قتال کی عِلّت (وجہ اور سبب)
اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو جو احکامات دیے ہیں وہ عِلَل (وجوہ و اسباب) پرمبنی ہوتے ہیں۔ بعض اوقات ان احکامات کی عِلَل خود شارع کی طرف سے نصوص میں بیان کر دی جاتی ہیں، جبکہ بعض اوقات فقہا ان کو مسالکِ عِلّت کی روشنی میں تلاش کرتے ہیں۔ قتال کی عِلّت جو اللہ سبحانہٗ و تعالیٰ نے قرآن میں بیان کی ہے، وہ ظلم ہے۔ یعنی ظلم کے خاتمے کے لیے اللہ تعالیٰ نے قتال کو مشروع قرار دیا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
’’اجازت دی گئی ان لوگوں کو (قتال کی) جو کہ قتال کرتے ہیں اس وجہ سے کہ ان پر ظلم ہوا‘‘۔ (الحج:۳۹)
اس آیت میں ’’باء‘‘ تعلیلیہ ہے، یعنی یہ اذنِ قتال کی علّت بیان کر رہا ہے۔ یہاں یہ بات ذہن میں رہے کہ حکمِ قتال کی علّت کفر یا شرک نہیں ہے، اگرچہ کہ قتال اصلاً مشرکوں اور کافروں سے ہی ہوتا ہے۔ مسلمانوں کو کافروں یا مشرکوں سے قتال کا حکم اس لیے نہیں دیا گیا کہ وہ کافر یا مشرک ہیں یا اسلام کا مقصود دنیا کو کافروں اور مشرکوں سے پاک کرنا ہے۔ بلکہ کافروں اور مشرکوں سے قتال کے حکم کی بنیادی وجہ بھی ’’ظلم‘‘ ہے، کیونکہ دنیا میں جہاں بھی اور جس قدر بھی شرک اور کفر ہو گا، وہاں اُسی قدر ظلم بھی ہو گا۔ اس لیے کافروں اور مشرکوں سے ’’قتال‘‘ دراصل ظالموں سے قتال ہے، کیونکہ ظلم اور کفر و شرک تقریباً لازم و ملزوم ہیں۔ چنانچہ ہم دیکھتے ہیں قرآن میں شرک کے لیے ’’ظلم‘‘ اور کافروں کے لیے ’’ظالمین‘‘ کے الفاظ آئے ہیں۔ لہٰذا ’’ظلم‘‘ اگر مسلمان کرے تو اس سے بھی قتال ہو گا۔ ارشاد باری ہے:
’’اور اگر اہلِ ایمان کے دو گروہ آپس میں لڑ پڑیں تو ان کے درمیان صلح کرا دو، اور اگر (صلح کے بعد) ان میں سے ایک فریق دوسرے پر زیادتی کرے تو تم سب اُس سے قتال کرو جو زیادتی کرتا ہے، یہاں تک کہ وہ اللہ کے حکم کی طرف لوٹ آئے‘‘۔ (الحجرات:۹)
اسی طرح اگر کافر، ’’ظالم‘‘ نہ ہو تو اس کے ساتھ ’’قتال‘‘ نہیں ہو گا، بلکہ ایسے کافروں کے ساتھ حُسنِ سلوک بھی جائز ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
’’اللہ تعالیٰ تمہیں اُن کافروں سے حُسنِ سلوک یا انصاف کرنے سے منع نہیں کرتا کہ جنہوں نے تم سے دین کے معاملے میں قتال نہیں کیا اور نہ ہی تمہیں تمہارے گھروں سے نکالا۔ بے شک اللہ تعالیٰ انصاف کرنے والوں کو پسند کرتا ہے‘‘۔ (الممتحنہ:۸)
