
نئی پانچ سالہ میقات کے لیے جماعتِ اسلامی کے امیر کا انتخاب قریب ہے۔مجلسِ شوریٰ نے ارکان کی رہنمائی کے لیے تین ناموں کا اعلان کر دیا ہے۔ اس مرحلے پرشخصیات کو زیرِ بحث لاناتو قطعاً مناسب نہیں ہے، البتہ جماعت کے حقیقی مزاج اور نصب العین اور موجودہ کردار کا ایک ہلکا سا تنقیدی جائزہ لینا خیر خواہی سے خالی نہیں ہو گا۔ دینی اور سیاسی جماعتوں میں خود احتسابی کی روایت بھی پنپنی چاہیے اور اگر ان کا کوئی بہی خواہ ان کی پالیسیوں پر تنقیدی نظر ڈالے تو اسے بھی نیک نیتی اور خیر خواہی پر محمول کرنا چاہیے۔ جماعتِ اسلامی اپنی کچھ خوبیوں کی وجہ سے سیاسی اور دینی حلقوں میں ایک منفرد مقام کی حامل ہے۔ پاکستان میں بیسیوں سیاسی اور دینی جماعتیں ہیں، ان میں یہ واحد ایسی تنظیم ہے جس میں اس کی تاسیس کے روز سے آج تک باقاعدہ انتخابات کے ذریعے ہر سطح کی قیادت چننے کی زرّیں روایت قائم ہے۔ اس میدان میں پچھلے عرصے میں تحریکِ انصاف نے کچھ پیش قدمی کی اور پھر یہ دعوے کیے کہ وہی ایک جماعت ہے جس میں انتخابات کے ذریعے عہدیدار سامنے لائے گئے لیکن اس کے انتخابات میں جو دھاندلیاں ہوئیں، پیسے کا جو استعمال ہوا اور دھڑے بندیوں کی جو فصل اُگی، جماعتِ اسلامی کی باسٹھ سالہ تاریخ میں ایسی کوئی مکروہ صورتِ حال رونما نہیں ہوئی۔ یہاں تو امید واری اور مقابلے والی کیفیت کبھی پیدا ہی نہیں ہوئی۔ دستورِ جماعت کی رو سے کوئی آدمی خود اپنے آپ کو بطورِ امیدوار پیش نہیں کرسکتا۔ ارکان اپنی صوابدید پرصالحیت اور صلاحیت کو پیمانہ بنا کر فیصلہ کرتے ہیں کہ کون ان کے ووٹ کا صحیح حقدار ہے۔ ہمارے ہاں دینی اور سیاسی جماعتوں کا ایک مسئلہ ہے جو حقیقت میں قومی زندگی میں بے شمار مسائل کی جڑ بن گیا ہے۔وہ یہ کہ جو جس جماعت کا سربراہ بن جاتا ہے، اس کو حضرتِ ملک الموت آ کر فارغ کریں تو کریں، ورنہ کوئی جیتے جی اپنی جماعت کی قیادت سے دست بردار ہونے کوتیار نہیں ہوتا۔ اس لحاظ سے بھی جماعتِ اسلامی کو یہ امتیاز حاصل ہے کہ اس وقت تک جماعت کی مرکزی امارت کے منصب پر فائز ہونے والی چار میں سے پہلی تینوں عالی قدر شخصیات نے از خود اس منصب کو مزید عرصے کے لیے قبول کرنے سے معذرت کی۔ہم نے اس جماعت میں عہدوں سے بھاگنے والے تو بہت دیکھے لیکن ان کے حصول کے لیے نجویٰ (Secret Canvassing) اور مہم خیزی کی مثالیں نہ ہونے کے برابرہیں۔ ہماری اجتماعی دینی اور سیاسی زندگی کا ایک اور المیہ یہ ہے کہ ملک کی تقریباً تمام جماعتوں میں قیادت کے لیے موروثیت ایک حد درجہ بھونڈی روایت بن گئی ہے۔کتنی ہی ایسی پارٹیاں ہیں جن میں پچھلے کئی کئی عشروں سے قیادت خاندانی وراثت کی طرح ایک نسل سے اگلی نسل کو منتقل ہو رہی ہے۔