کے طور پر ان کی جگہ بنو عباس کو تختِ خلافت پر متمکن کرنے کے لیے عالم اسلام کے دوردراز گوشوں میں ایک منظم تحریک شروع ہو گئی تھی۔ ایران کا شمالی صوبہ خراسان اس تحریک کا سب سے بڑا مرکز تھا۔ خراسان کے مشہور شہر طوس میں اس تحریک کے کارکنان سب سے زیادہ سرگرم تھے۔ یہی زمانہ ہے جب جابر بن حیان کے والد احمد حیان اس تحریک میں شامل ہوئے اور کوفہ میں اپنی عطر کی دوکان چھوڑ کر خراسان کے شہر طوس منتقل ہو گئے۔ اسی شہر میں جابر بن حیان ۷۲۱ میں پیدا ہوئے لیکن ابھی ان کی ولادت کو تھوڑا ہی عرصہ ہوا تھا کہ ان کے والد کو حکومت کے خلاف بغاوت کے جرم میں گرفتار کر کے قتل کر دیا گیا، اس طرح جابر شیر خوارگی ہی میں یتیم ہو گئے۔
ننھے جا بر اور ان کی والدہ ایک اجنبی ملک میں بے یار و مدد گار رہ گئے۔ اس لیے ان کی والدہ انہیں اپنے ساتھ لے کر یمن چلی گئیں اور وہاں اپنے قبیلے ’’بنوازد ‘‘کے لوگوں کے ساتھ رہنے لگیں۔ اس طرح ان کی ابتدائی زندگی ننہیال میں گزری۔ یہاں انہیں ایک لائق استاد کی سر پرستی حاصل ہو گئی تھی جن کا نام حربی الحمیر ی تھا۔ یہاں جابر بن حیان نے قرآن پاک کے علاوہ ریاضی اور دوسرے علوم کی بھی تعلیم پائی۔
ابھی جابر کم عمر ہی تھے کہ کوفہ کے باہر دیہات میں اپنے خاندانی رشتے داروں کے یہاں بھیج دیے گئے اور ان کے بچپن کے بقیہ دن یہیں گزرے ،یہی وجہ ہے کہ تعلیم معمولی رہی۔ سن شعور کو پہنچنے پر کوفہ آگئے ،یہاں کا ماحول علمی تھا۔ وہ اس ماحول سے بہت متاثر ہوئے اور انہیں تعلیم حاصل کرنے کا شوق پید اہوا۔ مدرسے میں داخل ہو کر مروجہ تعلیم حاصل کی۔ جب جا بر کی عمر چھبیس برس کی ہوئی تو وہ تحریک جس کی خاطر ان کے والد احمد حیان نے اپنی جان کی قربانی دی تھی کامیاب ہوئی جس کی وجہ سے دولت بنوامیہ ختم ہوئی اور دولت عباسیہ کی داغ بیل پڑی۔
جابر بن حیان کی طبیعت میں تلاش و جستجو کا مادہ بہت زیادہ تھا۔ انہیں سونا بنانے کی دھن سوار ہوئی، لہذا کوفہ میں شارع باب الشام کے ایک کوچے میں جو ’’درب الذہب‘‘ (سناروں کی گلی )کے نام سے مشہور تھا، انہوں نے اپنی تجربہ گاہ قائم کی۔ سونا بنانے کی دھن اور نئے تجربات نے جابر کے شوق کو ابھارا، انہوں نے علم کیمیا پر بہت سے تجربے کیے ان کا گھر تجربہ گاہ بن گیا وہ ہمہ وقت نئے نئے تجربوں میں مصروف رہتے تھے اس لگن نے انہیں علم کیمیا کا موجد بنا دیا۔
