ہماری رائے کے مطابق جہادی تحریکوں کو ایک خاص عرصے تک کے لیے ہر قسم کے جنگ و جدال سے علیحدہ رہتے ہوئے اسلامی ریاستوں کے حکمرانوں سے خیر خواہی کے جذبے کے تحت اپنے روابط بڑھانے چاہییں۔ حکمرانوں کے ساتھ اس اتحاد میں اصل بنیاد امریکا کے خطے میں بڑھتے ہوئے اثر و رسوخ کی روک تھام، پاکستان کی سا لمیت کے تحفظ اور مسلمانوں پر ظلم کے خاتمے کو بنانا چاہیے، نہ کہ اعلائے کلمتہ اللہ اور نفاذِ شریعت جیسے نعروں کو (جس سے حکمرانوں کو پہلے ہی چِڑ ہے)۔ اسی قسم کی جنگی سیاست و تدبیر کو اللہ کے رسولﷺ نے ’’الحرب خُدعۃ‘‘ (جنگ تو چال ہے) کا نام دیا ہے۔
جہادی تحریکوں کو یہ بھی چاہیے کہ وہ ایسے نوجوانوں کو اکٹھا کریں جو انجینئرنگ، سائنس اور ٹیکنالوجی میں اعلیٰ تعلیم یافتہ ہوں۔ ان نوجوانوں کو مختلف اسلامی ریاستوں مثلاً سعودی عرب، ایران، مصر اور پاکستان وغیرہ میں حکومتی سطح پر ایک مشن کے طور پر کھپایا جائے اور جدید ٹیکنالوجی کے حصول کی طرف خصوصی توجہ دی جائے۔
اسلامی ممالک کی تنظیم او آئی سی میں تحریک پیدا کرنے کے لیے کوششیں کی جائیں اور عالم اسلام کو متحد کیا جائے۔
دین دار تاجر طبقوں خصوصاً عرب سرمایہ داروں کو اکٹھا کرتے ہوئے ملٹی نیشنل کمپنیوں کے مقابلے میں اسلامی انڈسٹریز بنائی جائیں تاکہ مسلمان صنعتی و معاشی طور پر خود کفیل ہوں۔
مقصود یہ ہے کہ جہادی تحریکوں کو کچھ عرصے تک اپنی توانائیاں عالمی سطح پر مسلمانوں کی تعلیم، معیشت، ٹیکنالوجی اور سیاسی گٹھ جوڑ پر صرف کرنی چاہییں تاکہ اسلامی ریاستیں اور جہادی تحریکیں مل کر ایک خاص عرصے میں سپر پاور نہ سہی، ایک منی سپر پاور کے طور پر سامنے آئیں۔ اس سلسلے میں پہلی جنگ عظیم میں امریکا اور دوسری جنگ عظیم کے بعد چین کی پالیسیوں سے رہنمائی لی جا سکتی ہے۔ دونوں نے ایک خاص وقت تک کے لیے اپنے ممالک کو ہر قسم کے جنگ و جدال سے دور رکھتے ہوئے اپنے اقتصاد اور ٹیکنالوجی کی ترقی پر ساری توجہ مرکوز رکھی، جس کے نتائج وہ آج حاصل کر رہے ہیں۔
علاوہ ازیں اسلامی ریاستوں کے حکمرانوں کی اصلاح کے لیے کسی بھی عسکری طریقہ کار کی بجائے آئینی، دعوتی، تبلیغی، اصلاحی، انتخابی، احتجاجی، پرامن مظاہروں، پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا کے ذرائع وغیرہ کو استعمال کرنا چاہیے۔
چند شبہات اور ان کے جوابات
۱۔ طالبان تحریک سے بہت سے گروہ نظریاتی اختلافات کی بنا پر علیحدہ ہو کر چھوٹے چھوٹے دھڑوں میں تقسیم ہوتے گئے۔ ان دھڑوں میں سے بعض ایسے ہیں جو حکومتِ پاکستان کو کافر قرار دیتے ہیں اور حکومت کی معاونت کی وجہ سے افواجِ پاکستان، رینجرز اور پولیس پر بھی کفر کا فتویٰ لگاتے ہیں۔ لہٰذا یہ حضرات سیکوریٹی فورسز پر پاکستان میں ہر جگہ خودکش حملوں کو جائز قرار دیتے ہیں۔ ان میں سے ایک طبقہ تو اس قدر شدت پسند ہے کہ اس کے نزدیک حکومتِ پاکستان کے تمام ملازمین طاغوتی نظام کی اعانت کی وجہ سے کافر اور مباح الدم ہیں(یعنی جن کا خون بہانا حلال و جائز ہے)۔ ہمارے نزدیک تکفیر کے اس طرزِ فکر اور طرزِ عمل کا نتیجہ مسلمانوں کی باہمی قتل و غارت کے سوا کچھ نہیں ہے۔ اس میں چند ناسمجھ اور جوشیلے نوجوان مبتلا ہیں جو اس تکفیر کے نتیجے میں مسلمان حکمرانوں اور پاکستانی سیکوریٹی فورسز سے قتال کو ہر مسلمان پر ’’فرض عین‘‘ قرار دیتے ہیں۔ یہ نوجوان عام طور پر قرآن کی آیات اور اَئمہ سلف کے فتاویٰ کو اپنے موقف کے حق میں دلیل کے طور پر پیش کرتے ہیں۔
