جاپان میں بیشتر غیر ملکی اور بالخصوص امریکا اور برطانیہ کے باشندے جب عمومی بول چال کے لیے چند الفاظ سیکھتے ہیں تو ‘‘گن باتے کداسائی’’ ابتدائی مرحلے میں سیکھتے ہیں۔ امریکا اور برطانیہ میں رخصت ہوتے وقت یا کسی کو رخصت کرتے وقت کہا جاتا ہے کہ اپنا خیال رکھیے گا۔ جاپانی زبان میں ایسے مواقع پر ‘‘گن باتے کداسائی’’ کہا جاتا ہے جس کا مفہوم بالعموم یہ لیا جاتا ہے کہ اپنا خیال رکھنا یا محتاط رہنا۔ درحقیقت اس کا مفہوم یہ ہے کہ ڈٹے رہنا، حواس اور اعصاب کی مضبوطی کا ثبوت دینا۔
۱۱؍مارچ کو آنے والے سمندری زلزلے نے جاپانیوں کے اعصاب کی مضبوطی کا ایسا امتحان لیا ہے جو دوسری جنگ عظیم کے بعد سے کبھی سامنے نہیں آیا تھا۔ اس زلزلے سے جتنے بڑے پیمانے پر اموات واقع ہوئیں ان کے لیے آج کے ترقی یافتہ اور جدید ترین ٹیکنالوجی سے مزین ممالک تیار نہیں۔ اسی طور وہ اس نوعیت کے ایٹمی بحران کے لیے بھی تکنیکی اور نفسیاتی طور پر تیار نہیں جو جاپان کے علاقے فوکوشیما میں سمندری زلزلے کے باعث ایٹمی پلانٹ کی تباہی سے رونما ہوا ہے۔
جو کچھ سونامی سے جاپان میں ہوا ہے ویسے کسی بھی سانحے کے دور رس معاشی، سیاسی اور نفسیاتی مضمرات کے بارے میں کوئی بھی رائے قائم کرتے وقت ہمیں غیر معمولی محتاط رہنا چاہیے ۔ جاپان کو جس مرحلے سے گزرنا پڑا ہے اس کے تجزیے سے ترقی یافتہ ممالک کو کسی بھی بڑے ایٹمی سانحے سے نمٹنے کی تیاری کرنی چاہیے۔ اس سلسلے میں منظم سوچ اپنانے سے مہینوں بلکہ برسوں پہلے متعلقہ تیاری مکمل کی جاسکتی ہے۔
یہ بات سمجھنے کی ضرورت ہے کہ قدرتی آفات سے ہونے والی تباہی سے سب سے آخر میں متاثر ہونے والا شعبہ معیشت ہوتا ہے۔ اگر تکنیکی اعتبار سے دیکھا جائے تو قدرتی آفات کے وارد ہونے کی صورت میں مجموعی قومی پیداوار میں مختلف میعاد کے لیے کمی واقع ہوتی ہے۔ دفاتر اور کارخانوں کے تباہ ہونے سے معاشی سرگرمیاں کچھ مدت کے لیے متاثر ہوتی ہیں تاہم یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ کچھ ہی مدت گزرنے پر، مختلف پیکیجز کے اعلان سے، معاشی سرگرمیاں زور بھی پکڑ لیتی ہیں۔ ۲۰۰۵ء میں امریکا میں سمندری طوفان کترینہ کے بعد معیشتی سرگرمیوں میں اچانک تیزی آگئی تھی کیونکہ معیشت کے تباہ ہو جانے والے ڈھانچے کوبحال کرنے کے لیے حکومت نے کئی پیکیجز کا اعلان کیا تھا۔ اسی طرح جاپان میں ۱۹۹۵ء میں آنے والے کوبے کے زلزلے نے بھی معیشت کو تیزی سے ہمکنار کردیا تھا جس میں ساڑھے چھ ہزار لوگ زندگی کی بازی ہار گئے تھے، کیونکہ جاپانی حکومت نے تعمیر نو اور بحالی کے لیے بڑے پیمانے پر فنڈ مختص کیے تھے۔ تعمیر نو کے منصوبے شروع کیے جانے سے معاشی سرگرمیوں کو تیز کرنے میں خاصی مدد ملی کیونکہ بحالی اور تعمیر نو کے منصوبوں کو عملی جامہ پہنانے سے ملازمت کے نئے مواقع پیدا ہوئے اور آمدنی بڑھنے سے لوگ زیادہ خرچ کرنے کے قابل ہوگئے۔ کسی بھی قدرتی آفت کے وارد ہونے کی صورت میں انشورنس کمپنیاں بڑے پیمانے پر ادائیگی کرتی ہیں اور حکومت کے علاوہ سرمایہ دار ادارے بھی معیشت کی بحالی میں اپنا کردار ادا کرتے ہیں۔
