
جغرافیائی طور پر جاپان اور برطانیہ کزن ہیں۔ دونوں ہی یوریشیا سے ہٹ کر جزیرے پر مشتمل ریاست ہیں۔ سیاسی و جغرافیائی اعتبار سے دیکھا جائے تو ان کے درمیان زیادہ فرق نہیں پایا جاتا ہے۔ برطانیہ کو یوریشیا کے مغربی حصے میں دو سپر طاقتوں کا ساتھ حاصل ہے۔ نیٹو کا حفاظتی حصار میسر ہے۔ یورپی یونین کی شکل میں معاشی تحفظ فراہم کرنے والا میکینزم بھی دستیاب ہے۔ دوسری جانب جاپان چار ہزار جزائر پر مشتمل ہے اور درجنوں فلیش پوائنٹس موجود ہیں۔ عسکری سطح پر رونما ہونے والی تبدیلیاں جاپان پر رعشہ طاری کرنے کے لیے کافی ہیں۔ ایک طرف روس ہے اور دوسری طرف چین۔ جاپان کے جزائر پر ملکیت کا دعویٰ کرنے والوں میں روس اور چین دونوں شامل ہیں۔ یہ صورت حال جاپان کے لیے مستقل درد سر کی حیثیت رکھتی ہے۔ نیٹو کے ارکان تو ایک دوسرے کی حفاظت کے لیے جان کی بازی لگا دیتے ہیں مگر جاپان کا معاملہ یہ ہے کہ اس کے دفاع کی ذمہ داری صرف امریکا نے اپنے سر لے رکھی ہے۔ ۱۹۵۱ء کے معاہدے کے تحت امریکا جاپانی سرزمین کی حفاظت کے لیے اپنے نوجوانوں کو داؤ پر لگانے کا پابند ہے تاہم جاپان پر ایسا کوئی دباؤ نہیں۔
۱۹۴۵ء میں دوسری جنگ عظیم ختم ہو جانے پر جو معاہدے ہوئے ان کے تحت جاپان کو پہلی امن پسند صنعتی سپرپاور کی حیثیت سے ابھرنے کا موقع ملا۔ یہ ایسی سپر پاور تھی جس سے اس کے پڑوسیوں کو کوئی خطرہ لاحق نہ تھا تاہم اب اس سپر پاور کو اس کے پڑوسیوں سے خطرات لاحق ہیں۔
ایشیا میں ایک بار پھر سخت گیر قوم پرستی سر اٹھا رہی ہے۔ ۱۹۸۹ء میں تیان من اسکوائر کے واقعے کے بعد چینی قیادت نے طے کیا کہ نوجوانوں کو جمہوریت سے دور رکھنے کا بہترین طریقہ یہ ہے کہ ان میں دوبارہ حب الوطنی پر مشتمل قوم پرستی پیدا کردی جائے۔ جارج آرول کے نقش قدم پر چلتے ہوئے جیانگ زیمن نے چین بھر کے اسکولوں میں جاپان کو سب سے قابل نفرت ملک بناکر پیش کیا۔ ۲۰۰۵ء میں چین کے وزیر تعلیم نے کہا کہ اسکولوں کو حب الوطنی پر مشتمل تعلیم کو مرکزی نکتہ بنانا چاہیے اور جاپان سے جنگ کے بارے میں بچوں کو بتانا چاہیے۔
۹۵۔۱۸۹۴ء کی جنگ کے بعد جاپان نے مشرقی بحیرہ چین میں چند غیرآباد جزائر پر قبضہ کرلیا تھا۔ گزشتہ ستمبر میں جاپان نے چین کے ایک فشنگ ٹرالر کو پکڑا تو چین بھر میں جاپانی کاروباری اداروں پر حملے ہوئے اور کئی جاپانی کاروباری شخصیات کو گرفتار کرلیا گیا۔ چین نے جاپان کی آٹو موبائل انڈسٹری اور دیگر شعبوں میں استعمال ہونے والے بنیادی خام مال کی برآمد روک دی۔ جاپان نے گھٹنے ٹیک دیے اور چین کا فشنگ ٹرالر چھوڑ دیا، ماہی گیر رہا کر دیے۔ یہ جاپان کے لیے ایک بڑا نفسیاتی دھچکا تھا۔ چین کے لیے یہ قوم پرستی کے حوالے سے بڑی فتح تھی۔
