جاپان امداد لینے کے بجائے تعمیر نو میں مصروف

کوجی باگا اس سونامی کے قریب نہیں تھا، جس نے گیارہ مارچ کو جاپان میںتباہی و بربادی پھیلادی تھی، بلکہ وہ اس سونامی کے اوپر تھا۔ وہ اپنی مچھلی پکڑنے کی کشتی میں کپتانی کررہا تھا کہ سونامی کی لہروں نے اس کی کشتی کو منجدھار میں ڈال دیا۔ اس کی کشتی لہروں کے زبردست اتار چڑھائو میں ڈولتی رہی۔ سونامی کی شدت سے پیدا ہونے والی طاقتور سمندری لہروں نے ساحل سمندر پر حملہ کر کے کوجی باگا کے آبائی ساحلی علاقے کو اتھل پتھل کر کے تباہ شدہ چیزوں کا ایک قبرستان بنا دیا۔ جاپان کے شمالی حصے میں تقریباً دس ہزار افراد موت کے گھاٹ اتر گئے۔ میں، کوجی باگا سے سونامی کے ۲۴ گھنٹے بعد اس کی واپسی پر عین اس مقام پر ملا جہاں کبھی اس کا مکان ہوا کرتا تھا۔ اس کے مکان کی بنیادوں سے کچھ دور چھت کا ملبہ بکھرا ہوا پڑا تھا۔ وہاں کوئی چیز ایسی باقی نہیں بچی تھی جس سے یہ شناخت کیا جاسکتا کہ کبھی یہاں اس کا کوئی مکان ہوتا تھا۔ اس اجڑے اور برباد شدہ منظر نامے میں چند ایک ایسی علامتیں ضرور ادھر ادھر بکھری پڑی تھیں جن سے اس کے گھر کی شناخت ہوتی تھی۔ اس کے زیر آب آنے والے خاندان کی ایک فیملی البم الٹی ہوئی کار میں پڑی تھی، جبکہ اس کی بچی کے چہرے پر لگانے والی گلابی کریم کیچڑ میں لتھڑی پڑی تھی۔ باگا نے اپنے خاندان کی ان بچی کھچی باقیات کو نظرانداز کرتے ہوئے اپنے بھوکے خاندان کے لیے نرم چاولوں کی تلاش شروع کردی۔ اس کا خاندان اور اس کے پڑوسی سونامی کی تباہ کن لہروں سے بچ نکلے تھے، کیونکہ وہ ایک اونچی جگہ پر اکٹھے ہوگئے تھے۔ ایک ماہی گیر ہونے کے ناطے وہ بچا ہوا غلّہ ایک بورے میں اکٹھا رکھتا ہے، اس نے پوری جرأت کے ساتھ یہ غلّہ دکھاتے ہوئے کہا اب اسے پوری فیاضی کے ساتھ تباہ حال خطہ میں بانٹا جائے گا۔ یہ ایک حیرت انگیز بات تھی کیونکہ ایسی آفت کے بعد تو جس کے پاس جو چیز ہوتی ہے وہ اسے چھپا لیتا ہے مگر یہاں ایسا نہیں تھا۔ باگا کو اس بات کا اعتراف تھا کہ چاول خراب ہو گیا ہے، پھر بھی اس نے مجھ سے کچھ چاول چکھنے کو کہا۔ اگلے دن باگا ’’اکایوشی‘‘ کے دوسرے زندہ بچ جانے والے لوگوں سے ملا اور پھر انہوں نے مل جل کر ایک گائوں کی آہستہ آہستہ صفائی کا عمل شروع کر دیا۔