جاپان کے تازہ بحران کی خاص بات یہ ہے کہ اس امر کا تعین بہت مشکل ہے کہ معیشت اور معاشرت کو خطرہ کس حد تک ہے۔ تابکاری کے اثرات کا درست اندازہ لگانے اور اس کے پھیلاؤ پر قابو پانے کی صورت ہی میں یہ اندازہ بھی لگایا جاسکے گا کہ معیشت کس حد تک متاثر ہوئی ہے۔ ایٹمی بجلی گھروں کا بیمہ تجارتی پیمانے پر نہیں کیا جاتا بلکہ حکومت اور متعلقہ ادارہ اسے بہتر انداز سے چلانے اور کسی بھی نقصان کی صورت میں ادائیگی کے ذمہ دار ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ کسی بھی ایٹمی سانحے کی صورت میں اصل بوجھ حکومت کو برداشت کرنا پڑتا ہے۔
کسی بھی ناگہانی آفت کے وارد ہونے سے پیدا ہونے والی کیفیت کا تجزیہ کرتے وقت ہم پر یہ حقیقت بھی منکشف ہونی چاہیے کہ خام یا مجموعی قومی پیداوار میں رونما ہونے والی کمی سے ہمیں یہ اندازہ نہیں ہوسکتا کہ عوام کی بہبود میں کس حد تک کمی واقع ہوئی ہے اور ان کا معیار زندگی کس حد تک متاثر ہوگا۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا جاپانی معیشت دو عشروں سے بری حالت میں نہیں؟ اور جب ایسا ہے تو جاپانی حکومت حالیہ بحران سے نمٹنے میں کس طرح کامیاب ہوسکے گی؟ کسی بھی غیر جاپانی کے ذہن میں ان سوالوں کا ابھرنا ناگزیر ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ جاپانی معیشت نے ۱۹۹۰ء کے وسط سے اب تک غیر معمولی کارکردگی کا مظاہرہ نہیں کیا۔ مگر ہمیں یہ بات بھی نہیں بھولنی چاہیے کہ جاپان نے ۱۹۷۰ء اور ۱۹۸۰ء کے عشروں میں جو غیر معمولی کامیابی حاصل کی تھی اس سے موازنہ کرنے پر ہم جاپان کو مشکلات سے دوچار سمجھتے ہیں۔ سچ یہ ہے کہ جاپانی معیشت نے ۱۹۷۰ء اور ۱۹۸۰ء کے عشروں میں غیر معمولی شرح سے ترقی کی تھی۔ ۲۰۰۹ء میں آنے والے معاشی بحران سے نمٹنے میں جاپان خاصا کامیاب رہا اور اس کی سالانہ شرح نمو تین اعشاریہ نو فیصد رہی۔ ۲۰۰۰ء سے اب تک جاپانی معیشت کی کارکردگی مثالی نہیں رہی مگر ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ جاپان میں پیدائش کی شرح معمولی ہے اور بڑھاپے کے طرف بڑھنے والوں کی تعداد خطرناک تیزی سے بڑھتی جارہی ہے۔ دوسری جانب تارکین وطن کا مسئلہ بھی ہے۔ ایسے میں جاپانی معیشت کی کارکردگی کسی بھی اعتبار سے ایسی نہیں کہ نظر انداز کردی جائے۔ فی کس آمدنی میں اضافہ ہوتا رہا ہے۔
جاپان کی اصل کمزوری قرضے اور افراط زر ہے ۔ جاپان کے مجموعی سرکاری قرضے اب اس کی خام قومی پیداوار کے ۲۰۰ فیصد کے مساوی ہیں۔ اگر سرکاری فنڈنگ نکال دیں تب بھی یہ مالیت ۱۲۰ فیصد سے کم نہیں۔ دوسری طرف امریکا میں یہ مالیت ۸۰ فیصد سے زیادہ نہیں! اچھی بات یہ ہے کہ جاپان پر بیرونی قرضے نہیں۔ ایسے میں حکومت چاہے تو تعمیر نو کے نام پر نیا ٹیکس نافذ کرسکتی ہے اور عوام بھی ملک کی تعمیر نو اور معیشت کی بحالی کے لیے تھوڑی بہت قربانی دینے پر ضرور آمادہ ہوں گے۔
