
جماعتِ اسلامی کے سیاسی مزاج کے اکثر ارکان و کارکنان کے نزدیک انتخابی کامیابی ہی اس کی کامیابی کاپیمانہ بن گیاہے۔چونکہ ابھی تک جماعت اس میدان میں کوئی قابلِ لحاظ کامیابی حاصل نہیں کر سکی،اس لیے یہ سوال ایسے افراد کی زبانوں پر آ جاتا ہے کہ آخر لوگ جماعت کو ووٹ کیوں نہیں دیتے؟ تحریکی روح اور مزاج پر جوں جوں سیاسی رنگ غالب آ رہا ہے اور مالی وسائل اور افرادی توانائیوں کا بہت بڑا حصہ جوں جوں سیاست کی نذر ہو رہا ہے، یہ سوال بھی شدت کے ساتھ دہرایا جا رہا ہے۔کراچی اور منڈی بہاء الدین کی سیٹوں پر حالیہ ضمنی انتخاب کے مایوس کن نتائج نے اس سوال کا آہنگ اور بلند کر دیا ہے۔ جماعت کی قیادت اور اس کی مجلسِ شوریٰ نے معاملات کا تجزیہ کر کے اس سوا ل کا جواب تلاش کرنے کی کوشش کی ہو گی۔اسے اپنے دل گرفتہ ارکان اور کارکنوں کی تشفی کے لیے اس تجزیے سے ضرور آگاہ کرنا چاہیے۔اب حال یہ ہے کہ اکثر ارکان اور کارکن، جماعت کے ماضی کی روایات سے واقفیت نہیں رکھتے۔ جو نوجوان گزشتہ ڈیڑھ دو عشروں کے دوران میں جماعت کے ساتھ وابستہ ہوئے، جوجماعت کے لٹریچرکی گہرائی میں نہیں اترے، جنہوں نے جماعت کی رودادوں کی حد تک بھی اس کی تاریخ نہیں پڑھی، جو جماعت کی عالی قدر کلاسیکل شخصیات اور اولین کرداروں کے ناموں سے بھی واقف نہیں ہیں، ان کو سرے سے کوئی خبر نہیں ہے کہ جماعتِ اسلامی پر قیامِ پاکستان سے لے کر گزشتہ صدی کے ساتویں عشرے تک ابتلا اور آزمائش کے کیسے کیسے سخت دور آئے، کیسے پر آشوب حالات تھے جن میں جماعت کے لوگوں کو کام کرنا پڑتا تھا۔ آج آسودگی اور مالی وسائل کی فراوانی میں شاید کوئی مشکل سے یقین کرے گا کہ جماعتِ اسلامی کی فکری و نظریاتی تعمیر اور اس کی غیر معمولی تربیتی بھٹی میں انسان سازی کا عمل جن حالات میں بہترین انداز میں ہوا، وہ اس کے وسائل کی کمی کا دور تھا۔
آج جماعت کے خلاف منافرتوں اور تعصب میں بہت کمی آ گئی ہے۔ ایم ایم اے اور اب پی ٹی آئی کے ساتھ KPK میں شراکتِ اقتدار اور وزارتوں کی لذت آفرینی کے خوشگوار تجربوں اورملی یکجہتی کونسل میں دوسری دینی جماعتوں کے ساتھ اسے شیر و شکر دیکھنے والے اندازہ ہی نہیں کر سکتے کہ جماعت ایسے کڑے دورسے گزری ہے جب تمام حکومتوں اورسیاسی قوتوں، تمام مذہبی تنظیموں، تمام فرقہ پرست عناصر کی توپوں کے رْخ جماعتِ اسلامی کی طرف ہوا کرتے تھے۔اشتراکی اور مغرب کی سرمایہ دارانہ قوتوں کے نشانے پر کوئی جماعت رہی تو ہمیشہ جماعتِ اسلامی رہی۔