
ٹرمپ کی پاکستان، مسلمانوں اور پناہ گزینوں کے حوالے سے سخت پالیسی کی وجہ سے جوبائیڈن کی فتح اگر تمام نہیں تو اکثر پاکستانیوں کے لیے خوشی کا باعث بنی جہاں ٹرمپ کی شکست کی بارہا وجوہات ہیں مگر ہمیں پاکستان کی بہتری کے پیشِ نظر، فی الفور کوئی حتمی رائے قائم نہیں کرنی چاہیے۔
پاکستان کے مقتدر حلقوں کو یہ سوچنا چاہیے کہ ۷۲ برسوں سے امریکی صدارت کی کرسی پر ریپبلکن صدر یا ڈیموکریٹ صدر کے آنے سے کیا فرق پڑتا ہے۔ تاریخ بتاتی ہے کہ ریاستی مفاد، ریاستوں کی پالیسی کی تشکیل میں سب سے اہم کردار ادا کرتے ہیں نہ کہ نظریاتی اساس یا انسانی حقوق۔ ریاستیں اپنے فوائد کی وجہ سے اپنی خارجہ پالیسی میں تبدیلی کرتی رہتی ہیں۔ اسی طرح امریکا جو بظاہر تو جمہوریت کو اپنی خارجہ پالیسی کی بنیاد کا دعویدار ہے مگر حقیقت میں اس کی خارجہ پالیسی وقت کے حساب اور ضرورت کو مدنظر رکھتے ہوئے تشکیل دی جاتی ہے۔ امریکی خارجہ پالیسی کو سمجھنے کے لیے مختلف ادوار میں یہ تاریخی حکمت عملی بہت کارآمد ہے۔
امریکا کے پانچویں صدر جیمز مونرو (James Monroe) نے دوٹوک الفاظ میں اعلان کیا تھا کہ امریکا مزید یورپی ممالک کو براعظم امریکا پر قبضہ نہیں کرنے دے گا، اس حکمت عملی کی وجہ سے امریکا کی براعظم میں بالادستی قائم ہوگئی۔
جنگ عظیم دوم کے اختتام میں امریکی صدر ہنری ٹرومین (Henry Truman) نے کمیونسٹوں کے مدمقابل ممالک کی کھلے عام ہر طرح کی مدد کا اعلان کیا، یہ حکمت عملی سوویت یونین کے اثر کو کم کرنے کے لیے تشکیل دی گئی۔
امریکی صدر جمی کارٹر (Jimmy Carter) نے مشرقی وسطیٰ، جہاں موجود تیل کے ذخائر امریکا کے لیے بہت اہمیت کے حامل ہیں، وہاں سوویت یونین کے بڑھتے ہوئے اثر کو کم کرنے کے لیے جوابی طور پر حکمت عملی تشکیل دی۔ امریکا سوویت یونین کو تیل کی آزادانہ ترسیل میں رکاوٹ سمجھتا تھا، جمی کارٹر نے واضح کیا تھا کہ وہ خلیج فارس میں کسی بھی قسم کے بیرونی دباؤ یا قبضے کو امریکی مفادات پر حملہ شمار کریں گے اور ہر ممکن طریقے سے اس کو ناکام بنایا جائے گا، اگر اس کے لیے ان کو فوجی کارروائی بھی کرنی پڑے۔
معروف امریکی صدر رونالڈ ریگن (Ronald Reagan) ۱۹۸۰ء سے ۱۹۹۱ء کی خارجہ پالیسی سوویت یونین کے زوال تک موثر رہی، اس دور میں صرف سوویت اثر کو کم کرنے کی حکمت عملی سے کنارہ کشی اختیار کرتے ہوئے سوویت مفادات کو نقصان پہنچانے کی کوشش کی گئی۔ اسی حکمت عملی کی وجہ سے افغان کمیونسٹ حکومت کے خلاف ’’مقدس جہاد‘‘ ہوا اور مشترکہ مفادات افغان مجاہدین اور امریکا کو ایک میز پر لے آئے۔
رپبلکن صدر جارج بش (George Bush) نے اپنے آٹھ سالہ دور صدارت میں جو خارجہ حکمت عملی تشکیل دی، اس میں نائن الیون حملوں کا بڑا اثر تھا، اس حکمت عملی کا بنیادی نقطہ یہ تھا کہ دہشت گردوں کو پناہ اور کسی بھی قسم کی مدد کرنے والے کو بھی دہشت گردوں میں شمار کیا جائے گا، اسی نقطہ کو جواز بنا کر افعانستان پر حملہ کیا گیا۔
