ایشیا کی معیشتیں عالمی سطح پرتیزی سے ابھر رہی ہیں۔ جاپان ایک زمانے سے دوسری بڑی معیشت کا کردار ادا کرتا آیا ہے۔ اب جاپانی بزنس مین مغربی انداز کی قیادت کو اپنانے کے موڈ میں ہیں اور اس کے لیے انہوں نے اپنے اسکولوں کا ڈھانچا تبدیل کیا ہے۔ تعلیم اور تعلم کے حوالے سے نئے رجحانات کو اپنایا جارہا ہے۔ بیشتر اسکول اب اس مقصد کے تحت کام کر رہے ہیں کہ ایشیا کی سطح پر قائد کا کردار ادا کرنے والے طلبہ تیار کیے جائیں۔
لن کوبایاشی ٹوکیو کے نواح میں ایک بزنس ایجوکیشن فاؤنڈیشن قائم کرنا چاہتی ہیں۔ انہیں یقین ہے کہ ان کا ادارہ ایشیا کی سطح پر سوچنے والے ’’بزنس لیڈر‘‘ تیار کرنے میں اہم کردار ادا کرے گا۔ انٹرنیشنل اسکول آف ایشیا کاروزاوا کی عمارت کی بنیاد ستمبر میں ڈالی گئی۔ لن کوبایاشی کو یقین ہے کہ یہ ادارہ، جہاں صرف انگریزی میں تعلیم دی جائے گی، جب ۲۰۱۴ء میں کام شروع کرے گا، تو جاپان کے پہلے انٹرنیشنل بورڈنگ ہائی اسکول کی حیثیت سے قائدانہ صلاحیت کے حامل افراد تیار کرنے میں مرکزی کردار ادا کرے گا۔
۳۸ سالہ لن کوبایاشی مالیاتی تجزیے کی امریکی فرم اسٹینلے مورگن میں تجزیہ کار کی حیثیت سے کام کرچکی ہیں۔ وہ جس نوعیت کا اسکول قائم کرنا چاہتی ہیں، اس سے مختلف ثقافتی اور معاشی پس منظر کے حامل طلبہ کو آگے آنے کا موقع ملے گا۔ جو طلبہ فیس ادا کرنے کے قابل نہیں ہوں گے، انہیں عطیات کی مدد سے اسکالر شپ فراہم کی جائے گی۔ وہ برطانوی ہیرو یا ڈلوچ کالج طرز کے اعلیٰ تعلیم کے ادارے قائم نہیں کرنا چاہتی ہیں، جن کے کیمپس تھائی لینڈ، ہانگ کانگ اور چین میں ہیں۔ یہ ادارے اشرافیہ کے بچوں کے لیے ہیں۔
کوبایاشی اس تصور کے ساتھ کام کر رہی ہیں کہ ایشیا میں مغربی انداز کی قائدانہ صفات پیدا کی جائیں اور اس مقصد کے حصول کے لیے بچوں کو چھوٹی عمر سے بہت کچھ پڑھایا اور سمجھایا جائے۔ ان کا کہنا ہے کہ معیشتی میدان میں ایشیا تیزی سے ابھر رہا ہے، مگر اب تک قیادت کا بحران یا فقدان موجود ہے۔ اب کاروباری اور علمی دنیا میں ایسے قائدین تیار کرنے کی ضرورت ہے جو ایشیا کی مختلف ثقافتوں کا پس منظر اچھی طرح جانتے ہوں اور تمام متعلقہ اقدار کا احترام کرنے کا جذبہ بھی رکھتے ہوں۔
کوبایاشی جو ادارہ قائم کر رہی ہیں، اس کے لیے ابھی سے ماہرین کی خدمات میسر ہو رہی ہیں۔ اس کے بورڈ آف ڈائریکٹرز سے کئی بڑے نام جڑ چکے ہیں۔ جولائی میں اس ادارے نے تیسرے سالانہ دس روزہ پروگرام کا انعقاد کیا جس میں ۱۴؍ ممالک کے ۵۳ طلبا و طالبات نے حصہ لیا۔ اس کورس کی فیس تین لاکھ ین تھی۔ کوبایاشی کا کہنا ہے کہ ان کا ادارہ علاقے کی تاریخ پر خاص توجہ دے گا کیونکہ خطے میں بیشتر اختلافات تاریخی امور اور جغرافیائی حدود پر ہیں۔ جغرافیائی حدود کا بھی تاریخی پس منظر ہے۔ جاپان اور چین کے درمیان چند جزائر پر ملکیت کا تنازع دونوں ممالک کے اقتصادی روابط پر بری طرح اثر انداز ہو رہا ہے۔ چین اور جاپان کی تجارت کا حجم ۳۰۰؍ارب ڈالر سالانہ تک ہے۔ اب دونوں ہی ممالک کے تجارتی اور سرمایہ کار ادارے جزائر پر تنازع کے باعث پریشانی سے دوچار ہیں۔
