
ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی ہے کہ ا یک شخص رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ سلم کے پاس آیا اور کہا کہ اللہ کے رسولؐ میرے حسنِ سلوک کا سب سے زیادہ حق دار کون ہے؟ تو آپ ؐ نے فرمایا تمہاری ماں۔اس نے کہا، ان کے بعد۔ آپ ؐ نے فرمایا، تمہاری ماں۔اس نے کہا، ان کے بعد، آپ ؐ نے فرمایا، تمہاری ماں۔ اس نے کہا، ان کے بعد،آپ ؐ نے فرمایا، تمہارے والد۔
بنگلا دیش جماعتِ اسلامی کے راہ نما اور سابق رُکنِ اسمبلی دلاور حسین سعیدی اپنے وعظ کی محفلوں میں، جہاں خواتین اور مرد شرکت کرتے تھے، درج بالا حدیث اس مقصد سے سناتے تھے کہ یہ واضح کیا جائے کہ قرآن، احادیث اور اسلام نے ماں کے کردار کو کس قدر اہمیت دی ہے۔ اس کے بعد حاضرین سے یہ سوال پوچھتے تھے کہ کیاخواتین کو اسلام میں کامیابی میسر آئی یا ناکامی؟ اس پر حاضرین ’کامیابی‘ کی زور دار آواز بلند کرتے۔
میں اس مضمون میں یہ بتانا چاہتی ہوں کہ بنگلا دیش میں جماعت اسلامی کے راہ نماتسلسل سے اسلام میں ماں کی عزت و احترام کا ذکر کرتے رہے ہیں تاکہ ان غیر سرکاری تنظیموں (NGOs)کے دعوؤں کا جواب دے سکیں، جن کا کہنا ہے کہ اسلام خواتین کی ترقی میں حائل رہا ہے۔ بنگلا دیش کے بڑے حصے میں پھیلی ہوئی ان این جی اوز کا یہ بھی کہنا ہے کہ ترقی کا واحد راستہ یہ ہے کہ ہمیں مذہب اور روایت کی زنجیروں سے آزاد ہونا چاہیے۔
جماعت اسلامی کے بانی سیّدابوالاعلیٰ مودودیؒ نے واضح کیا ہے کہ ’’خواتین کے لیے خدا کابتایا ہوا مقام گھر ہے‘‘۔ اس کے برعکس بانیٔ جماعتِ اسلامی نے خواتین میں ووٹ ڈالنے کی تشویق پیدا کی۔ کچھ عشروں بعد بنگلادیش میں جماعت اسلامی کے راہ نماؤں نے مزید آگے بڑھ کریہ واضح کیا کہ اسلام خواتین کوبھی بحیثیت فرد تسلیم کرتا ہے اور فرد کی حیثیت سے ان کی ذمے داری ہے کہ وہ خدا، اسلام اور اسلام کی مدد سے حقوقِ نسواں کا تحفظ کریں اور تعلیم حاصل کریں، کام کریں اور ووٹ دیں۔
جیسا کہ پاکستان کی آزادی کے بعد کے ابتدائی برسوں میں ہوا، جماعت اسلامی نے بنگلا دیش میں بھی فوجی حکمرانی کے خلاف اور جمہوریت کی بحالی کے لیے تحریک چلائی۔ فوجی حکمران حسین محمد ارشاد کی جانب سے ۱۹۸۸ء میں اسلام کو بنگلادیش کی ریاست کا مذہب قرار دینے کا فیصلہ کیاگیا۔ اس پر جماعت اسلامی نے مایوسی کا اظہار کیا۔ جماعت اسلامی چاہتی تھی کہ بنگلادیش کو ایک اسلامی ریاست قرار دیا جائے۔ جماعت اسلامی نے اس تحریک میں بھی اہم حصہ لیا، جس کی بدولت آئین کی تیرہویں ترمیم منظو ر کی گئی۔ جس میں یہ فیصلہ کیا گیا تھا کہ قومی سطح کے ہر انتخاب سے پہلے تین ماہ کے لیے نگران حکومت بنے گی اور نگران وزیراعظم ملک کا کوئی ریٹائرڈ چیف جسٹس ہوگا۔ عالمی مبصرین کی موجودگی میں ۱۹۹۱ء،۱۹۹۶ء اور ۲۰۰۱ء میں جو انتخاب ہوئے انھیں صاف اور شفاف قراردیا گیا۔ ان تینوں انتخابات میں جماعتِ اسلامی نے حصہ لیا اور کافی تعداد میں پارلیمانی نشستیں جیتیں اور ایک اہم اتحادی جماعت کے طور پر سامنے آئی۔جماعت کے راہنماؤں نے مجھ سے انٹرویو میں کہا کہ جماعت اسلامی کوانتخاب میں کامیاب ہونے کی کوئی جلدی نہیں۔ انھیں اس بات کا انتظار ہے کہ آبادی کا بڑا حصہ کب اسلامی ریاست کی حمایت کے لیے اٹھتا ہے۔
دنیا بھر کی اسلامی تحریکوں کی طرح بنگلادیش میں بھی جماعت اسلامی کے مرد او ر خواتین ارکان شہروں میں رہنے والے درمیانے طبقے کے تعلیم یافتہ افراد ہیں۔دنیا کی دیگر اسلامی تحریکات سے جماعت اسلامی اس طرح مختلف ہے کہ جماعت اسلامی کو ایک سیاسی جماعت کے طور پرایک قومی جمہوری جماعت (National Democratic Party) کے طور پر اجازت دی گئی ہے۔ آج جماعت اپنے اراکین پر منحصر ہے۔ بنگلادیش کی محروم اور کم تعلیم یافتہ خواتین کو مقامی اور عالمی تنظیموں نے متحرک کیا۔ اس طبقے نے ایک ایسا حلقہ پیدا کیا ہے جسے آسانی سے نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ بنگلادیش میں غریب خواتین کی بڑھتی ہوئی تعداد،جن کا مطالبہ تعلیم اور ملازمت کا تھا، کی موجودگی میں جماعت اسلامی کواحساس ہوگیا تھا کہ محض درمیانے طبقے کی حمایت کے بَل بُوتے پر قومی سطح پر انتخاب میں کامیابی حاصل نہیں کی جاسکتی۔
اقوامِ متحدہ کی جانب سے عشرہِ خواتین
[United Nations Decade for Women (1975-1985)] کے بعد عالمی اداروں نے اُن منصوبوں پر لاکھوں ڈالر خرچ کیے، جن کامقصد ترقی پذیر ممالک کی خواتین تھیں۔اس ضمن میں بنگلا دیش پر بھی توجہ دی گئی۔ اس کے بعد بنگلادیش کے افراد اور ادارے نوجوانوں کی تعلیم اور مائیکرو فنانس کی بدولت عالمی توجہ حاصل کرنے میں کامیاب ہوئے۔ وہاں آج لاکھوں خواتین این جی اوز سے وابستہ ہیں اور ہزاروں این جی اوز مختلف حوالوں سے بنگلادیش کے دیہاتوں میں موجود ہیں، جن کی وجہ سے وہاں کی سماجی زندگی نہ صرف تبدیل ہوئی ہے بلکہ صنفی رشتوں (gender relations) میں بھی تغیر واقع ہوا ہے۔ یہاں ان چیزوں کے تجزیے کا مقصد یہ ہے کہ ۱۹۹۰ء کے انتخاب میں بہت سی این جی اوز نے ایسے تعلیمی منصوبوں پر کام کا آغاز کیا، جس کا مقصد غیر تعلیم یافتہ ووٹروں کودرست انتخابی فیصلوں سے متعلق آگاہی فراہم کرنا تھا۔یہ تعلیمی منصوبے ان سماجی منصوبوں کے علاوہ تھے جو وہاں پہلے سے موجود تھے، جن کا مقصد قانونی تعلیم اور خواتین کے حقوق کے بارے میں آگاہی عام کرنا تھا۔اس سلسلے میں اکثر این جی او غیر جانبدار رہیں۔ کچھ این جی اوز ایسی بھی تھیں، جو اپنے اراکین کے فیصلو ں پر اثرانداز بھی ہونا چاہتی تھی۔