ہماری رائے کے مطابق یہ گروہ امت مسلمہ کے مسائل حل کرنے کی بجائے انہیں بڑھا رہا ہے۔ یہ حضرات واضح طور پر کہتے ہیں کہ ہم پاکستان کو بھی عراق بنانا چاہتے ہیں۔ ٹینشن، فرسٹیشن اور ڈیپریشن میں مبتلا اس قتالی تحریک کو سوئی ہوئی امت مسلمہ کو جگانے کا بس ایک ہی طریقہ نظر آتا ہے کہ ان سب کو باہمی جنگ و جدال میں جھونک دو۔ یہ حضرات مسلمانوں کو چولہے (حکومتی ظلم و ستم) سے اٹھانے کی بات کرتے ہیں، لیکن ساتھ ہی تنور (باہمی قتل و غارت) میں جھونکنا چاہتے ہیں۔ شریعت ہمارے مسائل حل کرنے آئی ہے، نہ کہ پیدا کرنے کے لیے۔ اگر ان حضرات کے منہج کو اختیار کر لیا جائے تو شاید ایک مسئلہ حل ہو جائے۔ لیکن اس سے جو بیس مسائل آگے پیدا ہوں گے، ان کی طرف ان کی نظر بالکل بھی نہیں جاتی۔ یہ نوجوان طبقہ حکمرانوں پر کفر کے فتوے لگا کر ان سے قتال یا افواجِ پاکستان پر خودکش حملوں کا راستہ تو تجویز کرتا ہے، لیکن اس کے نتائج سے کبوتر کی طرح آنکھیں بند کیے ہوئے ہے۔ پاکستانی حکومت کے کمزور ہونے کا اصل فائدہ کس کو ہو گا؟ امریکا، اسرائیل اور انڈیا کو؟ یا اس قتالی تحریک کو؟ ہم پہلے ہی اسلام دشمنوں سے لڑنے کی پوزیشن میں نہیں ہیں اور باہمی جنگ و جدال سے اپنے ملک کو اور زیادہ کمزور کر لیں گے۔ پاکستانی حکومت کی شکست اور پاکستان کا بھی عراق جیسا حشر ہونے سے کیا امت مسلمہ کے مسائل حل ہو جائیں گے؟ حضرت علیؓ فرماتے ہیں کہ ’’میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے سُنا ہے:
’’آخری زمانے میں ایک جماعت ایسی ہو گی جو نوجوانوں اور جذباتی قسم کے احمقوں پر مشتمل ہو گی۔ وہ قرآن سے بہت زیادہ استدلال کریں گے اور اسلام سے اس طرح نکل جائیں گے کہ جس طرح تیر کمان سے نکل جاتا ہے‘‘۔
(صحیح بخاری، کتاب فضائل القرآن، باب اِثم من رأی بقرأۃ القرآن أوتأ کل بہ)
(اس مفہوم کی دسیوں روایات صحاح ستہ میں موجود ہیں، جن میں اس گروہ کے لیے بڑی سخت وعیدیں اور اقدام نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے مروی ہیں)۔
راہِ اعتدال اور اہلِ سنت کا مؤقف یہ ہے کہ پاکستان کے حکمران، افواج، رینجرز، پولیس او ر ملازمین کافر نہیں ہیں، بلکہ ان میں سے بعض ظالم ہیں، بعض فاسق ہیں اور بعض مومن صادق ہیں۔ اہلِ سنت کے عقیدے کی معروف کتاب ’’شرحِ عقیدۂ طحاویہ‘‘ میں لانکفر أحدا بذنب مالم یستحلہ (کسی کو اس کے گناہ کے سبب، جب تک کہ وہ اسے حلال نہ کر لے، ہم کافر نہیں کہتے) کے تحت بڑی عمدہ بحث موجود ہے۔
سیکوریٹی فورسز کے جن اہلکاروں نے وزیرستان میں قبائلیوں پر حملہ کیا تو قبائلیوں کے لیے اپنے دفاع میں ہتھیار اٹھانا اور سیکوریٹی فورسز کے اہلکاروں کو قتل کرنا جائز ہے۔ لیکن اس قتل و غارت کی صورت میں دونوں طرف سے مرنے والے مسلمان ہیں اور ان کی نماز جنازہ پڑھی جائے گی۔ البتہ سیکوریٹی فورسز کی یہ قتل و غارت گناہ کبیرہ کے درجے میں آئے گی اور وہ ظالم و فاسق شمار ہوں گے۔
دوسری صورت میں اگر اقدام مجاہدین کی طرف سے ہوتا ہے تو دونوں طرف کے مسلمان شہید ہوں گے اوران کی نمازِ جنازہ پڑھی جائے گی۔ اس صورت میں سیکوریٹی فورسز کے اہلکار ظالم و فاسق یا گناہ کبیرہ کے مرتکب نہیں قرار پائیں گے، کیونکہ وہ دفاعی قتال کر رہے ہیں۔
تیسری صورت یہ ہے کہ مجاہدین اپنے دفاع میں کسی اہلکار کو ہلاک کر سکتے ہیں۔ لیکن جو اہلکار مجاہدین سے لڑنے نہیں جاتے، مثلاً وہ کراچی، لاہور یا دوسرے شہروں میں تعینات ہیں، تو ان اہلکاروں پر خود کش حملے کرنا حرام اور گناہ کبیرہ ہے اور اس کا قصاص لینا واجب ہے۔ یہ جہاد نہیں، فساد ہے۔ کیونکہ یہ اہلکار کلمہ پڑھتے ہیں، اللہ اور اس کے رسولﷺ سے محبت رکھتے ہیں، اللہ کے سامنے سر بسجود ہوتے ہیں۔ وہ قرآن،آخرت، فرشتوں، رسالت اور تقدیر پر ایمان رکھتے ہیں۔ لہٰذا وہ صاحبِ ایمان قرار پائیں گے۔
اگر بالفرض تکفیری گروہ کی یہ بات مان بھی لی جائے کہ حکمران اور سیکوریٹی فورسز کے اہلکار فلاں فلاں اسباب کی وجہ سے کافر ہو گئے ہیں، تو ہمارا سوال یہ ہے کہ کسی مرتد کافر کے اسلام لانے کا کیا طریقہ کار ہے؟ ظاہری بات ہے کہ یہی طریقہ ہے کہ وہ کلمہ شہادت کا اقرار کرے اور سیکوریٹی فورسز کے اہلکار کلمہ شہادت کا اقرار بدستور کر رہے ہیں۔ لہٰذا وہ مسلمان ہیں۔