کوبایاشی جانتی ہیں کہ کسی ایک پس منظر پر زور دینا مناسب نہ ہوگا۔ وہ چاہتی ہیں کہ ان کے ادارے میں کئی ممالک کے اساتذہ ہوں جو علاقائی تاریخ اور ثقافت کے پس منظر کو عمدگی سے ذہن نشین کرکے پڑھائیں۔ اِسی صورت وہ وسیع تر تناظر رکھنے والے قائدین تیار کرسکیں گے۔ فلسطین سے آنے والے ۱۳؍سالہ طارق حباش کا کہنا ہے۔ ’’میں ایک ایسے خطے سے آیا ہوں جس کے بہت سے مسائل ہیں۔ ہم اپنے مسائل حل کرنا چاہتے ہیں۔ مجھے امید ہے کہ میں ایسے اسکول میں بہت کچھ سیکھ سکوں گا جو بعد میں میرے ہی نہیں، میرے وطن کے بھی کام آئے گا‘‘۔
کوبایاشی کو اس بات کا اندازہ ہے کہ جاپان ٹیکنالوجی، سرمایہ کاری اور تجارت میں تو بہت اچھا رہا ہے مگر سیاسی امور میں اس کی کارکردگی اب تک زیادہ قابل رشک نہیں رہی۔ جاپانی سیاست دان بہت سے معاملات میں بحران سے نمٹنے کی صلاحیت نہیں رکھتے۔ حکومتیں نازک ہوتی ہیں، آسانی سے ٹوٹ جاتی ہیں۔ جاپانی سیاست دانوں میں بحرانی کیفیت سے نمٹنے کی صلاحیت کا کم کم پایا جانا اس امر کی اہمیت واضح کرتا ہے کہ اب باضابطہ ادارے قائم کرکے قائدانہ صلاحیتیں سکھائی جانی چاہئیں۔ کوبایاشی کو یقین ہے کہ ان کا ادارہ دیگر اداروں کے ساتھ مل کر جاپان میں سیاست کے حوالے سے آزاد سوچ کو پروان چڑھانے میں مرکزی کردار ادا کرے گا۔
کوبایاشی اس امر کا اعتراف کرتی ہیں کہ جاپان کا نظام تعلیم قائدانہ صلاحیتیں پیدا کرنے میں زیادہ معاون ثابت نہیں ہوتا۔ انہی اندازہ ہے کہ یہ کام پل بھر میں یا پلک جھپکتے میں نہیں ہو جائے گا۔ دوسری جنگ عظیم کے خاتمے پر جاپان تباہ ہوچکا تھا۔ اس مرحلے پر ایسا نظام تعلیم درکار تھا جس میں سب کے لیے سب کچھ برابر ہو۔ پورے ملک کے لیے یکساں نوعیت کا نظام تعلیم اس وقت کی ضرورت تھا، اب اس کی گنجائش نہیں رہی۔ لازم ہے کہ حکومت نظام تعلیم کو تبدیل کرے تاکہ طلبا میں مختلف صلاحیتیں تیزی سے پروان چڑھیں اور وہ زیادہ پُراعتماد انداز سے دنیا کا سامنا کریں۔ جاپان کی نئی نسل کو قائدانہ صلاحیتوں کے حوالے تربیت فراہم کرنے کی ضرورت ہے اور کوبایاشی کو یقین ہے کہ نئے اداروں کے قیام سے یہ مرحلہ بھی طے کرلیا جائے گا۔ یکساں سوچ رکھنے والے طلبا نے ماضی میں ملک کی معیشت کو بحال کرنے میں مرکزی کردار ادا کیا مگر اب یہی سوچ معیشت اور سیاست دونوں پر اثر انداز ہو رہی ہے۔ اب ایسے نوجوانوں کی ضرورت ہے جو لگے بندھے انداز سے سوچنے کے بجائے آزاد سوچ اپنائیں، کسی بھی معاملے کے تمام پہلوؤں پر نظر رکھتے ہوں اور اس حوالے سے اپنی سوچ کو بہترین ڈھنگ سے آگے بڑھانے کے لیے تیار بھی ہوں۔
اوساکا یونیورسٹی میں لیڈر شپ ایجوکیشن کے ماہر یوشیاکی نومورا کہتے ہیں کہ کوبایاشی نے جس اسکول کا تصور دیا ہے وہ وقت کی ضرورت ہے۔ جاپان کو نئی تعلیم اور تربیت درکار ہے۔ اس کے لیے لازم ہے کہ نئے اسکول قائم کیے جائیں جو عالمی معیارات کے مطابق ہوں۔ کلاس روم میں بہت کچھ سکھایا جاسکتا ہے مگر حقیقی تربیت تو عملی زندگی میں ہوتی ہے، یعنی جاب پر رہتے ہوئے۔ جب انسان کسی فیلڈ میں کام کرتا ہے تو اس میں بھرپور اعتماد پیدا ہوتا ہے اور وہ کسی بھی مسئلے کے حل کے لیے حقیقی قابلِ عمل سوچ اختیار کرتا ہے۔
یونیورسٹی آف ٹوکیو میں اعلیٰ تعلیم کے پروفیسر جون ناکاہارا کہتے ہیں کہ قیادت سے متعلق مغربی اصولوں اور تجربات سے ہم بہت کچھ سیکھ سکتے ہیں۔ مگر ایشیا بہت مختلف ہے۔ ایشیا میں قیادت کا منصب سنبھالنے کے لیے ایشیائی اقدار کو ذہن نشین رکھنا ہوگا۔
(“Japanese School Aims to Create Asian Leaders”… “Dawn”. Nov. 24th, 2012)
Leave a Reply