بنگلادیش میں ۱۹۹۶ء کے انتخاب سے پہلے غیر مذہبی اداروں نے آزادی کی ۲۵ سالہ تقریبات کا اہتمام بہ عنوان ’۱۹۷۱ء کے آئیڈیلز‘ (ideals of 1971) کیا۔ ان تقریبات میں ان لوگوں کی سخت مخالفت کی جنھوں نے بنگلادیش کی آزادی کی مخالفت کی تھی۔ میں نے ان جلوسوں میں شرکت کی جہاں لٹریچر بھی تقسیم کیا گیا۔اس لٹریچر میں آئیڈیلز کے بارے میں واضح موقف اختیار نہیں کیا گیا۔مثال کے طور پر ۱۹۷۲ء کے آئین میں ان چار ستونوں کواہمیت حاصل تھی:نیشنل ازم، جمہوریت، سیکولرازم اور سوشل ازم۔ ان آئیڈلز میں سوشل از م کا کہیں ذکر نہ تھا۔
اس موقع پر جو تناؤ سامنے آیا، وہ سیکولر اور اسلام پسندوں کے درمیان تھا۔ کچھ تنظیموں نے واضح طور پر جماعت ِ اسلامی کو نشانہ بنایا اور اپنے سامعین کو یاد دلایا کہ اس جماعت کے افراد۱۹۷۱ء میں بنگلادیش کی مقامی آبادی کو قتل کرنے اوران کی عزتیں لوٹنے میں ملوث تھے۔ سامعین کو یہ بھی یاد دلایا گیا کہ اس جماعت نے این جی او اور خاص طور پر ان کی خواتین کو بھی تنقید کا نشانہ بنایا تھا۔عوامی لیگ جس نے بنگلادیش کی آزادی میں مرکزی کردار ادا کیا،اور ۱۹۹۶ء کے انتخابات میں کامیابی حاصل کی، ۲۱ سال بعددوبارہ حکومت میں آگئی۔ جماعت اسلامی نے۱۹۹۱ء میں ۱۸ نشستیں حاصل کی تھیں، ۱۹۹۶ء کے انتخاب میں صرف ۳ نشستیں لے سکی۔ جماعت اسلامی اور اس کے مخالفین اس بارے میں متفق نظر آتے ہیں کہ فعال ہونے والاغریب عورتوں کا طبقہ جماعت کی شکست کی وجہ تھا۔غریب خواتین کا یہ طبقہ جو مسلمان بھی تھا، کی جانب سے جماعت اسلامی کو ووٹ نہ دینے کی وجہ ۱۹۷۱ء کا مسئلہ نہ تھا بلکہ ان خواتین کو یہ یقین دلایا گیا تھا کہ جماعت اسلامی ان کی زندگی میں این جی اوز کی جانب سے آنے والی تبدیلیوں کی مخالفت کرتی تھی۔میں یہ سمجھتی ہوں کہ اس سبق کے بعد جماعت اسلامی نے خواتین اور غریب طبقے کے بارے میں ازسرنو سوچنا شرو ع کیا۔ خواتین اپنی تعلیم اور ملازمت کے بارے میں ویسے بھی فکر مند تھیں۔ اس کے علاوہ انھیں اپنے گھروں کے اندر اور باہر محفوظ ماحول بھی درکار تھا۔۱۹۹۶ء سے پہلے بھی جماعت اسلامی نے دیہاتوں میں رہنے والی خواتین کے لیے کام کیے تھے، لیکن اب ایک منظم حکمت عملی کے تحت کام کیا گیا، جس میں دیہاتوں اور شہروں میں بسنے والی محروم اور اَن پڑھ خواتین کی حمایت حاصل کی گئی۔
جماعت اسلامی روایتی طور پر اپنے لٹریچر کے ذریعے افراد تک اپنا پیغام پہنچانے کا انتظام رکھتی تھی لیکن اب وعظ کی محفلیں منعقد کی گئیں، جہاں ہزاروں خواتین اور مَرد شرکت کرتے تھے۔ وعظ کی ان محفلوں کو سستی ریڈیو کیسٹ میں منتقل کرکے عام کیا گیا، جس میں دلاور حسین سعید ی کے لیکچر ہوا کرتے تھے۔ دلاور حسین سعیدی نے خواتین کی زندگی میں بحیثیت بیٹی، بیوی اور ماں کے وعظ دیے۔ سعید ی صاحب نے اس تصور کو بھی درست کیا جو بنگلادیش کے دیہاتوں میں عام تھا کہ جنت شوہر کے قدموں تلے ہے۔ سعید ی صاحب نے حدیث نبوی ؐ پیش کی ’’ماں کے پیروں تلے جنت ہے‘‘۔ انھوں نے اپنے وعظوں میں بھی عورتوں کے لیے تعلیم حاصل کرنے اور کام کرنے کی اہمیت بیان کی۔انھوں نے پردے کی اہمیت بھی بیان کی کہ پردے کے بارے میں یہ تاثر غلط ہے کہ پردہ خواتین کی ترقی میں رکاو ٹ ہے۔ اصل صورت حال یہ ہے کہ پردہ ایسی ڈھال ہے، جو خواتین کو بُری نظروں سے محفوظ رکھتی ہے۔
