
قبل اس کے کہ یہ طے کریں کہ تقسیم ملک کا ذمہ دار کون ہے؟ مناسب ہوگا کہ ان عوامل و حالات پر نظر ڈال لی جائے جن کی بنا پر ملک کی تقسیم ناگزیر ہوگئی۔ قائداعظم کی شخصیت اور ان کی عزت و شہرت‘ ملک کے لیے ان کی خدمات‘ عوام میں ان کی مقبولیت‘ غیرمسلم قائدین سے ان کے تعلقات سمیت گاندھی جی اور قائداعظم میں مشترک و متضاد باتیں سامنے آچکی ہیں۔ یہ بات بھی سب کو معلوم ہے کہ قائداعظم اپنی سیاسی زندگی میں طویل عرصہ تک ہندو مسلم اتحاد کے داعی رہے ہیں۔ ۱۹۲۴ء تک وہ بدستور نیشنلسٹ اور ہندو مسلم اتحاد کے داعی تھے۔ ناگپور اجلاس میں ان کی توہین کی گئی۔ وہاں ان کو خطاب نہیں کرنے دیا گیا‘ بار بار بیٹھ جانے کو کہا گیا‘ مسٹر گاندھی کہنے پر اعتراض کیا گیا۔ خلافت کے بعد ملک میں فسادات کا لامتناہی سلسلہ شروع ہوگیا اور جگہ جگہ اہانت رسولؐ کی مہم چلائی جانے لگی۔ ان حالات سے قائداعظم دلبرداشتہ ہوگئے۔ انہوں نے ۱۹۲۶ء میں کہا کہ ’’اس حقیقت سے راہِ فرار ممکن نہیں کہ فرقہ واریت اس ملک میں موجود ہے۔ محض جذبات اور امتداد زمانہ سے یہ رفع نہیں ہوسکتی‘‘۔ اس دوران نہرو رپورٹ نے جلتی پر تیل کا کام کیا۔ آل پارٹیز کانفرنس بمقام کلکتہ منعقدہ دسمبر ۱۹۲۸ء میں قائداعظم نے شرکت کی اور اس میں اپنے چودہ نکات پیش کیے جن کو انتہا پسند ہندوئوں نے رد کردیا‘ مزید قائد اعظم پر طعن و تشنیع کی گئی۔ یہ وہ موقع تھا جب ان کا دل ہندوئوں سے بیزار ہوگیا۔انہوں نے کلکتہ سے روانہ ہوتے ہوئے جمشید جی نوشیروان جی کا ہاتھ پکڑا اور کہا ’’اب جدائی کا آغاز ہے‘‘۔
اس کے بعد قائداعظم لندن چلے گئے۔ تیسری گول میز کانفرنس منعقدہ ۷ نومبر تا ۲۴ دسمبر ۱۹۳۲ء لندن میں رہتے ہوئے بھی جناح نے اس میں شرکت نہیں کی۔ انہوں نے کہا ’’عین خطرے کے سامنے ہندو جذبات‘ ہندو ذہن اور ہندو رویے نے مجھے اتحاد سے بالکل مایوس کردیا‘‘۔ کانگریسی وزراء کے طرز عمل سے ۱۹۲۰ء میں جو مایوسی شروع ہوئی وہ ۱۹۳۸ء تک پختہ ہوگئی‘ اس وقت تک وہ تقسیم ملک کے قائل نہیں تھے۔ اس کے لیے ۱۹۴۰ء تا ۱۹۴۷ء کے درمیان میں رونما ہونے والے حالات و واقعات کو سامنے رکھنا ہوگا جس کے بغیر تقسیم کی ذمہ داری کسی ایک پر نہیں تھوپی جاسکتی۔
۲۳ مارچ ۱۹۴۰ء کو تاریخی شہر لاہور میں آل انڈیا مسلم لیگ کا ستائیسواں سالانہ اجلاس منعقد ہوا۔ وہاں وہ تاریخی قرارداد پاس ہوئی جس کو بعد میں قرارداد پاکستان کہا گیا۔ اس قرارارداد میں مسلم لیگ نے ہندوستانی مسلمانوں کا ملک میں آئندہ سیاسی نصب العین آزاد و خودمختار ریاست کا قیام قرار دیا جس کے الفاظ یہ ہیں :’’آل انڈیا مسلم لیگ کا یہ اجلاس تجویز کرتا ہے کہ جب تک دستوری منصوبے میں درج ذیل اصول شامل نہ کیے جائیں اور اس پر ملک میں عملدرآمد نہ کیا جائے‘ اس وقت تک وہ مسلمانوں کے لیے قابل قبول نہ ہوگا‘‘۔ (تفصیل کے لیے دیکھیے:’’تاریخ نظریۂ پاکستان‘‘ پروفیسر محمد سلیم ۲۵۶ تا ۲۶۸)