یہ بات بھی واضح ہے کہ پرویز مشرف اور اس کی کابینہ کے فیصلوں میں ایک عام سیکوریٹی اہلکار کا عمل دخل نہ ہونے کے برابر ہوتا ہے اور سیکوریٹی فورسز کے اہلکاروں کی اکثریت ایسے افراد پر مشتمل ہے جو پرویز مشرف کو گالیاں دیتی ہے۔ ان کو اگر کسی جگہ مجاہدین کے خلاف آپریشن کا حکم دیا بھی جاتا ہے تو وہ رضا مندی کی بجائے جبرو اِکراہ سے ایسی کارروائی کرتے ہیں۔ ان میں سے ایک بہت بڑی تعداد تو ایسے افراد کی ہے جو معاشی مجبوریوں کے تحت حکومت کی بات ماننے پر مجبور ہوتے ہیں۔ علاوہ ازیں حکومت کی طرف سے قرآن و سنت کی روشنی میں ان اہلکاروں کے سامنے یہ بات ثابت کی جاتی ہے کہ مجاہدین ریاست کے باغی ہیں اور ان کے خلاف قتال واجب ہے۔ لہٰذا بہت سے حضرات مجاہدین کے خلاف کارروائی ایک دینی فریضہ سمجھ کر کر رہے ہوتے ہیں۔ پس ان کا حکم ’’متاولین‘‘ کا ہو گا اور امت کا اس بات پر اجماع ہے کہ تاویل کی غلطی کی وجہ سے کسی پر بھی کفر کا فتویٰ نہیں لگایا جائے گا۔ لہٰذا یہ بھی صاحبِ ایمان ہیں۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے:
’’اور جو کوئی بھی کسی مسلمان کو جان بوجھ کر قتل کرے گا تو اس کا بدلہ جہنم ہے، جہاں وہ ہمیشہ ہمیشہ رہے گا اور اس پر اللہ کا غضب ہو گا اور اللہ کی لعنت ہو گی اور اللہ تعالیٰ نے اس کے لیے دردناک عذاب تیار کر رکھا ہے‘‘۔ (النساء:۹۳)
رسول اللہﷺ نے عبداللہ بن اُبیٔ اور اس کے ساتھیوں کے کفر اکبر کے باوجود ان سے قتال نہیں کیا، جبکہ ان کے کفر پر قرآن بھی شاہد تھا، تو ان کلمہ گو مسلمان اہلکاروں کو کافر قرار دیتے ہوئے ان کے خلاف قتال کیسے جائز ہو جاتا ہے؟ اسلامی تاریخ میں شاید ہی حجاج بن یوسف جیسے سفّاک اور ظالم حکمران کی کوئی مثال موجود ہو، جس نے صحابیٔ رسول حضرت عبداللہ بن زبیرؓ کی خلافت کے خاتمے کے لیے مکہ کا محاصرہ کیا، ان کو شہید کروا کے سولی پر چڑھایا، بیت اللہ پر سنگ باری کروائی اور ہزاروں مسلمانوں کو صرف اپنے اور بنو امیہ کے اقتدار کو برقرار رکھنے کے لیے قتل کروایا۔ اس شخص کے فتنوں سے تنگ آکر دو صحابیؓ حضرت عبداللہ بن عمرؓ کے پاس آئے اور کہا :
’’لوگوں نے امانت کو ضائع کر دیا (یعنی حق دار کو امارت و خلافت عطا نہ کی) اور آپ ابن عمرؓ ہیں، رسول اللہﷺ کے صحابیؓ بھی ہیں۔ پھر آپ ان ظالم حکمرانوں کے خلاف خروج کیوں نہیں کرتے؟ حضرت عبداللہ بن عمرؓ نے کہا: مجھے اللہ کا یہ حکم ان کے خلاف خروج سے روکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے مسلمان بھائی کے خون کو حرام کیا ہے۔ ان میں سے ایک نے کہا: کیا اللہ تعالیٰ نے یہ حکم نہیں دیا ہے کہ ان سے قتال کرو یہاں تک کہ فتنہ ختم ہو جائے (یعنی حضرت عبداللہ بن زبیر کو بنوامیہ کے فتنے سے نکالنے کے لیے قتال ہونا چاہیے)۔ حضرت عبداللہ بن عمرؓ نے جواب دیا: ہم نے قتال کیا تھا، یہاں تک کہ فتنہ ختم ہو گیا اور دین (یعنی اطاعت) اللہ ہی کے لیے ہو گیا۔ اب تم یہ چاہتے ہو کہ تم قتال کرو یہاں تک کہ فتنہ (یعنی مسلمانوں کی باہمی قتل و غارت کا فتنہ) پیدا ہو اور دین غیر اللہ کے لیے ہو جائے۔
(صحیح بخاری، کتاب التفسیر، باب وقاتلوھم لاتکون فتنہ)
صحیح بخاری ہی کی ایک اور روایت کے الفاظ ہیں کہ ایک شخص نے حضرت عبداللہ بن عمرؓ سے آکر کہا کہ آپ ہر سال حج و عمرہ تو کرتے ہیں، لیکن اللہ کی رستے میں جہاد نہیں کرتے۔ حضرت عبداللہ بن عمرؓ نے کہا: ارکان اسلام پانچ ہی ہیں (یعنی جہاد ان میں شامل نہیں ہے)۔ اس شخص نے کہا اللہ تعالیٰ نے تو یہ حکم دیا ہے کہ اگر مسلمانوں کے دو گروہ آپس میں لڑ پڑیں تو ان کے درمیان صلح کرائو اور اگر پھر ان میں کوئی ایک زیادتی کرے تو اس کے خلاف لڑو۔ یہ شخص دراصل حضرت عبداللہ بن عمرؓ کو کہہ رہا تھا کہ ’’فَقَاتِلُوا الَّتِیْ تَبْغِیْ‘‘ کی نص کے تحت آپ پر ظالم گروہ کے ساتھ قتال واجب ہے تو اس پر حضرت عبداللہ بن عمرؓ نے اسے وہ جواب دیا جو اوپر مذکور ہے۔