یہ وہ لوگ ہیں جن میں سے اکثر مغربی تہذیب و تمدّن کے دلدادہ ہیں، وہاں کی اعلیٰ درسگاہوں کی تعلیم سے آراستہ اورمغربی جمہوری اصولوں اور مغربی آدرشوں سے اچھے خاصے آگاہ بھی۔ لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ وہ جماعتی قیادت کی موروثیت کے معاملے میں نہ کسی نظریہ و اصول کو خاطر میں لاتے ہیں اور نہ عقل و فکراور کسی روشن معیار کو خاطر میں لاتے ہیں۔طرفہ تماشہ یہ ہے کہ ان موروثی قیادتوں کے مدّاحوں اور جیالوں متوالوں میں ایسے لِبرل اور ترقی پسند اورجمہوریت کا راگ الاپنے والے مغرب نواز لوگ بھی ہوتے ہیں جو مذہبی گروہوں کی ہر روش و روایت کو تو تحقیر کی نظر سے دیکھتے ہیں لیکن کئی کئی نسلوں سے بغیر کسی علمی ، اخلاقی، قانونی اور عملی معیار اور صلاحیت کے ایک ہی گھرانے اورایک ہی خاندان کی سیاسی قیادت پر اجارہ داری انہیں مضحکہ خیز محسوس نہیں ہوتی۔ یہاں بھی جماعتِ اسلامی اپنی انفرادیت اور امتیاز کے ساتھ سربلند کھڑی ہے۔ اس میں موروثیت جڑیں نہیں پکڑ سکی ہے۔ مختلف سطح پر جماعت کے عہدیداروں کے بیٹے بیٹیاں اور اقارب جماعت کی سرگرمیوں میں بڑھ چڑھ کر حصہ بھی لیتے ہیں اوراپنی نمایاں کارکردگی بھی دکھاتے ہیں، لیکن ان میں سے کوئی کسی منصب پر اس بنیاد پر دعویٰ نہیں جتلا سکتا کہ وہ کسی مرکزی، صوبائی یا ضلعی امیر، نائب امیر یا سیکرٹری کا بیٹا یا بیٹی یا قریبی رشتہ دارہے۔ جانچ پرکھ میں غلطی کے ہزار امکانات ہو سکتے ہیں، لیکن ارکان جب جماعتی عہدوں اور مناصب کے لیے کسی کو منتخب کرتے ہیں تو وہ اپنی دیانت اور سوجھ بوجھ کی آخری حد تک صالحیت اور صلاحیت ، خدمات اور کارکردگی اور علم وبصیرت کو ملحوظ رکھتے ہیں۔
اوپر جن امتیازات کا ذکر ہوا ہے یہ سب جماعتِ اسلامی کے تنظیمی پہلوئوں سے تعلق رکھتے ہیں۔ہر تنظیم کے ظاہری ڈھانچے کے ساتھ اس کا ایک معنوی رُخ بھی ہوتا ہے۔ جماعتِ اسلامی کا اصل امتیاز اس کا یہی معنوی وصف تھا، جس کے نظرانداز ہونے سے یہ اب ایک ہمہ گیر عالمی تحریک کے بجائے بس ایک سیاسی پارٹی بن کر رہ گئی ہے۔ اس کی جدوجہد، وسائل اور توانائیوں کا بڑا حصہ اسی بے ثمر سیاست کی نذر ہو رہا ہے۔ جس نصب العین کو لے کر یہ اٹھی تھی، وہ بڑی حد تک پسِ پشت چلا گیا ہے۔اپنے بنیادی مقاصدکے اعتبار سے اس کے کام کی نوعیت نہ تو صرف مدرساتی اور اکادمیاتی ہے کہ کچھ ادارے قائم کر دیے جاتے جہاں ایک لگا بندھا نصاب طالب علموں کو رٹایا، یاکسی دائرۃ المعارف میں کچھ محققین بٹھا دیے جاتے جو اسلامی موضوعات پر فاضلانہ تحقیقی مقالے لکھتے رہتے۔ اس کا مزاج خانقاہی بھی نہیں ہے کہ کچھ ’روحانی‘ ہستیاں لوگوں کو تعویذ لکھ لکھ کر بانٹتیں، دم درود کرتیں اور ورد وظیفے سکھاتی رہتیں۔