معاشی اعتبار سے جو امر کسی حد تک پریشان کن ہوسکتا ہے وہ افراطِ زر یا تفریط زر ہے۔ ۱۹۹۷ء سے جاپان میں اجرتیں کم ہوتی گئی ہیں اور اس کے نتیجے میں صرف کا رجحان بھی کمزور پڑا ہے۔ اب شاید یہ ڈھانچا تبدیل ہوسکتا ہے۔ جاپان میں کھانے پینے کی اشیاء اور ایندھن وغیرہ نسبتاً سستا رہا ہے۔ اب جبکہ پیداواری صلاحیت متاثر ہونے کا خدشہ ہے۔ اور حکومت معیشت کی بحالی کے نام پر اچھی خاصی فنڈنگ کرے گی تو ظاہر ہے کہ افراط زر کا خدشہ موجود ہے۔ قیمتیں اچانک بلند ہوسکتی ہیں۔
جاپان میں جس بحران نے سر اٹھایا ہے اس کا معاشی پہلو بھی اہم ہے تاہم یہ بنیادی مسئلہ نہیں۔ یہ کوئی قدرتی یا ناگہانی آفت نہیں۔ ایٹمی بحران کے نتیجے میں سیاسی اور نفسیاتی مشکلات میں زیادہ اضافہ ہوگا۔ سونامی سے ہلاکتوں اور تباہی کا سامنا تو جاپان نے کرلیا، اصل مسئلہ انسانی نوعیت ہے۔ مگر اس معاملے میں بھی ابھی سے غیر معمولی خدشات پالنے کی ضرورت نہیں۔ جاپانیوں کے بارے میں کون نہیں جانتا کہ ان میں حالات کا جبر برداشت کرنے کی غیر معمولی صفت پائی جاتی ہے۔ سیاسی اعتبار سے البتہ جاپان میں چند ایک کمزوریاں اور مشکلات پائی جاتی ہیں۔ ۱۹۹۰ء کے عشرے سے اب تک جاپان میں سیاسی استحکام محض خواب رہا ہے۔ پانچ برسوں کے دوران جاپان میں سیاسی نظام مزید کمزور ہوا ہے۔ مگر ساتھ ہی ساتھ ہمیں یہ بھی یاد رکھنا ہوگا کہ جاپانی عوام اب سیاست دانوں سے غیر معمولی تواقعات وابستہ نہیں رکھتے اور انہیں بڑے کاروباری اداروں سے بھی کچھ خاص توقع نہیں۔ کہا جاسکتا ہے کہ جاپان کے عوام میں حقیقت پسندی ابھر رہی ہے۔
ڈیموکریٹک پارٹی آف جاپان نے ۲۰۰۹ء کے انتخابات میں شاندار کامیابی حاصل کرکے ۱۹۵۵ء سے قائم لبرل ڈیموکریٹک پارٹی کا اقتدار ختم کردیا۔ یہ سیاسی سطح پر ملک کی سب سے بڑی تبدیلی تھی۔ مگر اس سے جاپانیوں کی مشکلات کم نہیں ہوئیں۔ ڈیموکریٹک پارٹی آف جاپان بھی ملک کو بہتر انداز سے چلانے میں ناکام رہی ہے۔ محض ڈیڑھ سال میں اس کا دوسرا وزیر اعظم، ناؤ تو کان، آچکا ہے۔ سونامی سے کچھ ہی دن قبل جاپانی حکومت اپنے باصلاحیت اور نوجوان وزیر خارجہ سیجی مائیہارا کو ایک اسکینڈل میں کھوچکی ہے۔ ایل ڈی پی اب بجٹ کی منظوری میں روڑے اٹکاکر قبل از وقت انتخابات کی راہ ہموار کرنا چاہتی ہے۔
یہ تمام سیاسی شعبدے بازیاں اب شاید کارگر اور موثر نہ رہیں۔ ملک بحران کی زد میں ہے۔ ایسے میں لبرل ڈیموکریٹک پارٹی اور دیگر سیاسی عناصر شاید قومی اتفاق رائے کے تحت حکومت کی مدد کریں اور قومی تعمیر نو اور معیشتی بحالی کے لیے حکومت کو چند برسوں کے لیے واضح ایجنڈا مل جائے۔