اسی طرح قرآن مجید نے مسلمانوں کے آپس میں لڑنے والے دونوں گروہوں کو مومن کہا ہے، اگرچہ ان میں سے ایک ظالم بھی ہو۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
’’اور اگر اہلِ ایمان کے دو گروہ آپس میں لڑ پڑیں تو ان کے درمیان صلح کروائو۔ پس اگر ان میں سے ایک دوسرے پر ظلم کرے تو اس ظلم کرنے والے کے خلاف لڑو، یہاں تک کہ وہ اللہ کے حکم (یعنی صلح) کی طرف لوٹ آئے۔ پس جب وہ ظلم کرنے والا گروہ لوٹ آئے تو ان دونوں کے درمیان پھر عدل و انصاف سے صلح کرائو، بے شک اللہ تعالیٰ نیکی کرنے والوں کو پسند کرتا ہے‘‘۔ (الحجرات:۹)
عام مسلمان کے لیے ظالم اور باغی گروہ کے خلاف قتال اِس صورت میں ہے جبکہ اس میں قتال کی صلاحیت و استطاعت موجود ہو۔ لیکن عصر حاضر میں ریاست کو اس کے ظلم سے روکنے کے لیے احتجاجی و آئینی طریقہ تو اختیار کیا جا سکتا ہے، لیکن قتال کا نہیں۔ حضرت عبداللہ بن عمرؓ نے بھی اسی اندیشے سے حکومت کے باغی گروہ کے خلاف قتال کے طریقہ کو فتنہ قرار دیا تھا کہ اس سے مسئلہ سلجھنے کی بجائے، باہمی قتل و غارت کے بڑھنے کے یقینی امکانات موجود تھے۔
جہاں تک ائمہ سلف کے ان فتاوی کا تعلق ہے جو کہ قتال کی فرضیت کے بارے میں مروی ہیں تو وہ ایک خاص ماحول اور حالات کے تحت جاری کیے گئے تھے جو کہ آج موجود نہیں ہیں۔ قرآن و سنت دائمی ہیں، یعنی ان میں قیامت تک کے لیے رہنمائی موجود ہے۔ لیکن أئمہ کے فتاویٰ کی شرعی حیثیت دائمی نہیں ہے کہ وہ ہر زمانے کے لیے قابل عمل ہوں۔ اصولِ فقہ کا یہ معروف قاعدہ ہے : عُرف کے بدلنے سے فتاویٰ یا اجتہاد بدل جاتے ہیں۔
۲۔ تکفیری گروہ کی طرف سے ایک شبہ یہ بھی پیش کیا جاتا ہے کہ یا تو ہم دارالحرب میں ہیں یا دارالاسلام میں۔ اب پاکستان دارالاسلام تو نہیں ہے، کیونکہ یہاں طاغوتی نظام قائم ہے۔ لہٰذا یہ دارالحرب ہے۔ جب پاکستان دارالحرب ہے تو قتال ’’فرض عین‘‘ ہے۔
دارالحرب و دارالاسلام کی تقسیم کون سی آسمان سے نازل شدہ ہے کہ جس سے اختلاف جائز نہیں ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ فقہا نے اپنے زمانوں میں مسلمانوں کو بعض مسائل سمجھانے کے لیے یہ تقسیم پیش کی تھی کہ جس کا دین کی بنیادوں یا شریعت کے اصولوں سے سرے سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ آج ہم اپنے زمانے کے اعتبار سے مسلمانوں کے مختلف خطوں کو مختلف نام دیں گے۔ آج جس دنیا میں مسلمان آباد ہیں، وہ کئی دائروں میں تقسیم ہے۔ مثلاً دارالحرب، دارالاسلام، دارالکفر، دارالمسلمین، دارالعہد، دارالصبر، دارالامن اور دارالہجرت وغیرہ۔
دارالحرب سے مراد وہ مسلمان علاقے ہیں جہاں کافروں نے جبری قبضہ کر رکھا ہے اور مسلمان ان کے خلاف جنگ کر رہے ہیں۔ مثلاً عراق، افغانستان، کشمیر اور فلسطین۔
دارالاسلام سے مراد وہ علاقے ہیں کہ جہاں اللہ کی حاکمیت بالفعل نافذ ہو، جیسا کہ امارتِ اسلامی افغانستان کی ریاست تھی یا پھر موجودہ سعودی عرب اورایران (جہاں شیعہ مسلک کا اسلام نافذ ہے) کسی درجے میں اس کی مثال بن سکتے ہیں۔
دارالکفر سے مراد وہ علاقے ہیں جہاں کافروں کی اکثریت ہے اور حکومت بھی انہی کے کنٹرول میں ہے۔
دارالمسلمین سے مراد وہ مسلمان ریاستیں ہیں جہاں فاسق و فاجر حکمران قابض ہیں اوراسلامی نظام اپنی مکمل شکل میں بالفعل نافذ نہیں ہے۔ جیسا کہ پاکستان و مصر وغیرہ ہیں۔
دارالعہد سے مراد وہ کافر ریاستیں ہیں کہ جہاں مسلمان ایک اقلیت کے طور پر آباد ہیں اور ان کا ریاست سے یہ عہد ہے کہ وہ اس کے خلاف بغاوت نہیں کریں گے اور جواباً کافر ریاست بھی ان کے حقوق ٹھیک طرح سے ادا کرے گی جیسا کہ انڈیا، امریکا، برطانیہ اور یورپی ممالک میں بسنے والے مسلمان ہیں۔ دارالعہد سے مراد وہ کافر ریاستیں بھی ہیں جن کے ساتھ مسلمان ریاستوں نے جنگ نہ کرنے کا معاہدہ کر رکھا ہو۔
