
مہذب دنیا ہنوز عالمی جہاد کے شکنجے میں ہے، مگر کم سے کم اب ہم اتنا تو ضرور سمجھ رہے ہیں کہ ہمارے معاشرے ایک نئی طرح کے تنازع میں الجھے ہوئے ہیں، جس میں ہمارا سابقہ انتشار کا شکار ایسے غیرریاستی دشمن سے پڑا ہے، جسے مذہبی عقائد اور سماجی میڈیا کی مِلی جُلی کمک حاصل ہے۔ خود ساختہ دولتِ اسلامیہ یقیناً حاملِ جواز قومی ریاست نہیں ہے، لیکن وہ پھر بھی اسلامی خلافت کے قیام کا عزم دہراتی رہتی ہے۔ القاعدہ اور اس جیسے متعدد جہادی گروہ بھی اسی مقصد کے لیے سرگرمِ عمل ہیں۔ مسلم دنیا کو مستحکم کرکے وہاں کے باسیوں کو بہتر معاشی مواقع اور عمدہ طرزِ حکمرانی فراہم کرنے کے لیے مربوط سفارتی عمل اب تک کئی مشکلات سے دوچار رہا ہے۔ لہٰذا اب ضرورت اس بات کی ہے کہ جہادیوں کی توجہ زمینی فتوحات سے ہٹانے کے لیے مشترکہ عسکری حکمتِ عملی بنائی جائے۔
یہاں یہ ماننا پڑتا ہے کہ یہ عالمی سطح پر کئی دہائیوں تک جاری رہنے والا عمل ہوگا۔ اس کے لیے ایک ایسی بے نظیر سفارتی کوشش کی بھی ضرورت ہوگی جو ملکی و غیر ملکی طاقتوں کی جانب سے ایک صدی سے زیادہ عرصے جاری رہنے والی نوآبادیت اور خود غرضانہ استحصال کی جگہ لے سکے۔ اس کے لیے پُرامن مقامی حکمرانی کی حقیقی بنیاد بھی ڈالنی ہوگی، تاکہ وہ حالیہ تاریخ کے استحصالی نظام کا متبادل بن کر غربت کے مارے، غیر تعلیم یافتہ اور نسلوں سے جبر میں زندہ رہنے والے مسلمانوں کو اقتصادی فوائد اور شرکت کے مواقع دے سکے۔ ہم جی ٹوئنٹی اور یوریشیا کی مسلم اکثریتی اقوام سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ ایک بین الاقوامی سربراہی اجلاس بلاکر ’’جغرافیائی سیاسی جی ایکس‘‘ (Geopolitical G-X) نامی ورکنگ گروپ بنائیں جس کا کام مشرقِ وسطیٰ اور پھر رفتہ رفتہ پوری مسلم دنیا میں استحکام لانے کے لیے جغرافیائی، سیاسی اور معاشی انتظامات پر اتفاقِ رائے پیدا کرنا ہو۔
داعش کسی بھی اعتبار سے انوکھا دشمن نہیں، بلکہ کئی سروں والے عفریت کی جدید شکل ہے: القاعدہ کی طرح اس کے سر کچل دیجیے، اس کو حقیر سمجھیں یا چاہے تباہ کردیں، لیکن پھر تیار رہیں کہ ایک اور معروف یا گمنام گروہ کھڑا ہوکر خود کو شرعی خلافت کا داعی قرار دیتے ہوئے مرئی و غیر مرئی بازو پھیلانا شروع کردے گا۔ ایک اور بہت زیادہ نظر انداز کی گئی حقیقت یہ ہے کہ آج کا جہاد اسلام کی فرقہ وارانہ تقسیم سے بالاتر ہے۔ مثال کے طور پر ماضی میں انصارِ بیت المقدس کہلانے والی صحرائے سینا میں داعش کی شاخ مصر، لیبیا اور سعودی عرب کے سَلَفی (سُنّی) جہادیوں نے نائن الیون کے حملوں کے بعد قائم کی، لیکن اس کی براہِ راست تربیت اور مالی امداد حماس کے عسکری بازو کی جانب سے کی گئی، جس کا سرپرست اور امداد دہندہ شیعہ ایران کے سوا کوئی نہیں۔ طاقتور ایرانی کھلاڑی داعش کو خفیہ امداد پہنچانے میں بہت زیادہ دلچسپی رکھتے ہیں تاکہ وہ اسرائیل اور مصر کو غیر مستحکم کرکے علاقائی بالادستی کے ایرانی عزائم کو پروان چڑھا سکے۔ ہمیں پیشوائی کے خواہاں ایسے شیعہ، سُنّی عناصر بہت مل جائیں گے، جو زبردست خلافتی جہاد کے ذریعے اپنے دشمنوں اور پورے پورے خطوں کو غیر مستحکم کرنے کے عزائم لیے دہشتگردی کی حمایت کرنے سے نہیں ہچکچاتے۔
ہر معلوم ذریعے سے جہاد کا مقابلہ کرنے کے لیے فرقہ وارانہ اور قومی سرحدوں سے بالاتر، اور تاریخی اتحادوں اور ریاستی حدود کی پروا نہ کرنے والی مشترکہ حکمتِ عملی درکار ہوگی۔ دشمن کا نام جہاد ہے اور اتحادیوں میں وہ قومی ریاستیں، برادریاں اور غیر ریاستی عناصر شامل ہیں جو اس کا مقابلہ کرنا چاہتے ہیں۔ کیا اس کا مطلب یہ ہے کہ ’’بدترین‘‘ کا مقابلہ کرنے کے لیے ’’بُرے‘‘ کا ساتھ دیا جائے؟ بدقسمتی سے اس کا جواب کم از کم ابتدا میں تو ’’ہاں‘‘ ہی ہے۔ مغرب کو معتدل مسلم اقوام کے ساتھ کام کرنا ہوگا، سماجی میڈیا کا منفی استعمال روک کر اس پر اپنا پیغام عام کرنا ہوگا، روس سمیت ’’کم بُرے‘‘ اتحادیوں کو ساتھ ملانا ہوگا، اور مخصوص اہداف کے لیے مخصوص اقدامات کرنے ہوں گے، جن میں بیک وقت مشترکہ فضائی حملے، نو فلائی زون اور گھر گھر تلاشی شامل ہیں۔
اس کے باوجود اگر پچھلی دہائی نے ہمیں کچھ سکھایا ہے تو وہ یہ ہے کہ جنگ جیتنا کامیابی کا پہلا قدم ہوتا ہے۔ قیامِ امن کے لیے ایک غیر معمولی بین الاقوامی تعاون درکار ہوگا جس کی خاطر مخصوص قیاسات اور خود پر ضرورت سے زیادہ بھروسا کرنے والے کثیر قومی اداروں کے بارے میں سوچ بدلنی ہوگی۔ اس ’’جغرافیائی سیاسی جی ایکس‘‘ عمل کا رُخ مستقبل کی جانب ہونا چاہیے، طریقۂ کار اور مباحث اس طرح کے ہوں جو فریقین کو بوجھل اتحادوں سے آزاد کراکے گفتگو میں شامل کرداروں کی تاریخی بنیادوں کی تعظیم کی طرف لے جاسکیں۔ جہادی عنصر کے ثقافتی، مذہبی، اور معاشی محرکات کو سمجھنے کے لیے یہ ضروری ابتدائی اقدامات ہیں۔ بنیاد اس آزادانہ تجزیے پر رکھی جانی چاہیے کہ حکمرانی کے وہ مختلف انداز کون سی خوبیوں اور خامیوں کے حامل ہیں جو منفرد، مقامی سطح پر مناسب، سماجی، اور ادارہ جاتی دیرپا تصفیوں کی راہ ہموار کریں گے۔