یہ ایک منفرد دینی تحریک بن کر اٹھی تھی جس کا مقصد احیائے دین اور اعلائے کلمۃ اللہ تھا۔ دعوت اِلی اللہ اورتبلیغِ دین اس کا اصل میدان ہے جس کے ذریعے اشاعتِ پیغامِ حق، اصلاحِ عقائد، تعلق باللہ کی استواری، اجڑے دلوں کی اللہ اور اس کے رسولؐ کی محبت سے آبادی، تطہیرِ افکار، اسوۂ رسولؐ کے خطوط پر سیرت سازی اور تعمیرِ اخلاق اور تزکیۂ نفوس کی منزلیں طے کرنی تھیں۔ یہی راستہ تھا ایک صالح معاشرے کی تعمیر کا اور یہی تدبیر تھی ایک مثالی اجتماعیت کی تشکیل کی۔ اسی واسطے سے ایک صالح سیاسی قیادت کی تیاری ممکن تھی۔ یہی وہ مطلوب تھا جس کے حصول سے اس امت کے خزاں رسیدہ چمن میں فصلِ بہار متوقع ہو سکتی تھی۔ اب یہ سارے کام یا تو بڑی حد تک متروک ہیں یا پھر اپنی اصل روح سے خالی ہیں۔
پھر ایک اور قابلِ توجہ چیز ہے جو مسلسل نظرانداز ہو رہی ہے۔ اسلام محض اچھی نیت اور نیک تمنّا سے غالب نہیں آتا۔ صالح اجتماعی نظام کی وضع کاری کے لیے زرخیز دماغوں اور ماہر ہاتھوں کی ضرورت ہوتی ہے جو کسی انسان ساز تربیتی مرکز میں تیار ہوتے ہیں۔ پاکیزہ نظام اپنے لیے صداقت شعار، دیانت دار، امین اور راست باز بیوروکریٹ، قانون، اقتصادیات، خارجہ امور اور بین الاقوامی تعلقات کے شعبے میں مہارت اوردرک رکھنے والے بیدار مغز اور مخلص افراد مانگتا ہے۔ فاسد اور بگڑی ہوئی انتظامی مشینری سے صالح نظام کبھی نہیں چلایا جاسکتا۔ مطلوبہ معیار کے افرادِ کار کی تیاری بنیادی کام ہے۔ اس کام کے بغیر توانائیاں اور وسائل خرچ کرنا تپتے صحرا میں پھول کھلانے کی تمنا سے زیادہ کچھ نہیں۔ جماعت اسلامی کی ساری اسکیم میں سیاست موجود ضرور ہے لیکن یہ صرف ایک گوشہ ہے۔ ایک اہم راستہ ضرور ہے مگر منزلِ مقصود ہر گز نہیں ہے۔ سارے علمی، فکری، دعوتی اور اصلاحی منصوبے کو پسِ پشت ڈال کر تمام پونجی سیاست میں جھونک دینے کے نتائج سامنے ہیں۔ رابطۂ عوام کی اصل غرض لوگوں تک اللہ کاپیغام پہنچانا ہے نہ کہ کچھ سیاسی ضرورتوں کے تحت اپنی کاوشوں کو ریلیوں اور دھرنوں کی گرد میں اڑا دینا۔ جماعت کا کردار اگر صرف سیاسی ہو تو اس کی بھی کچھ اہم ضرورتیں ہیں۔ اوپر صالحیت کے ساتھ صلاحیت کا ذکر بھی آیا ہے۔ ایک دینی جماعت میں نیکی اور للّٰہیت کے جوہرکے ساتھ عقلی و اختراعی اور تخلیقی صلاحیتوں سے آراستہ افراد بھی ضروری ہوتے ہیں۔اس وقت حالت یہ ہے کہ ایک طرف جماعت کے ایوانِ دانش میں علم و فکر کے چراغ بجھے ہوئے ہیں تو دوسری طرف سیرت و کردار کی بھٹی بھی ٹھنڈی پڑی ہے۔ تربیتی معیار رو بہ تنزل ہے۔کتاب سے رشتہ ٹوٹ گیا ہے، جس کی وجہ سے فکر کی تازگی پر یبوست و رسمیت غالب آ گئی ہے۔
(بشکریہ: روزنامہ ’’نئی بات‘‘ کراچی۔ ۱۶؍جنوری ۲۰۱۴ء)
Leave a Reply