کانگریس نے قرارداد لاہور کو یکسر مسترد کردیا ور سارے ہندوستان میں اس وجہ سے ایک سیاسی تہلکہ مچ گیا۔ ملک کی تقسیم میں ہندو مہاسبھائیوں کا بڑا اہم کردار ہے‘ جس نے قیام پاکستان کی تحریک کو فروغ دینے میں کافی حصہ لیا۔ انہوں نے ملک میں ایسے حالات پیدا کردیے کہ یا تو مسلمان ہندو بن جائیں یا پھر ملک سے نقل مکانی کریں۔ ان کی کئی تنظیمیں اس کام کے لیے لگی ہوئی تھیں۔ شدھی سنگٹھن مسلمانوں کو زبردستی ہندو بنارہی تھی۔ متعدد مسلمانوں کو ہندو بنادیا گیا۔
آریہ سماج کے لوگ بھی ملک میں گھوم گھوم کر اپنے مذہب کی تبلیغ کررہے تھے۔ مسلمانوں کے باہمی اختلافات کا فائدہ اٹھاتے ہوئے ان علاقوں میں کام شروع کیا گیا جہاں کے لوگوں کا طرز زندگی ہندوئوں سے زیادہ میل کھاتا تھا۔ جیسے مالکانہ راجپوتانہ (آگرہ)‘ میو (الور اور بھرت پور) شیخ (لاڑکانہ) ان لوگوں کو خوف یا لالچ دے کر ہندو بنانے کی زبردست تحریک چلائی جانے لگی۔ شدھی سنگٹھن کے بانی دیانند سرسوتی تھے۔ ہندومہاسبھا کی بنیاد ۱۹۱۵ء میں ڈالی گئی‘ ساورکر اس کے صدر منتخب ہوئے ڈاکٹر مونجے مرہنہ اور لالہ الجپت رائے لاہوری وغیرہ اس کے سرکردہ رہنمائوں میں سے ہیں۔ ان لوگوں کے پیش نظر ہندوستان میں خالص ہندو حکومت قائم کرنا تھا۔ چنانچہ وقتاً فوقتاً مسلمانوں کے خلاف اپنے عزائم کا ذکر عوامی جلسوں اور جلوسوں میں کیا کرتے تھے ان میں سے کچھ ملاحظہ فرمایئے۔ وہ کہتے تھے کہ ’’مسلمان اپنے مذہب‘ اپنی تہذیب‘ اپنی زبان سے عاری ہوجائیں۔ تب وہ ہندوستان میں رہ سکتے ہیں۔ وہ تمام مسلمان جو ہندوستان میں پیدا ہوئے ہیں جارح ہیں‘ اسی طرح جس طرح انگریز ہیں۔ ہر ایک ہمارا دشمن ہے۔ ان دونوں کو تباہ کرنا چاہیے‘‘۔ (لوک مانیہ تلک ۱۹۸۰ء) ایک اور کٹر مہاسبھائی کا کہنا تھا:’’ہندوستان کو نظریہ اور عمل کے لحاظ سے ایک ہندو ریاست ہونا چاہیے جس کی حکومت ہندوئوں کے ہاتھ میں ہو‘‘۔ ایک اور کے مطابق ہے:’’مسلمان اپنے آپ کو مسلمانی ہندو کہیں‘‘۔ (ڈاکٹر رادھا ہردیال مکر جی ۱۹۰۵ء) سوامی شردھانند مہاراج کی یہ تمنا تھی کہ ’’میں پچھڑے ہوئے سات کروڑ بھائیوں کو واپس ویدک دھرم میں لائوں گا‘‘۔
