
نئی دہلی کی جواہر لعل نہرو یونیورسٹی کو بھارت کے اعلیٰ تعلیمی اداروں میں ممتاز مقام حاصل ہے۔ اس جامعہ میں تدریس کا معیار تو خیر بلند ہے ہی، اظہارِ رائے کی آزادی کو برقرار رکھنے میں بھی اس جامعہ کے طلباء نے اہم کردار ادا کیا ہے۔ ہر دور میں جبر کے خلاف آواز بلند کرنے والی اس جامعہ سے کئی تحریکیں اٹھیں جنہوں نے مخالف آواز کو برداشت کرنے اور اپنی رائے کے اظہار کا حق سلامت رکھنے میں مرکزی کردار ادا کیا۔ جواہر لعل نہرو یونیورسٹی حال ہی میں ایک بار پھر خبروں میں آئی۔ جامعہ کی طلبہ یونین کے صدر کنہیا کمار نے عدم برداشت کے خلاف آواز اٹھائی تو ان پر ملک سے غداری کا الزام عائد کردیا گیا۔
’’چپل گھسنی پڑے گی۔‘‘
یہ الفاظ وی لینن کمار کے ہیں جو جواہر لعل نہرو یونیورسٹی کے صدر رہ چکے ہیں۔ ان کا اشارہ جامعہ میں کامیابی سے متعلق جدوجہد کی طرف ہے۔ وی لینن کمار کا تعلق تامل ناڈو سے ہے۔ وہ مزید کہتے ہیں: ’’میرے والد فیکٹری ملازم تھے اور ہم چنئی میں رہتے تھے۔ اگر جواہر لعل نہرو یونیورسٹی نہ ہوتی تو میں آپ سے اس طرح، یہاں بیٹھ کر بات نہ کر رہا ہوتا۔ کنہیا کمار کی والدہ بھی ایک ملازمت پیشہ خاتون ہیں۔ ہماری سابق سیکرٹری چنتو کماری بہار کی مہا دلت تھی۔ ایسا جواہر لعل یونیورسٹی کے سِوا کہاں ہوسکتا ہے؟‘‘
جواہر لعل نہرو یونیورسٹی نے بھارت میں طلباء کی مختلف تحریکوں کے حوالے سے ایسا بھرپور کردار ادا کیا ہے کہ طلبہ کے حقوق کو تحفظ دینے کی جدوجہد کا اِس جامعہ کے بغیر تصور بھی نہیں کیا جاسکتا۔ اس ملک میں سیکڑوں مسائل ہیں۔ داخلی سلامتی بھی خطرے میں ہے اور بیرونی حملوں کا بھی خطرہ برقرار ہے۔ ملک میں غربت ہے، بے روزگاری ہے، اقتصادی ابتری ہے مگر حکومت کی نظر میں اِن تمام مسائل سے بڑھ کر ہم (طلباء) خطرہ ہیں۔ ہم۔۔۔ اور خطرہ؟‘‘
وی لینن کمار جب یہ باتیں کر رہے تھے، تب بھی جواہر لعل نہرو یونیورسٹی کے انتظامی حصے سے کچھ فاصلے پر احتجاج کیا جارہا تھا۔ وی لینن کمار نے مزید بتایا: ’’ایمرجنسی کے زمانے میں ڈی پی ترپاٹھی کے بعد سے اب تک جواہر لعل نہرو یونیورسٹی طلباء یونین کے کسی بھی صدر کو گرفتار نہیں کیا گیا تھا۔ کنہیا کمار کی گرفتاری سے یہ تسلسل ٹوٹا۔‘‘
ڈی پی ترپاٹھی کی گرفتاری کو چار عشرے بیت چکے ہیں۔ وہ کہتے ہیں: ’’ میں نے بھی بہت کچھ کہا تھا۔ مگر مجھ پر کبھی غداری اور ملک دشمنی کا الزام عائد نہیں کیا گیا۔ میری گرفتاری مینٹیننس آف انٹرنل سکیورٹی ایکٹ اور ڈیفنس آف انڈیا ایکٹ کے تحت عمل میں لائی گئی تھی، مگر کسی بھی مرحلے پر کسی نے مجھے ملک دشمن قرار نہیں دیا۔‘‘