دارالصبر سے مراد مسلمانوں کے وہ علاقے ہیں جن پر کفار نے قبضہ کر لیا ہو۔ وہاں مسلمانوں پر ظلم و ستم جاری ہو اور مسلمان اس پوزیشن میں نہ ہوں کہ وہ کافر حکمرانوں سے جنگ کر سکیں، جیسا کہ ۱۸۵۷ء کی جنگ آزادی کے بعد برصغیر کے مسلمانوں کا حال تھا۔ ان علاقوں میں کفار حکمرانوں سے جنگ کی بجائے پرامن ذرائع سے آزادی کی کوششیں جاری رکھی جائیں گی۔
دارالامن سے مراد کفار کے وہ علاقے ہیں جو کہ پوری دنیا میں امن و امان کے خواہاں ہیں اور کسی بھی قوم سے لڑائی نہیں چاہتے، یہاں تک کہ ان میں سے بعض نے اپنی باقاعدہ فوج بھی نہیں بنائی۔ مثلاً سوئٹزرلینڈ اور جاپان وغیرہ۔
دارالہجرت سے مراد مسلمانوں کے وہ علاقے کہ جن کی طرف مسلمان اپنے علاقوں میں کفار کے ظلم سے تنگ آکر ہجرت کریں، جیسا کہ انڈیا اور افغانستان سے مسلمانوں نے بڑی تعداد میں پاکستان کی طرف ہجرت کی تھی۔ وغیرذٰلک۔
۳۔ ایک عام مغالطہ یہ ہے کہ دفاعی قتال ’’فرضِ عین‘‘ ہے۔ افغانستان پر امریکا کا حملہ ہوا۔ اب افغانیوں پر قتال ’’فرضِ عین‘‘ ہے۔ اگر وہ قتال کے لیے کافی نہ ہوں تو ساتھ والی ریاستوں کے باشندوں پر قتال ’’فرضِ عین‘‘ ہو جائے گا۔ اگر وہ بھی کفایت نہ کریں تو یہ فرض پھیلتے پھیلتے تمام امت مسلمہ پر ’’فرضِ عین‘‘ ہو جائے گا۔
جواب میں پہلی بات تو یہ کہنی ہے کہ ’’دفاعی قتال‘‘ بھی ہر حال میں ’’فرضِ عین‘‘ نہیں ہوتا۔ یہ اس صورت میں ’’فرضِ عین‘‘ ہو گا کہ جب گمانِ غالب ہو کہ مسلمانوں کے اس دفاعی قتال کے نتیجے میں بالآخر ان کو فتح ہو گی یا دشمن کو بھاری نقصان پہنچے گا۔ اس بات کو ہم ایک سادہ سی مثال سے سمجھ سکتے ہیں۔ اگر آپ راستے میں جا رہے ہوں اور آپ کو چار افراد گن پوائنٹ پر روک لیں اور یہ حکم جاری کریں کہ اپنا مال ہمارے حوالے کر دو، یا چار مسلح افراد آپ کے سامنے کسی دوسرے شخص کو قتل کر رہے ہوں تو ایسی صورت میں جبکہ آپ کے پاس حفاظت اور بچائو کا کوئی ہتھیار بھی نہ ہو اور گمانِ غالب یہ ہو کہ اگر آپ نے اپنا مال یا دوسرے شخص کی جان بچانے کے لیے مزاحمت کی تو آپ کی اپنی جان بھی ضائع ہو جائے گی اور وہ مقصد بھی پورا نہیں ہو گا۔ ایسی صورت میں آپ پر ان افراد کے ساتھ لڑنا ’’فرضِ عین‘‘ تو کجا، مستحب بھی قرار نہیں دیا جا سکتا ہے۔ اس لیے اگر مسلمانوں کی مقبوضہ سرزمین پر کسی کافر حکمران کے خلاف دفاعی قتال کے نتیجے میں مسلمانوں کی آزادی کا گمان غالب ہو اور کفر کو کوئی بڑا ضرر پہنچنے کے امکانات ہوں تو ایسا قتال اس مقبوضہ سرزمین کے افراد پر ’’فرضِ عین‘‘ ہو گا۔ لیکن اگر کسی جگہ مسلمانوں کے ’’دفاعی قتال‘‘ کا نتیجہ ان کی نسل کشی کی صورت میں نکل رہا ہو تو پھر یہ ’’دفاعی قتال‘‘ جائز نہیں ہو گا۔ عام طور پر اس مسئلے میں ایک حدیث سے استدلال کیا جاتا ہے۔ حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ ایک شخص نے رسول اللہﷺ کے پاس آکر سوال کیا:
’’اے رسول اللہﷺ! آپ ؐکی اس بارے میں کیا رائے ہے کہ ایک شخص مجھ سے میرا مال زبردستی لینا چاہتا ہے۔ تو رسول اللہﷺ نے فرمایا: اس کو اپنا مال مت دو۔ اس شخص نے دوبارہ سوال کیا: آپؐ کی اس بارے میں کیا رائے ہے کہ وہ میرا مال لینے کے لیے مجھ سے قتال تک کرنے کو تیار ہے۔ آپ ؐ نے فرمایا: تُو بھی اس سے قتال کر۔ اس شخص نے پھر کہا: آپؐ کا کیا خیال ہے اگر وہ شخص مجھے قتل کر دے۔ آپؐ نے فرمایا: تُو شہید ہے۔ اس شخص نے ایک اور سوال کیا کہ آپؐ کی اس بارے میں کیا رائے ہے کہ میں اس کو قتل کر دوں۔ آپؐ نے فرمایا وہ جہنمی ہے‘‘۔
(صحیح مسلم، کتاب الایمان، باب الدلیل علی من قصد اَخذ مال غیرہ بغیر حق کان)