لہٰذا ’’قتال‘‘ صرف ان کافروں اور مشرکوں سے مشروع ہے جو ’’ظلم‘‘ کے مرتکب ہوں۔ پھر ’’ظلم‘‘ بھی کئی طرح کا ہوتا ہے۔ ایک ظلم وہ ہے جس کا تعلق انسان کی اپنی جان سے ہوتا ہے۔ جیسا کہ کسی شخص کا، کافر یا مشرک ہونا بھی ایک ظلم ہے۔ لیکن ایسا ظلم جو کسی انسان کے اپنے نفس تک محدود رہے اور متعدی نہ ہو تو اُس ظلم کے خلاف ’’قتال‘‘ نہیں ہے۔ بلکہ اسلام ایسے ظلم کو برداشت کرتا ہے، جیسا کہ یہود و نصاریٰ کے صریح کفر و شرک کے باوجود، اللہ نے ان کو زندہ رہنے کی اجازت دی ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
’’تم یہود و نصاریٰ سے قتال کرو جو کہ اللہ اور یومِ آخرت پر ایمان نہیں رکھتے اور اس کو حرام نہیں ٹھہراتے جس کو اللہ اور اس کے رسول نے حرام ٹھہرایا ہو اور دینِ حق کو بطور دین اختیار نہیں کرتے یہاں تک کہ وہ اپنے ہاتھوں سے جِزیہ دیں اور چھوٹے بن کر رہیں‘‘۔ (التوبہ:۲۹)
لیکن ایسا ’’ظلم‘‘ جو کہ متعدی ہو (یعنی جس کے اثرات صرف انسان کی اپنی ذات تک محدود نہ ہوں، بلکہ عامتہ الناس بھی اس کے ظلم سے متاثر ہو رہے ہوں) اُس کے خلاف ’’قتال‘‘ ہو گا۔ قرآن و سنت کی نصوص سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ ایک کافر یا مشرک کی حکومت، اللہ تعالیٰ کو پسند نہیں ہے، کیونکہ جہاں بھی کافر یا مشرک کی حکومت ہو گی وہاں ’’ظلم‘‘ متعدی ہو گا اور عوام الناس اس ’’ظلم‘‘ سے متاثر ہوں گے۔ اس لیے اہلِ کتاب کے انفرادی کفر و شرک کو برداشت کیا گیا ہے۔ لیکن مذکورہ بالا آیت میں ظلم و کفر کی حکومت کے خاتمے کو قتال کی غایت و انتہا قرار دیا گیا ہے۔ یہاں اس آیت میں اعطائے جِزیہ اور اہلِ کتاب کے دب کر رہنے کو ’’قتال‘‘ کی غایت قرار دیا گیا ہے۔ ایک اور جگہ اللہ تعالیٰ نے مشرکین سے ’’قتال‘‘ میں فتنے کے خاتمے اور اِطاعت کا صرف اللہ ہی کے لیے ہو جانے کو ’’قتال‘‘ کا منتہائے مقصود بتایا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
’’اور ان (یعنی مشرکین) سے قتال کرو یہاں تک کہ فتنہ باقی نہ رہے اور دین (اطاعت) کُل کا کُل اللہ ہی کے لیے ہو جائے‘‘۔ (الانفال:۲۹)
ان آیات سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ اجتماعی کفر (یعنی کفر کی حکومت) اور اجتماعی شرک (یعنی شرک کی حکومت) کو پسند نہیں کرتے کیونکہ ایسی حکومت میں کسی نہ کسی نوعیت کا ظلم ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں کئی اور مقامات پر بھی ایسے کافر سے قتال کا حکم دیا ہے جس کا ظلم متعدی ہو۔
اللہ تعالیٰ نے جو احکامات دیے ہیں ان کو فقہا نے دو طرح سے تقسیم کیا ہے: ایک حسن لِذَاتِہ اور دوسرے حسن لِغَیرِہ۔ حسن لذاتہ سے مراد ایسے احکامات ہیں جو فی نفسہٖ اسلام میں مطلوب ہیں۔ اسلام نے لڑنے بھڑنے کو فی نفسہٖ ناپسند قرار دیا ہے، جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث میں مذکورہ ہے کہ دشمن سے مڈبھیڑ کی تمنا نہ کرو (لاتتمنوا لقاء العدو)۔ اسلام نے کچھ مخصوص مقاصد کے حصول کے لیے ’’قتال‘‘ کو فرض قرار دیا ہے۔ لہٰذا قتال حسن لذاتہ نہیں ہے بلکہ حسن لغیرہ ہے۔ ’’ظلم‘‘ کے خاتمے کے لیے انسانوں کے قتل کی اجازت دی گئی ہے۔ لیکن جس مقصد کے لیے قتال کو جائز کیا گیا ہے، اگر وہ مقصود ہی پورا نہ ہو رہا ہو اور جہاد و قتال سے ’’ظلم‘‘ ختم ہونے کے بجائے بڑھ رہا ہو تو ہمارے نزدیک یہ جہاد و قتال جائز نہیں ہے۔ ہم تو صرف اتنا جانتے ہیں کہ جہاد و قتال ’’ظلم‘‘ کو ختم کرنے کے لیے ہے نہ کہ ’’ظلم‘‘ بڑھانے کے لیے ہے۔
قتال کی غایت (مقصد):
’’قتال‘‘ کی غایت یا منتہائے مقصود ایسے فتنے (عدم اطاعت، کفر، شرک یا زیادتی) کا خاتمہ ہے جس کا نتیجہ ’’ظلم‘‘ ہو۔ یعنی قتال ہر ایسے فتنے، عدم اطاعت، کفر، شرک، زیادتی کے ختم ہونے تک جاری رہے گا جس سے دوسروں پر ’’ظلم‘‘ ہو رہا ہو۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
’’اور ان (مشرکین) سے قتال کرو یہاں تک کہ فتنہ باقی نہ رہے اور دین (اطاعت) کُل کا کُل اللہ ہی کے لیے ہو جائے‘‘۔(الانفال:۳۹)
اس آیت میں فتنے سے مراد کفار کی طرف سے مسلمانوں پر ہونے والا وہ ظلم و تشدد ہے جو اہلِ ایمان کے ایمان کے لیے آزمائش بن جاتا ہے۔ جبکہ ’’دین‘‘ کا بنیادی معنی اطاعت اور بدلہ ہے، جیسا کہ امام راغبؒ نے لکھا ہے۔ یہاں پر ’’دین‘‘ سے مراد اجتماعی اطاعت ہے، کیونکہ انفرادی طور پر تو مسلمان بھی بعض اوقات اللہ کی اطاعت نہیں کرتے۔ اس لیے یہاں مراد اللہ تعالیٰ کی ایسی اطاعت ہے جس کے عدم کی صورت میں کسی پر ’’ظلم‘‘ لازم آئے۔ مثلاً اللہ کے نازل کردہ حدود کے نفاذ میں اس کی اطاعت کا نہ ہونا، معاشرے میں ظلم کا سبب ہو گا۔ اس لیے حدود اللہ کی اجتماعی اطاعت کا نظام بننے تک اُمتِ مسلمہ پر کافروں سے ’’قتال‘‘ واجب رہے گا۔
ظاہری بات ہے کہ کفار و مشرکین کے اپنے عقیدے پر قائم رہنے یا اس کے مطابق عبادات کرنے سے کسی پر ظلم و زیادتی نہیں ہوتی۔ لہٰذا ان سے اس معاملے میں اطاعت جبراً نہیں کروائی جائے گی۔ ارشاد باری تعالی ہے:
’’دین (قبول کرنے میں) میں کسی قسم کا جبر و اکراہ نہیں ہے‘‘۔ (البقرۃ:۲۵۶)
لیکن ریاست و حکومت کے انتظامی امور میں کفار و مشرکین کے لیے کوئی حصہ نہیں ہے۔ چنانچہ ’’قتال‘‘ کا حکم اُس وقت تک برقرار رہے گا جب تک کہ دنیاوی نظام کافر و مشرک اقتدار سے آزاد نہیں ہو جاتا اور انسانیت مجموعی طور پر اللہ کی مطیع و فرمانبردار نہیں بن جاتی۔ اسی بات کو قرآن مجید میں اس طرح بیان کیا گیا ہے:
’’وہی اللہ تعالیٰ ہے کہ جس نے اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو بھیجا قرآن مجید اور دین حق دے کر، تاکہ وہ اس کو تمام ادیان (باطلہ) پر غالب کر دے، اگرچہ کہ یہ مشرکوں کو کتنا ہی بُرا کیوں نہ لگے‘‘۔ (التوبہ:۳۳)