جواہر لعل نہرو یونیورسٹی میں اس وقت جو کچھ ہو رہا ہے، اسے ایمرجنسی کے زمانے کی صورتحال کے مشابہ قرار دیا جاسکتا ہے۔ ایک زمانہ تھا کہ جب جواہر لعل نہرو یونیورسٹی طلباء اور اساتذہ دونوں کے لیے اسٹیج کا درجہ رکھتی تھی۔ ویت نام، ایمرجنسی، ناوابستہ تحریک، خالصتان، حقوقِ نسواں اور کسی بھی دوسرے سلگتے ہوئے مسئلہ پر کوئی بھی، کچھ بھی بول سکتا تھا۔ مائیکرو فون کی ضرورت بھی محسوس نہیں کی جاتی تھی۔ جواہر لعل نہرو یونیورسٹی کے بانیوں میں ایم سی چھاگلہ بھی شامل تھے جو پہلے نہرو دور میں وزیرِ تعلیم رہے اور بعد میں اندرا دور میں امورِ خارجہ کے وزیر بنائے گئے۔ اس دور میں سب سے زیادہ اہمیت اپنی رائے کے اظہار کی تھی۔ جواہر لعل نہرو یونیورسٹی کے بنیادی مقاصد میں قومی یکجہتی کو فروغ دینا بھی شامل تھا۔ اس کے لیے کھل کر بات ہونی چاہیے تھی۔ جامعہ کی حدود میں لوگ اپنی رائے کا کھل کر اظہار کرتے تھے۔ ایسا کرتے وقت انہیں کوئی خوف لاحق نہ ہوتا تھا۔ جواہر لعل نہرو یونیورسٹی ایک ایسے دور میں قائم کی گئی جب ہر طرف لسانیت اور نسلی تعصب کا غلغلہ تھا۔ اس جامعہ میں داخلہ لینے والے طلباء سے امید کی جاتی تھی کہ وہ قومی یکجہتی کے فروغ میں مرکزی کردار ادا کریں گے۔
جواہر لعل نہرو یونیورسٹی ایکٹ مجریہ ۱۹۶۶ء کے تحت ۲۲؍اپریل ۱۹۶۹ء کو جواہر لعل نہرو یونیورسٹی کا قیام عمل میں آیا۔ ۱۹۷۶ء میں جواہر لعل نہرو یونیورسٹی کو موجودہ کیمپس منتقل کیا گیا۔ پہلے وائس چانسلر جی پارتھا سارتھی کی قیادت میں یہ جامعہ شواتوش مکھرجی، کرشنا بھاردواج، رومیلا تھاپر، بپن چندر، ستیش چندر اور یوگیندر سنگھ جیسے اہل علم کی رفاقت حاصل کرنے میں کامیاب رہی۔
جس وقت جواہر لعل نہرو یونیورسٹی قائم ہوئی، اندرا گاندھی کا دور چل رہا تھا۔ سوشلسٹ اور بائیں بازو کے خیالات کا غلبہ تھا۔ سوشلزم ہی نے اس جامعہ کی فکری راہ متعین کی۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اس جامعہ سے وابستہ طلباء اور اساتذہ نے غیر معمولی آزاد خیالی اپنانا شروع کی۔ اس جامعہ کی حدود میں رنگ، نسل، زبان اور دیگر معاملات میں لگی بندھی سوچ کو پوری آزادی سے چیلنج کیا جاتا تھا۔ حقیقت یہ ہے کہ اس جامعہ کی حدود میں کوئی بھی شخص اپنے خیالات کا کھل کر اظہار کرسکتا تھا۔