یہ حدیث اس بات کی دلیل نہیں ہے کہ اگر کوئی شخص گن پوائنٹ پر مجھ سے میرا مال چھیننا چاہے جبکہ میں نہتا ہوں تو میں اس سے لڑائی کروں اوراپنی جان قربان کر دوں۔ رسول اللہﷺ نے ’’قتال‘‘ کا حکم دیا ہے اور قتال دوطرفہ ہوتا ہے اور اس وقت ہوتا ہے جب دونوں طرف طاقت کا کوئی معقول توازن موجود ہو۔ چار افراد کے پاس کلاشنکوفیں ہیں اور دوسری طرف خالی ہاتھ ایک آدمی ہے تو یقینی صورت ہے کہ وہ نہتا آدمی قتل ہو جائے گا، سوائے اس کے کہ وہ مارشل آرٹ کا ورلڈ چیمپئن ہو۔ رسول اللہﷺ کے دور میں طاقت کا توازن موجود تھا اور عُرف میں یہ بات عام تھی کہ ہر شخص اپنا ہتھیار مثلاً تلوار وغیرہ اپنے پاس رکھتا تھا۔ لہٰذا اگر کوئی شخص کسی سے اس کا مال چھیننا چاہتا ہو تو وہ جواباً اس کو قتل بھی کر سکتا ہے۔ اسی لیے صحابیؓ نے اس بارے میں سوال بھی کیا کہ اگر میں اس کو قتل کر دوں تو پھر اس کا حکم کیا ہو گا۔ ہم یہی سمجھتے ہیں کہ اگر کسی درجے میں طاقت کا توازن قائم ہو، جیسا کہ قبائلی علاقوں میں یہ بات دیکھنے میں آتی ہے کہ وہاں عُرف یہ ہے کہ ہر شخص اپنا ہتھیار اپنے پاس رکھتا ہے، تو ایسے علاقوں اور ایسی صورتحال میں انسان کو اپنا دفاع لازماً کرنا چاہیے اور اس دفاع میں اگر وہ قتل بھی ہو جائے تو شہید ہے۔
۱۸۵۷ء کی جنگ آزادی میں بھی دفاعی قتال کا منہج اختیار کرنے کا نتیجہ یہ نکلا کہ مسلمان ۵۰ سال تک قیادت سے محروم ہو گئے۔ انگریزوں نے ردعمل میں آکر آزادی کی اس تحریک کو اس قدر کچلا کہ مسلمانوں کی رہنمائی کرنے والا کوئی لیڈر باقی نہ چھوڑا۔ پھر پچاس سال کے بعد نئی نسل میں علامہ اقبال بھی پیدا ہو رہے ہیں اور قائد اعظم بھی، مولانا ابوالکلام آزاد بھی اور شیخ الہند بھی۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ جس تحریک کے ذریعے انگریز کی غلامی سے آزادی حاصل ہوئی وہ قتال کی تحریک نہیں تھی، بلکہ ایک آئینی و سیاسی تحریک تھی۔ اگر مقصود ظلم کا خاتمہ ہے، جس کے لیے قتال مشروع قرار دیا گیا ہے، قتال کے علاوہ کسی اور منہج سے بہتر طور پر حاصل ہو رہا ہو تو کیا اس جدید ذریعہ سے اس مقصود کا حصول حرام ہو گا؟۔
دوسری بات یہ عرض ہے کہ کوئی بھی ’’فرضِ کفایہ‘‘ اگر امت کے بعض طبقوں پر ’’فرضِ عین‘‘ ہو جائے تو پھر بھی تمام امت پر ’’فرضِ عین‘‘ کبھی نہیں ہوتا۔ اس کی سادہ سی مثال نمازِ جنازہ ہے۔ کسی بستی (مثلاً پشاور) میں کسی شخص کا انتقال ہو جاتا ہے۔ اگر پشاور کے علما یا مسلمان اس کی نمازِ جنازہ نہیں پڑھتے تو اس کا یہ مطلب ہر گز نہیں ہے کہ افریقہ یا یورپ میں بیٹھا ہوا مسلمان بھی گناہ گار ہو گا اور یہ فرض عدم ادائیگی کی صورت میں پھیلتا پھیلتا امت کے تمام افراد پر ’’فرضِ عین‘‘ ہو جائے گا۔ یہ بات بالکل درست ہے کہ ’’فرضِ کفایہ‘‘ کی عدم ادائیگی کی صورت میں یہ فرض الأقرب فالأقرب کے اصول کے تحت امت میں آگے منتقل ہو گا۔ لیکن اس منتقلی میں بنیادی شرط اس فرض کی ادائیگی کی اہلیت اور اسباب و ذرائع ہیں۔ اس لیے اگر افغان باشندے امریکا کے بالمقابل اپنے ملک کا دفاع نہیں کر سکتے تو افغانستان کے ساتھ ملحقہ ریاستوں کے حکمرانوں اور سربراہان پر یہ قتال ’’فرضِ عین‘‘ ہو گا۔ نہ کہ عامتہ الناس پر۔ ہم یہ بات پہلے بھی واضح کر چکے ہیں کہ آج جہاد و قتال کی کامیابی کا دار و مدار عددی قوت تک محدود نہیں ہے، بلکہ ٹیکنالوجی اور جدید آلاتِ حرب و ضرب پر بھی منحصر ہے۔ جب عامتہ الناس کے پاس نہ تو قتال کی اہلیت ہے اور نہ اس کے اسباب و ذرائع تو ان پر قتال کیسے فرض عین ہو سکتا ہے؟ سورۃ توبہ میں تو یہ ہے کہ اہلیت اور اسباب و ذرائع نہ ہونے کی وجہ سے قتال غزوۂ تبوک کے موقع پر بھی فرض نہیں ہوا، جبکہ اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے قتال کے لیے نفیرِ عام تھی۔ اسباب و ذرائع سے ہماری مراد افغانستان، عراق یا کشمیر جانے کا کرایہ، کلاشنکوف یا ہینڈ گرنیڈ نہیں ہے۔ بلکہ اس سے مراد وہ اسباب و ذرائع ہیں جن کے ذریعے امریکا، انڈیا یا اسرائیل کو شکست دینے کا کم از کم امکان تو ہو۔ ہمارے خیال میں یہ اسباب و ذرائع اس وقت ریاستِ پاکستان کے پاس تو موجود ہیں، لیکن کسی جہادی تحریک کے پاس نہیں ہیں۔
