
بنگلا دیش میں ۲۰۱۰ء میں عوامی لیگ کی حکومت کی جانب سے قائم کردہ انٹر نیشنل کرائمز ٹربیونل نے جماعت اسلامی کے سینئر رہنما عبدالقادر مُلّا کو ۱۹۷۱ء کے مبینہ جنگی جرائم کے الزام میں عمر قید کی سزا سنائی ہے۔ یہ سزا ۵ فروری کو سنائی گئی۔ جنگی جرائم کے مقدمات دوبارہ کھلنے سے ۱۹۷۱ء کے زخم تازہ ہوگئے۔ اس سے قبل جنوری میں اس ٹربیونل نے جماعت اسلامی کے سینئر رہنما ابوالکلام آزاد کو ان کی غیرموجودگی میں موت کی سزا سنائی تھی۔
بنگلہ دیش میں جنگی جرائم کا ٹربیونل (جو سراسر ملکی نوعیت کا ہے اور بین الاقوامی معیارات اور اداروں سے اس کا کوئی تعلق نہیں) اس وقت جماعت اسلامی بنگلہ دیش کے سابق امیر ۹۰ سالہ پروفیسر غلام اعظم سمیت جماعت کے سات رہنماؤں اور بنگلہ دیش نیشنلسٹ پارٹی کے دو رہنماؤں پر جنگی جرائم کے مقدمات کی سماعت کر رہا ہے۔ جنگی جرائم کے الزامات کے تحت جن رہنماؤں کو گرفتار کیا گیا ہے اور جن کے خلاف مقدمات چلائے جارہے ہیں ان سب نے جنگی جرائم میں ملوث ہونے سے انکار کیا ہے اور ٹربیونل کے اقدامات کو انتقامی کارروائی قرار دیا ہے۔
کیا یہ مقدمات انصاف اور انسانی حقوق کے حوالے سے بین الاقوامی معیارات کی ضمانت دیتے ہیں؟ عوامی لیگ کی حکومت تو دعوے کر رہی ہے کہ ٹربیونل بین الاقوامی معیارات کے مطابق ہے مگر انسانی حقوق کے بین الاقوامی اداروں نے مقدمات کی شفافیت اور غیر جانب دار حیثیت پر سوالات اٹھائے ہیں۔
جنگی جرائم سے متعلق امور کے ماہرین نے بنگلہ دیش میں جنگی جرائم کے ٹربیونل کے حوالے سے کئی اعتراضات کیے ہیں۔ مثلاً ملزمان کو مقدمہ چلائے جانے سے قبل طویل مدت تک حراست میں رکھنا، ٹربیونل کے خلاف اپیل کا حق نہ دینا، اس کی حیثیت کو چیلنج کرنے کی اجازت نہ دینا، کسی کو بے گناہی ثابت کرنے کا موقع نہ دینا اور ملزمان و گواہوں کو تحفظ فراہم نہ کرنا نمایاں ہیں۔ ہیومن رائٹس واچ نے اس ٹربیونل پر کئی اعتراضات کیے ہیں مثلاً یہ کہ ججوں کی غیر جانب دار حیثیت کی ضمانت نہیں دی گئی اور مقدمات کی کارروائی بھی شفاف نہیں۔ انٹر نیشنل کمیشن آف جیورسٹس کے ایشیا چیپٹر کے سربراہ کا کہنا ہے کہ مقدمات درج کرنے اور عدالت میں پیش کرنے کے عمل میں اِتنے نقائص ہیں کہ سوال یہ اٹھتا ہے کہ مقدمہ چلانا درست ہے بھی یا نہیں۔
دسمبر ۲۰۱۲ء میں بین الاقوامی میڈیا نے بنگلہ دیشی وار کرائمز ٹربیونل کے سابق سربراہ محمد نظام الحق اور برسلز میں مقیم ایک مشہور بنگلہ دیشی قانون دان کے درمیان گفتگو شائع کی تھی، جس سے پتا چلتا تھا کہ بنگلہ دیش میں جنگی جرائم کے الزامات کے تحت چلائے جانے والے مقدمات کسی بھی اعتبار سے شفاف اور غیر جانب دار نہیں اور یہ کہ حکومت اور عدلیہ میں گٹھ جوڑ پایا جاتا ہے۔ اس گفتگو سے یہ بات بھی سامنے آئی تھی کہ ٹربیونل کے ججوں پر فوری فیصلے کے لیے شدید دباؤ تھا۔ اس گفتگو کے اشاعت کے بعد محمد نظام الحق نے استعفیٰ دے دیا اور ساتھ ہی ساتھ ٹربیونل کی حیثیت بھی خاصی مشکوک ہوگئی۔