سماجی علوم کے ماہر جواہر لعل نہرو یونیورسٹی کے اسکول آف سوشل سائنسز کے پروفیسر ایمیریٹس سی پی بھمبری کہتے ہیں: ’’جواہر لعل نہرو یونیورسٹی اگر لگی بندھی سوچ کو چیلنج کرنے میں کامیاب رہی تو اس کا بنیادی سبب یہ تھا کہ اس کی فکری راہ کا تعین بہت پہلے ہوگیا تھا۔ چار عشروں کے دوران اس جامعہ نے ملک میں پائے جانے والے ثقافتی، لسانی، مذہبی اور نسلی تَنوُّع کو بہت عمدگی سے اپنایا ہے۔ اب تک تو یہی ہوتا رہا ہے، مگر اب معاملات تیزی سے تبدیل ہو رہے ہیں۔ حکومت چاہتی ہے کہ بھارت میں پائے جانے والے مذہبی اور دوسرے بہت سے معاملات کے تنوع کو نظر انداز کرکے اپنی مرضی کا ہندو تیار کرنے والے تعلیمی ادارے قائم کیے جائیں۔ جواہر لعل نہرو یونیورسٹی سے اب یہی توقع رکھی جارہی ہے۔ کوشش یہ کی جارہی ہے کہ جواہر لعل نہرو یونیورسٹی کو بھی ایسے ادارے میں تبدیل کردیا جائے جس سے اپنی مرضی کے ہندو تیار ہوکر نکلتے ہوں۔ ملک کی صفِ اول کی جامعہ کو دیوار سے لگایا جارہا ہے۔‘‘
انتہا پسند چاہتے ہیں کہ ملک بھر میں پرائمری سے پوسٹ گریجویٹ سطح تک کے تمام یا بیشتر تعلیمی ادارے ایک ہی رنگ میں رنگے ہوئے ہوں، یعنی خالص ہندو ذہنیت کو اپنائیں، ہندو ثقافت کو فروغ دیں، ہندو روایات کے امین ہوں، ہندو دھرم کے بنیادی اصولوں کو آگے بڑھائیں اور دیگر تمام مذاہب، فلسفوں اور ثقافتوں کے زیادہ پنپنے کی گنجائش نہ رہے۔
س پی بھمبری کہتے ہیں کہ ہم اپنے طلباء کو کوئی بھی درسی کتاب نہیں دیتے۔ ہم انہیں مختلف کتب کے مطالعے کا مشورہ دیتے ہیں۔ ہم ان سے کہتے ہیں کہ کتب خانوں میں وقت گزاریں اور سوال کرنا سیکھیں۔ شخصیت کو پروان چڑھانے کی یہی ایک بہتر صورت ہے۔
تاریخ دان اور جواہر لعل نہرو یونیورسٹی کے سینٹر فار میڈیا اسٹڈیز کے پروفیسر راکیش بتبیال اپنی کتاب ’’جے این یو: دی میکنگ آف اے یونیورسٹی‘‘ میں لکھتے ہیں کہ بائیں بازو کے بیشتر عناصر جدید ترین انداز کے ریسٹورنٹس کو پسند نہیں کرتے تھے، اس لیے جامعہ کی حدود میں ڈھابوں کی تعداد بڑھتی گئی۔ اولڈ بلڈنگ میں گوپالن کینٹین نے طلباء اور اساتذہ کی بیٹھک کی شکل اختیار کی۔ یہاں لوگ چائے کی پیالی سامنے دھر کر گھنٹوں مختلف موضوعات پر بحث کرتے رہتے تھے۔ اس کینٹین کا مالک گوپالن غائب دماغ شخص تھا۔ بہت سے طلباء پیسے دیے بغیر چلے جاتے تھے اور بہت سے نادار قسم کے طلباء کو گوپالن خود کھلا پلا دیا کرتا تھا۔
دِلّی یونیورسٹی کے ڈیپارٹمنٹ آف جرمینک اینڈ رومانس اسٹڈیز میں ہسپانوی زبان کی اسسٹنٹ پروفیسر منیشا تنیجا کہتی ہیں کہ وہ ۱۷ سال کی عمر میں جواہر لعل نہرو یونیورسٹی آئی تھیں اور وہیں ڈھابوں پر پہلی بار ان کا واسطہ قومی ریاست سے متعلق بحث سے پڑا تھا۔ تب تک منیشا عالمی برادری کے حوالے سے کسی تصور کی حامل نہ تھی۔ منیشا کہتی ہے کہ اصل کلاسیں تو ڈھابوں پر ہوا کرتی تھیں۔ ان ڈھابوں پر ہی دوستیاں ہوتی تھیں اور بہت سے جوڑے بھی بن جاتے تھے۔ منیشا کی اپنے شوہر آشوتوش سے پہلی ملاقات جامعہ کے ایک ڈھابے ہی پر ہوئی تھی۔ اب آشوتوش عام آدمی پارٹی کے لیڈر ہیں۔
