ہم مشکل میں ہیں۔ یا یوں کہیے کہ دنیا مشکل میں ہے۔ یا پھر وہ لوگ جو یہ دعا کر رہے ہیں کہ بیت المقدس میں امن ہر حال میں برقرار رہے۔
اسرائیلیوں اور فلسطینیوں کے درمیان پائے جانے والے تنازع یا قضیے کو کچھ لوگ سو سال پہلے کے بالفور ڈیکلیریشن سے جوڑتے ہیں۔ بعض کے نزدیک یہ اعلامیہ اچھا تھا اور بعض کے نزدیک بہت ہی بُرا۔ کچھ لوگ کہتے ہیں کہ ۱۹۴۷ء میں اسرائیل کے قیام کے اعلان نے معاملات کو خرابی کی منزل میں داخل کیا۔ غالب امکان یہ ہے کہ مستقبل میں جب ہم ماضی پر نظر دوڑائیں گے تو صدر ٹرمپ کی طرف سے مقبوضہ بیت المقدس کو اسرائیل کا دارالحکومت تسلیم کرنے اور وہاں امریکی سفارت خانہ قائم کرنے کا اعلان ایک اہم ٹرننگ پوائنٹ دکھائی دے گا۔
صدر ٹرمپ کے اعلان کا جائزہ لینے اور پھر اس کا تجزیہ کرنے سے قبل ہمیں دیکھنا ہوگا کہ اسرائیل اور فلسطین کے درمیان نفرت کا موجود دور، جو تیس سال قبل پیدا ہوا، دراصل کن حالات کی پیداوار ہے۔ ۹ دسمبر ۱۹۸۷ء کو اسرائیل کی ایک فوجی جیپ نے غزہ کی پٹی میں چار فلسطینیوں کو کچل ڈالا تھا۔ تب فلسطینی اپنے علاقوں پر اسرائیل کے قبضے کے خلاف اٹھ کھڑے ہوئے تھے۔ بھرپور عوامی مزاحمتی تحریک نے جنم لیا جو کسی نہ کسی شکل میں اب تک جاری ہے۔
اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ یہ عوامی تحریک مجموعی طور پر خام رہی ہے۔ غیر منظم ہونے کے باعث یہ اب تک مطلوبہ نتائج حاصل کرنے میں بھی ناکام رہی ہے، مگر فلسطینیوں کی اکثریت نے ثابت کیا ہے کہ انہیں اسرائیل سے شدید نفرت ہے اور وہ اپنے وطن کو آزاد کرائے بغیر کسی طور چین سے نہیں بیٹھیں گے۔ ۱۹۸۸ء میں تنظیم آزادیٔ فلسطین نے غیر معمولی ہمت کا مظاہرہ کرتے ہوئے الگ، آزاد فلسطینی ریاست کے قیام کا اعلان کیا اور اس منزل تک پہنچنے کے لیے جو کچھ بھی کرنا لازم ہو وہ کر گزرنے کا عزم ظاہر کیا۔ یہ بات البتہ قابل ذکر ہے کہ انتہائی جذباتی انداز سے کیے جانے والے اس اعلامیے میں تنظیم آزادیٔ فلسطین نے ۱۹۴۷ء میں گنوائی جانے والی زمینوں کے مقابلے میں صرف بیس فیصد ارض مقدس یعنی غزہ کی پٹی اور غرب اردن پر اکتفا کرتے ہوئے کسی بھی شکل میں فلسطینی ریاست قبول کرنے کا اعلان کیا۔
۱۹۸۷ء سے پہلے تک فلسطینیوں کی اکثریت آزادی کے لیے جو کچھ بھی کرتی تھی وہ انفرادی سطح پر کی جانے والی کوشش کے سوا کچھ نہ ہوتا تھا۔ ۱۹۸۷ء کی تحریک ’’انتفاضہ‘‘ نے پہلی بار فلسطینیوں کو حقیقت پسندی کی طرف مائل کیا۔
جب فلسطینیوں نے غیر معمولی عزم کے ساتھ آزادی کی طرف قدم بڑھایا تو عرب دنیا میں اس حوالے سے بیداری پیدا ہوئی۔ سب نے نوٹس لیا۔ دوسری طرف چند ایک ایسے واقعات بھی رونما ہوئے جن سے فلسطینیوں کے کاز کو مہمیز ملی۔ دیوارِ برلن گری اور دونوں جرمنی ایک ہوگئے۔ جنوبی افریقا میں نیلسن مینڈیلا کو رہائی ملی۔ جب یہ سب کچھ ہوا تو دنیا نے سوچا فلسطینیوں کو بھی آزادی ملنی چاہیے۔ اس وقت کے امریکی صدر جارج ہربرٹ بش (بش سینئر) نے کویت کو عراق کے پنجے سے چھڑایا اور پھر اسرائیلیوں، فلسطینیوں اور دیگر عربوں کو ۱۹۹۱ء کے موسم خزاں میں ہسپانوی دارالحکومت میڈرڈ میں مذاکرات کی میز پر بٹھایا تاکہ وہ اپنے قدیم تنازع کو مل جل کر طے کرنے پر مائل ہوں۔