جبکہ حقیقت یہ ہے کہ عملاً یہ گائوں نقشے پر سے معدوم ہو چکا تھا۔ ان سب لوگوں نے امداد کے حصول کے لیے جدوجہد کرنے کے بارے میں سوچا تک نہیں اور اپنے ہی بچے کھچے سامان کے ساتھ اپنے گائوں کی تعمیر نو شروع کردی۔ باگا نے پورے یقین کے ساتھ کہا کہ ہم سب مل کر عملاً بھرپور کوشش کر رہے ہیں کہ اس گائوں کو دوبارہ وجود میں لے آئیں۔ اس کی آواز میں کوئی لرزش نہیں تھی بلکہ وہ جاپانی طور طریقوں کے مطابق اپنے عزم مصمم کااظہار کر رہا تھا۔ یہی جاپانیوں کی روایت ہے۔ قدرتی آفات کھرے کھوٹے کی پہچان کرا دیتی ہے۔ سارا غرور اور عیاری دھری کی دھری رہ جاتی ہے۔

جاپان کا المیہ بڑا سنگین ہے۔ پہلے تو زلزلہ آیا اور اس کے بعد قاتل سونامی نے تباہی و بربادی پھیلانی شروع کر دی۔ اس ہلاکت خیزی میں مزید اضافہ جاپان کے ایٹمی بجلی گھر حادثے کی وجہ سے ہو گیا۔ زلزلے کے جھٹکوں اور سمندر کی خوفناک لہروں کی وجہ سے یہ جوہری پلانٹ تباہ ہو گیا تھا۔ لیکن جاپانیوں نے امدادی کارروائیاں جاری رکھیں۔ جاپانی عوام نے جوہری حادثے پر کوئی واویلا مچائے بغیر قابل ذکر طور پر خاموشی دکھائی اور جو لچک اختیار رکھی ایک طرح سے ان کی قومی نفسیات کا حصہ ہے، لیکن باوقار روایتی فلسفے پر عمل کرتے ہوئے جاپانیوں نے جس طرح اس المیے کو برداشت کیا ہے وہ انتہائی قابل قدر ہے۔ جاپان کے اس لچک دار رویے کو بتدریج ان کی اس نفسیاتی شناخت سے تعبیر نہیں کیا جاسکتا جو جاپانی عوام کے مزاج کا ایک حصہ ہے، بلکہ اس کا اظہار تو اس قوم کے اس جذبے سے ہوتا ہے جو وہ ہر حادثے کو برداشت کرنے کے لیے تیار رہنے کے عمل سے کرتی ہے۔ جوں جوں آئندہ دنوں سونامی اور جوہری حادثے سے ہلاک ہونے والوں کے اعداد و شمار میں اضافہ ہوتا جائے گا اسی اعتبار سے اس قوم کی تیار رہنے کی صلاحیت میں اضافہ ہوتا جائے گا۔

اس میں کوئی شبہ نہیں کہ جاپان نے سونامی اور زلزلے سے محفوظ رہنے کے لیے مجموعی طور پر جو پیشگی انتہائی نظام وضع کیا تھا یقینا اس کے نتیجہ میں جاپان میں موجود قدرتی آفت کے نتیجے میں ہزاروں افراد کو محفوظ رکھا جا سکا۔ اب جاپان اپنی تاریخ کے ایک بدترین قدرتی المیے کے مضمرات پر قابو پانے کی جدوجہد کر رہا ہے۔ دیکھا جائے تو ۱۱؍ مارچ کو جاپان میں آنے والا زلزلہ قوت کے اعتبار سے جدید دور کا بدترین زلزلہ تھا، لیکن اس زلزلے میں ۱۹۲۳ء کے جاپان میں آنے والے زلزلے کے مقابلے میں بہت کم لوگ ہلاک ہوئے۔ ۱۹۲۳ء کا جاپانی زلزلہ کانٹو کا عظیم زلزلہ کہلاتا ہے۔ جاپانی قوم کے لیے یہ بات بڑی جرأت مندانہ ہے کہ وہ بحیثیت قوم کسی بھی نقصان کو برداشت کرنے اور ایک نئی ابتدا کرنے کے لیے ہر وقت تیار رہتی ہے۔

