
کوئی بھی شخص جو بنگلا دیش میں ہونے والی حالیہ تبدیلیوں پر قریب سے نظر رکھے ہوئے ہے، وہ اِس بات سے اتفاق کرے گا کہ جماعت اسلامی ملکی سیاست میں بہت دور تک آچکی ہے۔ بنگلا دیش کی آزادی سے قبل یہ ایک بہت چھوٹی سی قوت تھی اور اُس وقت جماعت اسلامی صرف ایک طلبہ تنظیم یعنی اسلامی چھاترا شھنگستا (آئی سی ایس) کی شکل میں وہاں موجود تھی اور سابق مشرقی پاکستان (موجودہ بنگلا دیش) کے نوجوانوں میں اُس کے بہت کم چاہنے والے موجود تھے۔ ۱۹۷۱ء تک صوبہ دو دھڑوں میں تقسیم تھا، ایک مارکسسٹ ایسٹ پاکستان یونین (ای ایس پی یو) اور چھاترا لیگ، جس کو عوامی لیگ کی پشت پناہی حاصل تھی۔
صوبہ بھر میں آئی سی ایس کے پاس کسی بھی ممتاز طلبہ یونین میں کوئی نشست نہیں تھی۔ یہ اُن کی مادر تنظیم کے لیے زیادہ خوشگوار نہیں تھا۔ ۱۹۷۰ء میں متحدہ پاکستان میں ہونے والے آخری انتخابات میں، جماعت اسلامی نے جن حلقوں سے انتخاب میں حصہ لیا تھا وہاں اُس کے اُمیدوار تیسرے یا چوتھے نمبر پر آئے تھے۔
اِس جماعت کے زیادہ تر رہنماؤں نے دیگر پاکستان نواز جماعتوں، جیسے کے مسلم لیگ، نظام اسلام پارٹی اور پاکستان جمہوری پارٹی کی طرح ۱۹۷۱ء میں ہونے والے فوجی آپریشن کی کُھل کے حمایت کی تھی۔ بنگلا دیش کی آزادی کے بعد جماعت اسلامی کے زیادہ تر رہنما بھاگتے پھر رہے تھے۔ جب ضیاء الرحمان نے سیاسی جماعتوں پر سے عائد پابندی ختم کرنے کا اعلان کیا تو تین جماعتوں کو نئی زندگی مل گئی۔ اِن جماعتوں نے مولانا عبدالرحیم اور اسلامی جمہوری لیگ کی قیادت میں اتحاد قائم کیا اور اِس اتحاد نے فوجی آمر کی قیادت میں ہونے والے انتخابات میں اچھی کارکردگی کا مظاہرہ کیا۔ چند مہینوں بعد ہی جماعت اسلامی نے خود کو اسلامی جمہوری لیگ سے الگ کرکے جماعت اسلامی کا نام استعمال کرنا شروع کردیا۔
جماعتِ اسلامی کے کارکنان نے اسکول، اسپتال، بینک اور فلاحی تنظیمیں قائم کرنا شروع کیں، اگر آج اِن کی تعداد ہزاروں میں نہیں تو سیکڑوں میں ضرور ہے۔ ۲۰۰۱ء سے ۲۰۰۶ء تک بنگلا دیش نیشنل پارٹی کے دورِ حکومت میں جماعت اسلامی اقتدار میں شراکت دار رہی ہے۔ خالدہ ضیاء کی کابینہ میں جماعت کے امیر اور جنرل سیکرٹری کے سپرد اہم قلمدان تھے۔ اور جہاں تک عوامی تاثر کی بات ہے تو دونوں رہنماؤں نے صنعت اور سماجی بہبود کی وزارتیں کافی بہتر انداز میں چلائی ہیں۔