۴۔ عام طور پر جہادی تحریکوں کے رہنمائوں کی تقاریر اور علما کی تحریروں میں عوام الناس کے لیے ایک مغالطہ یہ بھی موجود ہوتا ہے کہ ریاست کے بغیر ہونے والے اس جہاد کے نتیجے میں کل ہی امریکا کے ٹکڑے ہو جائیں گے یا انڈیا فتح ہو جائے گا یا اسرائیل دنیا کے نقشے سے مٹ جائے گا۔ اس لیے ہمیں یہ قتال ضرور کرنا چاہیے۔
اصل سوال یہ ہے کہ اس بات کا تعین کرنے کا طریقہ کیا ہو گا کہ معاصر جہادی تحریکوں کے قتال کے نتیجے میں امت مسلمہ کو مجموعی سطح پر کوئی فائدہ ہو رہا ہے یا ضرر پہنچ رہا ہے؟ ہمارے خیال میں اس کا تعین ماضی قریب کے واقعات، حالاتِ حاضرہ اور مستقبل قریب کی تاریخ سے کیا جاسکتا ہے۔ حالات کا تجزیہ کرتے ہوئے ایک بندہ ٔ مومن کو نہ تو سی این این اور بی بی سی کی اطلاعات و اخبار پر اندھا اعتماد کرنا چاہیے اور نہ ہی جہادی تحریکوں کے اس پروپیگنڈے کا شکار ہونا چاہیے کہ جس میں ہر فدائی کارروائی میں فرشتوں کے نزول کی کہانی بیان کی جاتی ہے یا روس کی طرح امریکا کے ٹکڑے ٹکڑے ہونے کی خوشخبری سنائی جاتی ہے یا انڈیا کے فتح ہونے کی نوید ہوتی ہے۔ ہمارے تجزیہ و تجربے کے مطابق ایسی تمام تقریریں اور تحریریں مبالغے پر مبنی اور حقائق کے خلاف ہوتی ہیں۔ راقم الحروف کو اسلام آباد کی ایک جامع مسجد میں ایک معروف جہادی تحریک کے مفتی صاحب کا خطاب سننے کو ملا۔ جس میں انہوں نے حاضرینِ مجلس کو یہ خوشخبری سنائی کہ مسلمان مجاہدین نے ایک ایسی بندوق (Gun) ایجاد کرلی ہے جو کئی کلو میٹر دور سے بھی دشمن کا صحیح نشانہ لگا کر اس کو موت کے گھاٹ اُتار سکتی ہے اور اس گن کی وجہ سے امریکی فوجی اتنے خوفزدہ ہو گئے ہیں کہ انہوں نے مارے خوف کے پیمپرز (Pampers) پہننا شروع کر دیئے ہیں۔ حقائق یہ ہیں کہ عراق کو امریکا نے جہنم کی بھٹی بنا رکھا ہے۔ اگر امریکا، عراق سے نکل بھی جائے تو اس نے پیچھے کیا چھوڑا ہو گا جس پر مجاہدین اللہ کا دین غالب کریں گے؟ ویران کھنڈر، فرقوں اور مسلکوں میں تقسیم اور باہم متصادم آبادی اور امریکا کی بنائی ہوئی فوج اور انتظامیہ!! اگر بالفرض امریکا، عراق سے نکل بھی جائے تو پھر بھی عراق کو معاشی طور پر خودکفیل ہونے کے لیے طویل عرصہ درکار ہو گا۔ اس بات کی کیا گارنٹی ہے کہ امریکا کے چلے جانے کے بعد عراق میں مجاہدین کی حکومت قائم ہو جائے گی؟ اگر وہ قائم ہو بھی گئی تو کیا بعد میں وہاں امریکا اپنے مفادات کو خطرے میں بتا کر دوبارہ حملہ آور نہیں ہو گا؟ پھر اس بات کا فیصلہ کون کرے گا کہ عراق میں سنّی مجاہدین کی حکومت ہو گی یا شیعہ علما کی؟ علاوہ ازیں یہ تلخ حقیقت بھی موجود ہے کہ اگر کسی مجاہد کی فدائی کارروائیوں کے نتیجے میں دو امریکی فوجی جہنم واصل ہوتے ہیں تو پچاس مسلمان بھی شہادت کے مرتبے پر فائز ہوتے ہیں۔ اس کے بارے میں جہادی تحریکوں کے پاس یہ عذر ہوتا ہے کہ جنگ میں تو سب جائز ہے۔ ہم یہ سوال کرتے ہیں کہ کیا جنگ میں جانتے بوجھتے سیکڑوں مسلمانوں کی جان لینا جائز ہو جاتا ہے؟ جبکہ ایک مسلمان کی جان کی حرمت کو رسول اللہﷺ نے کعبے کی حرمت سے بڑھ کر بیان کیا ہے۔ حقائق سے متعلقہ یہ اور اس جیسے بیسیوں سلگتے ہوئے سوالات ایسے ہیں جن کے جوابات مذکورہ کسی جہادی تحریک کے پاس نہیں ہیں۔
