
مجوسی: ہمارے ہاں، پارسیوں اور آتش پرستوں کو مجوسی کہا جاتا ہے لیکن اصل کچھ اور ہے۔ کہتے ہیں کہ مجوسی کا مطلب ہے، ’’چھوٹے کانوں والا‘‘۔ چونکہ اس مذہب کا بانی، چھوٹے کانوں والا تھا اس لیے اس کے مذہب کو مجوسی مذہب کہا جانے لگا۔ ’’مجوسی‘‘ کی اصل ’’منجہ گوش‘‘ ہے، جس کے معنی ہیں ’’چھوٹے کانوں والا‘‘۔
٭ اوقیانوس: ’’اوقیانوس‘‘ سے فوراً بحراوقیانوس کا خیال آتا ہے لیکن دراصل اس لفظ کے معنی ہیں: پانی کا وہ ذخیرہ جو پوری زمین کو اپنی آغوش میں لے لے۔ اسے انگریزی میں ’’اوشن‘‘ OCEAN کہا جاتا ہے، جس کی اصل ’’اوشنیس‘‘ OCEANUS ہے۔ یہ لاطینی زبان کا لفظ ہے، جس کو یونانی زبان کے لفظ ’’اوکیانوس‘‘ OCEANOS سے اخذ کیا گیا ہے۔ ’’اوکیانوس‘‘ کے معنی ہیں، دریا یا دریا کا دیوتا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ دریائی دیوتا کی بیٹی یا جل پری کو انگریزی میں اوسیانڈ OCEANID کہا جاتا ہے۔ عربی میں اسے ’’عقید‘‘ کہتے ہیں۔
٭ سَن: سابقہ مشرقی پاکستان کے حوالے سے آپ کو ’’پٹ سن‘‘ کا ریشہ اچھی طرح یاد ہو گا۔ اسے ’’سَن‘‘ بھی کہتے ہیں۔ اس کا ریشہ بے حد مضبوط ہوتا ہے اور اس سے طرح طرح کی اشیاء تیار کی جاتی ہیں۔ انگریزی میں اسے یوں تو جوٹ JUTE کہتے ہیں لیکن انگریزی ہی میں اسے ’’سَن‘‘ بھی کہتے ہیں۔ ہجے ہیں: SUNN ویسے اسی لفظ کی اصل سنسکرت زبان کا لفظ ’’سنا‘‘ ہے۔
٭ نوء: عربی زبان کا لفظ ہے۔ معنی ہیں: بھڑکنے والا ستارہ۔ زمانۂ جاہلیت میں مشرکین کہا کرتے تھے مطرنابنوء کذا، یعنی فلاں ستارے کے طلوع کے وقت ہم پر بارش ہوتی ہے۔ یہی لفظ انگریزی میں پہنچ کر ’’نووا‘‘ NOVA بن گیا۔ اس سے مراد ایسا ستارہ لیا جاتا ہے جو اچانک دھماکے کے ساتھ تیز روشنی لے کر نمودار ہوتا ہے اور پھر غائب ہو جاتا ہے۔ بعض ماہرین کے نزدیک یہ لفظ ’’نیو‘‘ NEW یعنی ’’نیا‘‘ کی بدلی ہوئی صورت ہے۔ اگر اسے مان لیا جائے تو پھر اس لفظ کی اصل فارسی کا لفظ ’’نو‘‘ ہو گی۔فارسی میں ’’نئے‘‘ کے لیے لفظ ’’نو‘‘ ہی استعمال کیا جاتا ہے اور اس کو بطور سابقہ استعمال کر کے کئی مرکب الفاظ بنا لیے گئے ہیں مثلاً نوروز (نیا دن)، نوجوان (نیا جوان) نو آمیز (نیا نیا سیکھنے والا) وغیرہ۔
٭ عسقلان: فلسطین کے جنوب میں واقع ایک بندرگاہ کا نام ہے۔ اس علاقے میں ایک خاص قسم کا ساگ کثرت سے پیدا ہوتا ہے۔ اس ساگ کو بھی علاقے کے نام کی نسبت سے ’’عقسلان‘‘ کہا جانے لگا۔ یہ پیاز کی نسل سے تعلق رکھنے والا پودا ہے۔ اسے عربی میں ’’رُت‘‘ اور ہمارے ہاں ’’گندنا‘‘ کہتے ہیں۔ ’’عسقلان‘‘ انگریزی میں پہنچا تو اس نے وہاں جاکر انگریزی لہجہ اپنا لیا اور ’’اسکیلین‘‘ SCALLION کہلانے لگا۔!
