
ڈاکٹر محمد نجات اﷲ صدیقی بین الاقوامی شہرت کے ماہر اقتصادیات اور معروف اسکالر ہیں‘ وہ اسلامی تحریکوں کے فکری قائد ہیں۔ دہلی سے شائع ہونے والے ہفت روزہ ’’ریڈی اینس‘‘ کے مہتاب عالم سے ایک خصوصی انٹرویو میں انہوں نے بڑی تفصیل کے ساتھ جماعت اسلامی ہند اور اسلامی تحریکوں کو درپیش مسائل پر گفتگو کی ہے۔ ڈاکٹر نجات اﷲ صدیقی پوری دنیا کے مسلمانوں اور اسلامی تحریکات میں ایک نمایاں مقام رکھتے ہیں۔ ان کے افکار و نظریات سے اختلاف کیا جاسکتا ہے‘ لیکن ان کی علمی بصیرت اور دینی خدمات کے بارے میں دورائے نہیں ہو سکتیں۔ پاکستان کے حالات میں ڈاکٹر صاحب کے خیالات پوری طرح فٹ نہیں بیٹھتے لیکن بھارت کے مسلمان جو ہندو جبر کا سامنا کر رہے ہیں‘ ان کے لیے شاید یہ بہترین لائحہ عمل ہے۔
مہتاب عالم: بھارت میں ساٹھ برس سے اسلامی تحریک چل رہی ہے‘ آپ اس کی رفتار کار اور موجودہ صورتحال سے کس حد تک مطمئن ہیں؟
نجات اﷲ صدیقی: میرا نہیں خیال کہ کوئی شخص اس سے مطمئن ہو سکتا ہے‘ اس لیے کہ اطمینان کا مطلب خواہشات اور توقعات کی تکمیل ہے۔ جب ہم زمینی حقائق کو دیکھتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ ہماری بہت سی خواہشات پوری نہیں ہوئیں‘ بہت سی آرزوئیں ابھی تک تشنہ تکمیل ہیں۔
مہتاب: اس کا کیا سبب ہے؟
نجات اﷲ: اس کا بنیادی سبب تو یہ ہے کہ برسرِ زمین تبدیلیوں کی رفتار بہت تیز ہے۔ یہ تبدیلیاں اس قدر غیرمتوقع ہیں کہ جن کے لیے اسلامی تحریک تیار ہی نہ تھی۔ اس لیے میں یہ نہیں کہوں گا کہ ہم مطمئن ہیں اور نہ ہی ہم مایوس ہیں۔ اس کے بین بین کہیں امید کا چراغ روشن ہے‘ مثلاً تمام بلووں اور اقلیتوں کے خلاف فسادات کے باوجود جب بھی ہم نے غیرمسلم لیڈروں سے رابطہ کیا تو ان کا ردِعمل بڑا مثبت تھا۔ یہ بات تسکینِ قلب کا سامان ہے‘ لیکن میرا عمومی تاثر یہی ہے کہ ہم پوری طرح مطمئن نہیں۔ ہم اب بھی محسوس کرتے ہیں کہ ہمیں دو کام کرنے چاہییں۔ ایک تو زمینی حقائق کو بنظرِ غائر دیکھیں اور دوسرا ہمیں اپنے ایجنڈے کی ترجیحات کا دوبارہ تعین کرنا چاہیے۔ زیادہ اہم اور کم اہم ترجیح کے درمیان فرق واضح کرنے کے بعد وسائل ان پر صرف کیے جائیں۔
مہتاب: وہ کون سی خواہشات ہیں جو آپ کے خیال میں پوری نہیں ہو سکیں؟
نجات اﷲ: ایک بڑی خواہش یہ تھی کہ ہمیں دیگر بھارتی لوگوں سے مکالمہ کرنا چاہیے تھا‘ کم از کم ان سے کسی طرح کا تنازعہ پیدا نہ کرتے۔ آپ کو مولانا مودودیؒ کی ۱۹۴۷ء کی تقریر یاد ہو گی جس میں انہوں نے ایک چار نکاتی ایجنڈا دیا اور اس پر سختی سے عمل کرنے کی ہدایت کی تھی۔ انہوں نے کہا تھا کہ ’’اگر آپ اکثریت کے ساتھ روزگار اور کلچر کے حقوق کے حصول کے لیے مسلسل حالتِ جنگ میں رہیں گے تو پھر آپ ان کے ساتھ روحانی اور اخلاقی قدروں کی بنیاد پر معاملات طے نہیں کر سکیں گے‘‘۔ بدقسمتی سے بھارت میں اسی دور سے قومی سطح پر کش مکش چل رہی ہے۔ ہمارے لیے اپنے نصب العین کا حصول آسان بھی نہیں تھا‘ اس لیے کہ جس وسیع پیمانے پر ہجرت ہوئی‘ اس سے سیاسی اور سماجی شعبے میں بہت بڑا خلا پیا ہو گیا۔ یہ خلا دستیاب افراد کے ذریعے ہی پر کیا جاسکتا تھا۔ اگر ایک مقامی کمیونٹی سے زیادتی ہوتی ہے‘ چاہے وہ معمولی نوعیت کی زیادتی ہو‘ آپ اسے دیکھ رہے ہیں‘ آپ کبھی اس پر خاموش نہیں رہ سکتے‘ آپ کو اس میں مداخلت کرنی پڑتی ہے۔ یہ صورتِ حال جاری ہے۔ باشعور مسلمانوں اور اسلامی تحریک کے لوگوں نے دو محاذوں پر کام کیا ہے۔ ایک طرف انہوں نے اپنی کمیونٹی کے لوگوں کے بنیادی حقوق کا تحفظ کیا ہے تو دوسری طرف دیگر بھارتی اقوام و مذاہب کے لوگوں سے روحانی اور اخلاقی تصفیے میں کامیابی حاصل کی۔
مہتاب: موجودہ حالات میں مسلمانوں اور عام لوگوں کی توجہ حاصل کرنے کے لیے کون سی حکمتِ عملی اختیار کرنا مفید ہو گا؟
نجات اﷲ: مسلمان اَن پڑھ اور اسلام کی تعلیمات سے بے خبر ہیں۔ ان کی بڑی تعداد معیاری صحت اور غذائی اسباب اور وسائل سے بھی محروم ہے۔ مسلمان عموماً جسمانی طور پر کمزور اور دوسرے بھارتیوں سے زیادہ غریب ہیں۔ اب اگر کسی کا جسم کمزور ہے‘ آپ کے پاس علم کی دولت بھی نہیں اور جیب بھی خالی ہے تو ایسا شخص صرف دوسرے وقت کے کھانے اور بچوں کی فیس کے بارے میں ہی فکرمند ہو گا۔ اس طرح کی کمیونٹی کے بارے میں آپ کیا کر سکتے ہیں۔ لازم ہے کہ آپ ان کا معیار اونچا کریں‘ یہ کام ساری کمیونٹی کو مل کر کرنا چاہیے۔ اس ضمن میں سرکاری منصوبوں سے بھی استفادہ کیا جاسکتا ہے۔ کم از کم ان کی جسمانی ساخت‘ مالی حالت اور خواندگی کے معیار کو تو بہتر کیا جاسکتا ہے۔ اس کے بعد دیگر قوموں کے ساتھ معاملات کا مرحلہ آتا ہے۔ بہت پہلے ہم کہا کرتے تھے کہ سب سے پہلے غلط اطلاع کی اصلاح ضروری ہے‘ تعصب کو ختم کیا جائے۔ اس لیے ترجیح یہ ہونی چاہیے کہ دیگر لوگوں سے گھل مل جائیں‘ ان سے مکالمہ کریں‘ اس کے نتیجے میں وہ معاشرتی طور پر آپ کے قریب ہوں گے اور یوں آپ کے درمیان موجود غلط فہمیاں ختم ہوں گی۔ اگر لٹریچر پڑھنے کے حوالے سے ان میں خواہشات پائی جاتی ہیں‘ تو پھر آپ انہیں اپنے اجلاسوں میں لائیں۔ یہاں سب سے پہلے انہیں یہ احساس دلائیں کہ ہم سب انسان ہیں‘ ایک دوسرے سے مختلف نہیں‘ بلکہ ایک ہی طرح کے ہیں۔ اس طرح ممکن ہے کہ ان مسائل کے حل میں پیش رفت ہو سکے جن کا مذہب کے ساتھ براہِ راست تعلق نہیں‘ مگر جو ہم سب کے مسائل ہیں‘ مثلاً سیوریج سب کا مشترکہ مسئلہ ہے‘ سب کو معلوم ہے کہ اس سے بیماریاں پھیلتی ہیں‘ جب ہم اس طرح کے مسائل حل کر لیں گے تو پھر زندگی‘ موت اور مذہب کے معاملات پر بھی گفتگو ہو سکے گی۔
مہتاب: آپ کا مطلب یہ ہے کہ عام لوگوں میں مکالمہ ہونا چاہیے؟
نجات اﷲ: ہاں‘ بالکل۔۔۔ عام افراد میں مکالمہ ہونا چاہیے‘ یہ کام نچلی سطح پر ہو اور اعتماد بحال کیا جائے۔ صرف یہ نہیں کہ آپ جائیں اور ایک تقریر جھاڑ دیں‘ دوسرے کو غلط اور خود کو درست ثابت کرتے رہیں۔ اس سے تعصب بڑھے گا اور دوسروں کے احساسات آپ کے خلاف ہو جائیں گے۔
