
جزیہ اسلام سے پہلے اور اسلام کے بعد مختلف ناموں سے اقوام عالم میں رائج رہا ہے۔ اور یہ مغلوب اقوام پر ان کی تذلیل اور اُنھیں نفسیاتی لحاظ سے پست کرنے کے لیے لاگو کیا جاتا رہا ہے۔ اس طرح مغلوب اقوام سے انتقام لینے کے لیے بغض و عناد پر مبنی یہ ایک کارروائی تھی۔ لیکن اسلام نے مغلوب اقوام پر جزیہ اس لیے لاگو کیا تاکہ ان کے عقائد، ان کے اموال اور عزت و ناموس کی حفاظت کرے اور انھیں اس لائق بنائے کہ وہ بھی مسلمانوں کے ساتھ شہری حقوق سے یکساں طور پر متمتع ہوسکیں۔ اس کی سب سے بڑی دلیل یہ ہے کہ مسلمان فاتحین اور مغلوب اقوام کے درمیان طے پانے والے معاہدوں میں ان کے عقائد اور اموال واعراض کی حمایت و حفاظت کا بطور خاص ذکر ہوتا تھا۔ اسی طرح کا ایک معاہدہ مسلمانوں کے عظیم سپہ سالار خالد بن ولیدؓ نے ’’ناطف‘‘ نام کے ایک عیسائی پادری کے ساتھ کیا تھا: ’’میں نے آپ لوگوں سے جزیہ اور حفاظت کا معاہدہ کیا ہے۔ اگر ہم آپ کی حفاظت کریں تو ہمیں جزیہ لینے کا حق ہوگا۔ بصورت دیگر ہمیں جزیہ لینے کا کوئی حق نہ ہوگا، جب تک کہ ہم آپ کی حفاظت نہ کریں۔‘‘ (تاریخ البلاذری)
اور ان معاہدات سے متعلق ایسے تاریخی شواہد موجود ہیں جو بغیر کسی شک اور تردد کے اس بات کو ثابت کرتے ہیں کہ مسلمانوں نے ہمیشہ جزیہ اُسی اصول کی بنیاد پر لیا ہے جو سابقہ سطور میں بیان ہوا ہے۔ اسلامی تاریخ سے واقف ہر شخص جانتا ہے کہ خالد بن ولیدؓ نے کس طرح اہل حمص کا جزیہ واپس کر دیا تھا اور ابو عبیدہ ابن جراحؓ نے اہلِ دمشق کا جزیہ اُن کو لوٹا دیا تھا۔ اسی طرح دوسرے مسلمان سپہ سالار جب معرکۂ یرموک سے پہلے ملک شام چھوڑنے پر مجبور ہوئے تو انھوں نے تمام مفتوحہ شہروں کے باشندوں سے جو جزیہ لیا تھا، وہ سب اُنھیں واپس کردیا اور ان شہروں کے باشندوں سے صاف لفظوں میں کہہ دیا: ’’ہم نے آپ کے جان و مال اور عزت و آبرو کی حفاظت کے لیے آپ سے جزیہ لیا تھا۔ اب ہم آپ کی حمایت و حفاظت سے عاجز ہیں، تو آپ سے جزیے میں لی ہوئی رقم آپ کو واپس کر رہے ہیں‘‘۔
اس کے برعکس دوسری اقوام میں جزیہ مغلوب اقوام کے استحصال اور ان کا مال و جائیداد ہڑپنے کے لیے ہوتا تھا۔ اور جزیہ (ٹیکس) کی مقدار اتنی زیادہ ہوتی تھی کہ اس کی ادائی ان کے بس سے باہر ہوتی تھی۔ لیکن اسلام نے مفتوح اقوام پر جو جزیہ عائد کیا، اس کا استحصال یا مغلوب اقوام کا مال ہڑپنے کی لالچ سے ادنیٰ تعلق بھی نہ تھا۔ اسلام کے خلاف جنگ میں حصہ لینے والوں اور کام کی قدرت رکھنے والوں سے جزیہ کی بہت معمولی مقدار لی جاتی تھی اور یہ تین طرح کے لوگوں سے لیا جاتا تھا اور الگ الگ مقدار میں لیا جاتا تھا۔