بنگلہ دیش میں انٹر نیشنل کرائمز ٹربیونل کے تحت چلائے جانے والے مقدمات نے دو بنیادی سوال کھڑے کیے ہیں۔ پہلا یہ کہ کیا ان لوگوں کے خلاف جنگی جرائم کے مقدمات چلانا درست ہے جنہوں نے اپنے وطن (پاکستان) کو توڑنے کی کوششوں کے سامنے بند باندھا اور بھارت کی تربیت یافتہ دہشت گرد تنظیم مکتی باہنی کی مسلح بغاوت کے خلاف مزاحمت کی؟ دوسرا سوال یہ ہے کہ جنگی جرائم کے یہ مقدمات، جو بہت سے نقائص سے بھرے پڑے ہیں اور جن کی بنیاد ۱۹۷۱ء میں زیادتیوں کے مبالغہ آمیز پروپیگنڈے پر ہے، کیا واقعی انصاف یقینی بناسکیں گے؟
شرمیلا بوس نے اپنی معرکۃ الآرا کتاب “Dead Reckoning- Memories of 1971 Bangladesh War” میں لکھا ہے کہ ۱۹۷۱ء میں پاکستانی فوج کے ہاتھوں تیس لاکھ افراد کی ہلاکت کی کہانی محض افواہ ہے، کیونکہ اس حوالے سے نہ تو حقائق کا جائزہ لیا گیا تھا اور نہ کوئی باضابطہ سروے کیا گیا تھا۔ شرمیلا بوس نے بہت سی رپورٹس کا جائزہ لینے کے بعد انٹرویو اور سروے کرکے اپنی کتاب میں لکھا ہے کہ سابق مشرقی پاکستان میں مجموعی طور پر پچاس ہزار سے ایک لاکھ افراد ہلاک ہوئے۔ ان میں ہتھیار اٹھانے والے اور نہ اٹھانے والے بنگالی، غیر بنگالی، ہندو، مسلمان، بھارتی اور پاکستانی سبھی شامل تھے۔
شرمیلا بوس نے ممکنہ مخالفت کی ذرا بھی پروا کیے بغیر اِس حقیقت کا اعتراف کیا ہے کہ بنگالی قوم پرستی کے نام پر جنون کی جو لہر اٹھی، اُس میں غیر بنگالی مردوں، عورتوں اور بچوں کے ساتھ ساتھ مغربی پاکستان سے تعلق رکھنے والے کاروباری افراد، فوجی افسران اور ان کے اہل خانہ کو بھی (جو تعداد میں خاصے کم اور غیر مسلح تھے) بڑی بے رحمی سے موت کے گھاٹ اتارا گیا۔
سوال یہ ہے کہ شیخ حسینہ واجد جنگی جرائم کے ٹربیونل کے تحت چلائے جانے والے مقدمات سے کیا حاصل کرنا چاہتی ہیں؟ بھارت کی طرف واضح جھکاؤ رکھنے والی عوامی لیگ کی حکومت ان مقدمات کے ذریعے شاید ان لوگوں کو سزا دینا چاہتی ہے جنہوں نے ۱۹۷۱ء میں پاکستان توڑنے اور بنگلہ دیش بنانے والوں کے خلاف مزاحمت کی تھی۔ ایسے اقدامات سے بنگلہ دیش کی نئی نسل میں پاکستان مخالف جذبات کو ہوا دینے اور پاکستان سے نفرت کو فروغ دینے میں خاصی مدد ملتی ہے۔
ان مقدمات سے، جنہیں بھارت کی حمایت اور مدد حاصل ہے، بنگلہ دیش کے شہریوں کی نظر میں پاکستانی فوج کو مطعون کرتے رہنے میں مدد ملتی ہے۔ بنگلہ دیش میں پاکستانی فوج کی ۱۹۷۱ء کی کارروائی ایک بڑا اشو ہے جو آج بھی جذبات کی سطح پر بہت اپیل رکھتا ہے۔