آج جماعت کے فلاحی و رفاہی اور تعلیمی اداروں کے تعارفی پروگراموں میں نامور ادیب اور شاعر بھی شریک ہوتے ہیں اور ہر فکر کے صحافی، دانشور، کالم نگار اور قلم کار بھی مہمان بنتے ہیں۔ایک وہ دور تھا جب جماعت کی مخالفت اور اس پر اتہامات ہی صحافت و دانش اور کالم کاری کا کمال سمجھا جاتا تھا۔ بائیں بازو کے گماشتے ہوں یا مغرب پرست، حکومتوں کے وظیفہ خوار، قادیانیوں کے ہشکارے ہوئے لکھاری ہوں یا دیگراسلام دشمن عناصر کے دستر خوان کے خوشہ چین، سب جماعتِ اسلامی پرچاند ماری کو سندِ دانش سمجھتے تھے۔سب یکساں طور پر جماعتِ اسلامی اور اس کی قیادت کے خلاف بغض و عناد پر مبنی پراپیگنڈے میں مصروف رہتے تھے۔ان نا مساعد حالات میں دعوت و اصلاح کی سرگرمی بڑے دل گردے کی بات تھی۔آج لوگوں کے دروازے کھٹکھٹانے والے جماعت کے کارکن، ووٹ مانگنے جاتے ہیں۔، تب ہر کارکن دلوں پر دستک دیتا اور دماغوں کو بدلنے کے لیے نکلتا تھا۔چونکہ جماعتِ اسلامی سیرت و کردار میں تبدیلی کے لیے دماغ کے راستے دل میں اترنے کی پالیسی پر عمل پیرا تھی، اس لیے فکر و نظر اور قلب و روح کی تبدیلی کے لیے ہر کارکن کی بغل میں ایک دو کتابیں ہوتی تھیں، جس کو مخاطِب کیا جاتا اسے پڑھنے کے لیے ایک کتاب دے دی جاتی تھی کہ پڑھ کر اگر کوئی سوال یا اعتراض ہو تو اگلی ملاقات میں اس پر بات ہو گی۔ وہ ووٹر کے بجائے متفق بناتے تھے۔
آج جماعت کی سیاسی ناکامیوں پر جو لوگ پریشان ہیں ان کو شاید یہ علم و احساس نہیں ہے کہ یہ درخت جس پھل کے لیے لگا تھا، اس سے بالکل مختلف پھل کی اس سے توقع کی جارہی ہے۔یہ کھیتی جس فصل کے لیے تیار ہوئی تھی اس کے بجائے اس سے بس ایک ایسی فصل حاصل کرنے کی کوشش ہو رہی ہے جس کے لیے جدا آب و ہوا اور الگ موسم درکار ہوتا ہے۔جماعتِ اِسلامی عْرفِ عام میں کوئی سیاسی جماعت نہیں ہے۔یہ ایک اسلامی تحریک ہے۔اس کی جدوجہد کے متعدد پڑاؤ ہیں۔اس کو اپنے مقاصد کی کئی منزلیں پار کرنی ہیں۔عقائد کی اصلاح اورنظریہ و فکر کی تطہیر اور سیرت و کردار کی تعمیر اس کی اساسی مہمات میں داخل ہیں۔ تربیتِ افرادجماعت کے اپنے وجود کی ضرورت بھی ہے اوراِصلاحِ معاشرہ کا بھی یہی راستہ ہے۔ یہ جماعت ایک ایسے صالح سماج کی تشکیل کے لیے اٹھی ہے جو ساری انسانیت کے لیے نمونہ بنے۔دنیامیں اس کی ساری محنتوں کا ہدف دعوت و تبلیغ اور غلبہ و اِظہارِ دین ہے۔اس کی ساری دعوتی کاوشوں کا مرکزی ہدف یہ ہے کہ بندوں میں یہ شعور اجاگر کردے اور یہ فہم پیدا کردے کہ وہ اپنے جیسے بندوں کی غلامی سے نکل کر خالق و مالکِ حقیقی اور اس رَب کی بندگی و غلامی اختیار کریں جو اس کائنات کا خالق و مالِک ہے۔