
دنیا میں بہت ہی کم لوگوںاس بات کا علم ہے کہ یہودیوں کے لیے سب سے پہلا خود مختار ضلع ۱۹۲۸ء میں سوویت یونین میں قائم کیا گیا تھا،جس کو بعد میں یہودیوں کا خود مختار خطہ بنا دیا گیا تھا اسے روسی زبان میں’’ یورسکی آو ٹونو منے اوبلاست‘‘ کہا جاتا ہے۔ روس کے مشرق بعید میں چین کی سرحد کے ساتھ واقع اس خطے کا رقبہ چھتیس ہزار مربع کلومیٹر ہے یعنی بیلجیم کے رقبے کے برابر، آ بادی دو لاکھ کے قریب اور دارالحکومت کا نام بیربائی جان ہے۔ یہاں یہودی نہ ہونے کے برابر ہیں۔ یعنی تقریباً دو فی صد اس بات سے بھی لوگ کم ہی آشنا ہیں، کہ جب جنگ عظیم چھڑنے سے کچھ عرصہ پیشتر جوزف اسٹالن اور ایڈولف ہٹلر کے درمیان تعاون کا معاہدہ ہوا تھا تو اسٹالن حکومت یورپ کے تمام روسیوں کو سوویت یونین میں بسانے پر تیار ہوگئی تھی لیکن ہٹلر کے روس پر حملے سے یہ معاملہ یکسر بگڑ گیا تھا۔ ساتھ ہی یہ بھی بتاتے چلیں کہ اسرائیل کے قیام کی خاطر دہشت گردانہ کاروائیاں کرنے والے یہودیوں کی اکثریت بیلو روس کے دارالحکومت منسلک کے ارد گرد کے پانچ سو کلومیٹر کے علاقے سے گئی تھی اورا س کا بھی اضافہ کر دیں کہ اسرائیل کے قیام کو اگر سلامتی کونسل میں سوویت یونین ویٹو کر دیتا تو صورت حال بالکل ہی مختلف ہوتی لیکن تاریخ میںا گر اور لیکن کی کوئی جگہ نہیں ہوتی۔
بہر حال کئی دہائیاں گزر جانے کے بعد سوویت یونین کے اس وقت کے اقوام متحدہ میں مستقل مندوب اور بعد کے ادوار کے معروف ترین وزیر خارجہ آندرے گرو میکو نے اپنا دایاں ہاتھ کھڑا کر کے کہا تھا اس ہاتھ سے میں نے اسرائیل کی ریاست تخلیق کی۔ وہ اقوام متحدہ میں اپنے اس ووٹ کی بات کر رہے تھے۔ جو انہوں نے فلسطین کو تقسیم کیے جانے کے ۱۹۴۷ء کے اقوام متحدہ کے منصوبے کے حق میںدیا تھا۔ اسرائیل کے قیام کے بعد امریکا کے ساتھ ساتھ سوویت یونین بھی ہر طرح سے اس کی مدد کرتا رہا سوویت یونین سے یہودیوں کا انخلاء ہوتا رہا اور وہ اسرائیل جاگر بستے رہے آج بھی وہاں کی آبادی کا ایک بڑا حصہ روسی یہودیوں کا ہے۔
ایک دلچسپ تاریخی بات بھی بتاتے چلیں جس کا ماقبل تاریخ سے بھی تعلق ہے کہ روس میں بسنے والے اور سوویت یونین اور اس کے بعد کی ریاستوں سے اسرائیل جا کر بسنے والے یہودیوں کا حضرت موسیٰ کے پیروکاروں کے بچھڑے ہوئے بارہ قبیلیوں سے کوئیتعلق نہیں ہے وہ اصل یہودی خود کو سیفاروی یاہسیاہ کہلاتے ہیں جو ایران کے صدرمحمود احمدی نژاد کی یہودیوںکی کثیر ہلاکت کے بارے میں فسانہ آرائی کے سلسلے میں بلائی ہوئی کانفرنس میں بھی شریک ہوئے تھے اور جو مذہبی حوالوں سے اسرائیل کے وجود کو ماننے سے انکاری ہیں۔ جن یہودیوں کی بات ہورہی ہے وہ کہیں ساتویں صدی میں بحیرہ کیسپن کے نزدیک کی ایک ریاست خزر کے بادشاہ کے یہودی بن جانے کے باعث یہودی مذہب اختیار کرنے والی رعایا کا تسلسل ہے جو اپنے آپ کواشک نازی کہتے ہیں۔
