دنیا بھر میں آبادی تیزی سے بڑھ رہی ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ رواں صدی کے وسط تک عالمی آبادی ۹ ارب سے زیادہ ہو جائے گی۔ دوسری طرف جاپان کی حالت یہ ہے کہ حکومت کے بہت سے پرکشش اقدامات کے باوجود آبادی ہے کہ بڑھنے کا نام نہیں لے رہی۔ دکانوں میں بڑے خاندانوں کو خصوصی رعایت دی جاتی ہے۔ حکومت نے بچوں کی پیدائش پر خصوصی مراعات رکھی ہیں۔ مگر پھر بھی بیشتر جاپانی مزید بچے پیدا کرنے میں زیادہ دلچسپی نہیں لے رہے۔
جاپان کا بنیادی مسئلہ یہ ہے کہ ایک طرف تو شرح پیدائش تیزی سے گر رہی ہے اور دوسری طرف، بہتر طبی سہولتوں، کم چربی والی روایتی خوراک اور تمام شہریوں کو حاصل میڈیکل انشورنس کی بدولت، معمر افراد کی تعداد میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے۔ شادی کا رجحان کمزور پڑ رہا ہے جس کے نتیجے میں نئے گھرانے معرض وجود میں نہیں آ رہے۔
آبادی سے متعلق امور پر نظر رکھنے والوں کا کہنا ہے کہ اگر جاپان میں آبادی کے حوالے سے رجحانات تبدیل نہ ہوئے تو چند ہی عشروں میں معمر افراد کی تعداد اس قدر ہو جائے گی کہ تیسری بڑی معیشت کے لیے ان کا بوجھ سنبھالنا انتہائی دشوار ہو جائے گا۔ ساتھ ہی معیشت کو نئے خون کی ضرورت بھی پڑے گی۔ شرح پیدائش میں غیر معمولی کمی کے باعث نوجوانوں کی تعداد میں خاطر خواہ حد تک اضافہ نہیں ہو رہا۔ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق جاپان کی آبادی اس سال ۱۲ کروڑ ۸۰ لاکھ تک پہنچی ہے۔ سرکاری رپورٹس میں جاپان سے جانے والوں کی تعداد واپس آنے والوں سے بہت کم ہے۔
آبادی میں تیزی سے رونما ہونے والی کمی جاپان کے لیے خطرے کی گھنٹی ہے۔ ٹوکیو میں قائم نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف پاپولیشن اینڈ سوشل سیکورٹی ریسرچ کا کہنا ہے کہ اگر موجودہ رجحانات برقرار رہے تو ۲۰۴۶ء تک جاپان کی آبادی ۱۰ کروڑ رہ جائے گی اور ۲۱۰۵ء تک یہ آبادی ۴ کروڑ ۵۰ لاکھ کی سطح پر آجائے گی۔
رائے عامہ کے مختلف جائزوں سے معلوم ہوا ہے کہ معاشی پریشانیوں اور چند معاشرتی مشکلات کے باعث جاپانیوں پر ذہنی دباؤ میں اضافہ ہو رہا ہے اور جاپانی خواتین و حضرات ایک دوسرے میں غیر معمولی دلچسپی لینے سے قاصر ہیں۔ مختلف الجھنوں کے باعث لوگ گھریلو زندگی میں زیادہ وقت صَرف نہیں کر پاتے اور بالخصوص میاں بیوی ایک دوسرے کو زیادہ وقت نہیں دیتے۔ دنیا بھر میں کسی بھی گھرانے کو بہتر زندگی بسر کرنے کے قابل بنانے کے لیے کم از کم دو بچے ناگزیر ہیں جبکہ جاپان میں فی گھرانہ ۳۴ء۱ بچوں کا اوسط ہے۔
نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف پاپولیشن اینڈ سوشل سیکورٹی ریسرچ میں آبادی سے متعلق امور کے ماہر فوتوشی اشائی کا کہنا ہے کہ حکومت نے آبادی میں اضافے کی تحریک دینے کے لیے بچوں کی پیدائش پر مراعات کا اعلان تو کیا ہے مگر اس کے اثرات ابھی مرتب ہونا شروع نہیں ہوئے۔
جاپان میں آبادی بڑھانے کے لیے حکومت ہی فکر مند نہیں، نجی شعبہ بھی بہت کچھ کر رہا ہے۔ بڑے اسٹوروں میں خاندانوں کے لیے خصوصی گفٹ واؤچرز کا اہتمام کیا گیا ہے اور کئی ویب سائٹس بھی لانچ کی گئی ہیں تاکہ لوگ شادی کی طرف متوجہ ہوں اور گھر بسائیں۔ ملک کی سب سے بڑی بزنس لابی کیڈینرن نے اپنے ۱۶۰۰ رکن اداروں کو اس بات کی تحریک دی ہے کہ وہ اپنے ملازمین کو فیملیز کے ساتھ زیادہ سے زیادہ وقت گزارنے کا موقع دیں، تاکہ آبادی میں اضافہ ہو۔
(بشکریہ: ’’دی گارجین‘‘لندن۔ ۲۵؍اکتوبر ۲۰۱۱ء)
Leave a Reply