
مغربی طاقتوں کے ’ناپاک اتحاد‘ نے لیبیا کے باغی عناصر کی مدد اور قذافی کی حکومت کے خاتمے کے لیے جس قدر عجلت میں صلیبی جنگ کا آغاز کیا اب اس کی شدت میں کمی آتی جا رہی ہے کیونکہ لیبیا کوبیرونی جارحیت سے نجات دلانے کے لیے پڑوسی ممالک سے جہادیوں کی آمد کا سلسلہ شروع ہو چکا ہے۔ حالات میں رونما ہونے والی اس تبدیلی نے نہ صرف مغربی طاقتوں کے اعصاب پر رعشہ طاری کر دیا ہے بلکہ قذافی کے لیے بھی پریشانی کا سبب ہے کیونکہ لیبیا میں جہادیوں کی آمد اوران کی عملداری قائم ہونا‘ مغرب اور قذافی دونوں کے لیے یکساں خطرناک ہوگا۔ جہادیوں کی آمد کے خوف نے ایک دلچسپ صورت حال پیدا کر دی ہے۔
مغرب: بحیرہ روم کے ساحلی ممالک اورافریقا کے خطے میں مغرب کے گہرے مفادات وابستہ ہیں اور لیبیا کو خطے میں بہت اہمیت حاصل ہے۔ مغربی طاقتوں کی جانب سے Africom قائم کرنے کا مقصد افریقا اوربحیرہ روم کے علاقے کو اپنی عملداری میں لانا ہے کیونکہ اس خطے کے ۲۰ ممالک میں سے لیبیا‘ لبنان اور شام جبکہ پچاس افریقی ممالک میں سے صرف صومالیہ‘ اریٹریا‘ زمبابوے اورآئیوری کوسٹ ایسے ممالک ہیں جو نیٹو (NATO) کے حمایتی نہیں ہیں اوران ممالک میں صرف زمبابوے ایسا ملک ہے جو اندرونی بغاوت سے ابھی تک بچا ہوا ہے جبکہ صومالیہ‘اریٹریا اور آئیوری کوسٹ کی حکومتوں کو اندرونی بغاوت کا سامنا ہے۔ اس کے علاوہ تین ’’خود سر‘‘ممالک کومغرب اپنے مفادات کے لیے خطرہ سمجھتا ہے یعنی سوڈان‘ شام اور لیبیا‘ ان میں سے کمزور ترین ملک کے خلاف جارحیت کا آغاز کر دیا گیا ہے۔ دوسری جانب پانچواں امریکی بحری بیڑہ بحرین میں موجود ہے جہاں سعودی عرب اور خلیج تعاون کونسل کی فوجیں بغاوت کو کچلنے پر معمور ہیں۔مغربی طاقتوں کی اخلاقی پستی کا اندازہ لگائیں کہ ایک طرف لیبیا میں باغیوں کو ہر قسم کی مدد مہیا کی جارہی ہے جبکہ بحرین میں باغیوں کو بری طرح کچلنے کی کاروائیوں کی سرپرستی کی جا رہی ہے۔
لیبیا کو ’نو فلائی زون‘ قراد دینے کے فوراً بعد ایس اے ایس کے کارندے‘ میرین اور امریکا ‘برطانیہ اور فرانس سے ۱۵۰۰ کے لگ بھگ جاسوس اور سی آئی اے کے اہلکار لیبیا میں داخل کر دیے گئے جو باغی عناصر کی نہ صرف راہنمائی کر رہے ہیں بلکہ اسلحہ ‘ گولہ بارود اورر ابطے کے ذرائع بھی فراہم کر رہے ہیں جبکہ قذافی کے منجمد کیے جانے والے اثاثوں میں سے ۱ء۱ ملین ڈالر بھی جاری کر دیے گئے ہیں۔ لیبیا میںتیل اور گیس کے وسیع قدرتی ذخائر کے ساتھ ساتھ صاف پانی کے بھی بڑے ذخائر موجود ہیں جنہیں Nubian Sandsone Aquifer کے نام سے موسوم کیا جاتا ہے اور ایک اندازے کے مطابق صاف پانی کے یہ ذخائراس قدر وسیع ہیں کہ اگر دریائے نیل دوسوسال تک چلتا رہے تو بھی ان کے برابر نہیں ہو سکتا۔اس حوالے سے فرانس کاعالمی منڈی کے چالیس فیصد پانی پر کنٹرول حاصل کرلینے کے بعد پانی کے یہ ذخائر اس کے لیے بڑی اہمیت کے حامل ہیں۔
