
تین سال قبل جب کچھ غیر ملکی کمپنیوں نے جن میں امریکی کمپنیاں سرفہرست تھیں‘ بعض جاپانی ٹیلی ویژن چینلوں کے حصص خریدنے کی کوشش کی تو حکومت نے اس پر بہت شور مچایا تھا‘ اس وقت بھی یہاں لبرل ڈیمو کریٹک پارٹی کی حکومت تھی اور جونی چیرو کوئز ومی وزیراعظم تھے۔ حکومت نے اس اندیشے کو اپنی مخالفت کی بنیاد بنایا تھا کہ اس طرح جاپان کے سیاسی معاملات میں غیرملکی مداخلت کا راستہ کھلے گا‘ جس سے حکومتی فیصلہ سازی کا عمل متاثر ہو گا۔ حکومت کے اس موقف کو عوام اور خود میڈیا نے بہت سراہا تھا۔ اس سے لبرل ڈیمو کریٹک پارٹی کی قوم پرست سوچ کو مزید حمایت ملی اور یہ تاثر عام ہوا کہ ایل ڈی پی امریکا کے ساتھ قریبی دوستی کے باوجود سیاسی معاملات میں اس کی مداخلت برداشت نہیں کرے گی اور قومی مفاد میں فیصلے کرتے وقت کسی کا دباؤ قبول نہیں کیا جائے گا۔ اب خبر آئی ہے کہ ایل ڈی پی کو اپنے پاؤں جمانے اور حکومت کو مستحکم کرنے کے لیے امریکی سی آئی اے خفیہ فنڈز دیتی رہی‘ ایل ڈی پی کے حکام ان خفیہ فنڈز کو بخوشی قبول اور استعمال کرتے رہے۔ جو فنڈ خفیہ طریقے سے دیے جاتے ہیں ان کا حساب نہیں مانگا جاتا‘ یہ ایک طریقے سے وفادار رہنے اور منہ بند رکھنے کا معاوضہ ہوتا ہے۔ ان کے ساتھ کچھ شرائط بھی ہوتی ہیں جو ہمیشہ آف دی ریکارڈ رکھی جاتی ہیں اور ان پر عمل کرنا وصول کرنے والے کا فرض ہوتا ہے۔ یہ ایک ایسا معاملہ ہے جس پر دونوں فریق رضامندی کا اظہار کرتے ہیں۔ امریکی حکومت نے حال ہی میں جو خفیہ دستاویزات جاری کی ہیں‘ ان کے مطابق پچاس اور ساٹھ کی دہائی میں سی آئی اے نے لبرل ڈیموکریٹک پارٹی کو خفیہ طریقہ سے لاکھوں ڈالر کی رقم دی تھی‘ اس رقم کی مجموعی مالیت نہیں بتائی گئی مگر قیاس کیا جارہا ہے کہ ایل ڈی پی کے سیاستدانوں نے اس رقم سے اپنے لیے قیمتی گاڑیاں خریدیں‘ مختلف شہروں میں قیام کے دوران ہوٹلوں اور پارٹیوں کے بل ادا کیے‘ انتخابی مہم کے لیے سیکڑوں کی تعداد میں رضاکاروں کی خدمات حاصل کیں اور انہیں معاوضہ ادا کیا‘ یہ تو صرف اخراجات تھے جو انتخابی مہم کے دوران ہوئے۔ ایل ڈی پی کے رہنماؤں کو امریکی ہدایت پر عمل درآمد کرنے کے لیے بھی معاوضہ دیا گیا ہو گا جو یقیناً زیادہ ہو گا۔ دستاویزات کے مطابق ان فنڈز کا مقصد اس وقت ایل ڈی پی کی حکومت کو مستحکم کرنے میں مدد دینا اور بائیں بازو کی طرف جھکاؤ رکھنے والی کسی حکومت کے برسرِ اقتدار آنے کے خطرے کو روکنا تھا‘ ان دستاویزات میں جو ’’امریکی خارجہ تعلقات‘‘ کے عنوان سے جاری کی گئی ہیں‘ یہ انکشاف بھی کیا گیا ہے کہ ان خفیہ فنڈز کے کچھ حصہ سے جاپان سوشلسٹ پارٹی (JSP) کے اعتدال پسندوں کو پارٹی سے الگ کرنا تھا۔ جے ایس پی پر بعد میں پابندی عائد کر کے اسے سیاسی سرگرمیوں سے روک دیا گیا‘ مگر جس زمانے کا ذکر ہو رہا ہے‘ اس وقت سوشلسٹ پارٹی ایل ڈی پی کی مضبوط حریف تھی اور اس کے برسرِ اقتدار آنے کا امکان بڑی حد تک موجود تھا۔ اگر ایسا ہو جاتا تو آج مشرقی ایشیا کا سیاسی منظر بہت مختلف ہوتا۔ امریکی محکمہ خارجہ کے ایک ذمہ دار افسر کے مطابق جو ان دستاویزات کو اکٹھا کرنے کے کام میں شامل رہے ہیں‘ یہ پہلا موقع ہے کہ امریکی حکومت نے جاپانی سیاستدانوں کو خفیہ رقوم دینے کے کسی پروگرام کا اعتراف کیا ہے مگر ٹوکیو میں ایل ڈی پی کے ایک ترجمان نے اس بیان کو غلط قرار دیا۔ تاہم لوگ اس سوال کا جواب تلاش کر رہے ہیں کہ اصل معاملہ کیا ہے اور ایسا کیوں ہوا؟ ڈیڑھ سال قبل جب اچانک یہ انکشاف ہوا کہ ۲۰۰۴ء میں جاپان ڈینٹل ایسوسی ایشن (JDA) نے ایل ڈی پی کو انتخابی مہم کے لیے خطیر رقم کا چیک دیا تھا تو ایک طرح طوفان اٹھ کھڑا ہوا‘ حکمراں جماعت میں ہر شخص دوسرے کا منہ دیکھ رہا تھا‘ اعلیٰ ترین سطح پر اس کی تردید کی گئی اور ایسے کسی چیک کی وصولی سے انکار کیا گیا۔ اس بار بار کے تردید کے باعث باقاعدہ یہ مطالبہ ہونے لگا کہ جے ڈی اے اپنے جھوٹے الزام پر معافی مانگے اس سے ایسوسی ایشن کے اندر بدگمانیاں پیدا ہونے لگیں اور اس کے مالی معاملات کی تحقیقات کرانے کے لیے دباؤ ڈالا جانے لگا۔ اپنی صفائی پیش کرنے کے لیے جے ڈی اے کے چیئرمین نے ایل ڈی پی کے اس عہدیدار کا نام ظاہر کر دیا‘ جنہوں نے دس ملین کا چیک وصول کیا تھا۔ یہ سیاستدان اپنا منہ چھپانے لگے پھر کہا گیا کہ یہ چیک ان صاحب نے اپنی جیب میں ڈال لیا تھا اور شاید وہ اس ساری رقم کو خود ہڑپ کرنا چاہتے تھے۔ کچھ عرصے بعد یہ معاملہ دبا دیا گیا اور یہ تاثر دیا گیا کہ معاملے کی تحقیقات ہو رہی ہیں‘ جو آج تک مکمل نہیں ہو سکیں۔ ایل ڈی پی میں اس قسم کے اسکینڈلز کی تاریخ بہت پرانی ہے‘ اس لیے حکمراں جماعت کے پاس حالیہ امریکی الزام کی تردید کرنے کے سوا اور کوئی حل نہیں تھا۔ مزید چند روز اس کی بازگشت سنائی دے گی اور پھر خاموشی اختیار کر لی جائے گی۔ ان دستاویزات کے مطابق امریکی حکومت نے جاپانی سیاست کا رخ موڑنے کے لیے ۱۹۵۸ء سے ۱۹۶۸ء تک چار خفیہ پروگراموں کی منظوری دی۔ جب ۱۹۵۸ء میں ایوانِ زیریں کے الیکشن ہونے والے تھے تو صدر آئزن ہاور کی حکومت نے سی آئی اے کو ہدایت کی کہ وہ امریکا نواز سوشلزم دشمن سیاستدانوں کو خفیہ طریقے سے مالی مدد فراہم کرے اور ان مقاصد کے حصول کے لیے ضروری مشورے بھی دے جو امریکا حاصل کرنا چاہتا ہے۔ اگرچہ تفصیل سے یہ نہیں بتایا گیا کہ خفیہ فنڈز حاصل کرنے والوں میں کون کون لوگ شامل تھے مگر بظاہر جو حوالہ دیا گیا ہے اس سے یہ نتیجہ اخذ کیا جاسکتا ہے کہ خفیہ رقم ان سیاستدانوں کو دی گئی تھی جنہوں نے ۱۹۵۷ء میں وزیراعظم نوبوسوکے کی شی (Nobusuke Kishi) کی حکومت میں اور پھر ۱۹۶۰ء میں وزیراعظم ہایا تواکیدا (Hyato Ikeda) کی حکومت میں اقتدار پر اپنی گرفت مضبوط کر لی تھی‘ ان دونوں وزرائے اعظم کا تعلق لبرل ڈیمو کریٹک پارٹی سے تھا جو آج بھی برسرِ اقتدار ہے۔ ان سیاستدانوں سے کہا گیا تھا کہ انہیں یہ رقم امریکی بزنس مین امداد کے طور پر دے رہے ہیں۔ ۱۹۵۹ء میں بھی سی آئی اے نے جاپان میں خفیہ فنڈز تقسیم کیے جس کا مقصد بائیں بازو کی اپوزیشن کے نسبتاً اعتدال پسند گروپ کو توڑنا تھا۔ امریکا کو امید تھی کہ اس طرح ایک زیادہ امریکا نواز اور ذمہ دار حزب اختلاف ابھرے گی۔ دستاویزات سے پتا چلتا ہے کہ ۱۹۶۰ء میں جاپان سوشلسٹ پارٹی کے اعتدال پسند کوپ کو اپنی وفاداری سے دستبردار ہونے کے عوض پونے دو لاکھ ڈالر دیے گئے تھے‘ اس کے نتیجے میں سوشلسٹ پارٹی کے نام سے جماعت بنائی۔ جاپانی سیاست میں سی آئی اے کی مداخلت کا سلسلہ ۱۹۶۸ء تک جاری رہا۔ ایل ڈی پی کی موجودہ حکومت کے برسرِ اقتدار آنے سے قبل جتنی بھی حکومتیں آئیں‘ ان میں سے کوئی بھی دو سال سے زیادہ کام نہ کر سکی۔ ان حکومتوں کے سربراہ چھوٹے موٹے سیاستدان نہیں تھے‘ مگر اس کے باوجود اپنے پاؤں مضبوط نہ کر سکے‘ البتہ ان کے دور میں پڑوسی ملکوں کے ساتھ جاپان کے تعلقات خوشگوار رہے۔ چین یا جنوبی کوریا کو بھی شکایت کا موقع نہ ملا۔ شمالی کوریا کا جوہری پروگرام اس وقت بھی موجود تھا۔ روس کے ساتھ اختلافی مسائل بھی اپنی جگہ تھے مگر یہ تمام مسائل ہمیشہ سفارتی حدود کے اندر رہے۔ صرف ایک معیشت کا مسئلہ تھا مگر ان تمام حکومتوں کی ناکامی کا سبب اقتصادی بحران کو قرار نہیں دیا جاسکتا کیونکہ یہ ۹۰ء کی دہائی میں شروع ہوا تھا جبکہ سیاسی عدم استحکام ۸۰ء کی دہائی سے چلا آرہا تھا جو کوئزومی حکومت آنے کے بعد ختم ہوا اور اس کے ساتھ ہی علاقے میں امریکی ایجنڈے پر عملدرآمد کی رفتار تیز ہو گئی۔ امریکی دستاویزات کے منظر عام پر آنے کے بعد اگر ایل ڈی پی کے حالیہ سیاسی کردار کا جائزہ لیا جائے تو لگتا ہے کہ صدر آئزن ہاور کے دور میں سی آئی اے کی مداخلت کا جو سلسلہ شروع ہوا تھا وہ آج کہیں زیادہ شدت کے ساتھ جاری ہے۔ اس وقت جو کچھ ہو رہا ہے اس پر سے بھی لگ بھگ ربع صدی کے بعد پردہ اٹھے گا۔ ۲۰۰۴ء میں ایوانِ زیریں کے الیکشن میں ایل ڈی پی نے جس طرح باقی سیاسی جماعتوں اور گروپوں کا صفایا کیا اس سے ماضی کی یاد تازہ ہو جاتی ہے۔ اس الیکشن میں بھی وہ لوگ سیاسی منظر سے ہٹے جو جاپان کو زیادہ سے زیادہ غیرجانبدار رکھنا چاہتے تھے۔ یہ سیاستدان جو اَب زیادہ وزن نہیں رکھتے تھے۔ امریکا کے ساتھ تعلقات میں ایک فاصلہ رکھنا چاہتے تھے‘ اس مقصد کے لیے وہ آئین میں ترمیم کر رہے ہیں۔ یہاں جو سوال سب سے زیادہ زیرِ بحث ہے‘ وہ یہ ہے کہ ایک ایسے موقع پر جب ستمبر میں ایل ڈی پی نئے وزیراعظم کا چناؤ کرنے والی ہے‘ امریکا کو یہ معاملہ ظاہر کرنے کی کیا ضرورت تھی۔ یہ حقیقت بھی اپنی جگہ ہے کہ ایل ڈی پی اور امریکا انتظامیہ کے درمیان نہایت خوشگوار تعلقات ہیں۔ جولائی کے شروع میں کوئزومی نے امریکا کا دورہ کیا اور مستقبل میں بھی دونوں ملکوں کے تعلقات میں گرم جوشی اور تمام شعبوں میں تعاون جاری رکھنے سے اتفاق کیا۔ قوم پرست جاپانیوں کے خیال میں اگر امریکی دستاویزات میں کیے جانے والے تمام انکشافات درست اور حقیقت پر مبنی ہیں تو بھی اس پر شور نہیں مچانا چاہیے۔ کیونکہ اس اقدام سے جاپانی مفادات کو نقصان کے بجائے فائدہ پہنچا اور ایسے لوگوں سے نجات مل گئی جو اس ملک کو روس‘ چین اور شمالی کوریا کے قریب کرنا چاہتے تھے۔ ان لوگوں کا خیال ہے کہ اگر سوشلسٹ اپنے مقاصد میں کامیاب ہو جاتے تو ہمارے لیے امریکی ہمدردی ہو جاتی۔ وہ کھل کر ہمارا ساتھ نہ دیتا‘ اس کا نتیجہ یہ نکلتا کہ جاپان اقتصادی اور صنعتی ترقی کی اس منزل پر نہ ہوتا جس پر آج ہے۔ وہ اس سوال کی طرف نہیں آتے کہ سی آئی اے کا یہ اقدام جاپان کے اندرونی معاملات میں براہِ راست مداخلت تھی اور جن لوگوں نے خفیہ فنڈز استعمال کیے انہوں نے قانون کی خلاف ورزی کی۔ غیرجانبدار اور سنجیدہ سیاسی حلقے ایل ڈی پی پر کڑی تنقید کر رہے ہیں اور یہ مطالبہ بھی کیا جارہا ہے کہ حکمراں جماعت کو ملنے والے چندے اور اخراجات کا آڈٹ کرایا جائے۔ اگرچہ اس مطالبے کی زیادہ اہمیت نہیں ہے کیونکہ خفیہ ذرائع سے ملنے والی رقوم کا کہیں حساب کتاب نہیں رکھا جاتا مگر اس مطالبہ سے سنجیدہ حلقوں کی اس تشویش کا اظہار ضرور ہوتا ہے کہ قومی معاملات میں اس طرح کی غیرملکی مداخلت نہیں ہونی چاہیے اور ایل ڈی پی کے ان رہنماؤں سے باز پرس ہونی چاہیے جنہوں نے مالی فائدے کی خاطر سی آئی اے کو مداخلت کی اجازت دی۔ کچھ مبصرین کا خیال ہے کہ امریکا ستمبر میں آنے والی نئی حکومت کو دباؤ میں رکھنا چاہتا ہے۔ اس کی وجہ یہ اطلاعات ہیں کہ کوئزمی کے بعد آنے والی حکومت امریکی فوج کے لیے مراعات میں شاید کچھ کمی کر دے۔ جن علاقوں میں امریکی فوج کے اڈے ہیں‘ وہاں عوام شدت کے ساتھ مطالبہ کرتے رہے ہیں کہ امریکی فوج کی تعداد کم کی جائے۔ کوئزمی اپنی ذاتی سیاسی طاقت کی وجہ سے اس مطالبہ کو دباتے رہے اور کام چلاتے رہے۔ امریکا کا خیال ہے کہ کوئزمی کے بعد آنے والا نیا وزیراعظم کئی مختلف فیصلے بھی کر سکتا ہے اور اگر خفیہ فنڈز کی تلوار اس کے سر پر لٹکتی رہے گی تو وہ امریکا کے دباؤ میں رہے گا اور اپنے وزیروں کو بھی دباؤ میں رکھے گا۔ امریکا کی یہ باتیں کہاں تک کامیاب ہوتی ہیں‘ اس کا فیصلہ ستمبر کے بعد ہو گا۔
(بشکریہ: روزنامہ ’’المنصف‘‘ حیدرآباد دکن)
Leave a Reply