اس طرح یہ کوئی تیرہواں اور غیر سامی قبیلہ ہے مگر بے حد صیہونی۔ انہوںنے ہی سرد جنگ کی چنگاریاں اڑا کر انہیں ہوا دینے کی ہر کوشش کی تھی کیونکہ ایک زمانے میں سوویت یونین میں موجود یہودی اسرائیل کی کل آبادی کے برابر تھے اور امریکا میں موجود یہودیوں (یہودی نہ تو امریکی ہوتا ہے اور نہ جرمن اس کی ہمدردیاں اسرائیل کے ساتھ ہی ہوتی ہیں۔ کی سب سے بڑی کوشش یہی تھی کہ سوویت یونین سے یہودیوںکی نقل مکانی امریکا سوویت تعلقات کیہم ترین شق ہو۔ براہ راست سیاسی زعما ء سے ملاقاتوں، مالی امداد کی پیشکشوں غرض ہر حربے کے ساتھ ساتھ وہ اپنی لابی سے منسلک سینیٹروں کو بے حد مہارت اور چابکدستی سے استعمال کرتے ہیں ان کی لابی کا ایک سینٹر ہنری جیکسن تھا جو امریکا کی ریاست واشنگٹن سے ۱۹۴۸ء سے منتخب چلا آرہا تھا۔ سرد جنگ کی چنگاریوں کو ہوا دینے والا یہ سیاست دان ڈیموکریٹ تھا اور اسن نے ہی ۱۹۶۰ء میںجان کینیڈی کو قائل کیا تھا کہ مکمل طور پر دھوکے پر مبنی میزائلوں کے قصے کو اپنی صدارتی مہم کا اہم ترین حصہ بنائے اگر چہ ۱۹۷۲ء میں ڈیموکریٹک پارٹی نے اس کے جنگجو یانہ نظریئے کو رد کر دیا تھا لیکن اس کے پائے ثبات میں لغزش نہں آئی۔ اگست ۱۹۷۲ء میں اس نے تازہ دستخط کردہ سالٹ معاہدے کو بے ہودہ قرار دیا تھا جو اسٹریٹجک ہتھیاروں کو محدود کرنے کے بارے میں دو بڑی قوتوں کے درمیان ہوا تھا۔
۱۹۶۷ء کی اسرائیل عرب جنگ ہو چکی تھی جس میں ایک ہی ہلے میں اسرائیل نے مصر کے ۳۲۹ جنگی طیاروں میں سے ۳۰۹کو تہس نہس کر دیا جس میں شام کے گیارہ سو اور مصر کے بارہ سو ٹینک تباہ ہوئے تھے، جس میں چند روز کے اندر ہمسایہ برادر مسلم ملک کے فوجی اڈے سے امریکا کے جنگی طیاروں نے ۲۳۰۰۰ٹن جنگی مال اسرائیل پہنچایا تھا۔ اس جنگ کے بعد سوویت یونین نے عرب کی حمایت میں یروشلم سے سفارتی روابط توڑلیے تھے اور یہودیوں کا انخلا ء روک دیاتھا۔ سوویت یہودیوں کے انخلاء کو بین الاقوامی مسئلہ بنا دیا گی اتھ اامریکا اور یورپ میں سوویت املاک کو دہشت گردی کا نشانہ بنا یا گیا تھا۔
۱۹۷۱ء میں صرف نیو یارک شہر میں بم دھماکوں کے چار واقعات ہوئے تھے۔ کریملن نے بری طرح احتجاج کیا تھا اور جیوئش ڈیفنس لیگ کے سر براہ میر کہانے کا سر پرست براہ راست نکسن انتظامیہ کو گردانا تھا مگر ساتھ ہی مسئلے سے ہوا خارج کرنے کی خاطر ۱۹۷۱ء میں ہی یہودیوں کی نقل مکانی کو بے حد سریع کر دیا تھا۔ا س برس پندرہ ہزار یہودی اسرائیل گئے تھے۔ دوہی سالوں میں تقریباً ۳۵۰۰۰ سے زائد یہودی اسرائیل پہنچا دیئے گئے تھے۔ اس تیز ترین نقل مکانی کے عمل میں امریکی خفیہ رپورٹوں کے مطابق CIA کو موقع مل گیا تھا کہ وہ اپنے کام کے بہت سے ایسے آدمی بھی نکال لے جو یہودی نہیں تھے مگر نقلی دستاویزات فراہم کر کے انہیں آئندہ مقاصد کے لیے وہاں سے نکال لیا تھا۔ میرکہا نے امریکا سے اسرائیل چلا گیا تھا اور وہاں جا کر سوویت یونین کے خلاف انتہائی دائیں بازو کی سیاسی مہم شروع کر دی تھی۔
ہنزری جیکسن نے اکتوبر ۱۹۷۲ء میں ایک تجویز کی تشہیر شروع کر دی تھی کہ سوویت یونین کو امریکا کے ساتھ تجارت کے لیے دی گئی رعاتیوں کو براہ راست سوویت یونین سے یہودیوں کے انخلاء کو بڑھانے سے منسلک کیا جائے۔ یہ تجویز سینیٹر مذکور کے ایک نوجوان معاون رچرڈ پرلے نے لکھی تھی۔ اس تجویز کو اس قدرمقبولیت حاصل ہوئی کی بہت جلد ۷۲ سینیٹروں نے جیکسن کے نقطہ نظر کی حمایت میں دستخط کر دیئے تھے۔ بالآخر یہ تجویز جیکسن و نیک ترمیم کے نام سے منظور ہو کر قانون کا حصہ بن گئی تھی۔ کنسجر کی امن کو فروغ دینے کی پالیسی detente کے بخیے ادھڑ گئے تھے۔ Jackson Vanik amendment نام کی تجارتی پابندیاں جو براہ راست سوویت یونین سے یہودیوں کے انخلاء سے منسلک ہیں۔
آج سوویت یونین کے انہدام کے پندرہ برس بعد بھی جوں کی توں موجود ہیں۔ آج روس سے اسرائیل جانے پر کسی کے لیے کوئی پابندی نہیں ہے لیکن یہ تلوار روس کے سر پر اسی طرح لٹکی ہے۔
اس ترمیم کو حذف کرانے کے لیے کئی بار کوششیں بھی ہوئیں لیکن نتیجہ وہی ڈھاک کے تین پات رہا۔ امیکی قانون کا حصہ ہونے کی وجہ سے روس کو ورلڈ ٹریڈ آرگنائزیشن میں شمولیت کے سلسلے میں جس قدر امریکا نے تنگ کیا وہ کسی بھی ملک نے نہیں کیا۔ یہودیوں کے انخلاء کا مسئلہ نہیں رہا لیکن مسئلے کھڑے کرنا امریکا کے لیے کوئی بھی مسئلہ نہیں ہے۔ انسانی حقوق کا مسئلہ آسان ترین مسئلہ ہے۔ خود چاہے لاکھوں عراقی بچوں کو پابندیاں لگا کر بھوک اور بیماری سے مار دو یا عراق اور افغانستان جیسی صورت حال پیدا کر کے لیکن عالمی تنظیم تجارت میں روس کی شمولیت کو اس مسئلہ سے منسلک کر دیا گیا تھا۔
فی الحال روسی عالمی تنظیم تجارت میں باقاعدہ شامل نہیں ہوا کیونکہ اسے کچھ تکنیکی خامیاں ابھی دور کرنی ہیں۔ اگر اگلے برس روس اس تنظیم کا رکن بن بھی جائے تو کیا جیکسن وینک سے پابندی اٹھالی جائے گی؟ اس بارے میں ڈیموکریٹس کے برسر اقتدار آنے کے بعد صورت حال خراب ہوسکتی ہے۔ کیونکہ یہ شوشا ڈیموکریٹس کا ہی تھا اور ڈیموکیٹس کا رویہ روس کی جانب کوئی اتنا اچھا نہیں ہے۔
(بشکریہ: سہ روزہ ’’دعوت‘‘ نئی دہلی۔ شمارہ: ۱۳جنوری ۲۰۰۷ء)
Leave a Reply