جاپان اپنے جغرافیائی حدود اربعہ کے اعتبار سے ایک براعظم کے سرے پر واقع ہے۔ اس کے ساتھ ہی وہ ایک ایسے حساس خطے میں واقع ہے جہاں بے شمار زلزلے آتے ہیں۔ جاپان اپنی تمام جدید ترقی، آسائشوں اور تکلفات کے باوجود ایک ایسا ملک ہے جو تباہی کے دہانے پر بیٹھا ہے۔ حد یہ ہے کہ جاپانی زبان میں بھی ایسے استعارے موجود ہیں کہ تیار رہنے کے عمل کو کس طرح قومی بیداری کے عمل سے تعبیر کیا جائے۔ زلزلے زدہ علاقوں کے جاپانی اپنے اوپر بیت گئی اس قیامت کو جاپانی زبان میں کامن کہتے ہیں۔ ایک اور لفظ شاگامی بھی استعمال کیا جاتا ہے، جس کا مطلب یہ ہے کہ آپ اس سلسلے میں کچھ نہیں کر سکتے۔

لیکن ایسا کہنا کچھ زیادہ صحیح نہیں ہے، اگرچہ جاپانی زلزلے کو آنے سے نہیں روک سکتے تو وہ انتہائی خاموشی سے زلزلہ زدگان کی امداد و بحالی تو جاری رکھتے ہیں۔ جاپانیوں کی نوجوان نسل، جس نے دوسری جنگ عظیم کا جاپان نہیں دیکھا وہ متحد ہو کر اس المیے پر حاوی آنا چاہتی ہے۔ ایک ۲۴ سالہ جاپانی گریجویٹ طالب علم ممیکو شمیزو کا کہنا ہے کہ اب یہ ہمارا وقت ہے کہ ہم جاپان کی تعمیرنو کریں۔ حالیہ زلزلہ اور سونامی یقینا تاریخی اعتبار سے ایک بدترین قدرتی آفت قرار دیے جاسکتے ہیں۔ یہ ۲۰۰۵ء میں آنے والے سمندری طوفان کترینا سے بھی کہیں زیادہ شدید اور مہلک تھے۔ اس قدرتی آفت کی تباہ کاری کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ ۱۶ مارچ کو شہنشاہ جاپان اکی ہیٹو نے ٹیلی ویژن پر قوم سے خطاب کیا۔ شہنشاہ اکی ہیٹو نے جب سے تاج و تخت سنبھالا ہے اپنی قوم سے ٹیلی ویژن پر یہ ان کا پہلا خطاب تھا۔ انہوں نے کہا وہ دعا کر رہے ہیں کہ زیادہ سے زیادہ جاپانی ان اندوہناک آفتوں سے محفوظ رہیں۔ یہی بات جاپانی وزیراعظم نائوٹوکان اپنی روزانہ کی پریس بریفنگ میں دکھ بھرے لہجے کے ساتھ کہتے رہے ہیں۔

بلاشبہ انسانی جانوں کے زیاں کے باوجود جاپان کے جدید ترین زلزلہ و سونامی کے خطرے سے پیشگی متنبہ کرنے والے نظام نے ہر شخص کے لیے پریشانیوں میں اضافہ کر دیا ہے۔ میں ان آفات سے زندہ بچنے والے جن لوگوں سے بھی ملا انہوں نے ایک ہی جیسی کہانی سنائی۔ پہلے تو زلزلے کے جھٹکوں نے خوف و ہراس پھیلایا۔ پھر ریڈیو کی نشریات، ٹیکسٹ پیغامات خطرے کے سائرن، آگ بجھانے والے عملے کی گھر گھر طلبی اور تعلیمی اداروں میں طلبہ کو زلزلوں اور سونامی سے ہوشیار رکھنے کے لیے جو مشق کرائی جاتی رہی، اس کی بدولت مجموعی طور پر جاپانی قوم خصوصاً ساحلی علاقوں میں رہنے والے فوری طور پر اپنے گھروں سے نکل بھاگے اور اونچے علاقوں میں جاکر پناہ لی۔

