
موجودہ دور میں یہودیوں کی دینداری دو اصولوں پر مبنی ہے ان میں سے ایک ’’توریت‘‘ اور دوسرا ’’تلمود‘‘ ہے۔ یہ دونوں خود یہودیوں ہی کی ساختہ اور پرداختہ ہیں۔ توریت سات سو یا آٹھ سو سال قبل مسیح میں لکھی گئی جبکہ دوسری ’’تلمود‘‘ تیسری اور پانچویں صدی عیسوی میں تحریر کی گئی۔
ماہرین اس بات پر متفق ہیں کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام مصر سے جزیرہ نما سینا کی طرف ۱۲۳۰ قبل مسیح تشریف لے کر گئے تھے۔ جبکہ توریت ۵۳۹ قبل مسیح سے ۵۸۶ قبل مسیح کے درمیان میں لکھی گئی۔ حضرت ابراہیمؑ اور حضرت موسیٰ کے مابین تقریباً سات یا آٹھ صدیوں کا فاصلہ ہے جبکہ توریت تقریباً ۱۳ صدیوں کے فاصلے پر لکھی گئی ہے۔
محققین کے مطابق جو کچھ توریت میں آیا ہوا ہے وہ پہلے مرحلے پر تو اصول قدیم سے لے کر تاریخ یہود تک اقتباس شدہ ہے۔ ان میں ایسے مضامین ہیں جن میں کنعانیوں اور بابلیوں کی فرہنگ و شقاوت کا بیان ہے اور اس دوران وقوع پذیر ہونے والے حوادث و واقعات کا تذکرہ ہے: بعض ناموں کا تذکرہ ہے، بعض شہروں، بعض مقامات اور کچھ مشہور و معروف کنعانی شخصیات کا تذکرہ ہے۔ اسی طرح حضرت موسیٰ سے قبل کی بعض جنگوں کی داستانیں بھی ہیں۔
توریت کو دو بڑے حصوں میں تقسیم کیا جاتا ہے۔ پہلا عہد قدیم (یا عتیق) کے نام سے جبکہ دوسرا عہد جدید کے نام سے مشہور ہے۔ بعض لوگوں کے مطابق عہدِ جدید عہد انجیل ہی ہے۔ جہاں تک عہدِ قدیم کا تعلق ہے تو وہ یہودیوں اور عیسائیوں دونوں ہی کی نگاہ میں مقدس ہے ۔ اسے جزوی طورپر دینداری مسیح کے طور پر بھی شمار کیا جاتا ہے۔
دونوں عہد کا عنوان ’’کتابِ مقدس‘‘ ہی ہے۔ توریت کہ جسے عبرابی زبان میں ’’تورہ‘‘ کہتے ہیں اس کے معنی وعظ و رہنمائی (ہدایت و ارشاد) کے ہیں۔ توریت میں ۳۹ کتابیں شامل ہیں جنہیں ۳ حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے، پہلے حصہ میں ۵ کتابیں شامل ہیں جن کے عنوانات ذیل میں پیش ہیں ۔
۱۔سفر تکوین، ۲۔سفرِ خروج، ۳۔سفر لادیان
۴۔سفرِ اعداد، ۵۔سفر تثنیہ
دوسرا حصہ دو مجموعوں پر مشتمل ہے جس میں انبیائے ما سلف و ما خلف کے حالات کی شرح ہے۔ اسے ’’میرے نبی‘‘ کا عنوان دیا جاتا ہے۔ پہلا مجموعہ شروع کے انبیاء سے مخصوص ہے جبکہ دوسرا مجموعہ آخری دور کے انبیاء پر مشتمل ہے۔ پہلے مجموعے میں حضرت یوشع کے سرزمین فلسطین پر تشریف لانے سے بنی اسرائیل کی تاریخ کا آغاز بیان کیا گیا ہے۔ بیت المقدس کے انہدام تک کا بیان اس مجموعے میں ہے، یہ تمام تذکرے چند کتابوں میں سموئے گئے ہیں جن کے عناوین درج ذیل ہیں: ۱۔ سفر یوشع، ۲۔سفر قضات، ۳۔۴ سفر سموئیل اول و دوئم، ۵۔۶۔ سفر ملوک اول و دوئم، ۷۔ ابتدائی ایام کی خبریں، ۸۔ دوسرے دور کی خبریں۔