مہتاب: جماعت اسلامی ہند کی بنیادی ترجیحات کیا ہیں‘ کیا وقت آگیا ہے کہ یہ ایک عوامی تحریک بن جائے یا پھر یہ ہمیشہ ہی ایک تعلیمی اور اکابرین کی تحریک رہے؟
نجات اﷲ: یہ ایک اچھا سوال ہے۔ میرے پاس اعداد و شمار نہیں‘ لیکن عوامی تحریک کے لیے وسیع و عریض دیہی بنیاد ضروری ہے۔ میں نہیں سمجھتا کہ ہماری دیہی بنیاد اس قدر مضبوط ہے کہ ہم ایک عوامی تحریک میں ڈھل سکیں۔ ہم زیادہ تر شہروں اور قصبوں تک محدود ہیں یا پھر محض تعلیم یافتہ افراد تک۔ حقیقت یہ ہے کہ ہم نے ملک کے کسانوں تک رسائی حاصل نہیں کی جو ناخواندہ ہیں۔۔۔ ایک عظیم تحریک بننے کے لیے ہمیں ان کے دروازے پر دستک دینا ہو گی۔ بھارت جیسے ناخواندہ معاشرے میں آپ صرف ان لوگوں سے قریب ہو پاتے ہیں جو آپ کی اردو‘ ہندی یا تامل زبان کی کتابیں پڑھ سکتے ہیں۔ دوسری بات یہ ہے کہ آپ عوامی تحریک اسی صورت بن سکتے ہیں جب آپ میں عوام کے بارے میں سچی تشویش بھی پائی جائے۔ آپ کو گہرائی میں جا کر عوام کے مسائل کا مشاہدہ کرنا ہو گا۔ حقیقت یہ ہے کہ مسلمان نہ صرف آخرت اور خدا کے بارے میں فکرمند ہیں‘ بلکہ وہ بچوں کی فیس اور ایک وقت کے کھانے کے لیے بھی فکرمند رہتے ہیں۔ سوال یہ ہے کیا ہم واقعی ان کے اس دکھ میں شریک ہیں؟ مجھے اس میں شک ہے۔ نصابی طور پر یہ بالکل درست ہے کہ انسان کا سب سے بڑا مسئلہ حیات بعد ممات کا حساب کتاب ہے‘ لیکن بدقسمتی سے یہ نظریہ ان لوگوں کے لیے ثانوی درجہ رکھتا ہے جو بھوکے ہیں یا جن کے پاس بچوں کو اسکول بھیجنے کے لیے فیسیں نہیں۔ ہم روح کے سکون کے لیے کام کر رہے ہیں‘ لیکن ہمیں یہ نہیں معلوم کہ ہماری اس تحریک کے پاس عوام کے مسائل میں حصہ ڈالنے کا بھی کوئی منصوبہ ہے۔ ماضی میں بھارت میں برپا ہونے والی عوامی تحریکیں غیرمعمولی حالات و واقعات کی پیداوار تھیں۔ تقسیمِ ہند سے قبل اور بعد ہمارے سامنے بہت بڑا سوال یہ تھا کہ کانگریس یا مسلم لیگ میں سے کسے ووٹ دیا جائے لیکن اب وہ دن بیت چکے‘ اب اس طرح کا کوئی چنائو ہمارے سامنے نہیں۔ اس وقت ہمارے سامنے غربت کا خاتمہ اصل مسئلہ ہے۔ سوال یہ ہے کیا یہ خوشحالی مساوی طور پر تقسیم ہوئی ہے۔ یقینا ایسا نہیں اور اس کے نتیجے میں جرائم میں اضافہ ہوا اور لوگوں میں ناراضی پیدا ہوئی۔
مہتاب: آپ کی نظر میں مسلمانوں کی تحریکوں‘ عمومی مسائل کے بارے میں جماعت اسلامی کی کیا اپروچ رہی ہے؟
نجات اﷲ: میری بہترین یادداشت کے مطابق گذشتہ پانچ دہائیوں میں جماعت نے ہر مسئلے کو عوام کے تعاون سے نمٹایا ہے۔ عوام سے صرفِ نظر کر کے کوئی مسئلہ نمٹانے کی کوشش نہیں کی‘ خواہ یہ علی گڑھ یونیورسٹی کا مسئلہ ہو یا مسلم پرسنل لاء کا قضیہ۔ تمام مسائل کے حل میں ہم نے کوشش کی کہ لوگوں کو جمع کیا جائے اور انہیں مشترکہ فورم پر اظہارِ خیال کی دعوت دی جائے۔ مسائل کو سیاسی انداز سے یا جارحانہ طریقے سے حل کرنے سے اجتناب کیا گیا۔ یہ درست ہے کہ ہم سیاست میں زیادہ سرگرم نہیں رہے۔ اس کا سبب یہ ہے کہ سیاست معاشرے کو تقسیم کرتی ہے جب کہ ہم معاشرے کے تمام مکاتبِ فکر سے رابطہ رکھنا چاہتے تھے۔ ہم نے سیاست کو عام لوگوں کی فلاح اور خیر تک محدود رکھا۔ اس صورت میں جماعت کے ایک ہمدرد کے لیے بھی یہ ممکن ہے کہ وہ کسی بھی جماعت کو اپنا ووٹ دے سکے‘ اس لیے کہ یہ کوئی مخصوص سیاسی پلیٹ فارم نہیں۔ آج بھی یہ پالیسی جاری ہے‘ لیکن تاہم اب یہ تاثر مضبوط ہو رہا ہے کہ اس سے لوگ انتخابات سے لاتعلق ہو رہے ہیں‘ لوگوں میں انتخابات میں حصہ لینے کے لیے سنجیدگی نہیں رہی۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ لوگ معاشرے میں اختیارات سے محروم ہو رہے ہیں۔ اگر آپ چاہتے ہیں کہ لوگوں کا کام ہو تو ضروری ہے کہ آپ اگر کسی شخص کو ووٹ نہیں دیتے نہ ہی کسی شخص کے لیے کسی کو ووٹ دینے پر آمادہ کرتے ہیں تو جب آپ ان کے پاس جائیں گے‘ وہ آپ کی بات سنجیدگی سے نہیں سنیں گے۔ ان تمام چیزوں پر تفصیلی غور کیا گیا ہے‘ اسی کا نتیجہ ہے کہ حالیہ دنوں میں جماعت اسلامی سیاسی طور پر زیادہ سرگرم دکھائی دیتی ہے۔
مہتاب: بھارت ایک کثیرالقومی معاشرہ ہے‘ اس میں مسلمانوں کی پالیسی کیا ہونی چاہیے؟
نجات اﷲ: سب سے بنیادی بات تو یہ ہے کہ آپ دل کی گہرائیوں اور پورے ایمان و یقین کے ساتھ یہ تصور کریں کہ ہر انسان آپ کی طرح ہی محترم ہے۔ جب تک آپ کا دل اس کا اقرار نہیں کرے گا‘ اس وقت تک آپ کے طرزِ عمل اور رویے میں خلوص شامل نہ ہو گا۔ اس کی وجہ سے دوسرے لوگ آپ کے قریب ہوں گے نہ آپ ان کے قریب ہو سکیں گے۔ بعض لوگوں کا خیال ہے کہ ہم سچے ہیں‘ اس لیے دوسرے لوگوں سے بہتر ہیں۔ بعض لوگ تو اس سے بھی آگے بڑھ کر یہ خیال کرتے ہیں کہ ہماری سچائی کا معیار دوسروں سے بہتر ہے‘ اس لیے حتمی طور پر ہم نے ہی دوسروں پر حکمرانی کرنی ہے۔ اگر پہلے مرحلے پر آپ مکمل طور پر سچائی پر ہوں تو بھی دوسرے سچائی کے ایک حصے پر کاربند ہوتے ہیں۔ قرآنِ کریم نے واضح انداز میں کہا کہ سچائی جہاں بھی ہے یہ ایک ہی منبع سے پھوٹی ہے۔ عیسائی‘ یہودی‘ ہندو اور بودھ وغیرہ اپنے مذاہب میں بہت سی چیزیں گڈ مڈ کر دیتے ہیں لیکن آپ یہ نہیں کہہ سکتے کہ وہ سچائی سے کلی طور پر محروم ہیں۔ اگر ہم اخلاقی اقدار کی ابتدائی فہرست کو ہی لے لیں تو اس میں یہ درس ضرور ہو گا کہ ہمیشہ سچ بولو‘ دوسروں سے ہمدردی کرو‘ وعدہ مت توڑو وغیرہ وغیرہ۔ ہر سماج ان پر یقین کرتا ہے‘ خواہ اس پر عمل کرتا ہو یا نہ کرتا ہو۔ کثیرالوجود سوسائٹی میں پہلی چیز ہی یہی ہے کہ آپ ہر شخص کا احترام کریں اور یہ تسلیم کریں کہ اس کو اپنے چنائو کا حق ہے۔ اﷲ تعالیٰ قرآن پاک میں فرماتے ہیں۔۔۔ ’’ہم نے آپ کو زندگی اور موت دی تاکہ ہم جانچ سکیں کہ کس کے اعمال اچھے ہیں‘‘۔ ہمیں پلورل سوسائٹی کے دوسرے پہلوئوں کا ایک ایک کر کے جائزہ لینا ہو گا۔ میں یہ محسوس کرتا ہوں کہ اس سوسائٹی میں ہر شخص دوسرے کے شرف و توقیر کو تسلیم کرے‘ وہ ہر فرد کی پسند اور چنائو کا حق بھی قبول کرے اور اس کے ساتھ دل جمعی سے تعاون کرے۔
مہتاب: اس معاشرے میں مسلمان اپنی شناخت کس طرح محفوظ رکھ سکتے ہیں؟