عوامی لیگ کی قیادت کو اپنے گریبان میں جھانک کر دیکھنا چاہیے۔ لازم ہے کہ وہ اپنی خامیوں اور کوتاہیوں کا جائزہ لے۔ جنگی جرائم کے نام نہاد مقدمات انصاف کی راہ ہموار کریں گے یا بنگلہ دیشی معاشرے کو مزید تقسیم سے دوچار کریں گے؟ کیا بنگلہ دیش اس امر کا متحمل ہوسکتا ہے کہ سیکولر اور اسلامی حلقوں کے درمیان فاصلے مزید بڑھیں؟ بنگلہ دیش کے قیام کو اب ۴۱ سال گزر چکے ہیں۔ کیا اب بھی اُس زمانے کے زخموں کو یاد کرنا اور مقدمات کے نام پر محض نا انصافی پر تُلے رہنا درست ہے؟ انتقام کی راہ پر گامزن ہونے کے بجائے کیوں نہ سیاسی مفاہمت اور مصالحت کی راہ پر سفر شروع کیا جائے؟
گزشتہ نومبر میں وزیر خارجہ حنا ربانی کھر نے اسلام آباد میں ایک سربراہ کانفرنس کے لیے بنگلہ دیشی وزیر اعظم شیخ حسینہ واجد کو باضابطہ دعوت دینے کے سلسلے میں ڈھاکا کا دورہ کیا تو بنگلہ دیشی ہم منصب نے مطالبہ کیا کہ پاکستان ۱۹۷۱ء میں فوجی آپریشن کے دوران ڈھائے جانے والے مظالم پر معافی مانگے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ شرمیلا بوس کی کتاب کو بنگلہ دیش میں اب تک سنجیدگی سے نہیں لیا گیا!
پاکستان نے ہمیشہ یہی کوشش کی ہے کہ بنگلہ دیش سے تعلقات بہتر بنائے جائیں۔ عوامی لیگ کی حکومت سے بھی توقع رکھی جاسکتی ہے کہ وہ تلخی کو دوستی کے ذریعے دور کرنے پر توجہ دے گی۔
ایک اہم بات یہ ہے کہ بنگلہ دیش کے قیام اور پاکستان کی تقسیم کی شدید مخالفت کرنے والے مشکل میں ہیں تو کیا ہم انہیں بھول جائیں؟ یقینا نہیں! اسلام آباد میں سابق صدر محمد رفیق تارڑ کی سربراہی میں ہونے والے سیمینار میں مقررین نے بنگلہ دیشی حکومت سے مطالبہ کیا کہ وہ سابق مشرقی پاکستانیوں اور متحدہ پاکستان کے لیے لڑنے والوں کو سیاسی انتقام کا نشانہ بنانے سے گریز کرے۔ سیمینار کے مقررین اور شرکا نے حکومتِ پاکستان، عالمی برادری، اسلامی کانفرنس کی تنظیم، اقوام متحدہ اور انسانی حقوق کے بین الاقوامی کمیشن سے مطالبہ کیا کہ وہ مشکل کی اس گھڑی میں سابق مشرقی پاکستانیوں کو تنہا نہ چھوڑیں اور مقدمات کے نام پر سیاسی انتقام کا نشانہ بنانے کے عمل کو رکوائیں۔ ترکی کے صدر عبداللہ گل نے بنگلہ دیشی حکومت کو خط لکھا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ پروفیسر غلام اعظم سمیت تمام ملزمان کی جاں بخشی کی جائے مگر پاکستانی حکومت اب تک بے حسی اور لاتعلقی کا مظاہرہ کر رہی ہے۔ سیاسی اور سفارتی دباؤ کے تحت اب تک ایک لفظ بھی اس باب میں نہیں کہا گیا ہے۔
پاکستان کی سیاسی قیادت، انسانی حقوق کی پاس داری کے دعویدار اور ذرائع ابلاغ کو بنگلہ دیش میں نام نہاد جنگی جرائم پر اُسی طرح خاموش رہنا چاہیے جس طرح وہ اب تک خاموش رہے ہیں؟ (مضمون نگار ریٹائرڈ بریگیڈیئر ہیں)
(“Justice or Revenge?”… “The News”. Feb. 15, 2013)
Leave a Reply