(۱) جزیہ کی سب سے بڑی مقدار (48 درہم) اغنیا اور امرا سے سالانہ لی جاتی تھی، چاہے ان کے پاس کتنا ہی مال و دولت ہو۔ (۲) جزیہ کی اوسط مقدار چوبیس درہم تھی، جو تاجروں اور کسانوں سے سالانہ وصول کی جاتی تھی۔ (۳) جزیہ کی سب سے کم مقدار بارہ درہم تھی جو پیشہ ور برسرِ روزگار لوگوں سے سالانہ لی جاتی تھی اور بے کار ہونے کی صورت میں معاف ہو جاتی تھی۔
ایک مسلمان صرف اپنے مال کی جتنی زکوٰۃ ادا کرتا ہے، اس کے مقابلے میں یہ مقدار کسی لحاظ سے قابلِ ذکر نہیں ہے۔ پھر بھی ہم آئندہ سطور میں اس بات کا واضح طور پر جائزہ لیں گے۔
فرض کرلیجیے اگر ایک مال دار مسلمان کے پاس ایک ملین (دس لاکھ) درہم ہیں تو سو میں ڈھائی درہم کے حساب سے اس پر سالانہ پچیس ہزار درہم زکوٰۃ واجب ہوگی اور یہ زکوٰۃ کی فرضیت کی جو شرعی مقدار ہے، اس کے حساب سے ہوگا۔ لیکن اگر اس مسلمان کا ایک عیسائی پڑوسی بھی ایک ملین (دس لاکھ) درہم کا مالک ہے تو اسے سالانہ صرف 48 درہم ہی بطور جزیہ ادا کرنا ہوگا۔ اس کا صاف مطلب یہ ہوا کہ ایک عیسائی جزیہ کے طور پر حکومت کو جتنا دے گا، مسلمان اس سے پانچ سو گنا زیادہ حکومت کو بطور زکوٰۃ دے گا۔ اس سے ثابت ہوا کہ اسلام مغلوب اقوام کے ساتھ استحصال کا معاملہ ہرگز نہیں کرتا ہے۔ اسلامی نظام میں جن لوگوں پر جزیہ لاگو کیا جاتا ہے، ان کے تعلق سے اس بات کی بھرپور رعایت کی جاتی ہے کہ وہ جزیہ ادا کرنے کی پوزیشن میں ہیں یا نہیں۔ اسی بنا پر فقیروں، بچوں، عورتوں اور عبادت میں لگے ہوئے راہبوں، نابیناؤں، بے روزگاروں اور بیماروں سے جزیہ ساقط کردیا جاتا ہے۔
اس سلسلے میں سب سے بڑی دلیل عہد اسلامی کے نامور سپہ سالار حضرت خالد بن ولیدؓ کا وہ معاہدہ ہے جو انھوں نے ناطف نامی پادری کے ساتھ کیا تھا اور جس کے الفاظ یہ ہیں: ’’میں نے آپ لوگوں سے معاہدہ کیا ہے کہ ہر ایک باروزگار سے جزیہ لیا جائے گا اور آپ سب لوگوں کے جان و مال کی حفاظت کی ذمہ داری اسلامی حکومت پر عائد ہوگی اور یہ جزیہ ہر شخص سے اس کی حیثیت کے مطابق لیا جائے گا۔ مالدار سے اس کی مالی پوزیشن کے مطابق اور فقیر و محتاج سے اس کے فقر اور محتاجی کے مطابق معاملہ کیا جائے گا۔
مسلمانوں سے پہلے دوسری اقوام کے یہاں جزیہ دینے والوں کے لیے غالب قوم کی فوج میں بھرتی ہونے اور فاتح قوم کے مجدو شرف اور ان کے توسیع اقتدار کی راہ میں خون بہانے سے رخصت نہیں تھی۔ وہ لوگ جزیہ بھی دیتے تھے اور دشمن سے جنگ کے لیے جبراً ہانک کر لے جائے جاتے تھے۔ لیکن اسلام نے اپنے دور میں مفتوح اقوام کے لوگوں کو عسکری خدمت سے مکمل طور پر رخصت دے رکھی تھی۔ چونکہ اسلام ساری دنیا میں اسلامی آزادی کے پیغام کو پہنچانے کے لیے اس راہ کی مزاحم قوتوں سے نبرد آزما تھا، اس لیے یہ بات عدل و انصاف کے منافی تھی کہ ایسی قوم جو اس پیغام یعنی اسلام کے اصول و مبادی کو نہ مانتی ہو، اس کے نوجوانوں کو اس کی راہ میں خون بہانے کے لیے آگے بڑھایا جائے۔ چنانچہ یہی وجہ ہے کہ ذِمیوں (اسلامی مملکت کی غیر مسلم رعایا) کو اسلامی فوج میں ہر طرح کی عسکری خدمت سے مستثنیٰ کردیا گیا تھا۔ اس سلسلے میں اُن متعصب ناقدین کی رائے بالکل صحیح نہیں ہے جو یہ کہتے ہیں کہ ذِمیوں کو فوجی خدمت سے رخصت اس وجہ سے تھی کہ ان کے اندر جنگی صلاحیت و مہارت نہیں ہوتی تھی اور وہ جہاد کی اہمیت اور اس کے شرف سے پوری طرح واقف نہ تھے۔ ہم نے جو بات کہی ہے اس کی دلیل یہ ہے کہ اگر مملکت اسلامی کا کوئی ذِمی رضاکارانہ طور پر لشکر اسلامی میں فوجی خدمت انجام دینا چاہتا ہے تو اس کی اس پیشکش کو قبول کیا جائے گا اور اس کے عوض اس سے جزیہ ساقط ہوجائے گا۔ اس طرح آج ہمارے اس دور کی اصطلاح میں جزیہ دراصل فوجی خدمت سے رخصت کا معاوضہ ہے۔
اسلام سے پہلے غالب اقوام مغلوب اقوام کا کوئی حق تسلیم نہیں کرتی تھیں۔ یہاں تک کہ ان کے فقرا و مساکین اور بیماروں کا بھی کوئی حق نہ تھا۔ ان سے ناقابل برداشت حد تک جزیہ اور ٹیکس وصول کیا جاتا تھا اور ان کے محتاج لوگوں کو کچھ نہیں دیا جاتا تھا۔ بلکہ جزیہ دینے والے مالدار کو بھی مفلس ہونے کی صورت میں انہیں غربت، بھوک اور مرض میں مبتلا حالت میں یوں ہی چھوڑ دیا جاتا تھا۔ اس کے برعکس اسلام نے سارے ذِمیوں کے لیے خواہ وہ جزیہ دیتا ہو یا فقر و کم سنی کے سبب جزیہ نہ دیتا ہو، اپنی طرف سے ان کے لیے اجتماعی ضمانت کا اعلان کیا ہے۔ اسلام ذِمیوں کو مسلمانوں کی طرح اپنی مملکت کی رعایا سمجھتا ہے۔ اسلام اس بات کو حکومت کی ذمہ داری قرار دیتا ہے کہ ذِمیوں کو باعزت زندگی گزارنے کی ضمانت فراہم کرے، تاکہ انہیں سوال کی ذلت اور غربت کی تلخی گوارا کرنے کے لیے مجبور نہ ہونا پڑے۔
اور جہاں تک اُن نصوص قرآنی کا تعلق ہے جو محتاجوں اور پریشان حال لوگوں کی کفالت کا حکم دیتی ہیں، وہ صرف مسلمانوں کے لیے مخصوص نہیں ہیں، بلکہ وہ عام ہیں اور سماج کے ہرطبقے کے لیے یکساں حکم رکھتی ہیں۔ جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
وَاٰتِ ذَا الْقُرْبٰی حَقَّہٗ وَالْمِسْکِیْنَ وَابْنَ السَّبِیْلِ وَ لَا تُبَذِّرْ تَبْذِیْرًاo (بنی اسرائیل:۲۶)
’’اور رشتے دار کو اس کا حق دو اور مسکین و مسافر کو ان کا حق دو۔‘‘
ایک دوسری جگہ ارشاد ہوتا ہے:
وَفِیْٓ اَمْوَالِہِمْ حَقٌّ لِّلسَّآئِلِ وَالْمَحْرُوْمِ (الذاریات:۱۹)