نجات اﷲ: بدقسمتی سے شناخت کے لفظ پر بہت زیادہ زور دیا جاتا ہے۔ مسلمان ثقافتی شناخت کا سوچتا ہے‘ حالانکہ ہم تمام ثقافتوں سے منسلک ہیں۔ ایک مسلمان کے طور پر ہمیں مخصوص لباس‘ کھانے یا زبان کے ساتھ بریکٹ نہیں کیا جاسکتا۔ بدقسمتی سے ہم نے یہ تمام چیزیں اکٹھی کر دی ہیں اور ہم انہیں ایسے محفوظ کر رہے ہیں جیسے یہ بہت زیادہ ضروری ہیں۔ اس ضمن میں ہم بہت زیادہ حساس ہیں۔ اس کے برعکس ہمیں جس شناخت کی حفاظت کرنی چاہیے‘ اس کا تعلق خاص نظریات اور رویے سے ہے۔ انہیں گھروں اور اسکولوں میں پڑھایا جاتا ہے۔ اس لیے ہمیں اپنے گھروں پر توجہ دینی چاہیے۔ اسلام میں تمام ثقافتیں موجود ہیں‘ اب اگر ہم دنیا کے ایک ایسے حصے میں رہتے ہیں کہ جہاں ایک غالب قسم کا کلچر موجود ہے۔ کلچر سے میری مراد لباس‘ عادتیں‘ کھانے کے اطوار اور اسٹائل وغیرہ ہیں تو ہمیں یہ نہیں سوچنا چاہیے کہ اگر ہم ذرا اِدھر اُدھر ہوئے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ ہم اسلام سے بھی خارج ہو گئے۔ ہمیں صرف اپنے ان نظریات اور اخلاقیات کی حفاظت کی فکر کرنی چاہیے جو گھروں میں اور ابتدائی اسکولوں میں سکھائی جاتی ہیں۔ ہماری نصابی کتابیں درست ہونی چاہییں‘ ان میں کائنات کے بارے میں باطل نظریات کا دخل نہ ہو۔ یہ وہ چیزیں ہیں جن کی ہمیں حفاظت کرنی چاہیے۔
مہتاب: پھر مسلمانوں کی شناخت کا مطلب کیا ہوا؟
نجات اﷲ: یہ مسئلہ سعودی عرب یا مصر میں نہیں اٹھا‘ یہ مسئلہ وہیں سر اٹھاتا ہے جہاں مسلمان اقلیت میں ہیں۔ بھارت اس کی بہترین مثال ہے۔ ہمیں یہ تمیز کرنی ہو گی کہ ایک مسلمان کے لیے ضروری کیا ہے اور کیا اختیاری ہے۔ اس معاملے سے شمالی بھارت اور جنوبی بھارت میں پہنے جانے والے لباسوں کا کوئی تعلق نہیں‘ نہ ہی چنائی اور تریوندرم کے مسلمانوں کے لباس کا اختلاف کوئی مسئلہ ہے۔ ہمیں اس کے حصول کے لیے لڑنے کی ضرورت نہیں۔ ناگزیر چیزیں بلاشبہ عقائد‘ اخلاقی اقدار‘ مساجد میں نمازیں اور بچوں کی اسکولوں اور مدرسوں میں صحیح خطوط پر تربیت ہے۔ یہ وہ اہم امور ہیں جو مسلم شناخت کی تعریف میں آتے ہیں۔
مہتاب: کیا آپ مسلمان خاتون کے موجودہ اسٹیٹس سے مطمئن ہیں؟
نجات اﷲ: نہیں! کسی طرح بھی نہیں۔ مسئلہ یہ ہے کہ عورت کو تاریخ کے تقریباً ہر دور میں امتیازی سلوک کا نشانہ بنایا گیا۔ نبی کریمﷺ اس حوالے سے بڑے حساس تھے۔ اس کی وجہ سے اسلام نے خواتین کے اسٹیٹس کو بڑھایا اور یہ قرآنی قوانین سے صاف ظاہر ہے۔ نبی کریمﷺ نے اپنے آخری خطبے میں خواتین کا ذکر کرتے ہوئے کہا: ’’اپنی خواتین سے اچھا سلوک کرو‘‘۔ قرآنِ کریم میں اس سوال کے حوالے سے دو تین اہم نکات موجود ہیں۔ ایک یہ کہ روحانی طور پر مرد اور خاتون میں کوئی تمیز نہیں۔ اﷲ تعالیٰ کی نظروں میں تذکیر و تانیث میں کوئی فرق نہیں۔ ہر شخص انفرادی طور پر اﷲ تعالیٰ کے سامنے جوابدہ ہے۔ اس سیاق و سباق میں کسی کا مرد یا خاتون ہونا غیرمتعلق ہے۔ اس طرح نماز‘ زکوٰۃ اور دعوت و تبلیغ کی ذمہ داریاں ہر شخص کی اپنی اپنی ہیں۔ ہمیں یہ تعلیم دی جاتی ہے کہ مسلمان اﷲ تعالیٰ کا پیغام لوگوں تک پہنچائیں۔ خواتین کا بھی یہی کردار ہے۔ کچھ لوگ خواتین کے کردار کو بیوی کے کردار سے جوڑتے جوڑتے ذہنی الجھائو کا شکار ہو جاتے ہیں۔ وہ یہ بھول جاتے ہیں کہ ہر خاتون بیوی نہیں ہوتی۔ بعض اوقات بیٹی ہوتی ہے‘ بعض اوقات وہ بیوی بھی نہیں رہتی‘ بیوہ ہو جاتی ہے۔ بعض اوقات ماں بن جاتی ہے تو ہمیں ان مناصب کے بارے میں ذہنی الجھائو کا شکار نہیں ہونا چاہیے۔
اس حوالے سے تاریخ نے ہمارے دلوں کو متاثر کیا حالانکہ ان کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں۔ مسلمانوں کے بعض ثقافتی رجحانات اور رسم و رواج تھے‘ مثلاً اسلام بھارت میں آیا تو ہم نے یہاں کی بہت سی چیزیں قبول کر لیں‘ جن کا اسلام سے تعلق نہیں‘ لیکن جو خطے کے رسم و رواج کا حصہ ہیں۔ مثال کے طور پر بھارت میں اکثریتی مذہب نے خواتین کو کم تر حیثیت دے رکھی تھی۔ اس کا اظہار مذہبی طور پر جائز رسم ’’ستّی‘‘ ہے۔ اسلام کا تصور اس کے مغائر ہے۔ ایسے بہت سے نظریات کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں لیکن مسلمانوں کی معاشرت مقامی کلچر کی آلودگی سے محفوظ نہیں رہی۔ ہمیں مسلم خواتین کے احترام کو بحال کرنے کے لیے بڑی جدوجہد کرنی پڑے گی۔
مہتاب: اس صورتحال کا حقیقی سبب کیا ہے؟
نجات اﷲ: میرے خیال میں اس کا بڑا سبب یہ ہے کہ ہم نے دوسرے لوگوں کے ثقافتی رجحانات کو قبول کر لیا اور ہم نے براہِ راست قرآن سے رہنمائی حاصل کرنے میں کوتاہی کی۔ قانون وراثت سے بڑھ کر اس کی اور کیا مثال ہے۔ پورے شمالی بھارت میں کسی بھی خاتون کو اس کے باپ کی جائیداد سے ایک یا دوسرے بہانے وراثت سے محروم کر دیا جاتا ہے۔ اسی طرح کی اور بھی بہت سی خلاف ورزیاں ہیں‘ یہ سب دوسرے عقائد و رسم و رواج سے اسلام میں در آئی ہیں۔
مہتاب: اسلام کے رسوم و رواج کی بحالی کے لیے کون سے ٹھوس اقدامات ضروری ہیں؟
نجات اﷲ: یہ بہت مشکل سوال ہے۔ میرے خیال میں یہ تصور کرنا قرینِ حقیقت نہیں کہ مرد اپنے طور پر خواتین کو معاشرے میں ان کا جائز مقام دیں گے۔ میں بڑے کھلے دل سے کہوں گا کہ خواتین معاشرے میں اپنا جائز مقام خود ہی حاصل کر سکتی ہیں۔ بدقسمتی سے مسلمان خواتین دینی تعلیم‘ شعور اور یہاں تک کہ اسلامی تحریک میں اپنے کردار کے حوالے سے بھی بہت پیچھے رہ گئی ہیں۔ اس لیے میں یہ دیکھ رہا ہوں کہ جب خواتین اپنے مسائل کے حل کے لیے براہِ راست قرآن و سنت سے رجوع کریں گی اور اسلام کا مطالعہ کریں گی تو پھر وہ خواتین علما کہلائیں گی۔ جب وہ مردوں کے ساتھ سماجی معاملات اور امور کے مباحث میں حصہ لیں گی‘ تب ہی معاشرے میں ان کا جائز مقام بحال ہو سکتا ہے۔
مہتاب: مسلم ممالک میں مغربی غلبے کے بارے میں آپ کا نقطۂ نظر کیا ہے؟