جاپانی حکومت پر یہ کڑا وقت ہے کیونکہ اسے مقبولیت برقرار رکھنی ہے۔ اب تک ناؤ تو کان اور ان کی کابینہ کے ارکان نے جس طرح سونامی سے پیدا ہونے والی تباہی کا سامنا کیا ہے اس سے یہ ثابت ہوا ہے کہ وہ محنت بھی کر رہے ہیں اور ایمانداری بھی دکھا رہے ہیں۔ ایٹمی بحران کا معاملہ البتہ قدرے مختلف ہے۔ جاپان میں بیس برسوں کے دوران ایٹمی پلانٹس میں چھوٹے موٹے ناخوشگوار واقعات رونما ہوتے رہے ہیں۔ ایٹمی ری ایکٹروں کو محفوظ بنانے کے حوالے سے جو اقدامات کیے جاتے رہے ہیں ان پر تحٖفظات کا اظہار کیا جاتا رہا ہے۔ حکومت کی یہی کوشش ہوگی کہ ایٹمی پاور پلانٹس کی سیکورٹی سے متعلق کسی بھی ایسی ویسی بات کے لیے ٹوکیو الیکٹرک پاور کمپنی یا پھر سابق حکومتوں کو مورد الزام ٹھہرایا جائے۔
یہ معاملہ ایسا آسان نہیں۔ جاپان میں کئی ایٹمی پلانٹس بظاہر اپنی میعاد پوری کرچکے ہیں یا غیر معیاری حفاظتی اقدامات کے تحت کام کر رہے ہیں۔ انہیں ٹھکانے لگانا بھی حکومت کی ترجیحات میں سر فہرست ہونا چاہیے۔ جاپان میں بجلی کی کھپت کا تیس فیصد ایٹمی پاور پلانٹس سے حاصل کیا جاتا ہے۔ ایٹمی پاور پلانٹس کو ختم کرنے کی صورت میں بجلی کا بحران بھی پیدا ہوسکتا ہے اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ بجلی کے نرخ غیر معمولی شرح سے بلند ہو جائیں۔ اور اگر حکومت ان پاور پلانٹس کو بند نہیں کرتی تو ممکنہ طور پر عوام کے شدید ردعمل کا سامنا بھی ہوسکتا ہے۔ جاپانی عوام صورت حال کا سامنا کرنے کی مثالی صلاحیت تو رکھتے ہیں مگر سوال یہ ہے کہ وہ کس حد تک قربانی دیں گے؟ اب سوال یہ ہے کہ وہ تیز رفتار تعمیر نو کی شکل میں اپنی زندگی کو داؤ پر لگانے کے لیے تیار ہوں گے؟
ایک اہم سوال یہ ہے کہ اب جاپانی وہی ریسپانس دیں گے جو انہوں نے ۱۹۵۰ء کے عشرے میں دیا تھا یعنی آجرانہ نظام معیشت کی طرف جائیں گے یا دنیا کی آنکھ سے آنکھ ملانے کے بجائے اپنے آپ میں گم ہوکر دنیا سے دور ہو جائیں گے؟ جاپان میں حالیہ سونامی اور اس کے نتیجے میں ابھرنے والا ایٹمی بحران یقینی طور پر دوسری جنگ عظیم کے آخری دنوں میں رونما ہونے والی تباہی اور دو ایٹم بموں کا شکار ہونے سے پیدا ہونے والے بحران جیسا بڑا تو نہیں تاہم یہ بات نظر انداز نہیں کی جانی چاہیے کہ جاپان میں معمر افراد کی تعداد میں نمایاں اضافہ ہوچکا ہے اور شرح پیدائش خاصی گرگئی ہے۔ دوسری جانب چین بھی تیزی سے ابھر رہا ہے اور اس کی بڑھتی ہوئی معاشی قوت جاپان کے لیے بھی شدید مشکلات پیدا کر رہی ہے۔ دنیا کی دوسری بڑی معیشت ہونے کا اعزاز جاپان سے پہلے ہی چھن چکا ہے۔ ہوسکتا ہے کہ جاپان بین الاقوامی امور میں زیادہ سرگرم نہ رہے۔ تعمیر نو کی فکر جاپانیوں کو دنیا سے قدرے دور کرسکتی ہے۔ ایسے میں یہ توقع رکھنی چاہیے کہ جاپان دوبارہ بین الاقوامی معیشت میں سرگرم ہو کیونکہ ایسی حالت میں وہ بہتر عالمی کردار ادا کرسکتا ہے۔
(بشکریہ: ’’نیوز ویک‘‘ پاکستان۔ ۱۸؍مارچ ۲۰۱۱ء)ِ
Leave a Reply