
جنوبی سوڈان میں ایک آزاد عیسائی ریاست معرض وجود میں آچکی ہے۔ نئی ریاست میں ہر طرف خوشیاں منائی جارہی ہیں۔ ۸ اور ۹ جولائی کی شب جنوبی سوڈان کے دارالحکومت جوبا میں ہزاروں نوجوان سڑکوں پر جمع تھے۔ جیسے ہی گھڑی نے رات کے بارہ بجائے، فضا آزادی کے حق میں نعروں سے گونج اٹھی۔ ملک بھر میں عربوں سے الگ ہوجانے پر خاصی مسرت کا اظہار کیا جارہا ہے۔
افریقی ریاستوں کے سربراہان اور دنیا بھر سے آئے ہوئے سفارت کاروں نے نئی ریاست کے قیام پر قائدین کو مبارکباد دی۔ سوڈان میں پچاس سال کی خانہ جنگی، بیس لاکھ ہلاکتوں اور چالیس لاکھ سے زائد افراد کے بے گھر ہونے کے بعد بالآخر جنوبی سوڈان کو آزادی نصیب ہو ہی گئی۔ اس سے قبل چھ سال تک امن معاہدے کے تحت خانہ جنگی میں وقفہ رہا۔ جنوری میں ایک ریفرینڈم کے ذریعے جنوبی سوڈان کے علاقے دارفر کے لوگوں نے نئی ریاست کے قیام کے حق میں ووٹ دیا۔ جنوبی سوڈان کے لیڈر سلوا کائر نے ایک انٹرویو میں کہا کہ ’’جنوبی سوڈان میں ہم سے پناہ گزینوں سے بھی بدتر سلوک کیا گیا۔ ہم پر بمباری کی جاتی رہی، ہمیں غلام بنایا گیا اور ہر معاملے میں دبانے کی کوشش کی گئی۔ اب ہم آزاد ہیں اور اپنی مرضی کے مطابق زندگی بسر کریں گے‘‘۔ سلوا کائر کا یہ بھی کہنا تھا کہ ’’ہم مظالم کو معاف تو کردیں گے، بھولیں گے کبھی نہیں‘‘۔
سوڈان میں مغرب کی مداخلت کا ایک باب ختم ہوا اور اب دوسرا شروع ہو رہا ہے۔ جنوبی سوڈانی ریاست کے قیام سے مسائل حل نہیں ہوگئے۔ شمال اور جنوب کا جھگڑا ضرور ختم ہوا ہے مگر شمالی سوڈان میں خرطوم کی اشرافیہ کے ہاتھوں مظالم کا نشانہ بننے والے غیر عرب اقلیتی گروپوں کا کہنا ہے کہ وہ بھی اپنے حقوق کے لیے ہتھیار اٹھائیں گے۔ جنوبی سوڈان سے ملحق سرحدی علاقے میں تیل کی دولت اب بھی بڑی مقدار میں موجود ہے۔ تیل سے مالا مال اس خطے پر کنٹرول کے لیے گزشتہ ماہ بھی لڑائی چھڑی تھی۔ یہ طے کرنا مشکل ہو رہا ہے کہ تیل کی دولت سے کون فائدہ اٹھائے گا۔۔ سوڈان یا جنوبی سوڈان؟ نیوبا کے پہاڑی علاقوں میں جنوبی سوڈان کے باغیوں کے اتحادی واپس آچکے ہیں۔ پورے خطے پر کنٹرول کی لڑائی جاری ہے۔ بلو نائل کا علاقہ سائوتھ کوردوفین سے منسلک ہونے کے بعد جلد ہی دوسرا خطہ ہوگا جہاں شدید لڑائی چھڑ سکتی ہے۔ خرطوم میں عمر البشیر کی انتظامیہ میں انتہا پسند عناصر ملک کی تقسیم سے نمٹنے کے معاملے میں بحث جیتتے دکھائی دے رہے ہیں۔ یعنی یہ کہ جو منحرفین رہ گئے ہیں ان کے خلاف کریک ڈاؤن جاری رکھا جائے۔
جنوبی سوڈان کو آزادی تو مل گئی ہے اور اس وقت سب کچھ اچھا لگ رہا ہے مگر حقیقت یہ ہے کہ آنے والا زمانہ زیادہ خوشگوار دکھائی نہیں دیتا۔ نئی قوم کو سب کچھ نئے سرے سے شروع کرنا ہے۔ اسکول، ہسپتال، سڑکیں اور تربیت یافتہ سول سرونٹس، کچھ بھی تو نہیں ہے۔ اگر کمی نہیں ہے تو ہتھیاروں کی، بے روزگار نوجوانوں کی اور قبائلی بنیاد پر تقسیم کی۔ تیل کی دولت ہے جس کی برآمد سے ہر سال اربوں ڈالر کی آمدنی ہے۔ مزید تیل نکالنے کی بھی تیاری کی جارہی ہے۔ یعنی معاشی طور پر پنپنے کی بھرپور گنجائش ہے۔ قابل کاشت اراضی بھی اچھی خاصی ہے۔ جنوبی سوڈان اپنی ضرورت پوری کرکے غذائی اجناس برآمد بھی کرسکتا ہے۔ ترقیاتی کام اسی وقت ہوسکتے ہیں جب سیکورٹی کا معاملہ درست کیا جائے۔ سال رواں کے دوران ۱۸۰۰ افراد مارے جاچکے ہیں۔ سابق باغی رہنما اب معاملات کو اپنے ہاتھ میں لیتے دکھائی دیتے ہیں۔
۷ جولائی کو سات حزب اختلاف کے رہنمائوں کو گرفتار کرکے تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔ حکومت کو سیکھنا ہوگا کہ حزب اختلاف بھی ہوتی ہے اور اسے قبول کرنا چاہیے۔ سوڈان کے لیے امریکا کے خصوصی ایلچی پرنسٹن لائمین نے بھی اس بات پر زور دیا ہے کہ اپوزیشن کو ملک کے استحکام میں کردار ادا کرنے کا موقع دیا جائے۔
اگر دونوں سوڈان اپنے اندرونی معاملات کو اپنے طور پر حل کرنے کی کوشش کریں تو یقیناً یہ ایک اچھی بات ہوگی۔ ساتھ ہی انہیں یہ بات بھی سمجھنا ہوگی کہ ان کا مقدر ایک دوسرے سے وابستہ ہے۔ امریکی سینیٹر جان کیری کا کہنا ہے کہ دونوں ممالک کمزور ہیں اور انہیں یہ بات سمجھنا ہوگی کہ ساتھ ساتھ چل کر ہی وہ استحکام کی منزل تک پہنچیں گے۔ شمالی سوڈان اور جنوبی سوڈان کو طے کرنا ہوگا کہ وہ تیل مل کر نکالیں گے اور اس کی آمدنی بھی مساوی طور پر تقسیم کریں گے۔ اگر وہ ایسا نہ کرسکے تو بگاڑ پیدا ہوگا۔ مگر یہ سب کچھ ہوتا دکھائی نہیں دیتا۔ فریقین ایک دوسرے کے ہاں باغیوں کی مدد کر رہے ہیں۔ ابی کے متنازع سرحدی علاقے کا معاملہ اب تک معرض التواء میں پڑا ہوا ہے۔ جنوبی سوڈان کی ریاست نے اعلان تو کیا ہے کہ وہ کسی بھی طور دارفر، کارڈوفین اور بلو نائل کے علاقے کے لوگوں کو نظر انداز نہیں کریں گے۔ افریقی اتحاد کی تنظیم کی وساطت سے ایتھوپیا کے دارالحکومت عدیس ابابا میں شمال اور جنوب کے درمیان بات چیت بظاہر رک گئی ہے اور اس کے ناکام ہو جانے کا بھی خدشہ ہے۔ کائر کا کہنا ہے کہ وہ اپنے لوگوں کو دوبارہ جنگ کی طرف نہیں لے جائے گا۔ مگر کوئی بھی نہیں جانتا کہ اب کیا ہوگا۔ دونوں افواج تیار کھڑی ہیں۔ اور اب اگر کوئی ایسی ویسی بات ہوئی تو جنوبی سوڈان برداشت نہیں کرے گا کیونکہ اب وہ ایک آزاد ریاست کا درجہ رکھتا ہے۔
جنوبی سوڈان کوئی انوکھی مثال نہیں۔ مشرقی تیمور ۲۰۰۲ء اور اریٹیریا ۱۹۹۱ء کی مثال بھی ہمارے سامنے ہے۔ مشرقی تیمور نے انڈونیشیا سے آزادی حاصل کی اور اب وہاں جمہوریت بھی ہے اور ترقی بھی ہو رہی ہے۔ دوسری جانب اری ٹیریا میں معاملات مزید خراب ہوئے۔ ایک طرف سفاک حکومت ہے اور دوسری طرف صرف جنگ و جدل۔ جنوبی سوڈان کے لیے مستحکم ہوکر آگے بڑھنا آسان نہ ہوگا۔ ایسے میں اسے عصری اور علاقائی تقاضوں کو سمجھتے ہوئے آگے بڑھنا ہوگا۔ نئی آزادی کو سمجھنا اور برتنا جنوبی سوڈان کے لیے سب سے بڑا چیلنج ہے۔
(بشکریہ: ہفت روزہ ’’ٹائم‘‘ امریکا۔ ۱۰ ؍جولائی ۲۰۱۱ء)
Leave a Reply