نجات اﷲ: اس کی طویل تاریخ ہے۔ فرانس اور برطانیہ نے مسلمانوں کی زمین کو بانٹ لیا۔ بعد ازاں تقریباً تمام شمالی امریکا پر قبضے کے ساتھ ساتھ امریکا نے مشرقِ وسطیٰ میں بھی اپنا سیاسی اثر و رسوخ قائم کر لیا۔ مغربی غلبے کا سبب مسلمانوں کی تعلیم‘ اقدار اور طاقت سے محرومی میں بھی پنہاں ہے۔ بدقسمتی سے ہمارے یہاں شوریٰ کی روایت ختم ہو گئی جسے آپ جمہوریت یا کوئی اور نام دے لیں لیکن یہ مسلمانوں میں اب ناپید ہے۔ چنانچہ باہر کی طاقتیں مسلمان حکمرانوں کی باہر سے حفاظت اور سرپرستی کرتی ہیں‘ یہ طاقتیں تبدیلی نہیں چاہتیں۔
مہتاب: اس کا حل کیا ہے؟
نجات اﷲ: ہمیں لوگوں کو تبدیل کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ ہمیں ان میں حکومت میں اپنا حصہ حاصل کرنے اور اقتصادی امور کو جائز طریقے سے نمٹانے کا شعور پیدا کرنا چاہیے۔ انہیں اپنے اقتدار اور حقوق کے لیے اٹھ کھڑا ہونا چاہیے۔
مہتاب: کیا آپ اسلامی ممالک میں جمہوریت کے قیام کو ممکن دیکھتے ہیں یا پھر آپ اس نقطۂ نظر کے حامل ہیں کہ اسلام اور جمہوریت ایک ساتھ نہیں چل سکتے؟
نجات اﷲ: یقینا کوئی شخص بھی نہیں کہہ سکتا اور نہ ہی کسی شخص نے بھی کہا ہو گا کہ اسلام اور جمہوریت ایک ساتھ نہیں چل سکتے۔ قرآن میں واضح طور پر فرمایا گیا ہے کہ مسلمان باہمی مشاورت سے فیصلے کرتے ہیں۔ جمہوریت کا مفہوم یہ ہے کہ کون حکمرانی کرے‘ وہ کس طرح حکمرانی کرے اور کس طرح حکمرانوں کا متبادل لایا جائے۔ یہ وہ تین فیصلہ کن مراحل ہیں‘ جن کے بارے میں اسلام مکمل طور پر رہنمائی کرتا ہے۔ ایک چیز ہے جس میں ہم مغربی جمہوریت سے مختلف ہیں۔ ہمارے پاس اﷲ کی کتاب ہے جو صرف قوانین کی کتاب نہیں‘ اس میں بعض قوانین ہیں جن کی پابندی ہم پر لازم ہے۔ مسلمانوں کی کوئی بھی مشاورتی اسمبلی اﷲ کے قوانین تبدیل نہیں کر سکتی۔ یوں ہم کہہ سکتے ہیں کہ اﷲ ہی مقتدر اعلیٰ ہے۔ اس لیے اگر آپ دیگر تین سوالوں پر غور کریں تو عوام ہی مقتدر دکھائی دیں گے۔ جہاں تک جمہوریت کی درآمد کا تعلق ہے تو یہ ایک احمقانہ تصور ہے‘ تاہم آپ کسی حد تک جمہوریت کو نظریات کے ذریعے پھیلا سکتے ہیں۔
مہتاب: آپ اب تک اسلامی تحریکوں کی کامیابی بتائیں گے؟
نجات اﷲ: جب نوآبادیاتی طاقتیں جانے لگیں تو ان کو ایک غلط فہمی ہو گئی۔ انہوں نے یہ تصور کر لیا کہ یورپین نیشنلزم کی طرح عرب نیشنلزم بھی ایک حقیقت ہے۔ اس لیے انہوں نے عرب نیشنلزم کی حوصلہ افزائی شروع کر دی لیکن یہ ان کی غلطی تھی۔ اس سارے خطے میں انہوں نے عربوں سے زیادہ اسلام پر چیک رکھا‘ لیکن اس حد تک نہیں کہ وہ اسلام کو کچل ڈالیں۔ یہ سلسلہ جاری رہا اور اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ مصر سمیت دیگر ممالک میں عرب نیشنلزم کے علمبرداروں اور اسلام پسندوں کے درمیان جھڑپیں ہونے لگیں۔ اب یہ صورتحال باقی نہیں رہی۔ آپ دیکھیں تو مسلمان ممالک میں عرب نیشنل ازم کی اب وہ طاقت نہیں جو اسلام کی ہے۔ پاکستان‘ ملائیشیا‘ انڈونیشیا‘ مراکش اور بنگلہ دیش میں بھی صورتحال کچھ یوں ہی ہے۔ لیکن لوگوں کے مسلمان ہونے کا مطلب کیا ہے۔۔۔؟ وہ جانتے ہیں کہ اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ عبادت کریں۔ اس کے لیے چند ادارے قائم کر لیں لیکن وہ چند طریقوں کو ناپسند بھی کرتے ہیں‘ عورتیں کیا پہنتی ہیں۔۔۔ وہ لوگوں میں کس طرح رویہ اپناتی ہیں۔۔۔ وہ کس طرح ان میں گڈمڈ ہوتی ہیں‘ مرد و زن دونوں کس طرح ایک دوسرے کے قریب آتے ہیں۔ یہ چند ایک معیارات ہیں جو اسلامی کردار کا حصہ ہیں۔ ۷۵ برس بعد اب ماحول خاصا بہتر ہے۔ بھارت‘ ترکی‘ الجزائر وغیرہ میں فرانس‘ برطانیہ یا امریکیوں کی نقل نہیں کی جاتی۔ اب بعض اسلامی قدریں ایسی ہیں جن کا آج سے پون صدی پہلے کی نسبت زیادہ احترام کیا جاتا ہے۔ حکومتوں میں ملی جلی صورتحال ہے۔ دوسری طرف تحریکوں کی بنیاد یہ مفروضہ ہے کہ اسلامی ریاستیں قائم کریں گے۔ ۷۵ برس کے بعد اب صورتحال مکمل طور پر بدل گئی ہے۔ پہلے لوگ یہ کہا کرتے تھے کہ ان کے ملک کی نوے فیصد آبادی مسلمان ہے اور یہ نوے فیصد جو چاہے گی وہی ہو گا۔ لیکن اب وہ یہ نہیں کہہ سکتے۔ بدقسمتی سے اب اگر آپ کچھ کرنا چاہتے ہیں لیکن وہ معیار عالمی سطح پر قابلِ عمل نہیں تو پھر آپ یہ نہیں کر سکتے۔ اب یہ دلیل بے وزن ہے کہ مسلم اکثریت کی وجہ سے آپ ایک اسلامی ریاست قائم کر سکتے ہیں۔ اب آپ صرف بین الاقوامی سطح پر اتفاقِ رائے پیدا کرنا چاہتے ہیں تو پھر آپ کو اس میں دوسرے لوگوں کو بھی شامل کرنا ہو گا‘ پھر آپ کو صرف مسلمان کے طور پر ہی نہیں سوچنا ہو گا بلکہ ہر ایک کا مفاد سامنے رکھنا ہو گا۔ ضروری ہے کہ نئے حالات اور تقاضوں کو پیشِ نظر رکھ کر منصوبہ بندی کی جائے‘ جب آپ آگے بڑھتے ہیں ایک خاص مرحلے پر پہنچ جائیں گے تو آپ کو احساس ہو گا کہ ایک اسلامی ریاست میں وہ چیز بھی بہت اہمیت کی حامل ہے‘ جس کی بظاہر کوئی اہمیت نہیں۔ اب ہم ۲۰۰۵ء میں رہ رہے ہیں۔ میرا خیال ہے کہ تمام اسلامی تحریکوں کی قیادت اب نوجوانوں کے ہاتھ میں ہے‘ وہ اس کی نئی تعریف کی کوشش کر رہے ہیں۔ میں ذاتی طور پر سمجھتا ہوں کہ اسلامی تحریکوں کی محض ریاست اور حکومت سے تعلق کی تعریف میں حکمت نہیں۔ ہم محسوس کرتے ہیں‘ دنیا بھر میں سرمایہ داری نے زیادہ عدم مساوات پیدا کی ہے۔ بعض ممالک نصف صدی قبل کی نسبت اب زیادہ غریب ہیں۔ ہمیں ان کے مسائل کو حل کرنا چاہیے اور زکوٰۃ‘ وقف اور سود سے پاک بنکاری کی اسلامی تعلیمات کو فروغ دینا چاہیے۔ مجھے یقین ہے اس طرح کی تشکیلِ نو سے انسان کی معاشی زندگی میں زیادہ توازن اور انصاف پیدا ہو گا۔
انسانیت کا ایک اور مسئلہ بھی بہت اہم ہے۔ یہ نہ سوچیے کہ امریکی بہت خوش ہیں‘ ان کی لڑکیاں ہائی اسکول ہی میں حاملہ ہو جاتی ہیں یا پھر ان کی نصف سے زائد شادیوں کا انجام طلاق ہوتا ہے۔ کوئی خاندان بھی خوش نہیں‘ لیکن ان کے پاس اس کا کوئی حل بھی نہیں۔ ہمارے ملک کے بڑے شہروں میں بھی صورتحال اس سے مختلف نہیں‘ اس لیے ہمیں معاشی انصاف‘ مضبوط خاندان اور عالمی امن جیسے مسائل پر زیادہ توجہ دینی چاہیے۔
(بشکریہ: پندرہ روزہ ’’جہادِ کشمیر‘‘۔ مظفرآباد۔ ۱۶ تا ۳۱ اگست ۲۰۰۵)
Leave a Reply