جابر کے متجسس ذہن و دماغ نے بہت سی نئی نئی چیزیں ایجاد کیں اور اس فن میں وہ بہت مشہور ہوئے یہاں تک کہ ان کی شہر بغداد تک پہنچ گئی۔ ہارون الرشید کے دوسرے وزیر جعفر برمکی نے جابر کو بغداد بلایا اور وہ چند سال تک بغداد ہی میں مقیم رہے اس دوران متعدد بار خلیفہ ہارون الرشید کے دربار میں باریابی کا شرف بھی حاصل ہوا۔ بغداد میں اپنے قیام کے دوران انہوں نے علم کیمیا پرجو کتاب لکھی وہ ہارون رشید ہی کے نام سے معنون کی تھی بعد ازاں ہارون رشید سے بہت کچھ انعام و اکرام لے کر کوفہ واپس آگئے اور یہاں کیمیائی تحقیقات اور تصنیف و تالیف میں مشغول ہو گئے۔
جابر بن حیان کا مطالعہ بہت وسیع تھا انہیں یونانی زبان پر بھی عبور حاصل تھا۔ وہ اپنے زمانے کے ان معدودے چند لوگوں میں سے تھے جنہوں نے یونانی زبان سے براہ راست علم حاصل کر کے اسے عربی زبان میں منتقل کیا۔ اگرچہ جابر کی تحقیق کا اصل میدان کیمیا تھا لیکن ان کی بعض مشہور تصنیفات دیگر علوم پر بھی تھیں۔ اقلیدس کے ہندسے اور بطلیموس کی ’’ مجطیٰ پر جو اس زمانے میں جیومیٹری اور ہیئت کی بہت مشہور کتابیں تھیں، جابر نے ان کی شرحیں تحریر کی تھیں۔ علاوہ ازیں منطق علم شاعری اور انعکاس ِروشنی پر بھی رسالے تحریر کیے تھے۔
جابر کے مجموعۂ تصانیف کا تعلق دنیائے اسلام میں علوم کی تاریخ سے ہے۔ ان کی جملہ تصانیف سے حسب ذیل علوم کا مطالعہ کیا گیا ہے ،کیمیا گری، علم نجوم، علم سحر، علم خواص، اشیاء علم، موسیقی ،علم الاعداد اور علم الحروف۔ ان تمام علوم میں ایک بنیادی خصوصیت یہ نظر آتی ہے کہ اسلام کے باطنی اسرارور موز کو یونانیت ،فیثا غورث کے فلسفے، مشرقی کیمیا گری اور مشرق بعید کے عوامل و عناصر سے بھی ہم آہنگ کیا گیا ہے۔ بدقسمتی سے مغرب کے قابل مستشرقین مثلاً پا کر ائوس ’رسکا‘ ہومہ یا رڈ اور سٹیلپٹن کی قابل داد کاوشوں کے باوجود فن کیمیا کے باوا آدم جابر بن حیان کی چند ہی تصانیف انگریزی خواں طبقے کے مطالعے میں آسکی ہیں۔ اردو زبان میں چند مقالات کے سوا کوئی مستقل تصنیف اس عظیم کیمیاداں پر موجود نہیں ہے۔
جابر بن حیان کے زمانے میں کیمیا کی ساری کائنات ’’مہوسی‘‘ تک محدود تھی۔ یہ وہ علم تھا جس کے ذریعے کم قیمت دھاتوں مثلاً پارے یا تانبے یا چاندی کو سونے میں منتقل کرنے کی کوشش کی جاتی تھی اور جو لوگ اس کوشش کو اپنی زندگی کا محور بنا لیتے تھے ’’وہ مہوس‘‘ کہلاتے تھے جابر بن حیان اگرچہ یہ یقین رکھتے تھے کہ کم قیمت دھاتوں کو سونے میں تبدیل کیا جا سکتا ہے لیکن ان کی تحقیقات کا دائرہ اس کوشش رائیگاں سے کہیں زیادہ وسیع تھا۔ وہ کیمیا کے تمام تجرباتی عمل مثلاً حل کرنا، فلٹر کرنا، کشید کرنا، عمل تصعید سے اشیاء کا جو ہر اُڑانا اور قلمائو کے ذریعے اشیاء کی قلمیں بنانا وغیرہ ان سب سے واقف تھے اور یہی وہ نمایاں اوصاف ہیںجن کے باعث ان کا شمار قدیم زمانے کے ممتاز سائنس دانوں میں ہوتا ہے بقول جابر:
’’کیمیا میں سب سے ضروری شے تجربہ ہے جو شخص اپنے علم کی بنیاد تجربے پر نہیں رکھتا وہ ہمیشہ غلطی کرتا ہے، پس اگر تم کیمیا کا صحیح علم حاصل کرنا چاہتے ہو تو تجربوں پر انحصار کرو اور صرف اسی علم کو صحیح جانو جو تجربے سے ثابت ہوجائے۔ ایک کیمیا داں کی عظمت اس بات میں نہیں ہے کہ اس نے کیا کچھ پڑھا ہے بلکہ اس بات میں ہے کہ اس نے کیا کچھ تجربے کے ذریعے ثابت کیا ہے ‘‘
جابر کا سب سے اہم نظریہ گندھک اور پارہ کا نظریہ ہے، ان کے بقول تمام دھاتیں گندھک اور پارہ سے بنی ہیں۔ جب دونوں اشیاء بالکل خالص حالت میں ایک دوسرے ملتی ہیں تو سونا پیدا ہوتا ہے لیکن جب وہ غیر خالص حالت میں کیمیائی طور پر ملتی ہیں تو دیگر کثافتوں کی موجودگی اور ان کی کمی بیشی سے دوسری دھاتیں مثلاً چاندی،سیسہ،تانبا اور لوہا وغیرہ وجود میں آتی ہیں۔’’میں نے جتنی بار بھی گندھک اور پارے کی کیمیائی ملاپ کی کوشش کی ہے اس کے نتیجے میں ہمیں شنگرف حاصل ہوا ہے میرا یہ خیال ہے کہ وہ گندھک جس کو پارے کے ساتھ کیمیائی طورپر ملانے سے سونا بنتا ہے اس عام گندھک کے علاوہ کوئی اور شے ہے۔‘‘
جابر کے اسی بیان کی وجہ سے بعد کے لوگوں نے اس فرضی گندھک کا نام ’’گوگرداحمر‘‘( یعنی سرخ گندھک کی خالص قسم ) رکھ لیا تھا جس کی تلاش میں وہ اپنی ساری عمر اور سارے وسائل صرف کردیتے تھے لیکن یہ’’ گوگرد احمر‘‘ حقیقت میں کسی کو نہیں ملی۔
جابر نے اپنی کیمیا کی کتابوں میں فولاد بنانے، چمڑے کو رنگنے، دھاتوں کو مصفی کرنے، بالوں کو سیاہ کرنے کے لیے خضاب تیار کرنے ،موم جامہ (یعنی وہ کپڑا جس پر پانی اور دیگر رطوبات کا اثر نہ ہو) بنانے، لوہے کو زنگ سے بچانے کے لیے اس پر وارنش کرنے اور اس قسم کی بیسیوں مفید اشیاء بنانے کے طریقے بیان کیے۔ ان اشیاء کی تیاری موجودہ زمانے میں کافی مشکل سمجھی جاتی ہے اور اسے سر انجام دینے کے لیے فنی مہارت درکار ہوتی ہے۔ اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ ایک ایسے زمانے میں جب کیمیا کا علم موجود ہ زمانے کی بہ نسبت کافی محدود تھا، جابر کا ان تمام کار آمد اشیاء کا تیار کر لینا صنعتی کیمیا میں ان کے اعلیٰ علم اور بے مثل فنی مہارت کی دلیل ہے۔
آلاتِ کیمیا میں ’’قرع انبیق‘‘ (Distillation Apparatus) جابر کی خاص ایجاد ہے جس سے کشید کرنے، عرق کھینچنے اور ست یا جوہر نکالنے کا کام لیا جا تا ہے۔ یہ آلہ الگ الگ برتنوں پر مشتمل ہوتا تھا جن میں سے ایک کو’’قرع‘‘ اور دوسرے کو’’ انبیق‘‘ کہتے تھے۔ ’’قرع‘‘ صراحی کی شکل کا ہوتا تھا جب کہ’’ انبیق‘‘ بھبکے کی شکل کا ہوتا تھا جس کے پہلو میں ایک لمبی نلی لگی ہوتی تھی۔’’ قرع‘‘ اور ’’انبیق‘‘ دونوں عمدہ چکنی مٹی کے بنائے جاتے تھے اور انہیں خاص طریقوں سے پکایا جاتا تھا۔ یہ آج بھی مستعمل ہیں۔ اس آلے کے ذریعے عرق کشید کرنے سے جڑی بوٹیوں کے لطیف اجزاء حاصل ہوتے ہیں اور ان کے اثرات محفوظ رہتے ہیں۔