اس جغرافیائی سیاسی جی ایکس کے لیے ضروری نہیں ہے کہ نئی بین الاقوامی نوکر شاہی کی شناخت بھی اپنائے۔ حال میں جی ٹوئنٹی اور جی ایٹ جیسے اتحادوں نے بیسویں صدی کے غیرلچکدار اداروں کی نسبت زیادہ مؤثر اور قابلِ عمل نتائج دیے ہیں۔ لیکن یہ نسبتاً غیررسمی ادارے زیادہ ثقافتی تنوع اور تخلیقی نتائج تو دیتے ہیں مگر ان کے پاس بین الاقوامی قانون کی طاقت بہرحال نہیں ہے۔ پھر بھی ہم سمجھتے ہیں کہ ان تجربات پر انحصار کرنے سے جہاد کا مسئلہ حل کرنے کی طرف زیادہ مؤثر پیش رفت ہوسکتی ہے۔
ضروری ہے کہ بڑی سیاسی طاقتیں یہ اتحاد تشکیل دیں اور اسے اس سطح تک لے جائیں کہ تمام اہم کردار خود بخود اس کی طرف متوجہ ہوجائیں۔ ابتدا اصولاً تو ایک سُنّی، شیعہ اتحاد کی صورت میں ہونی چاہیے گوکہ ایسا مستقبل قریب میں ہوتا نظر نہیں آتا۔ امریکا، روس، اور خطے پر قابض رہنے والی سابقہ سامراجی طاقتوں کا کردار بھی کلیدی ہوگا، تاہم پیش منظر میں ان اقوام کو رہنا چاہیے جن کے اوپر گزشتہ صدی کی سامراجیت اور خود غرضی کا زیادہ بوجھ نہیں ہے۔
جرمنی اور چین کو اندرونی طور پر سیاسی و معاشی چیلنجوں کا سامنا ہے، لیکن امریکا اور روس سمیت دیگر جی ٹوئنٹی اقوام کے ساتھ رابطہ کاری کرکے یہ ممالک مثبت تعمیری کردار ادا کرسکتے ہیں۔ مسلم دنیا کے حوالے سے ان دونوں ممالک کا کوئی خاص منفی کردار نہیں رہا اور ان کے سُنّی، شیعہ رہنماؤں سے اچھے تعلقات بھی ہیں۔ پناہ گزینوں کو قبول کرنے کے اینجلا میرکل کے انتہائی متنازعہ فیصلے کی کم سے کم یہ تو اچھی بات تھی کہ اس سے مسلم حلقوں میں کچھ خیر سگالی پیدا ہوئی ہے۔ دونوں ہی ملکوں کو اندرونی طور پر جہاد کا بھی سامنا ہے: چین کو جنوب مغربی صوبے میں اور جرمنی کو پناہ گزینوں اور جرمن پاسپورٹس کے ساتھ واپس لوٹتے داعش کے جنگجوؤں سے۔ اور پھر چین اور جرمنی کی ایسی تاریخ نہیں رہی کہ انہوں نے اپنے خود غرضانہ معاشی و جغرافیائی سیاسی مفادات کی خاطر مشرقِ وسطیٰ کا استحصال کیا ہو۔ اب اگر جرمن چانسلر اینجلا میرکل اور چینی صدر شی جن پنگ آپس میں بااعتماد تعلق رکھتے ہوئے پہلا سربراہی اجلاس بلالیں تو اس میں شرکت سے انکار کرنا دوسروں کے لیے مشکل ہوگا۔ امریکا اور روس کے لیے ہوسکتا ہے جرمنی اور چین کی میزبانی برداشت کرنا مشکل ہو۔ لیکن اس کے لیے بھی چین اور جرمنی کو جغرافیائی سیاسی منظرنامے پر قائدانہ کردار اپنانا ہوگا: جرمنی کو اپنی قائدانہ صلاحیتیں یورپ سے باہر بھی آزمانی ہوں گی؛ اور چین کو صرف اپنے معاشی مفادات سے آگے نکل کر عالمی استحکام کے تناظر میں آگے بڑھ کر قائدانہ سفارتی ذمہ داری اٹھانی ہوگی۔