’’اگر خواتین برقع اُوڑھیں توراہ چلتا فرد بھی اُن کے بارے میں کوئی لفظ ادا نہیں کرتا۔اگر آپ برقع پہنے ہوں تو دکان دار بھی آپ کو خالہ ماں یا چاچی ماں کہہ کر مخاطب کرے گا۔ اگر برقع کے بغیر جائیں تو دکان دار آپا کہے گا یا ہنسی مذاق کرے گا۔ جو خواتین برقع اوڑھتی ہیں وہ تمام مشکلات سے اس لیے بھی محفوظ رہتی ہیں کہ وہ اللہ تعالیٰ کے حکم کی تعمیل کرتی ہیں‘‘۔
بنگلادیش جیسے معاشرے کی خواتین نے اس صورتحال میں کیسا تاثر دیا؟ اس حوالے سے میں نے چٹاگانگ کے پسماندہ علاقوں کی خواتین سے۲۰۰۱ء کے انتخابات سے پہلے یہ جاننے کے لیے بات چیت کی کہ جماعت اسلامی کے ساتھ اُن کا وقت کیسا گزرا؟ اس کا جواب یہ ہے کہ آج وہ خواتین نماز درست طریقے سے پڑھ سکتی ہیں، وہ پردے کی اہمیت سے باخبر ہیں، روزے کے احکامات جانتی ہیں اور بہت سی عربی دعائیں جانتی ہیں اور انھیں اپنی روزانہ کی زندگی میں پڑھتی ہیں۔ جماعت اسلامی سے تعلق قائم ہونے کے بعد انہوں نے کہا کہ:
’’پردے کے احکامات کے بارے میں آج ہم جو کچھ جانتے ہیں وہ اس سے پہلے نہیں جانتے تھے۔ ہم غیر محرم رشتوں کے بارے میں نہیں جانتے تھے اور نہ اُن سے پردہ کرتے تھے۔ہم نماز کے بارے میں جانتے تھے کیونکہ اس کے بارے میں ہمارے والدین نے بتایا تھا۔جب نماز کا وقت ہوجاتا تھا ہم نماز پڑھ لیتے تھے اور آج بھی پڑھتے ہیں۔ آج نماز کو جس اہتمام اور ذمے داری سے پڑھتے ہیں، وہ اس سے پہلے نہ تھا‘‘۔
جماعت اسلامی سے پہلے ان خواتین نے جو اسلام سمجھا وہ غلط تھا۔ ان کی نظر میں جس اسلام کی تبلیغ جماعت اسلامی نے کی وہ صحیح ہے۔انھیں یقین ہے کہ ان تعلیمات پر عمل کرکے وہ جنت میں جائیں گی۔جب ان خواتین سے جماعت کی حمایت کرنے کے بارے میں یہ کہا جاتا ہے کہ وہ جماعت کی حمایت اپنے ذاتی مفاد میں کررہی ہیں تو وہ اپنے ایمان، عقائد اور حیات بعد موت کی باتیں کرتی ہیں۔
میں نے ایک خاتون سے پوچھا کہ کیا خواتین کے خلاف تشدد اس اسلامی حکومت میں ختم ہوسکے گا، جو خواتین سے پردہ کرنے کا مطالبہ کرتی ہے؟ اس نے جواب دیا کہ:
’’لوگ چھوٹی چھوٹی تھیلیوں میں خواتین پر پانی اور تیزاب پھینکتے ہیں۔ لڑکیوں پر رنگین پانی اور پاؤڈر پھینکتے ہیں۔ ہم یہ کہنا چاہتے ہیں کہ ہمارے وطن میں اسلامی ریاست ہوتی اور ہم سچے مسلمان ہوتے تو حکومت لازمی یہ اعلان کرتی کہ خواتین برقع پہنیں۔ تما م خواتین برقع پہنتیں۔ اور اگر حکومت کہتی کہ خواتین برقعے کے بغیر باہر نہ نکلیں تو وہ لازمی برقعے کے بغیر نہ نکلتیں‘‘۔