رہی اس کی حتمی منزل تو اس کا ہر فرد حریص ہوتا ہے اس امر کا، کہ اللہ سبحانہٗ کے ہاں اس کو رَضا و خوشنودی اور اخروی کامیابی نصیب ہو جائے۔سیاست اس کی جدوجہد کا ایک پڑاؤ ضرور ہے لیکن اس کی کامیابی و ناکامی کو جانچنے کا پیمانہ ہر گز نہیں ہے۔یہ ایسا میدان بھی نہیں ہے کہ ساری کی ساری مالی پونجی اور افرادی قوت اسی میں جھونک دی جائے۔یہ جماعت اللہ کا کلمہ بلند کرنے کے لیے اٹھی ہے۔نہ اپنی فتح مندیوں کے جھنڈے گاڑنا اس کا مقصود ہے اور نہ اسے کسی اجارہ داری کے زعم میں مبتلا ہونا چاہیے۔ اگر کوئی اور گروہ اور فرد اس کام کا بیڑا اٹھا لیتا ہے جو جماعتِ اسلامی کا مقصدِ وجود ہے تو جماعت کا لٹریچر یہ بتاتا ہے کہ اس کے ارکان و کارکنان اس گروہ اور فرد کی رکاب تھامنے کو اپنی سعادت باور کریں گے۔
یہ اس جماعت کے اس مزاج اور ان مقاصد کا ایک خلاصہ ہے جس مزاج اور جن مقاصد کو اس کے لٹریچر میں پوری شرح و بسط کے ساتھ بیان کیا گیا ہے۔جب یہ جماعت بنی اس وقت دینی جماعتوں اور تنظیموں کی کمی نہ تھی۔لیکن ان میں سے اکثر کی تشکیل فرقوں کی بنیاد پر ہوئی تھی۔ مولانا مودودی ؒ کے بقول تفرقہ نفسانیت کی پیداوار ہے اور اللہ کے کلمے کے مقابلے میں فرقہ پرستی اور تفرقہ بازی کا اپنا الگ کلمہ ہے۔اپنے فرقے کو سربلند اور حریف فرقوں کو ہزیمت و شکست سے دوچار کرنا ان تنظیموں کا اصل نصب العین پہلے بھی تھا اور آج بھی وہی صورتِ حال ہے۔ جماعتِ اسلامی کسی کو شکست دینے کے لیے نہیں بنی۔یہ ایک اصلاحی اور دعوتی تحریک ہے۔
جماعتِ اسلامی کی حقیقی ناکامی یہ نہیں ہے کہ قومی انتخابات میں اسے عوام کوئی وزن اور اہمیت نہیں دیتے۔اس کی اصل ناکامی یہ ہے کہ یہ اپنے علمی و فکری معیار و مقام سے بہت نیچے آ گئی ہے اور ان مقاصد سے بڑی حد تک غافل ہو گئی ہے جن کو لے کر یہ وقت کی شاہراہ پر سرگرمِ سفر ہوئی تھی۔مولانا مودودیؒ نے اس کے بالکل آغازِ سفر میں واضح کر دیا تھا کہ… جو شخص جماعت میں داخل ہو، اس کو تحریکِ اسلامی کے لٹریچر کا بیشتر حصہ پڑھوا دیا جائے…‘۔ اسی لیے یہ روایت تھی کہ جماعت کے ارکان و کارکنان اور متفقین اپنی قلیل آمدنی میں سے ہر ماہ ایک دو کتابیں ضرور خریدا کرتے تھے۔اس کے ہفتہ وار اجتماعات میں وہ اپنی کارگزاری کی جو رپورٹ پیش کرتے تھے اس میں انہیں ’’ترجمان القرآن‘‘، ’’ایشیا‘‘ اور ’’آئین‘‘ کے مطالعہ کے علاوہ کسی خاص موضوع پرزیرِ مطالعہ کسی کتاب کے بارے میں بتانا ہوتا تھا۔رپورٹ میں یہ ذکر بھی ضروری ہوتا تھا کہ کتنے افراد زیرِ تربیت ہیں اور ان کو کون کون سی کتاب مطالعہ کے لیے دی گئی ہے۔موبائل فون تو در کنار اس دور میں لینڈ لائین فون بھی کم ہی لوگوں کے گھروں میں ہوتے تھے اس کے باوجود ارکان وکارکنان کے آپس میں رابطے اور اپنے مخاطبین کے ساتھ ربط و تعلق مثالی ہوتا تھا۔