قرع انبیق کی مدد سے جابر نے جو تجربے کیے ہیں ان میں پہلا قابل ذکر تجربہ یہ ہے کہ انہوں نے پھٹکری (Alum) ہیرا کسیس (Femus Sulphate) اور قلمی شورے (Nitre) کو گرم کر کے شورے کا تیزاب بنایا تھا۔اپنے دوسرے کامیاب تجربے میں انہوں نے تین اشیاء میں سے قلمی شورے کو خارج کر دیا اور صرف پھٹکری اور ہیرا کسیس کو حرارت پہنچا کر ہراکسیس کا تیل حاصل کیا جسے موجودہ زمانے میں گندھک کا تیزاب (سلفیورک ایسڈ) کہتے ہیں۔ مگر اپنے تیسرے کامیاب تجربے میں انہوں نے ان اشیا یعنی پھٹکری، ہیرا کسیس اور قلمی شورے میں ایک چوتھی چیز نو شادرکا اضافہ کیا اور ان چاروں اشیاء کو’’ قرع انبیق‘‘ میں حرارت پہنچا کر ایک نیا تیزاب حاصل کیا جس کا نام انہوں نے ماء الملوک (Aqua Regina) رکھا تھا۔ لفظ ’’نوشادر‘‘ کا اضافہ عربی زبان میں پہلی بار جابر کی کتابوں میں دیکھا گیا۔
جابر کے تجربات سے سات دھاتیں منسوب کی جاتی ہیں سونا، چاندی، سیسہ، قلعی، تانبا، لوہا اور خارسینی مؤخرالذکر دھات خارسینی کو ابھی تک پورے طور پر نہیں پہچانا جا سکا ہے۔ غالباً یہ چینی لوہا تھا۔ چینی کاریگر اس کی مدد سے ایسے شیشے تیار کرتے تھے جن میں دیکھتے ہی آشوب چشم کے مریضوں کی تکلیف دور ہو جاتی تھی۔ خارسینی سے ایسے گھنگھرو بھی تیار کیے جاتے تھے جن سے بڑی سریلی آواز نکلتی تھی۔
جابر کے نظام ِعلم کا بنیادی اصول میزان ہے۔ میزان کا مطلب یہ ہے کہ مختلف دھاتوں میں خواص کا صحیح توازن موجود ہے۔ ہر دھات کے دو ظاہری خواص ہیں اور دو باطنی خواص ،مثال کے طور پر سونا گرم اور مرطوب ہے لیکن بباطن سرد اور خشک ہے ،اس کے برعکس چاندی باہر سے سرد اور خشک ہے لیکن اندر سے گرم اور مرطوب۔ جابر کے نزدیک اعتدال اور توازن کا انحصار اس پر ہے کہ عناصر کو ان کی طبیعت یا خاصیت پر لے آیا جائے جو کم ہوا سے زیادہ کیا جائے اور جو زیادہ ہو اسے کم جائے۔ عناصر کو کم و بیش کرنے سے جو ہم آہنگی پیدا ہوتی ہے اسی کو میزان کہتے ہیں۔
جا بر ارسطو کے وضع کردہ چار عناصر( آگ، پانی، ہوا، مٹی) کو تسلیم کرتے تھے لیکن انہوں نے اس فلسفے کو بالکل مختلف زاویے سے دیکھا اور اسے جدا گانہ نہج پر ترقی دی۔ وہ ان چار عناصر کو تسلیم کرنے سے پہلے چار طبائع (حرارت، برودت، رطوبت، اور یبوست) کو ہر وجود کے ساتھ وابستہ کرتے تھے۔ جا بر کا یہ نظریہ ہے کہ زمین میں مختلف قسم کی دھاتیں سیاروں کے اثر سے وجود میں آئی ہیں لیکن جدید سائنس کے مطابق سورج اور تمام ستاروں میں مادہ مستقل طور پر توانائی میں تبدیل ہورہا ہے، جوہروں کا انشقاق یعنی ٹوٹ پھوٹ کا عمل مسلسل جاری رہتا ہے اور اس طرح جوتوانائی خارج ہوتی ہے وہ حرارت اور روشنی کی صورت میں ہم تک پہنچتی ہے۔ چنانچہ ہم جانتے ہیں کہ خلا کی لامحدود پہنائیوں میں بعض ایسے مادی اجزاء موجود ہیں جو زمین پر موجود نہیں لیکن زمین پر ابھی تک کسی ایسے مادے یا عنصر کا پتہ نہیں چلا ہے جس کے وجود سے خلا محروم ہو۔ اس لیے اگر جابر نے آج سے بارہ سو سال پہلے یہ نظریہ پیش کیا کہ زمین میں وجود میں آنے والے اشیاء سیاروں اور ستاروں کا نتیجہ ہیں تو اس سے ان کی عظمت اور علمی مرتبے میں کوئی فرق نہیں پڑتا۔
اگر آپ جابر بن حیان کے زمانے کا تصور کریں تو آپ قائل ہو جائیں گے کہ ان کے اچھوتے نظریے اپنی جگہ سنگِ میل کا درجہ رکھتے ہیں۔ یہ وہ زمانہ تھا جب لوگ سونا بنانے کے ترکیب جاننے کے لیے اپنا سب کچھ لٹانے کے لیے تیار رہتے تھے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ قدیم کیمیا گروں کا سونا بنانے کا خواب کبھی شرمندۂ تعبیر نہ ہو سکا۔ کیمیا داں سونا بنانے میں کامیاب بھی ہوئے تو صرف گزشتہ صدی میں جب وہ ایٹم کی اندرونی ساخت کو سمجھنے کے قابل ہوئے۔ یہ دوسری بات ہے کہ ان کا بنایا ہوا سونا کانوں سے نکلے ہوئے سونے کے مقابلے میں کہیں زیادہ مہنگا ہے۔ اس زمانے کے کیمیا داں، اگرچہ سونا بنانے کے جنون میں بری طرح مبتلا تھے تاہم جابر اس حقیقت کے قائل تھے کہ ہر شے کی اصلیت اور ماہیت ایک خصوصی مقدار کے تابع ہے۔ اسی عقیدے کی بناء پر جابر نے کیمیا کی تاریخ میں میزان کے عنوان سے بالکل جدید اور انقلابی تصور کا اضافہ کیا اور اس کی وضاحت اپنی تصنیف ’’کتاب المیزان ‘‘میں بیان کی۔
کیمیا گری میں جابر کے کارنامے ایک عالم کو حیرت میں ڈالنے کے لیے کافی ہیں۔ ان کا بچپن تنگ دستی اور پریشانیوں میں گزرا۔ لیکن ان ناساز گار حالات کے باوجود انہوں نے اپنی محنت، قابلیت اور ذہانت سے سائنس میں اپنے لیے وہ مقام حاصل کر لیا جو اس زمانے میں کسی اور کو حاصل نہ تھا۔جابر بن حیان نے ۸۱۷ میں اس دارفانی سے کوچ کیا، رحلت کے وقت ان کی عمر پچانوے برس کی تھی۔ کثرت تجربہ و مطالعہ کی وجہ سے ان کی آنکھیں خراب ہو گئیں تھی امریکی پروفیسر فلپ کے بقول :’’کیما گری کے بے سود انہماک نے جابر سے ان کی آنکھیں چھین لیں لیکن اس حکیم اور عظیم دانش ور نے کئی چیزیں دریافت کیں اور اصل کیمیا کی بنیاد رکھی اس کا گھر تجربہ گاہ بنا ہوا تھا‘‘۔
(بشکریہ: ماہنامہ ’’ذکریٰ جدید‘‘ نئی دہلی۔ شمارہ: اگست ۲۰۰۷ء)
Leave a Reply