جہادی: لیبیا کے خلاف مغربی طاقتوں کی جانب سے جنگ شروع ہوتے ہی میں نے اپنے مضمون بعنوان ’’لیبیا کے خلاف صلیبی جنگ کا آغاز‘‘ میں جس خدشے کا اظہار کیا تھاوہ صحیح ثابت ہو رہا ہے۔ میں نے لکھا تھا کہ : ’’سب سے خطرناک بات یہ ہے کہ مسلمان ملک لیبیاکو غیر ملکی جارحیت سے نجات دلانے کے لیے عراق‘ افغانستان اورہمسایہ ممالک سے مجاہدین خصوصأعراق سے تکفیری‘ لیبیا آنا شروع ہو جائیں گے جیسا کہ ۲۰۰۱ء میں افغانستان کے خلاف جارحیت کے دوران ہوا تھا۔ اب صورت حال یہ ہے کہ حکومت کے باغی اور جہادی بیرونی خطرے سے نمٹنے کے لیے قذافی کی فوجوں سے ملتے جارہے ہیں۔لیبیاکے طاقتور سلفی رہنما ابومصعب عبدالودودبھی صلیبیوں کے خلاف جہاد میں شامل ہو چکے ہیں۔ اور صدر قذافی سے اسلحہ اور گولہ بارود لے کر مغربی طاقتوںکے خلاف جہاد میں شامل ہیں۔کیا اس طرح لیبیا کو ایک اور افغانستان بنانے کاسامان مہیا نہیںکیا جارہا؟‘‘ اور تشویش کی بات یہ ہے کہ یہ جنگ جلد ختم ہونے والی نہیں کیونکہ مغربی اتحاد نے افریقی یونین کے متفقہ اعلامیہ کو بھی رد کر دیا ہے اور مطالبہ کیا ہے کہ جب تک قذافی اقتدار سے دستبردار نہیں ہوتے اس حوالے سے کوئی بات نہیں ہو گی جبکہ قذافی کا فیصلہ ہے کہ وہ مرتے دم تک لڑیں گے۔
یہ صورتحال جہاں مغرب کے لیے پریشانی کا سبب ہے وہیں قذافی کے لیے بھی تشویشناک ہے کیوںکہ اگر جہادی لیبیا کی فوج کی مدد سے لیبیا پر بیرونی جارحیت ختم کرانے میں کامیاب ہوجاتے ہیں تو قذافی کے لیے حالات کا مقابلہ کرنا دشوار ہو جائے گا۔ جس طرح مغربی طاقتوں نے ۸۸۔۱۹۸۰ء میں افغانستان میں مجاہدین کی مدد کی تھی اسی طرح اب وہ لیبیا میں’’القاعدہ مغرب (AQM)‘‘ کی مدد کر رہی ہیں۔ لیبیا میں جہادیوں کی آمد کا سلسلہ اسی طرح شروع ہو چکا ہے جیسا کہ ۲۰۰۳ء میں عراق پر امریکی قبضے کے بعد ہوا تھا۔ اس حوالے سے میں ایک واقعہ بیان کرنا چاہوں گا جو مجھے ۲۰۰۳ء میں کراچی میں مقیم میرے ایک صحافی دوست نے سنایا تھا: انہوں نے بتایا کہ ’’عراق پر امریکی قبضے کے تقریباً دو ماہ بعد میں ایک ٹیکسی میں سفر کر رہا تھا تو ڈرائیور نے مجھے بتایا کہ وہ سعودی عرب میں ٹیکسی چلاتا ہے۔ میں نے اس سے پوچھا کہ سعودی عرب میں کس طرح زندگی بسر کرتے ہو؟ اس نے جواب دیا کہ وہاں آج کل بڑے مزے ہیں کیونکہ ہم روزانہ اپنی ٹیکسیوں میں جہادیوں کو بھر کر عراق کی سرحد پار کراتے ہیں۔ میں نے پوچھا کہ وہ جہادی کون ہیں اور کہاں سے آتے ہیں تو کہنے لگا وہ ملک ملک کے شہری ہیں جو اپنی مرضی سے آتے ہیں اور ان کی کوئی مدد نہیں کرتا۔ میرا فوری ردعمل تھا ’’اللہ امریکا پر رحم فرمائے‘‘ اور اب ’’لیبیا میں بھی امریکا‘ اس کے اتحادیوں اور قذافی پر اللہ رحم فرمائے ‘‘ کیونکہ فضائی جنگ کی گَرد بیٹھتے ہی انہیںجہادیوں کی مزاحمت کا سامنا کرنا پڑے گا۔
قذافی کو لیبیا میں جہادیوں کے ابھرنے سے سخت خطرات لاحق ہیں۔ وہ بنیادی طور پر ایک ’’روشن خیال‘‘ مسلمان ہے جو اپنی سبزکتاب (Green Book) کے فلسفے پر عمل پیرا ہے۔اگر وہ فتح مند ہوجاتے ہیں تو اس صورت میں بھی اسے نہ صرف اقتدار سے ہاتھ دھونا پڑیں گے بلکہ ’’ترقی پسند اسلام‘‘ کا نظریہ بھی ترک کرنا پڑے گا۔ خطرے کی بو محسوس کرتے ہوئے قذافی نے اپنے وزیر خارجہ کو ’’علاج کے بہانے‘‘ ملک سے باہر بھجوا دیا ہے اور یہ تاثر دیا ہے کہ نہوں نے حکومت سے علیحدگی اختیار کر لی ہے حالانکہ وہ مغرب کو یہ باور کرا نے گئے ہیں کہ’’ پیشتر اس کے کہ بہت دیر ہوجائے انہیں اپنی حکمت عملی اور ترجیحات کودرست کرنا ہوگا۔‘‘ قذافی مغرب سے تعاون جاری رکھنا چاہتے ہیں جس کا اظہار ان کے اوباما کے نام اس پیغام سے ہوتا ہے کہ ’’آپ افریقا کے بیٹے ہیں جو خرابیوں کو درست کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔‘‘