۱۹۹۳ء میں اس وقت کے اسرائیلی وزیر اعظم یزاک رابن اور تنظیم آزادیٔ فلسطین کے سربراہ یاسر عرفات نے امریکی ایوان صدر کے لان میں مصافحہ کیا اور اوسلو معاہدے پر دستخط کیے، جس کے تحت فلسطینیوں کو اسرائیلی ریاست کا وجود قبول اور تسلیم کرنا تھا اور دوسری طرف اسرائیل پر لازم تھا کہ فلسطینیوں کو آزاد حیثیت میں جینے کا موقع دے اور ان کا ریاست قائم کرنے کا مطالبہ تسلیم کرے۔
یہ سب کچھ فلسطینیوں کی اس عوامی مزاحمتی تحریک کا نتیجہ تھا جو انتہائی غیر اطمینان بخش صورت حال کے بطن سے پیدا ہوئی تھی۔ اس کے بعد اسرائیل نے فوجی آپریشن شروع کیا۔ فلسطینیوں کوکچلنے کے حوالے سے کوئی دقیقہ فروگزاشت نہیں کیا گیا۔ اب ایک بار پھر فلسطینی اٹھ کھڑے ہوئے ہیں۔ وہ اسرائیل سے ٹکرانا چاہتے ہیں۔ مزاحمت کے خاکے میں پھر رنگ بھرے جارہے ہیں۔ ایسے میں معاملات کا از سر نو جائزہ لینا لازم ہوگیا ہے۔
تین عشروں کے خون خرابے کے بعد، جس میں زیادہ اموات فلسطینیوں کی واقع ہوئیں، جس امن کی سب نے آس لگا رکھی تھی اور جس کے بطن سے دو ریاستوں کے نظریے نے جنم لیا وہ بالآخر خطرے میں ہے۔ اسرائیلیوں اور فلسطینیوں کے درمیان حقیقی اور پائیدار امن یقینی بنانے کے لیے اب تک متعدد کوششیں کی گئی ہیں۔ ایناپولس سے عقبہ تک نہ جانے کتنی ہی سفارتی مساعی کی گئی ہیں اور ایک بار تو سابق امریکی وزیر خارجہ جان کیری کے ماتحت میں نے بھی امن عمل میں اپنا حصہ ڈالا تھا، مگر ایسا لگتا ہے کہ سب کچھ داؤ پر لگ چکا ہے۔
صدر ٹرمپ نے بیت المقدس سے متعلق جو اعلان کیا اس سے پہلے ہی فلسطینی مایوس ہوچکے تھے۔ انہیں اندازہ تھا کہ غزہ کی پٹی اور غرب اردن پر مشتمل ان کی ریاست کو حقیقت کا روپ دینے کے لیے اسرائیل اب راضی نہیں۔ دوسری طرف اسرائیلی وزیر اعظم بنیامین نیتین یاہو نے بھی کہا تھا کہ وادیٔ اردن اسرائیل کا حصہ رہے گی۔ مقبوضہ فلسطینی علاقوں میں آباد یہودیوں کی تعداد اب 6 لاکھ سے زائد ہوچکی ہے۔ اسرائیل کی حکومت اس حوالے سے پیچھے ہٹنے پر ذرا بھی آمادہ دکھائی نہیں دیتی۔ صورت حال دن بہ دن بد سے بدتر ہوتی جارہی ہے۔ ایسے میں محسوس ہوتا ہے کہ بہت جلد وہ وقت آجائے گا جب اسرائیلیوں اور فلسطینیوں کو یکساں طور پر یقین ہوجائے گا کہ اب الگ ہونا ناممکن ہے یعنی دو ریاستوں کے نظریے کو بھول جایے۔
بیت المقدِس چونکہ یہودیوں، عیسائیوں اور مسلمانوں کے لیے یکساں طور پر مقدس و محترم ہے اس لیے عالمی برادری نے بہت پہلے یہ سوچ لیا تھا کہ اس معاملے میں مل جل کر، ہم آہنگی ہی سے کچھ کیا جاسکتا ہے۔ عشروں سے کوئی ایسا نظم و نسق یقینی بنانے پر زور دیا جارہا ہے جس کی مدد سے بیت المقدس کو تینوں مذاہب کے ماننے والوں کے درمیان تنازع کا باعث بننے سے روک کر ہم آہنگی اور رواداری کی مثال کے روپ میں پیش کیا جاسکے۔