جماعتِ اسلامی کے نام سے جو صنعت گاہ قائم ہوئی تھی اس کا بنیادی مقصد انسان سازی تھا۔جی ہاں، با ایمان، با اصول، با ضمیر اور با اخلاق افراد کی تیاری۔ خْدا ترس اور مْلک و ملت کی بھلائی کے خواہاں۔اس کے کارخانے میں ان اوصاف کے مالک جوان بھی تیار ہوتے تھے اور بوڑھے بھی۔مرد بھی اور خواتین بھی۔ جماعتِ اسلامی ’تعلیمِ بالغاں‘ کے ایک نادر ادارے کی حیثیت رکھتی تھی۔معمولی تعلیم یافتہ بلکہ نیم خواندہ لوگوں میں بھی جماعت کا لٹریچر پڑھ کر زبان دانی کی عمدہ صلاحیت پیدا ہو جاتی تھی۔وہ اپنے ماحول میں دینی اور دنیوی معلومات اور سیاسی سوجھ بوجھ کے اعتبار سے نمایاں طور پر پہچانے جاتے تھے۔ یہ لٹریچر جہاں ان کی سیرت گری کرتا وہاں ان کے فہم و فراست کو جلا بخشتااوران میں نظریہ و فکر کی پختگی آتی تھی۔جماعتِ اسلامی کے پاس جو قابلِ فخر سرمایہ تھا وہ یہی سیرت و اخلاق، علم و مطالعہ اور نظریہ و فکر کا سرمایہ تھا۔اگر سیاست میں کوئی بڑی کامیابی نہیں ملتی تھی تو یہ اطمینان ہوتا تھا کہ یہ گرانقدر سرمایہ محفوظ اور روز افزوں ہے۔ لیکن اب سیاسی مزاج کے غلبے کا منفی اثر جماعت کے اسی سرمائے پر پڑ رہا ہے۔ سیاست کے چسکے نے ذوقِ مطالعہ کو مار دیا ہے۔ کتاب کے ساتھ رشتہ ٹوٹ رہا ہے۔علمی و فکری کم مائیگی ظاہر و باہر ہے۔جماعت کی صفوں میں مولانا عبد المالک کے سوا کوئی ممتاز عالِمِ دین نہیں رہاہے۔ پروفیسر خورشید عمر اور صحت کے اعتبار سے کوئی بھاری فکری کام کرنے کے قابل نہیں ہیں۔اللہ ان کو سلامت رکھے۔وہ اٹھ گئے توڈر ہے کہ ان حالات میں ان کے پائے کا کوئی معتبر اور وقیع دانشور مدتوں تک یہاں سے نہ اٹھے۔’یہ کتاب کا نہیں، خطاب کا دور ہے ‘ کے تصور نے کتاب سے بیگانہ تو کیا ہی تھا،لیکن مرحوم مولانا گلزار احمد مظاہری اور علامہ عنایت اللہ گجراتی جیسے خطیبوں اور سحر بیان مقرر وں کی جگہ بھی دو اڑھائی عشروں سے سونی پڑی ہے۔