یہاں تمام بڑی طاقتوں کے لیے ایک موقع ہے۔ اس اتحاد میں سعودی عرب، ترکی اور انڈونیشیا سمیت دیگر جی ٹوئنٹی ممالک اور ان اہم مسلم اقوام کو شامل کیا جانا چاہیے جنہیں بین الاقوامی برادری کی حمایت حاصل ہے۔ اقوام متحدہ، افریقی یونین، خلیج تعاون کونسل، او ای سی ڈی، آسیان، آئی ایم ایف اور عالمی بینک کو مستقل مہمانی کے دعوت نامے بھیجے جانے چاہییں۔ ان ممالک کو مبصر کا درجہ ملنا چاہیے جو جغرافیائی اعتبار سے کسی بھی طرح تصفیے میں حصہ دار بن سکیں، خاص طور پر اسرائیل، یا پھر وہ اقوام جہاں مسلم آبادی تیزی سے بڑھ رہی ہے جیسے افریقا بجنوب صحرا (sub-Saharan Africa) کے ممالک۔ پہلے سال اس کی مشترکہ سربراہی جرمنی اور چین کے پاس ہونی چاہیے اور پھر امریکا اور روس کے پاس جانے کے بعد جی ٹوئنٹی کی طرح کسی ایک (غیر مسلم) ریاست کے پاس جانی چاہیے۔ نگرانی کے عمل کے لیے ایک علیحدہ چار ریاستی ٹیم ہونی چاہیے، جس میں اصولاً متعلقہ کثیر القومی ادارے بھی ہونے چاہییں۔
کئی دہائیوں تک خطے میں سیاسی و ادارہ جاتی خلا کے باعث ’’سیاسی اسلام‘‘ کو پنپنے کا خوب موقع ملا جس سے بڑی بڑی آبادیوں کے اقتصادی امکانات محدود ہوگئے اور ان پرمعاشی استحصال کرنے والی آمرانہ حکومتیں یا پھر شدت پسندی مسلط ہوگئی۔ اس نئے ’’جغرافیائی سیاسی جی ایکس‘‘ کی توجہ کا مرکز امکانات کے نئے در وا کرنا ہونا چاہیے۔
دیرپا سیاسی تصفیے کی بنیاد اسی وقت رکھی جاسکتی ہے، جب عراق و شام کو منتشر ہونے سے بچا لیا جائے۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ حالیہ عسکری اتحاد اور جی ایکس کے مابین مربوط تعلق موجود ہو۔ فریقین کو چاہیے کہ ایک نمائندہ مقرر کریں جو رابطہ کار کا کام انجام دیتے ہوئے افہام و تفہیم کے نئے راستے بھی تلاش کرتا رہے۔
ہر مقامی ثقافت کے تناظر میں مختلف نظام ہائے حکومت کا مطالعہ کیا جانا چاہیے۔ مغربی طرز کی جمہوریت جہاں کچھ اقوام کے لیے بہترین دیرپا حل ثابت ہوگی، وہیں دیگر اقوام شاید معتدل، غیر استحصالی آمرانہ حکومتوں کے ساتھ بہتر محسوس کریں، جیسے متحدہ عرب امارات اور مراکش۔ بادشاہتوں نے ان اقوام میں بہت عوامی حمایت حاصل کی ہے جس کی بڑی وجہ دولت کی کسی حد تک منصفانہ تقسیم، اور تعلیم، حقوقِ نسواں، اور بہتر معیارِ زندگی کی بہتر صورتِ حال رہی ہے۔ سب سے بڑھ کر، کسی بھی ناپسندیدہ متبادل کے مقابلے میں مستحکم اور شفاف متبادل اسی وقت سامنے آئے گا جب محض ایک آئینی نظام کو روایتاً دوسرے سے بدل دینے کے بجائے وسیع تر اتفاقِ رائے پر مبنی عمل جاری کیا جائے۔ نتیجتاً ممکن ہے کہ خطے کا نقشہ نسلی اور فرقہ وارانہ وابستگیوں کی بنیاد پر ہونے والی تبدیلیوں سے فائدہ اٹھاکر سُنّیوں، شیعوں، علویوں، کُردوں، اور دیگر نسلی گروہوں کے الگ الگ خطوں میں تقسیم ہوجائے۔