جواہر لعل نہرو یونیورسٹی سے ایم فل کی طالبہ کی حیثیت سے وابستہ ہونے والی اور ایک سال بعد جامعہ کے اسکول آف سوشل اسٹڈیز کے سینٹر فار ہسٹاریکل اسٹڈیز سے فیکلٹی کی حیثیت سے وابستہ ہونے والی مرودولا مکھرجی کے طلباء کہتے ہیں کہ مردولا مکھرجی کی کلاسیں ڈھابوں پر ہوا کرتی تھیں، جہاں ہر معاملے پر بحث ہوتی تھی اور کوئی بھی نکتہ تشنۂ بیان نہیں رہتا تھا۔ ان ڈھابوں پر قومی تعمیر کا کام ہوتا تھا مگر نعرے بازی کی اجازت نہ تھی۔
جواہر لعل نہرو یونیورسٹی نے مختلف شعبوں میں بہت سے بڑے نام دیے ہیں۔ یہاں سے پڑھ کر اعلیٰ عہدوں تک پہنچنے والوں میں للت مان سنگھ (سابق سیکرٹری خارجہ)، ایس جے شنکر (سیکرٹری خارجہ)، امیتابھ کانت (سابق نیتی آیوگ سی ای او) اور اجیت سیٹھ (سابق کابینہ سیکرٹری) نمایاں ہیں۔ مرودولا مکھرجی، جو بعد میں نہرو میموریل میوزیم اینڈ لائبریری کی ڈائریکٹر بھی تعینات ہوئیں، سوال کرتی ہیں کہ کیا یہ تمام ہستیاں علیحدگی پسند ہیں؟
مرودولا مکھرجی کہتی ہیں کہ جواہر لعل نہرو یونیورسٹی میں پڑھانے کا تجربہ بہت اچھا تھا۔ وہ اپنے طلباء اور طالبات کو ہمیشہ سوال کرنے کی تحریک دیا کرتی تھیں۔ اور ساتھ ہی یہ بھی کہتی تھیں کہ اگر ذہن میں کوئی سوال ابھر رہا ہے تو کلاس کے ختم ہونے کا انتظار نہ کریں بلکہ پوچھ لیں۔ بہت سی کلاسیں خاصی تِشنہ رہ جاتی تھیں۔
جواہر لعل نہرو یونیورسٹی سیاسی اعتبار سے بہت متحرک اور وسیع رہی ہے۔ یہاں جمہوری روایات کی عمدگی سے پاس داری کی جاتی رہی ہے۔ طلباء یونین کے انتخابات باقاعدگی سے ہوتے رہے ہیں۔ ان انتخابات میں طلباء اپنی مرضی سے ووٹ دیتے آئے ہیں۔ ان پر ایک آدھ مرتبہ جبر ڈھانے کی کوشش کی گئی مگر انہوں نے اس حوالے سے سرِ تسلیم خم کرنے سے صاف انکار کردیا۔ ۲۰۰۸ء میں طلباء یونین کے انتخابات روک دیے گئے کیونکہ لنگڈو کمیشن نے اپنی مرضی مسلط کرنے کی کوشش کی تھی۔ لنگڈو رُول تسلیم کرنے سے انکار کرتے ہوئے طلباء نے احتجاج کیا۔ ۲۰۱۱ء میں سپریم کورٹ نے جواہر لعل نہرو یونیورسٹی کے لیے لنگڈو رُول میں نرمی برتنے کا حکم دیا تب کہیں جاکر اسٹوڈنٹ یونین کے انتخابات ہوئے اور طلباء و طالبات نے پوری آزادی سے ووٹ دیے۔