سچائی اوردیانتداری ایسے اوصاف حمیدہ ہیں جو ہمیشہ سرخروئی اور کامیابی کی ضمانت ہوتے ہیں لیکن یہی وہ خوبیاں ہیں جن سے مغربی طاقتیں عاری ہیں۔ناانصافی اور بددیانتی کی انتہا ہے کہ جب افغانستان ‘ عراق‘ فلسطین اور کشمیر جیسی مظلوم اقوام اپنی آزادی اور خودمختاری کے لیے جدوجہد کرتی ہیں تو ان پر دہشت گردی کا لیبل چسپاں کر دیا جاتا ہے ۔بلا شبہ القاعدہ ایک دہشت گردتنظیم ہے جوشائد ۱۱/۹ کے سانحہ کی ذمہ دار ہے اور امریکا کے لیے مستقل خطرے کی علامت بھی ہے لیکن کسی بھی ملک میں جابرانہ نظام کے خلاف عوام کی بیداری اور تحریک آزادی کو القاعدہ سے منسوب کردینا حقائق کو مسخ کرنے کے مترادف ہے۔ یہی وہ خرابی ہے جو منفی سوچ کی اصل وجہ ہے۔ مغربی طاقتیں عراق اور افغانستان میں حقائق سے نظریں پھیر کرسایوں کے تعاقب میں سرگرداں ہیںاور شکست سے دوچار ہیں۔اور اب لیبیا میں جنگ شروع کر نے سے پہلے ہی انہیں شکست کا سامنا ہے۔
جمہوریت کو عوامی حکمرانی کے لیے ایک معیار سمجھا جاتا ہے لیکن ایران‘ لبنان اور غزہ کے عوام کے لیے دوسرا معیار مقرر ہے کیونکہ جب وہاں کے عوام اپنے ووٹ کی طاقت سے جمہوری روایات کے عین مطابق اپنے حکمران منتخب کرتے ہیں توان کے مینڈیٹ کی اس لیے توہین کی جاتی ہے کہ وہ اسلام پسند ہیں یا مغربی طاقتوں کی حمایت نہیںکرتے۔جبکہ اس کے برعکس مصر‘ سعودی عرب‘ اردن‘ بحرین‘ یمن اور قطر کی حکومتوں کو ’’جمہوری ماڈل‘‘ ہونے کی سند دی جاتی ہے۔ عالم اسلام کے خلاف مغرب کا یہ دوغلا پن ایک تلخ حقیقت ہے۔
نظام کی تبدیلی کے لیے کوشاں ممالک مثلاً د نیائے عرب اور ایشیاء کے خطے کے مسلم ممالک گذشتہ تیس برسوں سے طاقتور ممالک کو اسی طرح زوال پذیر ہوتا ہوا دیکھ رہے ہیں جیسا کہ جنگ عظیم دوم کے بعد سامراجی و طاغوتی طاقتیں زوال پذیر ہوئی تھیں جس کے سبب بہت سے محکوم ممالک میں آزادی کی امنگ پیدا ہوئی اور اکثرآزاد بھی ہوئے۔اسی طرح ۲۰۱۰۔۱۹۹۰ کے عرصے میں Neo-Imperialism کو ایشیاء کے مسلمان ممالک پر برتری قائم کرنے کے پہلے مرحلے میں ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا ہے اوراب افریقا اور بحیرہ روم کے خطے میں بھی اسے ناکامی کا ہی منہ دیکھنا پڑے گا کیونکہ اب دنیا تبدیل ہو چکی ہے اور جابرانہ نظام سے آزادی کی تڑپ بیدار ہو چکی ہے جس کا صحیح ادراک ہمارے پڑوسی ملک چین نے کیا ہے اور ’’امن ‘ تعاون اور رابطے‘‘ کے سنہری اصولوں پر مبنی پالیسی پر عمل کرتے ہوئے تمام ممالک کے ساتھ بہترین اور یکساں تعاون کا علمبردار ہے ۔پاکستان اور چین نظریاتی‘ سیاسی اور ثقافتی اختلافات کے باوجود ایک دوسرے کے بااعتماد دوست ہیں۔چین نے ایک بڑی طاقت ہونے کے باوجود کبھی پاکستان کے اندرونی معاملات میں دخل اندازی نہیں کی بلکہ ہمیں خود کفالت اور خود اعتمادی کی راہ پر ڈالنے کے لیے ہمیشہ کوشاں رہا ہے۔ اوباما کو چاہیے کہ ’تبدیلی کے ایجنڈے ‘کی تکمیل کے لیے چین سے راہنمائی حاصل کریں۔
(موصولہ از ’’فرینڈز‘‘ اسلام آباد)
Leave a Reply