ساورکر نے تو مسلم دشمنی کی انتہا کردی تھی اس نے کہا کہ ’’مسلمان ہندوستان میں ایسا ہے جیسے جرمنی میں یہودی۔ ان کے ساتھ یہودیوں جیسا ہی برتاؤ ہونا چاہیے‘‘۔ (پاکستان ناگزیر صفحہ ۲۸۴) ڈاکٹر مونجے نے کہا تھا کہ ’’مسلمان یہاں رہنا چاہتے ہیں تو ان کو ہندو بن کر رہنا ہوگا(ڈاکٹرمونجے) آخر میں ہم ساورکر کی بات پیش کرتے ہیں جس سے اندازہ لگا یا جاسکتا ہے کہ مسلمانوں کے لیے ان کے اپنے ہی ملک میں رہنا کیسا مشکل ہوگیا تھا۔ آئے رو زفسادات کے واقعات رونما ہورہے تھے۔ مسلمانوں کے خلاف تحریری و تقریری‘ سیاسی و معاشی مہم جاری تھی۔ ساورکر نے کہا تھا ’’ہندوستان ہندوئوں کا ہے۔ اس میں عام قومیں شہریوں کی طرح تو رہ سکتی ہیں لیکن راج ہندوئوں کا ہی ہوگا۔ کیونکہ وہ اس ملک کے مالک ہیں‘‘۔ ڈاکٹر بابا صاحب بھیم رائو امبیڈ کرنے ۱۹۲۰ء سے ۱۹۴۰ء کے درمیان ہونے والے فسادات کا جائزہ لیتے ہوئے کہا کہ ’’ان کو ہندو مسلمان خانہ جنگی سے تعبیر کرنا چاہیے‘‘۔
موتی لال نہرو نے محمد علی جناح سے کہا کہ مسلمان اگر مخلوط انتخاب کا طریقہ مان لیں تو مسلمانوں کے چار مطالبات مان لیے جائیں گے:
(۱) صوبہ سندھ کی احاطہ بمبئی سے علیحدگی۔
(۲) سرحداور بلوچستان کو صوبے کے مساوی درجہ دینا۔
(۳) پنجاب اور بنگال میں آبادی کے تناسب سے نمائندگی دینا۔
(۴) مسلمانوں کو مرکز میں ایک تہائی نشستیں حاصل ہونی چاہییں۔
اس پر جناح نے ملک بھر سے تیس سرکردہ مسلمانوں کو بلایا اور اپنا ۱۴ نکاتی فارمولا پیش کیا۔ مسلمانوں نے یہ ۱۴ نکات ہندوئوں کے سامنے پیش کیے۔ کل جماعتی کانفرنس منعقدہ دسمبر ۱۹۲۸ء میں اس کو رد کردیا گیا۔ اس پر محمد علی جناح بہت خفا ہوئے‘ انہوں نے کہا ’’کوئی بھی ملک ہو اپنی اقلیتوں کو تحفظ کی ضمانت دیے بغیر وہ نمائندہ ادارہ قائم نہیں کرسکتا‘‘۔جناح نے ا سوقت بڑی سلجھی ہوئی تقریر کی لیکن مسٹر جیکر نے ساری فضا کو اشتعال انگیزی سے بھر دیا۔ اس پر جناح نے کہا کہ ’’اس سیاسی جنون کی ساری ذمہ داری صرف مسٹر گاندھی پر عائد ہوتی ہے۔ وہ ذہنی طور پر مسائل کو سمجھنے میں نااہل ہیں۔ جناح کے اس چودہ نکاتی پروگرام کی تعریف بہت سے حقیقت پسند رہنمائوں نے کی اور کہا کہ اگر ان چودہ نکات کو مان لیا جاتا توملک تقسیم سے بچ سکتا تھا۔ ڈاکٹر بابا صاحب امبیڈ کرنے اس پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ ’’ہندوئووں نے اپنی جنونی سیاست میں اس زریں موقع کو کھودیا جو اتفاق کی نہایت مستحکم بنیاد بن سکتا تھا۔ تقسیم ہند میں نہرو رپورٹ کا بھی بڑا اہم کردارہے۔ موتی لال نہرو کو کمیٹی کا صدر بنایا گیا تھا۔ کانگریس نے نہرو رپورٹ کو قبول کرلیا۔ اس وقت محمد علی جناح ملک سے باہر تھے۔ اس رپورٹ پر مہا سبھائی اثرات صاف نظر آتے ہیں۔
برطانیہ نے ایک وزیر کرپس کو ہندوستان روانہ کیا کہ وہ ہندوستان کا جائزہ لے کر رپورٹ تیار کرے۔ کرپس نے ۱۹۴۲ء میں اپنی رپورٹ برطانیہ کو پیش کردی۔ س رپورٹ میں مسلم لیگ کے دو مطالبات تسلیم کرلیے گئے تھے۔ علیحدگی کا حق تسلیم کرلیا گیا تھا۔ کانگریس اور ہندو مہا سبھا کے لوگوں نے کرپس کی تجاویز کو رد کردیا۔ مسلم لیگ کو بھی تشفی نہیں ہوئی اس نے بھی اس کو رد کردیا۔