آشش اگنی ہوتری کا تعلق نینی تال سے تھا۔ وہاں انہوں نے شیروڈ کالج سے تعلیم پائی تھی۔ یہ اعلیٰ طبقے کا ادارہ تھا۔ جواہر لعل نہرو یونیورسٹی میں قدم رکھتے وقت ان کی عمر ۱۷ سال تھی۔ انہوں نے اسکول آف لینگویج، لٹریچر اینڈ کلچرل اسٹڈیز کی فرینچ کلاس میں داخلہ لیا۔ تب انہیں صرف اس قدر معلوم تھا کہ اگر کسی بھی شعبے میں آگے بڑھنا ہو تو صرف ایک طریقہ ہے، اور وہ یہ کہ زیادہ سے زیادہ محنت کی جائے، اپنی صلاحیت کا لوہا منوانے کے معاملے میں کوئی کسر اٹھا نہ رکھی جائے۔ انہیں کچھ معلوم نہ تھا کہ ذات پات کیا ہوتی ہے۔ پھر منڈل کمیشن آیا اور آشش اگنی ہوتری کو بھی اندازہ ہوگیا کہ ذات پات بھی کوئی چیز ہوتی ہے جس سے انکار نہیں کیا جاسکتا تھا۔ ہماری خواہشات خواہ کچھ ہوں، زمینی حقیقت تو زمینی حقیقت ہی ہوتی ہے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ جواہر لعل نہرو یونیورسٹی ایک ایسا ادارہ ہے جس نے اظہارِ رائے کی آزادی کے حوالے سے اپنی منفرد حیثیت منوائی ہے مگر پھر بھی چند ایک معاملات میں یہ ادارہ خرابی کا شکار رہا ہے۔ ایک اہم بات یہ بھی ہے کہ اس کے تحت کام کرنے والے ادارے اندرونی کشمکش کا شکار بھی رہے ہیں۔ اب اسی بات کو لیجیے کہ اسکول آف سوشل سائنسز اور اسکول آف انٹرنیشنل اسٹڈیز کے درمیان کبھی نہیں بنی۔ اسکول آف سوشل سائنسز علمی اعتبار سے خاصی بلندی پر ہے جبکہ اسکول آف انٹرنیشنل اسٹڈیز قدرے ناہموار راہ پر سفر کرتا رہا ہے۔ سماجی علوم کے ایک معروف ماہر، جو اس جامعہ میں پڑھاتے رہے ہیں، کہتے ہیں کہ بہت سے معاملات میں کھلے دل اور کھلے ذہن سے ہمکنار رہتے ہوئے بھی جواہر لعل نہرو یونیورسٹی بعض حوالے سے دانشورانہ تنگ نظری کا شکار رہی ہے۔
جواہر لعل نہرو یونیورسٹی کے اہلِ علم میں اندرونی لڑائی ایک طویل مدت سے جاری ہے۔ چند ایک نکات پر اختلاف کا ہونا کوئی حیرت انگیز بات نہیں مگر حقیقت یہ ہے کہ اس جامعہ سے وابستہ اہلِ علم بہت سے معاملات میں اس قدر اختلافات کے حامل رہے ہیں کہ ان کے درمیان کسی ایک بڑے نکتے پر اتفاق کا پایا جانا انتہائی محال ہے۔ بہت سے معاملات میں شدید تنگ نظری اور تعصب کا مظاہرہ بھی کیا جاتا رہا ہے۔ اب اسی بات کو لیجیے کہ جواہر لعل نہرو یونیورسٹی میں زبانوں کا باضابطہ شعبہ موجود تھا مگر ایم ایم جوشی کی آمد تک اس شعبے میں سنسکرت کا داخلہ ممکن نہ ہوسکا۔ جب زبانیں سکھانے والا شعبہ قائم کردیا گیا تھا تو سنسکرت کو داخل ہونے سے کیوں روکا گیا؟
