جو کوئی بھی سائنٹسٹ اور انجینئر بنتا ہے تو میں ہمیشہ اس کے سامنے چین کا تعارف ایک بھاری پتھر کے طور پر کراتا ہوں۔ یہ بات چینی رہنما جیانگ ژیمن نے فروری ۱۹۹۰ء میں اپنے ایک انٹرویو میں کہی تھی۔
’’میں خود بھی ایک بھاری پتھر ہوں جس کا وزن ۹۵ کلو گرام ہے۔ یہ آپ کے لیے بہت مشکل ہے کہ آپ ایسے بھاری پتھر کو اپنی جگہ سے دور ہٹا سکیں۔ آپ کو بالآخر یا تو پیچھے ہٹنا ہو گا یا نتیجتاً آپ خود نیچے گر پڑیں گے‘‘۔
جیانگ ژیمن جب کرسیٔ اقتدار پر نمودار ہوئے تھے اس وقت یہ قیاس آرائیاں تھیں کہ وہ صرف عبوری رہنما ہوں گے۔ لیکن انہوں نے اقتدار میں برقرار رہنے کا عندیہ دیا تھا اور وہ برقرار رہے۔ ۱۹۸۹ء میں ٹیانا مین اسکوائر خونریزی کے بعد سے جیانگ ژیمن نے کمیونسٹ پارٹی کے جنرل سیکرٹری کی جگہ لی اور اس ذمہ داری پر وہ ۱۳ سال یعنی ۲۰۰۲ء تک رہے۔ وہ دو سال مزید سینٹرل ملٹری کمیٹی کے چیئرمین رہے اور بالآخر ۱۹ ستمبر کو پارٹی کانگریس میں اپنی ہر ذمہ داری سے سبکدوش ہو گئے۔ میں بطور ایک ناتجربہ کار رپورٹر کے ’’یو ایس نیوز اینڈ ورلڈ رپورٹ‘‘ کی جانب سے جیانگ کے ساتھ کیے جانے والے ۱۹۹۰ء کے انٹرویو میں حصہ لیا۔ میں اس وقت ۲۳ سال کا نوجوان تھا اور یونیورسٹی سے ڈگری لے کر فوراً ہی فارغ ہوا تھا۔ اگرچہ میں ایک طالب علم کی حیثیت سے چین مین دو سال کا عرصہ گزار چکا تھا تاہم جیانگ سے انٹرویو کے لیے ابھی تیار نہ تھا۔ ایک ایسے نظام میں جو افسران کو لفظ بہ لفظ پارٹی لائن کی تقلید پر انعام سے نوازتا ہے (جیسا کہ موجودہ رہنما ہو جنتائو خاص طور سے اس معیار پر پورا اترتے ہیں) مجھے حیرت ہے کہ کس طرح جیانگ ژیمن اتنے اعلیٰ ترین منصب پر پہنچے اور کس طرح اس پر باقی رہے؟ ان کا آہنی پہلو ان کے اس جملے میں جھلکتا ہے کہ وہ ایک ناقابلِ جنبش بھاری پتھر ہیں۔ آئندہ چودہ سال سے زائد کے عرصے میں میں نے تین مزید انٹرویو جیانگ ژیمن سے کیے اور امریکا میں انکی ایک ملاقات میں مترجم کا بھی کام انجام دیا۔ میں نے جیانگ کو ترقی کرتا ہواہی پایا۔ تجارت‘ ثقافت اور مغرب کے تئیں اپنے رویے میں وہ جبلی طور پر لبرل تھے لیکن سیاسی کنٹرول کے معاملے میں ان کی سوچ حاکمانہ تھی۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ وہ معاشی اور خارجہ پالیسی سے متعلق اپنے نقطۂ نظر سے پارٹی کے نظریے کو متاثر کرنے میں زیادہ بااختیار ہو گئے۔ ان کے اقتدار میں آنے سے پہلے چین کی سیاست ٹوٹ پھوٹ کا شکار تھی۔ اس کی معیشت رو بہ زوال تھی اور دنیا میں اس کا مقام غیر یقینی تھا۔ اور جب انہوں نے اقتدار چھوڑا تو بامعنی سیاسی اصلاحات میں ان کی واضح ناکامی کے باوجود چین کی معیشت کی ترقی و فعالیت اور دنیا کے ساتھ اس کے روابط میں انہماک کوئی متنازعہ مسئلہ نہیں رہ گیا تھا۔ اگرچہ ڈینگ زیائوپنگ جن کا ۱۹۹۷ء میں انتقال ہو گیا‘ کا اس ترقی میں بیشتر ہاتھ ہے تاہم جیانگ ژیمن کا کردار بھی بہت اہم ہے۔ ابتدائی سالوں میں یہ واضح تھا کہ اگرچہ جیانگ ژیمن کی پاس ملک کی بہت اہم ذمہ داریاں ہوں گی۔ انہیں پھر بھی نسبتاً طاقتور عوام کے زیرِ سایہ اپنی خدمات انجام دینی ہوں گی۔ اپنے ۱۹۹۱ء کے انٹرویو میں تمام حساس مسئلوں پر وہ اس وقت کے ۸۰ و ۹۰ سال کے درمیان کی عمر کے کہنہ مشق صدر یانگ شانگکون کا حوالہ دینا ضروری خیال کرتے تھے اور اس کے بعد پھر ہمیشہ ڈینگ زیاوینگ کا حوالہ دیا کرتے تھے جن کے متعلق ہر کوئی یہ سمجھتا تھا کہ اصل اقتدار انہیں کے ہاتھ میں ہے۔ لیکن بہ تکرار جیانگ ژیمن نے ایسے حیران کن اقدامات کیے جو یہ ظاہر کرتے تھے کہ جن لوگوں نے ان کی سیاسی زیر کی کو کم اہمیت دی تو گویا انہوں نے اپنے لیے گڑھے کھودے۔ اس کی پہلی مثال ۱۹۹۲ء میں ہونے والی ۱۴ویں پارٹی کانگریس ہے جب یانگ شانگکون نے پارٹی اور ملٹری میں اپنے مناصب کھو دیے۔ آنے والے مارچ میں جیانگ ژیمن نے یانگ سے صدارت کا عہدہ لے لیا۔ جیانگ ژیمن نے اپنا آخری سرپرائز ۱۶ویں پارٹی کانگریس ۲۰۰۲ء میں دیا جب انہوں نے اسٹیٹ میڈیا کو یہ اجازت دی کہ وہ جنرل سیکرٹری شپ اور سینٹرل کمیٹی میں ان کی ماموریت سے ان کے استعفے کا اعلان کرے۔ لیکن اس کے بعد دوسرے ہی روز ملٹری سربراہ کے طور پر ازسرِ نو سامنے آئے۔ میرے نزدیک جیانگ ژیمن کا زمانہ اصلاً ۱۹۹۵ء سے شروع نہیں ہوا‘ جب تک ڈینگ آخرکار اتنے بیمار ہو گئے کہ ریاستی امور میں ان کی مداخلت ناممکن ہو گئی۔ جیانگ نے نہ صرف یہ کہ یو ایس نیوز کے ساتھ انٹرویو کو ایک طرف نہیں رکھا بلکہ انہوں نے ہمیں گھر لے جانے کے واسطے دے دیا اور پھر آرام سے بیٹھ کر تائیوان جیسے بھاری بھرکم مسئلے پر بہت ہی مضبوط اور رواں گفتگو کی۔ بعد کے سالوں میں جیانگ ژیمن نے پارٹی کے نظریۂ حکمرانی میں ایسی تبدیلی لائی جس کے نتیجے میں سرکاری اداروں کی نج کاری ممکن ہو سکی۔ نجی تاجروں کو قانونی تحفظ ملا اور پرائیویٹ تجارت کرنے والوں کو سیاسی عمل میں شمولیت ملی۔
جیانگ ژیمن نے ۱۹۹۹ء میں بلغراد میں چینی سفارت خانے پر بمباری کی بعد امریکا چین تعلقات کو تیزی سے خراب ہونے سے بچایا۔ یہ اور ان کے وزیراعظم زھورونگجی بہت ہی پرعزم طریقے سے ڈبلو ٹی او کی رکنیت حاصل کرنے کے لیے کام کیا۔ یہ تمام کام کمیونسٹ پارٹی کے اندر شدید متنازعہ تھے اس قدر کہ جیانگ کو اپنے ایجنڈے کی تکمیل کے لیے خاموش طریقے اختیار کرنے پڑے اور اپنی کامیابی کا زیادہ چرچہ کرنا ان کے لیے مشکل ہو گیا۔ ان کی عظیم ترین کامیابی کو آج آسانی سے محسوس کیا جاسکتا ہے کہ کمیونسٹ پارٹی مارکسسٹ ماڈل کے نامقبول ہونے کے بعد بھی باقی ہے اور اس نے ایک ایسی متبادل سوچ اختیار کر لی ہے جو چین کو ایک مستقبل کی پیش کش کرتی ہے۔
(بشکریہ: ’’فار ایسٹرن اکنامک ریویو‘‘۔ ۲۰ ستمبر ۲۰۰۴ء)
Leave a Reply