٭ حمال: بوجھ اٹھانے والے کو عربی زبان میں ’’حمال‘‘ کہتے ہیں یعنی ’’قلی۔!‘‘ لفظ ’’قلی‘‘ کے ساتھ انگریزوں نے کیا سلوک کیا اس پر ہم ابھی بات کرتے ہیں، پہلے یہ سن لیجیے کہ بوجھ اٹھانے والے کو انگریزی میں بھی ’’ہمال‘‘ HAMMAL یا HAMAL کہتے ہیں۔ اب سنیے ’’قلی‘‘ کے سفر کا احوال۔! ’’قلی‘‘ جب سفر کرتا ہوا انگریزی میں پہنچا تو انگریزوں کی سہولت کی خاطر ’’کولی‘‘ بن گیا۔ ہجے ہیں: COOLIE یا COOLY۔ انگریزوں نے اپنی لغات میں اس لفظ کے جو معنی تحریر کیے ہیں وہ زیادہ دلچسپ ہیں۔ ملاحظہ فرمایے: ایک انڈین یا چینی مزدور جو کسی معاہدے کے تحت ترک وطن کرکے کسی غیر ملک میں آیا ہو۔ انڈیا اور چین میں کرائے پر لیے گئے مزدوروں کو دیا گیا یورپی نام۔ اس کے بعد انگریزی لغت یہ قیاس ظاہر کرتی ہے کہ غالباً ’’کوئی‘‘ مغربی بھارت کے ایک قبیلے کا نام ہے یا پھر یہ تمِل زبان کا لفظ ہے، جس کے معنی ہیں: ’’کسی کو مزدوری یا اجرت پر رکھنا۔!
٭ چھوکرا: ہندی میں ’’لڑکے‘‘ کو ’’چھوکرا‘‘ کہا جاتا ہے۔ اردو میں یہ لفظ قدرے تضحیک یا کم تر درجے کے لوگوں کے لیے استعمال ہونے لگا ہے اور جب کبھی اردو میں کسی چھوکرے کا ذکر ہوتا ہے فوراً گمان ہوتا ہے کہ یہ یا تو کسی دکان پر چھوٹا موٹا کام کرنے والا لڑکا ہو گا یا پھر کسی نادار گھرانے کے کسی نیم خواندہ اور شرارتی قسم کے لڑکے کا ذکر ہو رہا ہے! کیونکہ اردو بولنے والے مہذب گھرانوں میں کبھی یہ نہیں پوچھا جاتا کہ آپ کا چھوکرا آجکل کس کمپنی کا ڈائریکٹر ہے؟ البتہ ’’تہذیب یافتہ‘‘ لوگ یہ کہنے میں کوئی حرج محسوس نہیں کرتے کہ: ’’سامنے کچی آبادی کے چھوکروں نے غل مچا رکھا ہے!‘‘
خیر یہ تو رویے کا فرق تھا، اب یہ دیکھیے کہ ہندی زبان کا چھوکرا جب سفر کرتا ہوا عربی میں پہنچا تو وہ ذرا سے فرق کے ساتھ ’’جیوکریٰ‘‘ (جیوکرا) بن گیا یعنی نوعمر لڑکا۔!
٭ لوکاٹ: زرد رنگ کا یہ پھل آپ نے ضرور کھایا ہو گا۔ ہمارے ملک کے شمالی علاقوں میں اکثر ملتا ہے۔ یہ دراصل چینی اور جاپانی پودا ہے اور اس کا تعلق گلاب کے خاندان سے ہے۔ اسے انگریزی میں ’’لوکواٹ‘‘ LOQUAT کہتے ہیں۔ اس کی اصل چینی زبان کا لفظ ’’لوہ کواٹ‘‘ ہے۔
(بحوالہ: ’’لفظوں کا دلچسپ سفر‘‘۔ ڈاکٹر ایس اے ہاشمی)
Leave a Reply