’’اور ان کے مالوں میں سائل اور محروم کا حق ہے۔‘‘
خالد بن ولیدؓ نے اہل حیرہ (جگہ کا نام ہے) کے ساتھ جو معاہدہ کیا تھا، اس میں پوری وضاحت کے ساتھ مذکور ہے: ’’جو عمر رسیدہ لوگ ازکار رفتہ ہوگئے یا جن پر کوئی افتاد آپڑی یا جو مالدار تھے اب غریب ہوگئے، اور ان کے ہم مذہب لوگ انہیں صدقہ دینے لگے تو ایسے سب لوگوں سے جزیہ ساقط ہوجائے گا اور ان کی اور ان کے اہل و عیال کی مالی کفالت کی ذمہ داری مسلمانوں کے بیت المال پر ہوگی‘‘ (کتاب الخراج، امام ابو یوسف)۔ حضرت عمرؓ نے اپنے دورِ خلافت میں اس عظیم اسلامی اصول کو پوری طرح نافذ کیا تھا۔ ایک بار ان کا گزر ایک عمر رسیدہ شخص کے پاس سے ہوا جو لوگوں سے صدقہ مانگ رہا تھا۔ جب آپ نے اس سے اس کے احوال دریافت کیے تو معلوم ہوا کہ وہ جزیہ دینے والوں میں سے ہے۔ آپ نے اس کا ہاتھ پکڑا اور اسے اپنے گھر لے گئے اور گھر میں جو کچھ کھانا کپڑا میسر تھا، اس سے اس کو نوازا۔ پھر اسے لے کر بیت المال کے ناظم کے پاس گئے اور اس سے کہا: ’’اِس شخص کا اور اس جیسے دوسرے لوگوں کا خیال رکھو اور انھیں اسلامی حکومت کے خزانے سے اتنا وظیفہ دو جو اِن کے اور ان کے اہل و عیال کے لیے کافی ہو۔ اس لیے کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: ’’اِنَّمَا الصَّدَقَاتْ لِلْفُقَرَائِ وَالْمَسَاکِیْن‘‘ (صدقات تو فقراو مساکین کے لیے ہیں۔) فقرا تو مسلمان ہیں اور مساکین اہل کتاب ہیں‘‘۔ (کتاب الخراج۔ امام ابو یوسف)
اسلام سے پہلے مغلوبین پر ہرحال میں جزیہ لاگو کیا جاتا تھا۔ لیکن اسلام میں ایسا کبھی نہیں ہوا۔ بلکہ سربراہ مملکت کو اس بات کا حق حاصل ہے کہ چاہے تو سارے ذِمیوں سے جزیہ ساقط کردے۔ جیسا کہ ابو عبیدہؓ نے اردن میں سامرہؔ اور فلسطین کے عیسائیوں سے جزیہ ساقط کردیا تھا (فتوح البلدان۔ بلاذری)۔ اسی طرح حضرت عمرؓ نے مَلِک شہریار اور اس کی قوم سے جزیہ اس وجہ سے ساقط کردیا تھا کہ اُنھوں نے ان کے ساتھ دشمنوں سے جنگ کرنے کا معاہدہ کرلیا تھا اور اسی طرح حضرت معاویہؓ نے آرمینیا کے باشندوں کو تین سال کے لیے جزیہ سے مستثنیٰ کردیا تھا۔ فقہ اسلامی کا یہ ایک معروف تسلیم شدہ اصول ہے کہ جو ذِمی بھی اسلامی فوج میں داخل ہوگا یا اسلامی حکومت میں مفادِ عامہ کی کسی بھی خدمت کے لیے اپنے آپ کو پیش کرے گا تو اس کو جزیہ کی ادائی سے استثنا حاصل ہوجائے گا۔ اسلام سے پہلے فاتحین کے علاوہ سارے لوگوں پر جزیہ لاگو کیا جاتا تھا، خواہ انھوں نے فاتح نظام کے ساتھ جنگ کی ہو یا نہ کی ہو۔ لیکن اسلام صرف اپنے دشمنوں میں سے اُن پر جزیہ لاگو کرتا ہے جو اس سے آمادۂ جنگ رہے ہوں۔ جہاں تک عام غیرمسلم باشندوں کا تعلق ہے تو وہ لوگ جو لشکرِ اسلامی سے برسرِ جنگ نہیں رہے ہیں، اُن سے جزیہ نہیں لیا جائے گا۔ جیسا کہ حضرت عمرؓ نے تغلبؔ کے عیسائیوں کے ساتھ کیا۔ اگر ہم قرآن میں آیتِ جزیہ کا مطالعہ کریں تو ہم دیکھیں گے کہ وہ یہی کہتی ہے:
قَاتِلُوا الَّذِیْنَ لَا یُؤْمِنُوْنَ بِاﷲِ وَ لَا بِالْیَوْمِ الْاٰخِرِ وَ لَا یُحَرِّمُوْنَ مَا حَرَّمَ اﷲُ وَ رَسُوْلُہٗ وَ لَا یَدِیْنُوْنَ دِیْنَ الْحَقِّ مِنَ الَّذِیْنَ اُوْتُوا الْکِتٰبَ حَتّٰی یُعْطُوا الْجِزْیَۃَ عَنْ یَّدٍ وَّ ہُمْ صٰغِرُوْنَo (التوبہ:۲۹)
’’جنگ کرو اہل کتاب میں سے اُن لوگوں سے جو اللہ اور روزِ آخر پر ایمان نہیں لاتے اور اللہ اور اس کے رسولؐ نے جو کچھ حرام ٹھہرایا ہے اس کو حرام نہیں ٹھہراتے اور دینِ حق کو اپنا دین نہیں بناتے۔ (ان سے لڑو) یہاں تک کہ وہ استطاعت کے مطابق جزیہ دیں، (مملکتِ اسلامی) کی ماتحتی قبول کرتے ہوئے‘‘۔
اس آیت سے یہ بات معلوم ہوئی کہ جب ہم اہل کتاب سے جنگ کے بعد ان پر غالب ہوں گے تو وہ ہمیں جزیہ دیں گے۔ اور ہم پر ایک اہل کتاب سے جنگ نہیں کریں گے، بلکہ ہماری جنگ تو اُن سے ہوگی جو ہم سے برسرِ جنگ ہوں گے اور ہمارے خلاف ہتھیار اٹھائیں گے یا اسلامی مملکت کے لیے خطرہ بنیں گے۔ سورۃ البقرہ آیت ۱۹۰ میں اس بات کی پوری طرح وضاحت کردی گئی ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
وَ قَاتِلُوْا فِیْ سَبِیْلِ اﷲِ الَّذِیْنَ یُقَاتِلُوْنَکُمْ وَ لَا تَعْتَدُوْاط اِنَّ اﷲَ لَا یُحِبُّ الْمُعْتَدِیْنَo
’’اور تم اللہ کی راہ میں ان لوگوں سے لڑو جو تم سے لڑتے ہیں اور زیادتی نہ کرو، اللہ تعالیٰ زیادتی کرنے والوں کو پسند نہیں فرماتا ہے۔‘‘
جزیہ والی آیت میں لڑائی کا حکم صرف اُن کے لیے ہے جو ہم سے لڑیں اور جن لوگوں نے ہم سے جنگ نہیں کی، اُن سے جنگ کرنا کھلی زیادتی ہے۔ اللہ تعالیٰ زیادتی کسی حال میں پسند نہیں کرتا ہے۔ اس بات کی تائید اللہ تعالیٰ کے اس قول سے ہوتی ہے:
لَا یَنْہٰکُمُ اللّٰہُ عَنِ الَّذِیْنَ لَمْ یُقَاتِلُوْکُمْ فِی الدِّیْنِ وَلَمْ یُخْرِجُوْکُمْ مِّنْ دِیَارِکُمْ اَنْ تَبَرُّوْہُمْ وَتُقْسِطُوْٓا اِلَیْہِمْط اِنَّ اللّٰہَ یُحِبُّ الْمُقْسِطِیْنَo اِنَّمَا یَنْہٰکُمُ اللّٰہُ عَنِ الَّذِیْنَ قٰتَلُوْکُمْ فِی الدِّیْنِ وَاَخْرَجُوْکُمْ مِّنْ دِیَارِکُمْ وَظٰہَرُوْا عَلٰٓی اِخْرَاجِکُمْ اَنْ تَوَلَّوْہُمْo (الممتحنہ:۸۔۹)