تاسیسِ جماعت کے بعدمجلسِ شوریٰ نے چار بنیادی منصوبوں کا جو نقشۂ کار تجویز کیا تھا اس میں ایک علمی تحقیق کا منصوبہ بھی تھا۔اس کے بارے میں کہا گیا تھاکہ ’علمی تحقیق کا شعبہ در اصل ہماری تحریک کا دل اور دماغ ہو گا اگر ہمیں واقعی نظامِ تمدّن و اخلاق میں کوئی انقلاب برپاکرناہے تو ہمارے لیے ناگزیر ہے کہ صرف اردو زبان ہی میں نہیں بلکہ متعدد دوسری زبانوں اور خصوصاً دو تین بین الاقوامی زبانوں میں بھی ایسا لٹریچرفراہم کریں جو اسلامی نظام کی پوری شکل و صورت سے دنیا کو آشنا کرے‘ اب یہ دل اور دماغ مفلوج پڑے ہیں۔جماعت کے زیرِ اہتمام ادارہ معارفِ اسلامی لاہور اور کراچی کے علاوہ کئی اور ادارے بھی قائم ہیں لیکن جہاں سے علم و تحقیق کی روشنی پھوٹنی چاہیے تھی، وہاں سے دانش کے بجھے چراغوں کا دھواں اٹھ رہا اور راکھ اڑ رہی ہے۔ کسی علمی و تحقیقی کام کے کوئی آثار باقی نظر نہیں آتے۔یہی جماعتِ اسلامی کا اصل اور سب سے بڑا خسارہ ہے۔
جس نظامِ تمدّن وسیاست کے پوری ہمہ گیری کے ساتھ محیط و مسلّط ہونے کا ذکر مولانا مودودیؒ نے اکتوبر ۱۹۴۲ء میں کیا تھا وہ اپنی مہیب صورت میں برقرار ہے۔اس کی گرفت ڈھیلی پڑنے کے بجائے اور مضبوط ہو گئی ہے۔ہمارے اپنے ملک اور معاشرے میں سرمایہ دارانہ معیشت کی جڑیں گہری ہو رہی ہیں۔ملٹی نیشنل کمپنیوں،مفاد پرست اور بے سمت میڈیا اور بااثر این جی اوز کا گٹھ جوڑہے۔سب الٹرا لِبرل رْجحانات کو فروغ دینے پر کاربند ہیں۔ ان کی پوری کوشش ہے کہ مسلم معاشرہ اپنی دینی اور اخلاقی اقدار سے دور کردیا جائے۔ خود غرض، ہوسِ اقتدار میں ڈوبے ہوئے اور اپنے مفادات کے اسیر سیاست دانوں میں نہ یہ سوچ ہے اور نہ ہی یہ احساس کہ سماج کو بگاڑ اور فساد سے بچائیں۔ سیاست جو خود دولت کا کھیل اورکرپشن کی ہم معنی ہو گئی ہے اس بے رحم نظام کی خدمت گار ہے۔چند خاص خاندان ہر اس قوت کے آلۂ کار بن جانے میں عار محسوس نہیں کرتے جو سیاست میں ان کی اجارہ داری اور نسل در نسل قبضے میں مدد کی یقین دہانی کرا دے۔ملک کی اکثر سیاسی جماعتوں کے رہنما حج عمرے بھی کرتے ہیں اور ان کے گھروں میں ان کی بیگمات میلاد کی محفلیں بھی برپا کرتی ہوں گی۔لیکن ان کی ذہنی ساخت سیکولر ہے۔ مذہبی جماعتوں کی فطرت کی تہہ میں جھانک کر دیکھیں تو ان کی سیاست بھی سیکولر ستونوں پر کھڑی نظر آتی ہے۔حضرت مولانا فضل الرّحمن ذہنی طور پر جماعتِ اسلامی کے کسی امیر کے کبھی اتنے قریب نہیں رہے جتنے وہ جناب زرداری یا نواز شریف کے قریب ہیں۔