اوباما نے جارج بش کی طرح اپنی الیکشن مہم میں جنگوں کے اختتام کا وعدہ کیا تھا، مگر صورتحال کا جائزہ لینے کے بعد اس نے اپنی پاک افغان حکمت عملی تشکیل دی، جس کا تذکرہ Bob Woodward نے اپنی کتاب ’’اوباما وار‘‘ (Obama War) میں کیا ہے۔ اوباما کی پاک افغان حکمت عملی میں پاکستان اور افغانستان کو الگ الگ ریاستیں تو تسلیم کیا گیا تھا مگر اوباما انتظامیہ کی نظر میں دونوں کو ایک ہی مشکل کا سامنا تھا۔ اس کے ساتھ ساتھ چین پر بھی نظر رکھنا مطلوب تھی، Woodward کے مطابق خارجہ پالیسی کے نفاذ میں جو بائیڈن کو کلیدی حیثیت حاصل تھی۔ اوباما کی ترجیحات کی وجہ سے افعانستان میں امریکی فوج کی تعداد میں اضافہ ہوا۔ بلاشبہ اوباما انتظامیہ کی پالیسی کا جوبائیڈن کی افغان حکمت عملی میں گہرا اثر ہوگا، اپنی کتاب میں Bob Woodward لکھتا ہے کہ پاکستانی صدر سے ملاقات میں اس وقت کے امریکی نائب صدر جوبائیڈن نے افغان جنگ کو اپنی جنگ قرار دیتے ہوئے کہاکہ پاکستان کی مدد کے بغیر افغان مسئلہ کا حل ممکن نہیں ہے۔ جوبائیڈن نے امریکی فتح کو پاکستانی تعاون پر مبنی قرار دیا اور یہ باور کرایا کہ اگر طالبان اور القاعدہ پاکستانی سرزمین کو استعمال کرتے ہوئے افغانستان میں امریکی فوج پر حملے کریں گے تو امریکی taxpayer کس صورت پاکستان کی مالی امداد کی اجازت دیں گے۔ جوبائیڈن نے القاعدہ کو پاکستان کا مسئلہ قرار دیا، جبکہ پاکستان نے ہمیشہ اس سخت موقف کی نفی کی۔
مگر اب خطہ میں بڑی تبدیلیاں رونما ہوگئی ہیں، چین کا one belt one road اور دوحہ معاہدہ ایک زندہ حقیقت ہے۔ جو بائیڈن اس صورت حال میں حکمت عملی، امریکی مفادات کو مدنظر رکھتے ہوئے تشکیل دیں گے۔ اگر جو بائیدن کو محسوس ہوا کہ امریکی مفادات کو افغانستان سے خطرے کا سامنا ہوسکتا ہے تو ایک بار پھر پاکستان پر مزید دباؤ ڈالا جائے گا کہ وہ امریکی شرائط پر اس جنگ کا اختتام کروائے۔ جوبائیڈن چین کو بھی کھلی چھوٹ نہیں دے گا، وہ ٹرمپ کے مقابلے میں چین کے لیے مزید سخت ثابت ہوں گے، اس صورتحال کو سامنے رکھتے ہوئے اس بات کا قوی امکان ہے کہ امریکا افعانستان میں اپنی اسٹریٹیجک موجودگی برقرار رکھے۔
اپنی نائب صدارت میں اور بحیثیت چیئرین فارن افیئرز کمیٹی، جو بائیڈن کے خیالات اور بیانات امریکا کے مستقبل کے حوالے سے حکمت عملی سمجھنے میں مددگار ہوسکتے ہیں۔ ہمیں اپنی حکمت عملی خصوصی طور پر افغانستان کے حوالے سے بہت محتاط رہ کر بنانا ہوگی۔ اس صورت حال میں کسی بھی قسم کے تنازع سے بچنے کے لیے طاقت کے توازن کو برقرار رکھنا ہوگا اور یہ اسی وقت ممکن ہو سکے گا، جب ایک مضبوط اتحاد امریکا کے جواب میں قائم ہوگا۔
(ترجمہ: محمد مصطفی)
“Joe Biden’s election and Pakistan”. (“tribune.com.pk”. November 25, 2020)
Leave a Reply