امریکا اب تک یہ تاثر دینے کی کوشش کرتا رہا ہے کہ وہ اسرائیلیوں اور فلسطینیوں کے اس قضیے میں غیر جانبدار ہے، جبکہ ایسا نہیں ہے۔ امریکا نے ہمیشہ اسرائیل کا غیر معمولی حد تک ساتھ دیا ہے، اس کی طرف جھکتا رہا ہے۔ اور آج بھی معاملہ کچھ ایسا ہی ہے۔ بیت المقدس کو اسرائیل کا دارالحکومت تسلیم کرکے امریکا نے ایک بار پھر ثابت کردیا ہے کہ وہ اس تنازع میں اسرائیل کی طرف تھا، ہے اور رہے گا۔
صدر ٹرمپ کے اعلان نے فلسطینیوں کو غیر معمولی حد تک برہم کردیا ہے۔ تنظیم آزادیٔ فلسطین کو اس اعلان میں واضح طور پر اپنی توہین محسوس ہو رہی ہے۔ مزاحمتی تحریک حماس بھی شدید برہم ہے۔ دنیا بھر میں امریکی مفادات کو خطرات لاحق ہوگئے ہیں۔ امریکی سفارت خانوں کے لیے سیکیورٹی الرٹ جاری کردیا گیا ہے۔ اسرائیل کو عرب دنیا میں قبولیت کے لیے پہلے مشکلات کا سامنا تھا، اب شدید تر مشکلات کا سامنا رہے گا۔ اس کی سلامتی کو لاحق خطرات بھی بڑھ گئے ہیں۔
صدر ٹرمپ کے اعلان نے امریکا کو سب سے بڑا نقصان یہ پہنچایا ہے کہ اب وہ اسرائیلیوں اور فلسطینیوں کے درمیان امن معاہدہ یقینی بنانے سے متعلق اپنے ثالث کے کردار سے محروم ہوگیا ہے۔ اسرائیلیوں اور فلسطینیوں کے درمیان حقیقی اور پائیدار امن یقینی بنانے کے حوالے سے اپنے کردار سے محروم ہوکر امریکا نے اسرائیل کو مزید غیر محفوظ بنادیا ہے۔ فلسطینی خصوصی طور پر اور عرب عمومی طور پر امریکا سے نالاں و بددل ہیں۔
بیت المقدس کو اسرائیل کا دارالحکومت تسلیم کرنے کے اعلان نے معاملات کو پلٹ کر رکھ دیا ہے۔ اب اہم سوال یہ ہے کہ فلسطینیوں کی طرف سے کیسا جواب آئے گا۔ اس وقت فلسطینی عوام اور قیادت دونوں ہی شدید برہم ہیں۔ ہوسکتا ہے کہ اس برہمی کے بطن سے نئی مزاحمتی تحریک جنم لے۔ ایسا ہوا تو مشرق وسطیٰ میں حالات مزید غیر مستحکم اور غیر متوازن ہوجائیں گے۔ معاملات کو درستی کی طرف گامزن کرنے کے لیے کی جانے والی کوششیں دم توڑ دیں گی۔
اہم تر سوال یہ ہے کہ دو ریاستوں کے نظریے کا کیا بنے گا؟ کیا اسرائیل کی قیادت کسی بھی مرحلے پر فلسطینیوں کے ریاست کے حق کو تسلیم کرے گی؟ اور کیا عرب دنیا اسرائیل کو ایک آزاد ریاست کی حیثیت سے مجموعی طور پر قبول کرنے کی طرف گامزن ہوگی؟ یا پھر یہ کہ روس، چین اور یورپ مل کر معاملات کو اپنے ہاتھ میں لینا چاہیں گے؟ کیا ایسا ممکن ہے کہ اسرائیلیوں اور فلسطینیوں کے درمیان حقیقی اور پائیدار امن یقینی بنانے میں کوئی بنیادی کردار ادا کرنے کے لیے امریکا کو ایک طرف ہٹاکر چین، روس اور یورپ مل بیٹھیں، کوئی حل تلاش کریں اور اپنے بھی وسیع تر مفاد میں مشرقِ وسطٰی کو حقیقی استحکام کی طرف لے جانے کی کوشش کریں؟