چین کی معاشی قوت کے ساتھ ساتھ عسکری قوت میں بھی اضافہ ہوتا جارہا ہے۔ اس صورت حال کو جاپان شدید خوف کی حالت میں دیکھ رہا ہے۔ جاپان کے دفاعی ماہرین کہتے ہیں کہ ۲۰۲۰ء تک چین بھی دفاع کے شعبے میں امریکا کے مساوی خرچ کر رہا ہوگا۔ چین اب تک یہ دعویٰ کرتا آیا ہے کہ وہ صرف اپنے دفاع کے لیے ہتھیاروں اور فوج پر خطیر رقوم خرچ کر رہا ہے۔ اب وہ طیارہ بردار جہاز بنا رہا ہے اور بحر ہند میں فوجی اڈے قائم کرنے کے لیے مذاکرات کر رہا ہے۔ چین کی فضائیہ کا معیار بھی دن بہ دن بلند تر ہوتا جا رہا ہے۔ اس کے پاس جدید ترین لڑاکا طیارے ہیں۔ فضائی نگرانی کا جدید ترین نظام بھی چینی فضائیہ کا حصہ ہے۔ چین نے پاکستان اور مصر کو نسبتاً کم قیمت پر لڑاکا طیارے فراہم کرنا بھی شروع کر دیے ہیں۔
ایک اہم سوال یہ ہے کہ جاپان کب تک ٹوکیو سے ہزاروں کلو میٹر کے فاصلے پر واقع غیرآباد جزائر پر قبضے کی کوششوں کی مخالفت یا مزاحمت کرتا رہے گا؟ بھارت نے ۱۹۶۱ء میں گوا پر اور ارجنٹائن نے ۱۹۸۲ء میں فاک لینڈ جزائر پر قبضہ کیا تھا۔
جاپان کو شمالی کوریا سے بھی شدید خطرہ لاحق ہے۔ بعض معاملات میں وہ بے طاقت اور بے اختیار دکھائی دیتا ہے۔ نیٹو ممالک کے پارلیمانی ارکان سے حالیہ گفتگو میں جاپانی وزارتِ دفاع کے ایک اعلیٰ افسر نے کہا کہ شمالی کوریا کی خام قومی پیداوار اگرچہ جاپان کے دفاعی بجٹ کے مساوی ہے تاہم اگر وہ میزائل داغ دے تو جاپان اپنے دفاع میں کچھ بھی نہیں کر پائے گا۔ دوسرے ممالک تو اپنے دفاع کے لیے بہت کچھ کرسکتے ہیں، جاپان کا آئین اسے دفاعی تیاریوں سے دور رہنے کا حکم دیتا ہے۔ اس صورت حال کا نتیجہ یہ برآمد ہوا ہے کہ جاپان کے پاس ایٹمی ہتھیار ہیں نہ وہ میزائل داغے جانے کی صورت میں اپنا دفاع کرسکتا ہے۔ جاپان کے سالانہ دفاعی بجٹ میں بھی کمی واقع ہوتی جارہی ہے۔
امریکا طاقت کے توازن کا کھیل کھیل رہا ہے۔ بھارت اور چین سر پر کھڑے ہیں۔ ایسے میں تیزی سے بوڑھا ہوتا ہوا جمہوری جاپان اپنے دفاع کے لیے کیا کرسکتا ہے؟ کیا اسے سیکورٹی کے حوالے سے اپنے تمام انڈے امریکی باسکٹ میں رکھ دینے چاہییں؟ کیا جاپان کو نیٹو جیسے کسی جمہوری اتحاد کا حصہ بن جانا چاہیے؟ یا جاپان کے غیر فوجی آئین میں موزوں ترامیم کی ضرورت ہے تاکہ بڑھتی ہوئی معاشی قوت اور علاقائی چیلنجز سے نمٹنے کی عمدہ تیاری کی جاسکے؟
کسی پارٹی میں خاندان کا کوئی بوڑھا جس طرح الگ تھلگ، تنہا بیٹھا رہتا ہے اس طرح عالمی برادری میں بیٹھے رہنے کے بجائے جاپان کو زیادہ توانائی اور عزم کی ضرورت ہے۔ اس کی سیاست کا رخ بھی اب تبدیل ہونا چاہیے۔ جاپان کو اکیسویں صدی کے تقاضوں سے ہم آہنگ سیکورٹی پالیسی اپناکر تبدیلی کی ابتدا کرنی چاہیے۔
(ڈینس میکشین برطانوی دفتر خارجہ میں نمبر ٹو رہ چکے ہیں۔)
(بشکریہ: ’’نیوز ویک‘‘ پاکستان۔ ۸ نومبر ۲۰۱۰ء)
Leave a Reply