لیکن جماعت اسلامی جلد ہی ایک عام بنگلا دیشی کی نظر میں اپنی مقبولیت کھوتی رہی۔ جماعت اسلامی کے متعدد رہنماؤں کو جنگی جرائم کا سامنا ہے جو اُنہوں نے مبینہ طور پر ۱۹۷۱ء میں کیے تھے۔ جماعت کے دو رہنماؤں کو پھانسی دے دی گئی ہے جبکہ ایک سزائے موت کے انتظار میں ہے، اور چند ایک کو ممکنہ طور پر سزائے موت سنائی جاسکتی ہے۔ پارٹی کے نوجوان کارکن جو مقدمات کے خلاف سڑکوں پر نکلے، اُن پر گولیاں برسائی گئیں۔ احتجاج کے دوران کئی لوگ مارے گئے اور سیکڑوں زخمی ہوگئے۔ لیکن جماعت اسلامی اپنے رہنماؤں کے خلاف مقدمات رکوا سکی اور نہ ہی عوامی لیگ کا تختہ اُلٹ سکی۔
بظاہر اِس ناکامی کے باوجود بھی جماعت اسلامی بی این پی کے مقابلے میں زیادہ ووٹ حاصل کرنے میں کامیاب رہی۔ جماعت اسلامی کو اِس بات کا کریڈٹ دینا پڑے گا کہ اُس میں پولیس کے مبینہ ظلم و جبر اور اپنے کارکنان کے خلاف حملوں کو برداشت کرنے کا ہمت و حوصلہ موجود ہے۔ اگرچہ کہ اِس میں نئے کارکنان کی آمد کی تعداد کم ہے، جیسے کہ ماضی میں ہوا کرتی تھی۔
جماعت اسلامی ایک مکمل اسلامی جماعت ہے اور اِس کا تنظیمی ڈھانچا لینن کے جمہوری اصولوں پر تشکیل دیا گیا ہے، اِس میں رُکنیت کے لیے تین درجے ہیں، جس سے کسی بھی ہنگامی صورتحال کے نتیجے میں قیادت کے آگے آنے کا سلسلہ جاری رہتا ہے۔ اِس کی طلبہ تنظیم بنگلا دیش میں نوجوانوں کی بڑی تنظیموں میں سے ایک ہے اور اِس کے ذریعے سے جماعت اسلامی کو نوجوان خون ملتا رہتا ہے۔
عوامی لیگ کی حکومت کی غیرمقبولیت اور حزب اختلاف کی اہم جماعت بی این پی کی جانب سے شیخ حسینہ کو اقتدار سے الگ کرنے کے لیے تحریک شروع کرنے میں ناکامی کے بعد جماعت اسلامی کے کاندھوں پر اہم ذمہ داری آگئی ہے۔ اب جماعت اسلامی عوام میں موجود حکومت مخالف جذبات کو اپنی سیاسی حمایت یا ہمدردی میں تبدیل کرسکتی ہے۔ اِس کے ساتھ ساتھ یہ اپنے مضبوط تنظیمی ڈھانچے کی وجہ سے خود کو حزب اختلاف کی حقیقی جماعت کے طور پر بھی پیش کر سکتی ہے۔ جبکہ کمزور پڑ جانے والی بی این پی جماعت اسلامی کے لیے اچھے انداز میں بھرتیاں کرنے والے ایجنٹ کے طور پر کام کرسکتی ہے، جو کہ بنگلا دیش میں بائیں بازو کے سیاسی خلا کو پُر کرنے کی کوشش کرے گی۔
یہ سب اِتنا آسان نہیں ہے۔ جماعت اسلامی کی قیادت میں فطری کمزوریاں ہیں، اور اِس وجہ سے یہ میدانِ عمل میں عوامی رائے کو متحد کرنے میں ناکام ہو جائے گی۔ اِس کا تنظیمی ڈھانچا جوزف اسٹالین کی قیادت میں سوویت کمیونسٹ پارٹی کی طرح ہے۔ اِس طرح کی جماعت میں کسی بھی اختلافی آواز کا باقی رہنا کافی مشکل ہے۔