ہم عراق میں ہونے والے قتال کے خلاف نہیں ہیں۔ لیکن ہمارے خیال میں عدل و انصاف کا تقاضا یہ ہے کہ قتال کے لیے ابھارنے والے ان واعظین کو عوام الناس سے تصویر کا دوسرا رُخ چھپانا نہیں چاہیے۔ مسلمانوں کا یہ حق ہے کہ اُن کو اندھیرے میں نہ رکھا جائے تاکہ وہ حقائق کی روشنی میں خود فیصلہ کریں کہ معاصر جہادی تحریکوں کا یہ جہاد و قتال اپنے نتیجے کے اعتبار سے امت مسلمہ کو کوئی فائدہ پہنچا رہا ہے یا نہیں؟ اگر کوئی مسلمان صدقِ دل سے اس نتیجے تک پہنچتا ہے کہ ریاست کے بغیر ہونے والے اس قتال سے امریکا ٹوٹ جائے گا یا انڈیا فتح ہو جائے گا یا اسرائیل سے بیت المقدس کو آزاد کروا لیا جائے گا تو اسے ضرور بالضرور اس قتال میں شریک ہونا چاہیے، بلکہ اس کے لیے اس قتال میں شرکت ’’فرضِ عین‘‘ ہے۔ اگر کوئی بندۂ مومن یہ سمجھتا ہے کہ اس قسم کے قتال سے اگرچہ مسلمانوں کو کوئی فتح تو نصیب نہیں ہو گی، لیکن اس سے دشمن کو کوئی بڑا مالی یا جانی ضرر پہنچایا جا سکتا ہے جس سے دشمن کی قوت کمزور یا اُس کی گرفت ڈھیلی ہو سکتی ہے، تو ایسی صورت میں اس کے لیے قتال مستحب ہو گا۔ لیکن اگر کوئی مومن پورے اخلاص کے ساتھ اور اپنے مشاہدے، تجزیے اور تجربے کی بنیاد پر یہ نتیجہ نکالتا ہے کہ جس قتال کا وہ حصہ ہے یا حصہ بننے جا رہا ہے اس سے کسی جہادی تحریک کے رہنمائوں کے مفادات وابستہ ہیں یا کسی جہادی تحریک کے لیڈر، علما اور قتال کو فرض عین کہنے والے مفتی حضرات حبِ جاہ، حبِ مال اور اپنے وی آئی پی پروٹوکول کی خاطر قتال کے لیے نوجوانوں کو تیار کرتے ہیں (حالانکہ وہ خود کو اور اپنی اولاد کو اسی قتال کی سعادت سے محروم رکھتے ہیں) یا معصوم، لاعلم اور سیدھے سادے جذباتی نوجوانوں کے لیے ان تحریکوں کے معسکرات (چھائونیاں اور تربیتی کیمپس) ایسے خرکار کیمپ ثابت ہو تے ہیں جو ان کو جبراً فریضہ قتال کی ادائیگی پر مجبور کرتے رہتے ہیں اور اس کی انتہا ایک مجاہد کے اپنے گھر والوں کے لیے یہ الفاظ ہوتے ہیں کہ میں واپس ہونا چاہتا ہوں لیکن اب میرے لیے واپسی کا کوئی رستہ نہیں ہے۔ شہادت میرا مقدر ہو چکی ہے۔ اگر میدانِ جنگ میں نہ شہید ہوا تو یہ لوگ مجھے شہید کر دیں گے یا اگر کوئی بندۂ مومن یہ سمجھتا ہے کہ اس قسم کے قتال سے اگر دو امریکی مریں گے تو ساتھ ہی پچاس مسلمان بھی شہید ہوں گے اور اس قتال کا نتیجہ مسلمانوں کی نسل کشی کے سوا کچھ نہیں ہے تو ایسے شخص پر یہ فرضِ عین ہے کہ قتال کے نام پر ہونے والے اِس عمل سے ممکن حد تک دور چلا جائے۔
ریاست کی سطح پر ایسی جنگ جس کے نتیجے میں امریکا کے ٹوٹنے کے پچاس فی صد بھی امکانات ہوں، اُس میں اگر پچاس ہزار مسلمان بھی شہید ہو جائیں تو کوئی پروا نہیں ہے۔ لیکن دو امریکی فوجیوں کو مارنے کے لیے پچاس مسلمانوں کو شہید کرنا یا کروانا کون سی عقلمندی یا دینداری ہے؟
ہمارے ہاں عام طور پر یہ دلیل بھی دی جاتی ہے کہ جہادی تحریکوں کے قتال کے نتیجے میں روس کے ٹکڑے ٹکڑے ہو گئے، حالانکہ حقائق اس کے بالکل برخلاف ہیں۔ روس کے ٹکڑے مجاہدین کے ہاتھوں اس لیے ہوئے کہ اس قتال کے پیچھے دو ریاستوں امریکا اور پاکستان کا پورا عمل دخل موجود تھا۔ ہم یہ سوال کرتے ہیں کہ روس جو اُس وقت ایک عالمی سپرپاور تھا، اس کے لیے کیا یہ مشکل تھا کہ وہ امریکا کی طرح افغانستان پر بمباری کر کے مجاہدین کو پہاڑوں میں پناہ لینے پر مجبور کر دیتا؟ ہمارے خیال میں روس بالکل ایسا کر سکتا تھا، بلکہ اُس نے ایسا کیا بھی۔ لیکن اس کو اُس وقت امریکا، دوسری عالمی طاقتوں اور عالمی رائے عامہ کے جس دبائو کا سامنا کرنا پڑا اور جس طرح جدید ترین امریکی ہتھیاروں، بشمول نہایت کارگر اسٹنگر میزائل کی کھیپ کی کھیپ مجاہدین کے حوالے ہو گئی، اِن عوامل سے امریکا کو طالبان پر حملہ کرتے وقت واسطہ نہیں پڑا۔ طالبان کی حکومت کو اگر صرف پاکستانی حکومت کی امداد بھی حاصل ہوتی تو امریکا کو کبھی بھی افغانستان پر قبضہ کرنے کی جرأت نہ ہوتی۔۔۔ (جاری ہے۔!)
{}{}{}
Leave a Reply