عوام کی اسلام کے ساتھ گہری شیفتگی کے چرچے رہتے ہیں لیکن ان کے قلب و ذہن اور ان کے فکر اور نظریے کو خالص اسلام کے قالب میں ڈھالنے پرجماعتِ اسلامی سمیت کسی نے توجہ نہیں دی۔چنانچہ تعجب نہیں ہونا چاہیے کہ ان کا عمومی رجحان اکثر سیکولر پارٹیوں کی طرف رہتا ہے اور ان کے ووٹ ہر دنیا پرست جماعت کو پڑ سکتے ہیں لیکن جماعتِ اسلامی کو ملنے مشکل ہیں۔کے پی کے میں جماعتِ اسلامی جس جماعت کی حلیف اور شریکِ اقتدار ہے، اس کے کارکنان کی ایک بڑی تعداد لِبرل اور سیکولر مزاج کی ہے۔جماعتِ اسلامی اور پی ٹی آئی کے کارکن انتخابی اتحادی ضرورت کے تحت اورمل کر اقتدار تک رسائی کی خاطر ایک دوسرے کے امیدواروں کو ووٹ تو دے دیتے ہیں۔ لیکن قرآن و سنت پر مبنی وہ خالص و کامل اسلام اور وہ اعلیٰ اخلاقی و تہذیبی روایات جن کی دعوت و تبلیغ اورجن کے غلبہ و نفاذکے لیے جماعتِ اسلامی میدان میں اتری تھی، شایدپی ٹی آئی کے ۹۰ فیصد لوگ اس اسلام پر چلنے اور ان روایات کو اختیار کرنے پر تیار نہ ہوں۔
داخلی مسائل کے زیادہ اہم نکات پر اوپربات ہو چکی ہے۔ علماء، ممتاز اور جید اہلِ دانش کے کال اور علمی و فکری زوال کا ذکر بھی تفصیل سے گزر چکا ہے۔جماعتِ اسلامی اب مالی وسائل اور افرادی قوت کے لحاظ سے چوہتر برس پہلے کے مقابلے میں بہت آگے ہے۔اس کے پاس کارکنوں کی کمی نہیں رہی ہے۔یہ لاکھوں کے اجتماع کرتی ہے اور کروڑوں کا خرچ۔اس کے انتخابی جلسوں کی دھوم دھام اور رونقیں اپنے حریفوں سے کبھی کم نہیں رہیں۔ لیکن اس کے گوداموں میں وہ جنس آج بھی اگر نایاب نہیں تو کمیاب ضرورہے جس کے لیے مولانا مودودیؒ نے ’مردانِ کار‘ کی اصطلاح استعمال کی تھی۔ ایسے مردانِ کار جن کے پاس صرف دینی معلومات ہی نہ ہوں بلکہ وہ روحِ دین سے آشنا ہوں۔ جن میں ضروری علم بھی ہو اور حکمت بھی، اخلاقی قوت بھی ہو اورفہم و شعوربھی۔جو عوام کی زبان بھی جانتے ہوں اور ان کی نفسیات بھی۔جوعوامی مسائل سے بھی آگاہ ہوں اور جن کی سماجی رویوں کی متغیر لہروں پر بھی نظر ہو۔جن کے پاس معاشرے کے اندر اعتقادی، اخلاقی اور فکری انقلاب کا عزم بھی ہو اور تدبیر بھی۔ وہ اپنے کام کی ترجیحات و ترتیب کا تعین کرنا جانتے ہوں۔ جو سیاست کی ضرورتوں اور ووٹ کی طلب سے بالا ہو کر لوگوں کے دلوں کے دروازے کھٹکھٹائیں، ان کی مضمحل مسلمانیت میں جان ڈال سکیں۔جو بے لوث ہوں اور محبت اور خیر خواہی سے سرشار ہوں۔کوئی ان کو کارکن کا نام دے یا رکن کالیکن حقیقت میں وہ داعی اور مبلّغ ہوں۔جماعتِ اسلامی کی ہمہ جہتی کامیابیوں کے لیے یہی مردانِ کار مطلوب ہیں۔جماعتِ اسلامی کی قیادت اگر سمجھے توان مردانِ کار کا فقدان ہی اس کے اس خسارے کا سبب ہے جو میری نظر میں اس کا اصل خسارہ ہے۔
(بشکریہ: روزنامہ ’’نئی بات‘‘ کراچی۔ ۲۳ و ۲۵ جون ۲۰۱۵ء)
Leave a Reply