’’اللہ تمہیں اس بات سے نہیں روکتا کہ تم ان لوگوں کے ساتھ نیکی اور انصاف کا برتاؤ کرو جنھوں نے دین کے معاملے میں تم سے جنگ نہیں کی اور تمہیں تمہارے گھروں سے نہیں نکالا ہے، اللہ انصاف کرنے والوں کو پسند کرتا ہے۔ وہ تو تمہیں ان لوگوں کی دوستی سے منع کرتا ہے جنھوں نے دین کے معاملے میں تم سے جنگ کی ہے اور تمہارے گھروں سے تمہیں نکالا ہے اور تمہارے نکالنے میں مدد کی ہے۔‘‘
اس میں کوئی شک نہیں کہ جو اہل کتاب (یہودی و عیسائی) اسلامی مملکت میں مسلمانوں کے ساتھ رہتے بستے ہیں اور تعمیر و ترقی کے کاموں میں مخلصانہ شرکت کرتے ہیں اور ملک کے ساتھ ان کی وفاداری ہے تو ایسے لوگوں سے لڑائی کرنا بالکل جائز نہیں ہے اور ایسے لوگوں سے جزیہ بھی نہیں لیا جائے گا۔
جو کچھ اوپر بیان کیا گیا ہے دراصل جزیہ اور جنگ کی آیتوں کا وہی مفہوم بالکل واضح طور پر ابھر کر ہمارے سامنے آتا ہے اور نبی کریمؐ نے اپنی حیاتِ مبارکہ میں جزیرۂ عرب کے عیسائیوں اور یہودیوں سے جو جزیہ لیا تھا تو آپؐ نے آیتِ جزیہ پر عمل کرتے ہوئے ہی ایسا کیا تھا۔ اُن سے آپؐ نے جزیہ اس لیے لیا تھا کہ اُنھوں نے اسلام سے باقاعدہ جنگ کی اور اس کے خلاف مسلسل ریشہ دوانیاں کر رہے تھے۔ انھوں نے اسلام دشمن قوتوں (ایرانیوں اور رومیوں) سے اس کے خلاف معاہدہ کیا۔ اسی طرح مسلمانوں نے جب بلاد شام، مصر اور فارس کو فتح کیا تو وہاں کے اہل کتاب (یہود و نصاریٰ) سے جزیہ لیا۔ کیوں کہ وہ جن ممالک کے باشندے تھے، اُن ملکوں نے اسلامی مملکت کے خلاف اعلان جنگ کر رکھا تھا اور وہ اسلام دشمنی پر کمربستہ تھے۔ چونکہ یہود و نصاریٰ نے بھی اسلام کے خلاف جنگ میں اپنے ملکوں کی فوج کے ساتھ جنگ میں حصہ لیا تھا، اس لیے ان پر جزیہ عائد کیا گیا۔ البتہ اسلامی فتوحات کے بعد کے ادوار میں جزیہ لینے کا عمل جومسلسل باقی رہا، جب کہ اہل کتاب مسلمانوں کی طرح اسلامی مملکت کے مخلص اور وفادار شہری بن چکے تھے تو یہ مطالبہ اسلام کا نہیں، بلکہ مسلمان امرا اور حکمرانوں کا تھا۔ اور اس وقت ہماری گفتگو کا موضوع ’’اسلام میں جزیہ کا نظام‘‘ ہے، نہ کہ اسلامی مملکت میں جزیہ کی تاریخ۔
یہ بات پوری وضاحت سے آچکی ہے کہ جزیہ صرف ان لوگوں پر عائد کیا جائے گا جو مسلمانوں سے برسرِ جنگ ہوں۔ لیکن بعض متعصبین اور قوم پرست کہتے ہیں کہ امن و جنگ میں نظامِ اسلامی کا نفاذ اس بات کا تقاضا کرتا ہے کہ آج بھی مسلم ملکوں میں رہنے والے غیرمسلموں سے جزیہ لیا جائے۔ حالانکہ یہ بات جدید دور میں اسٹیٹ کے مفہوم سے ہم آہنگ نہیں ہے اور اُن شہریوں کے بہت سے گروپ اس بات کو قبول نہیں کریں گے جو کہ اسٹیٹ کے ساتھ وفاداری کا تعلق رکھتے ہیں۔
(بشکریہ: ’’زندگیٔ نو‘‘ نئی دہلی۔ دسمبر ۲۰۱۴ء۔۔ ترجمہ: عبدالحلیم فلاحی)
Leave a Reply