قرآن کے اسی حکم کو اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ’’امرت ان اقاتل الناس‘‘ کے الفاظ سے بیان کیا ہے۔ امام بخاری نے بھی اس حدیث کو اسی آیت کی تفسیر کے طور پر بیان کیا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت مشرکین عرب کی طرف خاص طور پر ہوئی تھی۔ اس لیے ان کے معاملے میں یہود و نصاریٰ اور دوسرے کفار کی بہ نسبت زیادہ سختی کی گئی ہے اور ان کے لیے جزیہ کی صورت باقی نہیں رکھی گئی۔ ان مشرکین کے لیے دو ہی صورتیں تھیں کہ یا تو اسلام قبول کر لیں یا پھر قتال کے لیے تیار ہو جائیں۔ تیسری صورت یہ تھی کہ حجاز کا علاقہ چھوڑ کر بھاگ جائیں۔
یہ واضح رہے کہ ’’قتال‘‘ کی اس علّت اور غایت کی بنیاد پر قتال اُس وقت ہو گا جب کوئی مسلمان ریاست یا جہادی تحریک اُن اسباب و ذرائع اور اُس استعداد و صلاحیت کی حامل ہو جن کا ہم اس مضمون میں ذکر کر آئے ہیں۔ جب تک ہمارے پاس کفار سے جنگ کی استعداد و صلاحیت موجود نہیں ہے، اس وقت تک اسلام کے پھیلانے کا مِنہج دعوت و تبلیغ ہے، نہ کہ جنگ و جدال، اور کفار کے ’’ظلم‘‘ کا جواب ’’صبر‘‘ ہے، نہ کہ ’’قتال‘‘۔
اسلام کے کسی بھی معاشرے میں نفوذ کے لیے مسلمانوں کو ان کے حالات کے اعتبار سے بنیادی طور پر دو مِنہج دیے گئے ہیں۔ ایک دعوت و تبلیغ کا اور دوسرا جہاد و قتال کا۔ دونوں مناہج کے مطابق اللہ کے رسولS نے مختلف حالات میں کام کیا اور اب بھی جیسے حالات ہوں گے ویسا ہی منہج اختیار کیا جائے گا۔ یہ کہنا کہ دعوت و تبلیغ اور صبر ومصابرت کا منہج منسوخ ہو چکا ہے، ایک باطل دعویٰ ہے، جس کی کوئی دلیل شریعتِ اسلامیہ میں موجود نہیں ہے۔ دعوت و تبلیغ اور صبر و مصابرت سے متعلق قرآن کی سیکڑوں آیات کو بغیر کسی دلیل کے منسوخ قرار دینا سوائے جہالت کے اور کچھ بھی نہیں ہے۔ امام زرکشیؒ نے ’’البرہان‘‘ میں ناسخ و منسوخ کی بحث کے تحت اس موضوع پر عمدہ کلام کیا ہے اور لکھا ہے کہ اسلام کے یہ دونوں مناہج اب بھی برقرار ہیں اور حالات کے تحت کسی بھی منہج کو اختیار کیا جا سکتا ہے۔ شاہ ولی اللہ محدث دہلویؒ نے الفوز الکبیر میں قرآن کی صرف پانچ آیات کو منسوخ قرار دیا ہے۔ بعض قتالی حضرات تو قرآن کی قتال سے متعلق ان آیات کو بھی بغیر کسی دلیل کے منسوخ قرار دیتے ہیں جن میں کفار کے ساتھ کسی صلح یا معاہدے کی اجازت ہے۔ اِس منسوخی سے عملاً قرآن کا ایک تہائی حصہ منسوخ ہو کر رہ جاتا ہے۔
خلاصۂ کلام:
ہم آخر میں ایک دفعہ پھر یہ واضح کرنا چاہتے ہیں کہ ہم ’’قتال‘‘ کے خلاف نہیں ہیں۔ ہم جہادی تحریکوں کے اس مؤقف سے متفق ہیں کہ امریکا بہادر، انڈیا اور اسرائیل کے ظلم و ستم کا جواب صرف صبر کرنا یا دعوت تبلیغ نہیں ہے، بلکہ ان ظالموں کا علاج قتال ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ یہ علاج کس کے قتال میں ہے؟ یہاں ہمیں جہادی تحریکوں اور ان کے رہنمائوں سے اختلاف ہے۔ ہماری رائے اس مسئلے میں یہ ہے کہ مسلم ریاست یا ایک امیرِ جہاد کے بغیر ’’قتال‘‘ میں دشمن کو کچھ نقصان تو پہنچایا جا سکتا ہے، لیکن اس طرح نہ تو دین کا غلبہ ممکن ہے اور نہ ہی مسلمانوں پر ہونے والے ظلم و ستم کا خاتمہ۔ پوری دنیا میں مسلمانوں کی مظلومیت کا علاج ایک مسلم ریاست اور ایک امیر کے تحت ہونے والے قتال میں ہے اور اسی کے لیے ہمیں اپنی جدوجہد اور توانائیاں صَرف کرنی چاہییں۔ ایک ایسا ’’قتال‘‘ شریعتِ اسلامیہ میں حرام ہے جس سے ایک چھوٹے منکَر کے رفع ہونے لیکن نتیجے میں اس سے بڑے منکَر یا منکرات کے پیدا ہونے کے امکانات ہوں۔ اس کی ایک سادہ سی مثال یہ ہے کہ پاکستان میں ایسا قتال جس کے نتیجے میں پرویز مشرف قسم کی حکومت تو ختم ہو جائے لیکن امریکا کی زیادہ وفادار حکومت قائم ہو جائے، حرام ہو گا۔ اسی بات کو امام ابن قیمؒ نے بڑے خوبصورت پیرایے میں بیان کیا ہے جس کا تذکرہ ہم گزشتہ صفحات میں کر آئے ہیں۔
اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ جہادی تحریکوں کی مساعی اور مجاہدین کی قربانیوں سے کئی منکرات کا خاتمہ ہو رہا ہے۔ لیکن ریاست کے بغیر ہونے والے اس جہاد سے کچھ اور منکرات اور مفاسد بھی پیدا رہے ہیں۔ یہ سارے معاملات حالاتِ حاضرہ اور تاریخ کا موضوع ہیں، نہ کہ شریعت و فقہ کا۔ اگر حالات پر گہری نظر رکھنے والے بعض علما یہ سمجھتے ہیں کہ اس قسم کے قتال سے کئی بڑے بڑے منکرات پیدا ہو رہے ہیں، تو ایسے علما پر یہ فتوے لگانا کہ وہ جہاد کے مخالف ہیں، محض تنگ نظری، ہٹ دھرمی اور جماعتی تعصب ہے۔ اس لیے ہماری نظر میں اس وقت مسئلہ شرعی نہیں ہے (شرعاً تو تمام علما قتال کو جائز سمجھتے ہیں)، بلکہ مسئلہ اِس امرِ واقعہ کا ہے کہ کیا ہو رہا ہے؟ کیوں ہو رہا ہے؟ کس طرح ہو رہا ہے؟ کیا مقاصد پورے ہو رہے ہیں؟ کیا یہ وہی جہاد و قتال ہے جس کا قرآن و سنت کی نصو ص میں تذکرہ ہے؟ قرآن و سنت میں ’’قتال‘‘ کے بارے میں آنے والی نصوص اور کسی جہادی تحریک کے ’’عملِ قتال‘‘ میں بہرحال زمین و آسمان کا فرق ہے۔ یہ نصوص صحابہ کرامؓ کے قتال کی تائید تو کرتی ہیں جس کے بارے میں ان کا نزول ہوا۔ لیکن بعد کے کسی دور کی کوئی جہادی تحریک اِن نصوص کا مصداق بنتی ہے یا نہیں، یہ ایک اجتہادی، علمی اور تاریخی مسئلہ ہے جس میں اختلاف کی گنجائش ہر زمانے میں باقی رہے گی۔
(بشکریہ: ماہنامہ ’’الشریعہ‘‘ گوجرانوالہ۔ نومبر و دسمبر ۲۰۰۸ء)
Leave a Reply