بتبیال کہتے ہیں کہ چند برسوں سے جواہر لعل نہرو یونیورسٹی میں فرقہ واریت کا زہر بھی داخل ہوگیا ہے۔ یہ غیر معمولی جامعہ اب اپنے اصل کردار سے محروم ہوتی جارہی ہے۔ کئی عشروں سے اپنی آزاد فکر کے حوالے سے شناخت قائم کرنے میں کامیاب ہونے والی جامعہ اب بہت سے معاملات میں تنگ نظری کی حامل دکھائی دینے لگی ہے۔ فرقہ واریت بڑھ رہی ہے۔ لسانی اور ثقافتی تنگ نظری بھی قدم جماتی دکھائی دے رہی ہے۔ قوم پرست ہونا ایک زمانے تک بہت محدود مفہوم کا حامل تھا اور جواہر لعل نہرو یونیورسٹی میں اس محدود تصور کے لیے جگہ نہ تھی۔ اب قوم پرستی کے معاملے میں محدود تناظر اپناکر بھارتیہ جنتا پارٹی جیسی جماعت کے فلسفے کو بھی اپنانے کی راہ ہموار کی جارہی ہے۔ ایک اور مصیبت یہ ہے کہ ملک بھر سے طلباء یہاں آتے ہیں۔ ان سب کا پس منظر مختلف ہوتا ہے۔ یہ طلباء مختلف ذاتوں سے تعلق رکھتے ہیں۔ جامعہ کی حدود میں وہ اپنے اپنے پس منظر سے جان چھڑاتے ہوئے وسیع تر تناظر میں بات کرنے کا فن سیکھنے کے بجائے محدود ہوکر سوچتے رہتے ہیں اور اپنے اپنے تجربے سے یہاں کے ماحول کو محدود بنانے کے ذمہ دار ہیں۔
سینٹر فار ہسٹاریکل اسٹڈیز میں کبھی رومیلا تھاپر اور بپن چندر جیسے لوگ پڑھایا کرتے تھے۔ اب یہاں اعلیٰ ذہن برائے نام رہ گئے ہیں۔
اب یہ بات شدت سے محسوس کی جارہی ہے کہ جواہر لعل نہرو یونیورسٹی کا عمومی کردار اور مزاج تبدیل ہو رہا ہے۔ فکری بلندی اور آزاد خیالی کے حوالے سے غیر معمولی شہرت کی حامل جامعہ کی حدود میں اب طلباء و طالبات پہلے کی طرح کھل کر بات نہیں کرتے اور ان کے خیالات میں وہ پہلی سی بالیدگی بھی نہیں پائی جاتی۔ بہت سے معاملات میں تنگ نظری یا خوف کو محسوس کیا جاسکتا ہے۔ بائیں بازو کے نظریات رکھنے والوں کی راہ میں رخنہ ڈالا جارہا ہے۔ وقت آگیا ہے کہ اس حوالے سے جامعہ کے لیے سوچا جائے۔ اگر بائیں بازو کی سوچ رکھنے والوں کو مکمل طور پر کچل دیا گیا تو جامعہ ہی کچل کر رہ جائے گی۔ طلباء کے درمیان بھی فکری ناہمواری بڑھ رہی ہے۔ ہم آہنگی بری طرح متاثر ہوچکی ہے۔ راجستھان سے تعلق رکھنے والے ۲۶ سالہ دیویندر سنگھ راجپوت کا کہنا ہے کہ اگر جامعہ کی حدود میں کسی بھی مسئلے پر احتجاج کیا جارہا ہے تو ہمیں شریک ہونے کی کیا ضرورت ہے کیونکہ وہ ہمیں تو قبول ہی نہیں کرتے۔ اس کی بات کسی حد تک درست ہے۔ جامعہ میں ہر سال افضل گورو کی پھانسی کے دن کو یومِ شہید کے طور پر منایا جاتا ہے، مگر فکری ہم آہنگی نہ رکھنے والوں کو شریک کرنے سے صاف گریز کیا جاتا ہے۔ فکری اور نظریاتی سطح پر جواہر لعل نہرو یونیورسٹی کی حدود میں اختلافات بڑھتے ہی جارہے ہیں۔ اس کے نتیجے میں طلباء و طالبات کے درمیان بعض امور پر یکجہتی بھی پیدا نہیں ہو پاتی۔ کنہیا کمار کے معاملے میں ایسا ہی ہوا ہے۔ جامعہ کی حدود میں احتجاج ہورہا ہوتا تھا مگر بہت سے طلباء و طالبات اس سے الگ تھلگ رہتے تھے۔