دیگر قدیم مذاہب کی طرح اسلام کے ماننے والے بھی کروڑوں میں ہیں اور مہذب دنیا صرف یہ امید ہی کرسکتی ہے کہ وہ بھی اپنے عقائد کی مزید تہذیب یافتہ اور جدید تعبیر کرکے ایک پُرامن اور پُرآسائش زندگی کی طرف آجائیں۔ ہوسکتا ہے کچھ لوگ جہاد کے حامی ہوں، یا غیر جانبدار ہی ہوں، پھر بھی کچھ لوگوں میں یہ ہمت موجود ہے کہ مذہبیت کی کھلے عام مخالفت کرڈالیں، حالانکہ انہیں یہ خوف لاحق رہتا ہے کہ انہیں ’’مشرک‘‘ قرار دے کر انتقام کا نشانہ بنایا جائے گا۔ پھیلتی ہوئی دہشتگردی اور انتہاپسندی پر مسلمانوں کی تکلیف دہ خاموشی کم سے کم اتنا احساس ضرور دلاتی ہے کہ امن سے محبت کرنے والے مسلمانوں کو یہ مذہبی لڑائی لڑنے کے لیے یقین دہانیاں اور مزید قوت فراہم کی جانی چاہیے۔
مغربی جمہوریتوں کو بھی اب احساس ہوچلا ہے کہ جہادی نظریات، مذہب اور اظہارِ رائے کی آزادی، اور بے سروسامان مہاجرین کو پناہ دینے کی ہماری سوچی سمجھی پالیسی سے فائدہ اٹھاکر اندر ہی اندر جڑیں پھیلا رہے ہیں۔ تمام مسلمانوں کا داخلہ بند کردینا یقیناً کوئی حل نہیں ہے، لیکن جہاد پر اکسانا آئینی تحفظ کا حامل کھلا اظہار نہیں بلکہ کھلا جرم ہے۔ ہم تمام مسلمانوں کے ساتھ نہیں بلکہ صرف جہادی عناصر کے ساتھ حالتِ جنگ میں ہیں اوریہ عناصر جہاں کہیں ملیں، انہیں پہچان کر قابو کیا جانا چاہیے۔ کمیونٹی مراکز سمیت کسی بھی جگہ نفرت انگیز تقاریر کو برداشت نہیں کیا جانا چاہیے۔ ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ مساجد میں کھلے عام جہاد کی ترغیب دی جاتی ہے اور داعش کی بنیاد ایک عشرے قبل عراقی جیل میں اس وقت رکھی گئی جب وہاں امریکی موجود تھے۔
حال ہی میں ۱۹۵؍ممالک کے دستخط کردہ ماحولیاتی اعلامیے کے بارے میں صدر اوباما نے کہا تھا کہ یہ آنے والی صدیوں میں ’’اِس اکلوتے سیارے کو بچانے کا بہترین موقع ہے جو ہمیں رہنے کو ملا ہے‘‘۔ ہوسکتا ہے ایسا ہی ہو۔ لیکن آئیے اب اسی جذبے کو اس واضح اور سامنے موجود خطرے سے نمٹنے کے لیے بروئے کار لائیں جس نے اعتدال پسند مسلمانوں کو انتہا پسند بنا کر مفلوج کررکھا ہے، اور ممکنہ طور پر جوہری ہتھیار کی حامل خلافت کو ہمارے سامنے لاکھڑا کیا ہے۔ آج فرسودہ عالمی بیانیے پر مبنی قیاسات پراحتیاط کے ساتھ دوبارہ نظرثانی کرنے کی ضرورت ہے۔
(ترجمہ: حارث رقیب عظیمی)
“Jihad & a geopolitical G-X: Winning the war and building the peace”. (“csis.org”.Feb.12,2016)
Leave a Reply