جماعت اسلامی کے اراکین، پارلیمان میں خواتین کی تعداد میں اضافے کی حمایت کرتے ہیں۔ جماعت اسلامی ۱۹۹۱ء اور ۲۰۰۱ء کے بعد بننے والی حکومتوں میں اتحادی کی حیثیت سے رہی ہے جہاں ایک خاتون دو مرتبہ وزیراعظم رہیں۔ جماعت اسلامی آج بھی انتخابات میں کسی خاتون کو امیدوار نامزد کرنے سے پرہیز کرتی ہے۔ جماعت اسلامی میں محروم طبقے کی بہت سی خواتین شامل ہیں، جو خواتین سیاست دانوں کے خلاف آواز اٹھاتی ہیں۔ میں نے ایک خاتون سے پوچھا جن کا نقطہ ِنظر یہ تھا کہ کوئی عزت دار خاتون پبلک آفس چلانے کو تیار نہیں ہوسکتی۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ مَردوں کی موجودگی میں اس کی کوئی ضرورت نہیں۔
میر ی تحقیق کے مطابق خواتین کی ایک بڑی اکثریت ایسی ہے جو ان چیزوں کے مخالف سمت میں سوچ رہی ہے۔ اکثر خواتین سیاست میں دلچسپی لے رہی ہیں کیوں کہ ایک خاتون وزیراعظم ہے اور بہت سی این جی اوز علاقائی انتخابات میں خواتین کی مدد کررہی ہیں۔اکثر علاقوں میں دیہی خواتین کے پاس موقع ہے کہ وہ اُن طاقتور خواتین سے مل سکیں، جو این جی اوز کی سربراہ ہیں اور ان اہم این جی اوز کی کارکن ہیں۔ اب اکثر خواتین کہتی ہیں کہ ’خواتین اب سب کچھ کرسکتی ہیں‘۔
گزشتہ چھ دہائیوں میں جماعت اسلامی نے کم ازکم بنگلادیش کی حد تک خود کوبدلتے ماحول کے مطابق تبدیل کیا ہے۔ وہ اشراف اور تعلیم یافتہ افراد کی تنظیم سے ایک سیاسی جماعت میں تبدیل ہوگئی جو جمہوریت پر یقین رکھتی ہے، انتخابات میں حصہ لیتی ہے اور معاشرے میں غریب خواتین کی حمایت چاہتی ہے۔ جماعت اسلامی اپنے پیغامات میں معمولی تبدیلیوں کے بعد اس تاثر کو زائل کرنا چاہتی ہے کہ وہ ووٹوں کی خواہشمند ہے۔
یہ مضمون مجموع مقالات بہ عنوان Islamic Reforms in South Asia میں شامل ہے۔یہ مجموع ۲۰۱۳ء میں کیمبرج یونیورسٹی پریس سے شائع ہوا۔ زیر نظر مقالے کا عنوان: Jamaat-i-Islami in Bangladesh: Women, Democracy and the Transformation of Islamist Politics. ہے۔
رائس یونیورسٹی کے شعبہ علومِ انسانی وسیاسیات (Humanities and Political Science)سے بحیثیت ایسوسی ایٹ پروفیسر وابستہ ہیں۔ ان موضوعات پر ان کی یہ کتابیں موجود ہیں:
Reshaping the Holy: Democracy,
Development and Muslim Women in Bangladesh (2008),
Empowering Rural Women: The Impact of Grameen Bank in Bangladesh (1992)
Encyclopedia of Women and Islamic Culture کی مدیر ہیں
مجلہ Feminst Economics کی مہمان مدیر ہیں۔
اس موضوع پر آج کل کام کررہی ہیں:
Apostles of Progress: Feminism, Empire, and Muslim Women
(ترجمہ: جاوید احمد خورشید)
Leave a Reply