دیویندر سنگھ راجپوت نے طلباء یونین کے انتخابات میں جنرل سیکرٹری کے منصب کے لیے مقابلہ کیا اور ہار گئے۔ مگر اس کے باوجود مخالفین سے ان کا نفرت کا رشتہ قائم نہ ہوا۔ ڈھابوں پر کنہیا کمار اور ان کے ساتھیوں کے ساتھ ان کا ملنا ملانا ویسا ہی رہا جیسا تھا۔ ہاں، اپنی تقاریر میں کنہیا کمار اور ان کے ساتھی مخالفین کو غنڈے قرار دینے سے گریز نہیں کرتے۔ دیویندر سنگھ راجپوت کا شِکوہ ہے کہ وہ کبھی ایسی زبان استعمال نہیں کرتے تو پھر کنہیا کمار کو بھی ایسی زبان استعمال کرنے سے گریز کرنا چاہیے۔
۱۹۵۵ء میں قائم کیے جانے والے دی انڈین اسکول آف انٹر نیشنل اسٹڈیز کو ۱۹۷۰ء میں جواہر لعل نہرو یونیورسٹی کا حصہ بنادیا گیا۔ تب اس ادارے کے نام سے ’’انڈین‘‘ نکال دیا گیا۔ اس کے ابتدائی طلباء و طالبات کا تعلق دی انڈین اسکول انٹرنیشنل اسٹڈیز کے ایم فل اور پی ایچ ڈی کے طلباء اور انسٹی ٹیوٹ آف رشین اسٹڈیز کے طلباء تھے۔ انسٹی ٹیوٹ آف رشین اسٹڈیز کو ۱۹۶۹ء میں جواہر لعل نہرو یونیورسٹی کا حصہ بنایا گیا۔ ان میں سے بیشتر طلباء و طالبات غیر سیاسی ذہن کے مالک تھے۔ دی انڈین انسٹی ٹیوٹ آف انٹر نیشنل اسٹڈیز بنیادی طور پر غیر سیاسی نوعیت کا ادارہ تھا۔ دوسری طرف رشین اسٹڈیز والے سابق سوویت یونین کی طرف واضح جھکاؤ رکھتے تھے۔ اسکول آف انٹرنیشنل اسٹڈیز میں آٹھ پروفیسر تھے اور ان میں سے کوئی بھی کمیونزم، مارکسزم یا سوشلزم سے کوئی تعلق نہ رکھتا تھا۔ ان میں سے دو کے دل و دماغ پر امریکا ضرور سوار تھا۔
اسکول آف انٹرنیشنل اسٹڈیز کی اپنی طلباء یونین تھی جسے جواہر لعل نہرو یونیورسٹی کی یونین میں ضم کردیا گیا مگر یہ بات بہت سوں کو پسند نہ آئی اور انہوں نے ناراضی کا اظہار بھی کیا۔
بتبیال لکھتے ہیں کہ برطانوی وزیراعظم ایڈورڈ ہیتھ جب جواہر لعل نہرو یونیورسٹی کے سپرو ہاؤس آڈیٹوریم میں خطاب کے لیے آئے، تب اسٹوڈنٹ یونین نے مظاہرہ کیا جس کی مدد سے سیاسی جماعتوں کو جامعہ میں داخل ہونے کا موقع ملا۔ بائیں بازو کی جماعتیں بیشتر طلباء و طالبات پر اپنے اثرات قائم کرکے انہیں ’’فری تھنکرز‘‘ میں تبدیل کرنے کے لیے کوشاں تھیں۔ ان کے سامنے بند باندھنے کے لیے اسکول آف سوشل اسٹڈیز کے طلباء میدان میں نکل آئے۔ یوں جواہر لعل نہرو یونیورسٹی میں سیاسی کشمکش کی ابتدا ہوئی۔
(ترجمہ: محمد ابراہیم خان)
“JNU: What is it about the university that makes the government sit up (“indianexpress.com”. February 21, 2016)
Leave a Reply