دوسرا مجموعہ متاخر انبیاء سے مخصوص کیا گیا ہے کہ جو ۱۴ کتابوں پر مشتمل ہے۔ ان کے عناوین ذیل میں ہیں: اشعیا، ارمیا، خرقیال، بونیل، آموس، آویدیا، یونان، میخا، تاحوم، ضعنیا، جمی، ذکریا، ملاخی وغیرہ۔
تیسرا حصہ کتابوں اور اشعار پر مشتمل ہے۔ اس میں ۱۲ کتابیں شامل ہیں۔ جیسا کہ پہلے بھی ذکر کیا گیا ہے کہ ان تینوں حصوں کو ملا کر ۳۹ کتابیں ہیں۔ پہلے حصہ کو ’’پینٹانگ‘‘ دوسرے کو ’’بنیعیم‘‘ جبکہ تیسرے کو ’’کتوبیم‘‘ کہا جاتا ہے۔
یہودیوں کی دوسری اصل ’’تلمود‘‘ ہے۔ یہودیوں کے ہاں تلمود دینداری کے احکام کا ایک جزو ہے۔ تلمود کے معنی ’’تعلیم‘‘ ، شرح اور تفسیر کے ہیں۔
’’تلمود‘‘ درحقیقت یہودیوں کی شریعتوں کے مجموعہ کا نام ہے کہ جس میں توریت کی شرح و تفسیر بھی شامل ہے اور علمائے یہود کے ہاتھوں توریت سے احکام کا استنباط بھی ہے۔ تلمود کے دو ورژن (Version) مشہور ہیں، ایک کا نام ’’مشنہ‘‘ ہے جبکہ دوسرا ’’جمار‘‘ ہے۔ احکام کی نص و متون مشنہ میں بیان کی گئی ہیں جبکہ احکام کی شرح و تفسیر جمار میں لائی گئی ہیں بنا بریں تلمود مشنہ اور جمار پر مشتمل نام ہے۔ مشنہ میں یہودیوں کی مختلف تقلیدوں کے مجموعوں کا بیان ہے۔ توریت کی بعض آیات کی روشنی میں یہودیوں کی زندگی گزارنے کا بیان ہے۔ یہودیوں کا یہ عقیدہ ہے کہ یہ تقلیدیں اور تعلیمات درحقیقت وہ موعظات ہیں کہ جو حضرت موسیٰ نے اپنی قوم تک پہنچائیں۔ کہا جاتا ہے کہ حضرت موسیٰ پہاڑ پر تشریف لے گئے تھے تو یہ تعلیمات ان پر القاء کی گئی تھیں جو حضرت موسیٰ نے بعد میں ہارون، الیغارز اور یوشع کو تعلیم فرمائیں اور ان لوگوں نے یہی تعلیمات حضرت موسیٰ کے بعد آنے والے انبیاء کو منتقل فرمائیں۔
انبیاء کے بعد یہی تعلیمات علماء بنی اسرائیل تک پہنچیں۔ وہاں سے یہ علمی اداروں میں منتقل ہوئیں جہاں سے وہ جانشینوں اور آنے والی نسلوں کو منتقل ہوتی رہیں۔ یہ سلسلہ دوسری صدی عیسوی تک جاری رہا، یہاں تک کہ خاخام یہودا نے ان کی تدوین کی۔
’’جمار‘‘ مناظروں، تعلیمات اور تفسیروں پر مشتمل مجموعے کا نام ہے جو یہودیوں کی اعلیٰ مدارس میں مشنہ کے بعد جمع کیا گیا اور پھر کتابی صورت میں لایا گیا۔
تلمور کے لیے دو عنوان اختیار کیے گئے۔ ایک تلمور فلسطین و یہود کہ جسے یروشلم تلمور بھی کہا جاتا ہے اور دوسرا تلمور بابلی۔ پہلا تلمور تیسری سے پانچویں صدی عیسوی کے درمیان لکھا گیا۔ اس کے لکھنے والوں میں خاخامان، یہود اور طبریہ کے نام آتے ہیں۔ دوسرا تلمود بابل میں پانچویں صدی عیسوی میں لکھا گیا اور اسی نام سے مشہور ہوا۔
(کتاب ’’العرب و الیہود فی التاریخ‘‘ سے اقتباس)
Leave a Reply