تقسیم ملک میں گاندھی جی‘ جناح مراسلت کو کافی اہمیت حاصل ہے‘ اگر یہ مراسلت کامیاب ہوجاتی تو ملک تقسیم سے بچ جاتا۔ گاندھی جی اور قائداعظم کے درمیان راجہ گوپال اچاریہ تھے۔ ۱۸ اپریل ۱۹۴۲ء میں گوپال اچاریہ نے تقسیم ملک کا فارمولا پیش کیا‘ اس کی اہمیت صرف اتنی ہے کہ اس کو ایک ہندو لیڈر نے قبول کیا۔ یہ مراسلت ۱۷ جولائی ۱۹۴۴ء تا ۲۶ دسمبر ۱۹۴۶ء ہے‘ مگر کسی نتیجہ پر نہیں پہنچ سکی۔ آخر گاندھی جی نے کہا کہ ’’کل شب کی گفتگو نے بدمزہ کردیا‘‘۔
گاندھی جی کی شخصیت او رشاطرانہ چالوں کے متعلق قائداعظم نے لکھا:’’سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ (راجہ جی فارمولا) سے مسٹر گاندھی کا تعلق کس حیثیت سے سمجھا جائے۔ کیونکہ وہ تو کانگریس کے چار آنے والی ممبر تک نہیں ہیں۔ ان کی حیثیتیں متعدد ہیں۔ ان کی ذاتی حیثیت‘ ان کی کانگریس کے ڈکٹیٹر کی حیثیت اور ان سب سے بلند و بالا ان کا مہاتمائی اور دیو مالائی منصب جس میں وہ اپنی اندرونی آواز پر عمل کرتے ہیں۔ پھر وہ ستیہ گرہی بھی ہیں اور اس کے معانی ومقاصد کے واحد شارح بھی ہیں۔ وہ ہندو نہیں لیکن سناتنی ہیں اور اپنے ایجاد کردہ ہندومت کے پیرو ہیں۔ یہ پتہ لگانا بہت دشوار ہے کہ مسٹر گاندھی کس خاص موقع پر کس حیثیت کو کام میں لائیں گے۔
(خط جولائی ۱۹۴۴ء)
محمد علی جناح کانگریسی وزارتوں کے طرز عمل سے ۱۹۳۸ء میں مکمل مایوس ہوچکے تھے۔ جس سے ان کی نظر میں مفاہمت کی کوئی گنجائش باقی نہیں رہی۔ پھر بھی وہ تقسیم ملک کے قائل نہیں رہے۔ ان کو قائل کرنے میں بعض لوگوں نے پس پردہ رہ کر کوششیں کیں جن میں خیری برادران کا خاص تعلق ہے۔ یہ برادران قومی حکومتوں کے دور میں جلاوطن تھے اور یورپ میں رہتے تھے‘ پکے مسلم لیگی تھے‘ اسٹاک ہام میں انہوں نے تقسیمِ ملک کا نظریہ پیش کیا اور دہلی سے ایک ہفت روزہ Sprit of Islam جاری کیا۔ یہ دونوں بھائی ڈاکٹر عبدالجبار خیری اور ڈاکٹر عبدالستار خیری قائداعظم کو یہ رسائل پڑھنے کو دیتے تھے۔ اس طرح بتدریج قائداعظم کے خیالات میں تبدیلی آئی۔ مسلمانوں کی جداگانہ قومیت کا نعرہ سب سے پہلے ڈاکٹر عبدالستار خیری نے لگایا (نظریہ پاکستان صفحہ ۲۴۹تا ۲۵۰) یہ بات طے ہے کہ قیام پاکستان کے تنہا قائداعظم ذمہ د ار نہیں ہیں‘ اوپر دیے گئے عوامل حالات کی روشنی میں یہ فیصلہ کیا جاسکتا ہے کہ قیامِ پاکستان اور تقسیم کے ذمہ دار کون کون لوگ ہیں۔
(بشکریہ: سہ روزہ ’’دعوت‘‘ نئی دہلی۔ شمارہ: ۱۶دسمبر۲۰۰۷ء)
Leave a Reply