لینن کے مرکزی جمہوری نظام سے مراد یہ ہراول دستے کا کردار ادا کرنے والی ایک چھوٹی سی جماعت ہے، جو کہ انقلاب کی جانب اپنے کارکنان کی رہنمائی کرے گی۔ لیکن جماعت اسلامی کمیونسٹ جماعت نہیں ہے، اور اِن کے پاس بات کرنے کے لیے بہت بڑی تنظیم بھی موجود نہیں ہے۔
کمیونسٹوں کے پاس قومی جمہوری انقلاب کی جانب بڑھنے کے لیے کارکنان تھے، لیکن جماعت کی پوری تاریخ اسلامی تاریخ ہے اور یہ ہمیشہ اپنے آپ کو انتخابات کی بنیاد پر جمہوری جماعت کے طور پر پیش کرتی ہے۔ اور سیاست میں اِس طرح کی بے قاعدگیاں پسند نہیں کی جاتی ہیں۔
اِس جماعت میں خواتین کا بالکل الگ دھڑا ہے، جہاں کوئی بھی مرد مداخلت نہیں کرسکتا ہے۔ اگر جماعت جدید اسلامی جماعت بننا چاہتی ہے تو اِس کو اپنے دروازے خواتین کی بڑی تعداد کے لیے کھولنے ہوں گے۔ اِن کا دعویٰ ہے کہ وہ دیگر عقائد کے پیروکاروں کو اپنی جماعت میں خوش آمدید کہتے ہیں، لیکن اِس دعویٰ کو صحیح ثابت کرنے کا کوئی ثبوت نہیں ہے۔
جماعت کے پھلنے پھولنے میں سب سے بڑی رکاوٹ شاید اِس کا ماضی بھی ہے۔ جماعت کے چند رہنماؤں نے ۱۹۷۱ء میں پاکستان کی حمایت کی اور بڑی تعداد میں اُس کے کارکنان نے دیگر پاکستان نواز جماعتوں کے ساتھ مل کر فوج کے ساتھ جنگ میں حصہ لیا۔
سب سے سمجھداری والا کام کرنے کی ضرورت یہ ہے کہ وہ اُس لکیر سے جان چھڑائے، جس کا بوجھ وہ اُٹھائے ہوئے ہے اور ایک نیا آغاز کرے۔ اب تک جماعت اسلامی ثابت قدمی کے ساتھ ایسا کرنے سے انکار کرتی رہی ہے۔ یِہ اِس جماعت کے لیے انتہائی عجیب بات ہے، جس کی قیادت اور کارکنان نوجوانوں سے بھری ہے۔ اِس وقت جماعت اسلامی ایک چوراہے پر کھڑی ہے۔ اگر یہ سلسلہ جاری رہا تو یہ ماضی میں پھنسی رہے گی اور کبھی آگے نہیں بڑھ سکے گی۔ دوسرا راستہ تبدیلیوں کا ہے، جس کے اپنے ہی چیلنج ہیں۔
تازہ آغاز کے لیے جماعتِ اسلامی کو اپنا نام تبدیل کرنا پڑے گا، اور ساتھ ساتھ اُن رہنماؤں کو بھی جو ۱۹۷۱ء سے قبل پیدا ہوئے، اور زیادہ سے زیادہ تعداد میں خواتین، مذہبی اقلیتوں اور نسلی افراد کو جگہ دینی ہوگی۔ اِس کے بعد ہی یہ جماعت اپنی بنیادی حمایت کو بہتر کرنے میں کامیاب ہوگی۔ جماعتِ اسلامی کا مستقبل مکمل طور پر نظریاتی اور تنظیمی اصلاحات میں لپٹا ہوا ہے۔ لیکن وقت تیزی سے نکل رہا ہے۔ اگر یہ بی این پی کی قیادت کی کمزوریوں سے فائدہ نہیں اُٹھائے گی تو کوئی اور اُٹھائے گا۔
“Jamaat at a crossroads”. (Weekly “The Friday Times” Lahore. Sept. 18, 2016)
Leave a Reply