
اس کا اندازہ پیدل چلنے والے لوگوں سے بھری ٹوکیو کی شاہراہوں پر نہیں ہوتا لیکن جاپان کے اژدہام میں بہت کمی آرہی ہے۔ اس کا سہرا عورتوں کی تولیدی صلاحیت کو جاتا ہے۔ ہر خاتون کی تولیدی شرح گھٹ کر ۱ء۲۵ رہ گئی ہے جو کہ مطلوبہ شرح ۲ء۱ سے بہت کم ہے جس کے بغیر جاپان کی آبادی میں استحکام ممکن نہیں۔ آئندہ سال جاپانیوں کی تعداد کو کافی اونچا لے جانا مقصود ہے لیکن اس کے بعد تیزی سے گھٹا کر ۲۱۰۰ء تک ۶۴ ملین تک لے آنے کا منصوبہ ہے‘ جو کہ موجودہ آبادی کی نصف تعداد ہو گی۔ یہ صرف کشادگی کاملہ نہیں ہے: تھوڑے بچوں کا مطلب تھوڑی نوجوان نسل ہے جس کا مطلب تھوڑے کارآمد کارکن ہیں کہ جن کے بغیر جاپان کی معیشت کو برسرِ ترقی رکھنا مشکل ہو گا۔ عمردراز لوگوں پر مشتمل آبادی سوشل سروسز پر بہت بڑا بوجھ ہو گی۔ لہٰذا سیاست دانوں نے بھی بچوں کے باپ کی طرح ہی خوشی کا اظہار کیا‘ جب گذشتہ ہفتہ وزارتِ محنت اور صحت نے یہ رپورٹ دی کہ جنوری سے جون تک کی مدت میں جاپان کی آبادی میں ۲ء۲ فیصد کا اضافہ ہوا ہے۔ یہ چھ سالوں میں پہلا اضافہ ہے۔ ماہرین مردم شماری کا کہنا ہے کہ بچے پیدا کرنے والی یہ مائیں تقریباً ۳۰ سال کی عمر کی ہیں اور وہ جنگ کے بعد زیادہ بچے پیدا کرنے والی ماؤں کی بیٹیاں ہیں جن کی شادی تاخیر سے ہوئی ہے اور اب ان کے بچے پیدا ہو رہے ہیں‘ جس سے بالآخر معیشت کو دوبارہ تقویت ملے گی۔ ان کا دیر سے آغاز کرنا یہ ظاہر کرتا ہے کہ وہ بہت زیادہ بچے پیدا نہیں کر سکیں گی‘ جتنی کہ جاپان کو ضرورت ہے۔ نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف پاپولیشن اور سوشل سکیورٹی ریسرچ کے ایک تحقیق کار Ryuichi Kaneko کا کہنا ہے کہ آبادی کی اس کمی سے کوئی مفر نہیں ہے: ’’اس وقت ہمارے پاس نوجوانوں کی تعداد بہت کم ہے چنانچہ اگر ایک عورت پہلے کے مقابلے میں کچھ زیادہ بچے بھی جن لیتی ہے تو اس سے بہت فرق نہیں پڑے گا‘‘۔ اگر یہ بات صحیح ہے تو جاپان کی آبادی میں ہونے والی گراوٹ کی تلافی ناممکن ہے۔
(بشکریہ: ’’ٹائم‘‘ میگزین۔ شمارہ: ۴ ستمبر ۲۰۰۶ء)
Leave a Reply