جہادی اپنی راہ پر گامزن ہیں!

ریحان لی (Reyhanli) شام سے ملحق سرحد سے محض ۳۰ منٹ کی مسافت پر واقع ترک قصبہ ہے۔ اس قصبے کے ایک چھوٹے سے مکان میں ایک تیس سالہ باریش شامی جوان، اُن ۱۸۲۰؍ افراد کی کمان کر رہا ہے جو شامی افواج کی سفاکی کا مقابلہ تندہی سے کر رہے ہیں۔ “Strangers for a Greater Syria” نامی اس گروپ کے ارکان چاہتے ہیں کہ شام میں بشار الاسد کی حکومت ختم ہو اور سُنّیوں کی حکومت قائم ہو۔ گروپ لیڈر کا کہنا ہے ’’ہم شام کے باشندوں پر اپنی مرضی تھوپنا نہیں چاہتے مگر ہم جانتے ہیں کہ شام کے بیشتر باشندے اسلامی قوانین کا نفاذ ہی چاہتے ہیں‘‘۔

شامی سرحد سے ملحق ترک قصبے اور دیہات کئی ماہ سے شام کے ان فوجیوں کے لیے پناہ گاہ بنے ہوئے ہیں جو فورسز سے منحرف ہوکر ان کے خلاف لڑ رہے ہیں یا پھر ان عام لوگوں کے لیے محفوظ ٹھکانے کا درجہ رکھتے ہیں جو شامی فورسز کے مظالم سے تنگ آکر کسی نہ کسی طور جان بچاتے ہوئے وہاں تک پہنچ رہے ہیں۔ ان علاقوں میں پناہ لینے والے منحرف فوجی تازہ دم ہونے کے بعد شام میں داخل ہوکر فورسز پر حملے کرتے ہیں اور وہاں سے تھکے ہوئے منحرفین کو آرام کی خاطر ترکی بھیج دیتے ہیں۔ چند غیرملکی جہادی بھی اب شامی افواج کے خلاف سرگرمِ عمل ہیں۔ جولائی میں شام کے دوسرے بڑے شہر حلب (Aleppo) پر قبضے کی لڑائی تیز ہونے کے بعد سے غیرملکی جہادیوں کی سرگرمیاں بھی بڑھ گئی ہیں۔ شام میں لڑنے والے غیرملکی جہادیوں میں بعض خود کو سُلفی قرار دیتے ہیں۔ انہیں ترکی، خلیجی ممالک اور دیگر خطوں سے فنڈ ملتے ہیں۔ ’’اسٹرینجرز فار اے گریٹر سیریا‘‘ کے سربراہ کا کہنا تھا کہ ان کی لڑائی صدر بشار الاسد کے علوی فرقے سمیت کسی بھی مکتب فکر کے خلاف نہیں تاہم ’’نبہت النصر‘‘ (Salvation Front) اور ’’احرار الشام‘‘ جیسے گروپ کم روادار ہیں۔ وہ چاہتے ہیں کہ شام میں سُنّیوں کی حکومت قائم ہو اور دیگر مکاتب فکر کو ایک خاص حد میں رکھا جائے۔

اب تک ۳۰۰ سے زائد غیرملکی مجاہدین شمال مغربی صوبے ادلب (Idleb) میں داخل ہوچکے ہیں۔ درجنوں غیرملکی مجاہدین عراقی سرحد سے ایک گھنٹے کی دوری پر واقع شہر دیرالزور اور اس سے ملحق علاقوں میں برسر پیکار ہیں۔ لبنان اور دیگر عرب ممالک کے باشندوں کے ساتھ ساتھ پاکستان، چیچنیا اور برطانیہ سے تعلق رکھنے والے چند مسلمان بھی شامی افواج کے خلاف لڑتے دیکھے گئے ہیں۔ القاعدہ کے نظریات سے ہم آہنگ جہادی گروپوں کے پرچم بھی اِن علاقوں میں پائے گئے ہیں۔

شام میں جو لوگ بشارالاسد انتظامیہ کے خلاف متحرک ہیں انہیں ڈر ہے کہ کہیں ان کے انقلاب کو ہائی جیک نہ کرلیا جائے۔ اب تک یہ واضح نہیں کہ جہادی گروپ دوسروں کے ساتھ کس حد تک تعاون کرتے ہیں تاہم شامی اپوزیشن کے تحت برسر پیکار سب سے بڑے گروپ ’’فری سیرین آرمی‘‘ میں سیکولر ذہن رکھنے والوں کو خوف ہے کہ وہ بشارالاسد انتظامیہ کے خلاف لڑنے والوں پر برائے نام کنٹرول کے حامل ہیں۔ فری سیرین آرمی کے چند کمانڈروں نے حال ہی میں ان غیرملکی جہادیوں کو ملک سے نکالنے کی کوشش کی جنہوں نے ایک برطانوی اور ایک ولندیزی (ڈچ) صحافی کو کئی ہفتوں تک یرغمال بنائے رکھا۔ فری سیرین آرمی کی اعلیٰ فوجی کونسل کے سربراہ مصطفی شیخ کا کہنا ہے کہ شام کی سرکاری افواج کے خلاف لڑنے والوں میں سے ۶۰ فیصد اُن کی کمان میں ہیں۔ غیرملکی جہادیوں کے مالی وسائل غیرمعمولی ہیں۔ فورسز کے خلاف شامی باشندوں کی لڑائی مربوط بنانے کے لیے فری سیرین آرمی کو عالمی برادری سے غیرمعمولی فنڈنگ کی ضرورت ہے۔

شام کی فوج دو لاکھ ۸۰ ہزار نفوس پر مشتمل ہے۔ فری سیرین آرمی کی چھتری تلے ۵۰ ہزار افراد ہتھیار اٹھائے ہوئے ہیں تاہم ان کے درمیان رابطے کمزور ہیں۔ فوج کا ڈھانچا مضبوط ہے۔ انہیں مواصلات اور دیگر سہولتیں میسر ہیں۔ فری سیرین آرمی کو مواصلات کے حوالے سے شدید مشکلات کا سامنا ہے۔

ترک سرحد سے ملحق کئی دیہاتوں میں شام میں لڑنے والے غیرملکی جہادی سرگرم ہیں۔ فری سیرین آرمی کے ایک جنرل نے جب یہ کہا کہ شامی فورسز کے کسی بھی اہلکار پر اگر انسانیت سوز مظالم کے الزامات ہیں تو اُس کی غیرجانبدارانہ تحقیقات کے بعد مقدمہ چلایا جانا چاہیے۔ اس دوران ایک سُنّی عسکریت پسند نے کہا کہ بشارالاسد کو ہٹائے بغیر قتل و غارت گری نہیں رکے گی۔ اس نے جذباتی ہوتے ہوئے کہا کہ ’’ہم ان تمام لوگوں کو مار دیں گے جنہوں نے بشارالاسد کا ساتھ دیا، چاہے وہ غیرملکی ہی کیوں نہ ہوں‘‘۔

(“Jihadists on the Way”… “Economist”. August 4th, 2012)

Be the first to comment

Leave a Reply

Your email address will not be published.


*