جبوتی افریقا کا مسلمان ملک ہے، جو ایتھوپیا سے منسلک اور صومالیہ، اریٹیریا کے پڑوس میں واقع ہے۔ اس کا شمار افریقا کے غریب ممالک میں ہوتا ہے، جو ۱۹۷۷ء میں فرانس کے قبضہ سے آزاد ہوا تھا۔ غربت کی وجہ سے اس ملک کی باقاعدہ کوئی فوج نہیں۔ فرانس اور امریکا کے فوجی اس کی حفاظت پر تعینات ہیں۔ جبوتی کی آمدنی کے صرف دو اہم ذرائع ہیں۔ اول، کھیتی باڑی، بھیڑ بکریاں اور اونٹ پال کر سعودی عرب ایکسپورٹ کرنا اور دوسرا اہم ذریعہ اس کی بہت بڑی بندرگاہ ہے کیونکہ ایتھوپیا کے پاس سمندر نہیں، لہٰذا ایتھوپیا سے تمام سامان جبوتی کے راستے ہی برآمد کیا جاتا ہے۔ اگر کوئی غیر ملکی سرمایہ کار تین لاکھ ڈالر تک سرمایہ کاری کرے تو جبوتی کی حکومت دس سال تک امپورٹ ڈیوٹی اورانکم ٹیکس معاف کر دیتی ہے۔ ملک میں بجلی، زمین سستے داموں حکومت کی طرف سے دی جاتی ہے۔ یہاں بہت بڑا ایکسپورٹ پروسیسنگ زون بھی ہے اور بنے بنائے بڑے بڑے تیار شیڈ بھی ملتے ہیں۔ اس بندرگاہ کو دبئی حکومت نے جدید بنانے کے بعد ٹھیکے پر لے لیا ہے۔
یہاں کے لوگ بہت ملنسار ہیں۔ عربی اور فرانسیسی زبان بولی جاتی ہے۔ کل آبادی سات لاکھ مسلمانوں پر مشتمل ہے۔ تعلیم عام ہے۔ سیکورٹی کا بھی کوئی مسئلہ نہیں۔ یہ واحد افریقی ملک ہے، جو فرانس کی نوآبادیاتی کی وجہ سے یورپی، افریقی اور عرب یونین کا ممبر ہے۔ جبوتی میں صرف یواے ای کی حکومت نے ۳۵ ملین کی سرمایہ کاری کی ہے۔ دبئی کی حکومت نے ساحل سمندر پر ایک فائیو اسٹار ہوٹل بھی بنوایا ہے۔ جس میں ۴۵۰ خوش نما کمرے ہیں۔ یہاں لال یا پیلی ٹیکسیاں نہیں بلکہ ہری ٹیکسیاں ہوتی ہیں۔ سڑکیں بہت کشادہ، صاف ستھری اور مضبوط ہیں۔ ٹریفک بھی زیادہ نہیں ہوتا، البتہ گرمی بہت سخت پڑتی ہے۔ عام طور پر یہاں کا درجہ حرارت ۴۰ سینٹی گریڈ سے ۵۰ سینٹی گریڈ کے درمیان رہتا ہے۔ جبوتی سے دس کلومیٹر باہر دریا اور پہاڑ بھی ہیں جہاں موسم خاصا خوشگوار رہتا ہے۔ گاندھی جی نے بھی جبوتی میں حصول تعلیم کے زمانے میں قیام کیا تھا۔ اسی کی یادگار کے طور پر حکومت نے ان کا مجسمہ لگایا ہوا ہے۔
جبوتی ایک تعلیم یافتہ مسلمان ملک ہے۔ پارلیمنٹ میں خواتین بھی ہیں۔ سیاسی بحران بالکل نہیں۔ وہاں کے موجودہ صدر اسماعیل عمر مئی ۱۹۹۹ء سے حکومت کر رہے ہیں اور عوام ان سے آج بھی بہت خوش ہیں۔ کرنسی بھی بہت مضبوط ہے۔ ایک ڈالر میں ۱۷۷ جبوتی فرانک ملتے ہیں۔ دبئی سے تقریباً ہر روز پروازیں آتی جاتی ہیں۔ تاہم یہاں صرف چھوٹے جہاز ہی آتے ہیں۔ بہت زیادہ آمدورفت نہیں ہے، غربت کی وجہ سے یہاں سمندری راستے زیادہ استعمال ہوتے ہیں۔ جبوتی کا ویزا ایئرپورٹ ہی پر مل سکتا ہے۔ جبوتی میں باقاعدہ کارخانے نہیں، اس لیے افریقا کی مارکیٹ کے لیے جبوتی ایک کارآمد ملک ثابت ہو سکتا ہے۔ یہاں کے لوگ بہت سادہ قسم کے ہیں جس سے بھی ملاقات ہو وہ سب سے پہلے ’’ویلکم جبوتی‘‘ کہہ کر سلام کرتے ہیں، جو بہت بھلا معلوم ہوتا ہے اور اپنائیت کا احساس ہوتا ہے، اتنا چھوٹا سا ملک ہونے کے باوجود یہ اپنی ضرورت کی بجلی خود پیدا کرتا ہے۔ پینے کا صاف پانی ہر شہری کو باآسانی دستیاب ہے اور غربت کے باوجود بے روزگاری نہایت کم ہے۔
(بشکریہ: سہ روزہ ’’دعوت‘‘ دہلی۔ ۷ مارچ ۲۰۱۱ء)
Leave a Reply