جاپان اس کرۂ ارض پر وہ واحد ملک ہے جہاں زلزلے کی اطلاع دینے کا پیشگی نظام نصب ہے۔ اس لحاظ سے بھی جاپان وہ واحد ملک ہے جہاں صحیح معنوں میں سونامی کی پیشگی اطلاع دینے والا نظام بھی نافذ ہے۔ اور یہ نظام کامیابی سے بروئے کار لایا جارہا ہے۔ ۳۰۰ زلزلہ پیما اسکینر علاقائی پانیوں میں دور دور تک نصب کیے گئے ہیں۔ جس کی بناء پر منٹوں پہلے سونامی کی پیشگوئی ممکن ہو گئی ہے۔ سونامی سے اخراج کے راستے میں ساحل کے ساتھ ردوبدل ہوتا رہتا ہے۔ چنانچہ جب بھی حکومت انخلاء کا کہتی ہے تو جاپانی عوام اس پر کان دھرتے ہیں۔ لیکن اس سلسلے میں حکومت کے طریقہ کار کے عین مطابق انخلاء ممکن نہیں ہوتا۔ تاہم تباہی آنے کی صورت میں نہ کوئی لوٹ مار ہوتی ہے اور نہ کسی قسم کے فسادات پھوٹ پڑتے ہیں۔ حد یہ کہ زلزلہ زدگان انتہائی سرد موسم میں بھی کلومیٹر طویل قطاروں میں خوراک، پانی اور ایندھن کے حصول کے لیے اپنی باری کا انتظار کرتے رہے۔ اگر طویل قطار میں کھڑے رہنے کے باوجود بھی انہیں راشن کے حصول میں کامیابی نہیں ہوتی، تب بھی ان کے مزاج میں جھنجھلاہٹ نہیں آتی اور نہ ہی انہوں نے کسی غم و غصہ کا اظہار کیا۔ البتہ بنیادی اشیاء کی راشننگ کے نظام میں بعض کوتاہیوں کی نشاندہی ضرور کی گئی۔ اس سلسلے میں جاپانیوں کا فلسفہ یہ ہے کہ تکلیف کو بھی سب کو مشترکہ طور پر برداشت کرنا چاہیے۔

مسودہ مڈل اسکول جو کہ سونامی کے سینکڑوں ایمرجنسی سینٹروں میں سے ایک ہے اور جہاں ساڑھے چار لاکھ بے گھر مصیبت زدگان کو ٹھہرایا گیا ہے، وہاں لائوڈاسپیکر پر انتہائی دلچسپ انداز میں اعلانات کیے جاتے ہیں، مثلاً آیئے گرما گرم چاول جاپانی روایتی طریقے پر کھایئے۔ اسی طرح مچھلی کی خوراک کے بارے میں اعلان ہوتا ہے کہ یہ کچھ زیادہ ہی مصالحہ دار ہے۔ اس لیے چھوٹے بچوں کے لیے مناسب نہیں ہے اسی طرح ’’کوئی زوی مڈل اسکول‘‘ کے ایمرجنسی سینٹر میں پناہ گزینوں کو اسکول کے اندر جوتے پہننے کی اجازت نہیں اور اخبارات رکھنے کے لیے جو ڈبے بنائے گئے ہیں ان میں سونامی زدگان کو جوتے رکھنے کی اجازت ہے۔ انتہائی متاثرہ علاقوں میں بھی جاپانی عوام نے اپنی خوش طبعی کو برقرار رکھا ہے۔ جاپانیوں نے اس سلسلے میں غیر ملکی امدادی جماعتوں کے سامنے کوئی رونا دھونا نہیں کیا۔ اگرچہ انہوں نے اس سانحے پر آنسو ضرور بہائے۔ لیکن نہ وہ روئے نہ ہی چیخے چلائے۔ جب ایک ۷۶ سالہ جاپانی مشاہیرہ کوسمو سوٹو کے اس قیامت خیز آفت کے تین دن بعد پتا چلا کہ اس کی گمشدہ بیٹی زندہ ہے تو اس نے آہستگی سے بڑ بڑاتے ہوئے کہا کہ ’’وہ اوکے ہے۔ وہ اوکے ہے‘‘۔

(بشکریہ: سہ روزہ ’’دعوت‘‘ دہلی۔ ۱۶؍اپریل ۲۰۱۱ء۔ ترجمہ: افتخار جمیل)

Be the first to comment

Leave a Reply

Your email address will not be published.


*