بنیادی سوال یہ ہے کہ اب کیا ہوگا؟ کیا عالمی برادری امن کے حوالے سے اپنا کردار ادا کرتی رہے گی؟ یا فلسطینی اپنے پر ڈھائے جانے والے مظالم کی بنیاد پر اسرائیل کے خلاف جنگی جرائم کی عالمی عدالت سے رجوع کریں گے؟ پرامن تحریک چلائی جائے گی یا فرانس کی طرز پر بھرپور مسلح مزاحمت کی جائے گی؟ یا پھر یہ کہ یہودی اور فلسطینی مل کر ایک ریاست میں رہنا پسند کریں گے، جس میں سب کے لیے حق رائے دہی ہو؟
اچھی خبر یہ ہے کہ فلسطینی اتھارٹی نے اب تک شدید ردعمل ظاہر نہیں کیا اور سیکیورٹی کے معاملات میں اسرائیلی قیادت سے تعاون کر رہی ہے۔ مگر مسئلہ یہ ہے کہ فلسطینی اتھارٹی پورے فلسطینی معاشرے کا نام نہیں۔ تمام فلسطینیوں کو مل کر طے کرنا ہے کہ اسرائیل کے ساتھ معاملات اب کس نہج پر رکھنے ہیں۔ ڈونلڈ ٹرمپ کے اعلان کے بعد امریکی قیادت نے اپنی پوزیشن واضح کرنے کی کوشش کی ہے اور یقین دلانا چاہا ہے کہ بیت المقدس کی حدود سے متعلق اس کے موقف میں کوئی تبدیلی رونما نہیں ہوئی مگر ایسا لگتا ہے کہ فلسطینی فی الحال امریکا کی طرف سے کی جانے والی کوئی بھی وضاحت سننے کے لیے تیار نہیں۔ تنظیم آزادیٔ فلسطین کی قیادت بظاہر اس پوزیشن میں نہیں کہ فلسطینیوں کے جذبات کو قابو میں رکھنے کے حوالے سے کلیدی کردار ادا کرسکے۔
اسرائیل نے مشرقی بیت المقدس میں بہت کچھ ممنوع کر رکھا ہے۔ اگر اسے معاملات کسی حد تک درست کرنے ہیں تو بہت سے اقدامات کا اعلان کرنا پڑے گا۔ مثلاً عرب چیمبر آف کامرس پر عائد کی جانے والی پابندی کا ختم کیاجانا، فلسطینی اتھارٹی کے انتخابات میں مشرقی بیت المقدس کے باشندوں کو بھی ووٹ ڈالنے کی اجازت دینا اور سب سے بڑھ کر مشرقی بیت المقدس میں فلسطینیوں کو نئی رہائشی تعمیرات اور پرانے مکانات کی تزئین نو کی اجازت۔ اسی صورت فلسطینیوں کے آنسو کسی حد تک پونچھے جاسکتے ہیں۔
اس وقت ایسے الفاظ کم ہیں جن سے کچھ ہوگا۔ امریکا اور اسرائیل دونوں کو اپنے عمل سے بہت کچھ کر دکھانا ہوگا۔ عمل کی آواز الفاظ کی آواز سے کہیں بلند ہوتی ہے۔ اس حقیقت کو تسلیم کیے بغیر معاملات کو درست کرنا کسی بھی طور ممکن نہ ہوگا۔
۱۹۸۷ء کی انتفاضہ تحریک سے ثابت ہوگیا کہ فلسطینیوں کی امیدیں، خواب اور اقدامات ہی مستقبل کی درست صورت گری کریں گے۔ فلسطینیوں کا ردعمل ہی ان کے قائدین کی سوچ کی تشکیل کرے گا۔ اس کے نتیجے میں عالمی رائے عامہ بنے گی اور اسرائیلی قیادت کے لیے یہ سب کچھ نظر انداز کرنا ممکن نہ ہوگا۔
بہر کیف، کسے خبر کہ عرب اسرائیل تنازع میں امریکی کردار شاید اب ختم ہونے کے قریب ہو۔ اور میرا ذاتی خیال یہ ہے کہ اب تک کی کارکردگی دیکھتے ہوئے کہا جاسکتا ہے کہ ایسا ہو بھی تو ہمارے حق میں کچھ زیادہ برا نہیں۔
(ترجمہ: محمد ابراہیم خان)
“Jerusalem: After 30 years of hope and failure, what’s next for Israel/Palestine?”.
(“Foreign Policy”. December 11, 2017)
Leave a Reply