
فرانس میں سیاسی میدان میں دائیں بازو کے متعصب سیاست دانوں اور لبرل حلقوں کے درمیان ملکی سیاست کے حوالے سے دیگر متضاد آرا کے ساتھ مشرقی کھانوں بالخصوص ’’کباب‘‘ کی بڑھتی مقبولیت پر بھی سخت اختلافات ہیں اور کباب سیاسی محاذ کو گرم کرنے کا موجب بنا ہوا ہے۔
العربیہ ڈاٹ نیٹ کے مطابق گزشتہ کچھ عرصے سے فرانس کے پارلیمانی اور بلدیاتی انتخابات میں دائیں بازو سے تعلق رکھنے والے امیدواروں نے اپنی انتخابی مہمات میں بھی کباب کے بڑھتے کاروبار کو روکنے کا اعلان کرتے ہوئے مشرقی اور غیر ملکی کھانوں کو فرانس کی تاریخی، تہذیبی اور ثقافتی اقدار کے لیے خطرہ قرار دیا اور ساتھ ہی ان پر پابندی کا عزم کر رکھا ہے۔
تاہم دوسری جانب لبرل اور روشن خیال سیاسی حلقے دائیں بازو کے متعصب سیاست دانوں کے سامنے صف آرا ہیں۔ ان کا دعویٰ ہے کہ ماکولات سے فرانس کی ثقافتی روایات متاثر نہیں ہو سکتیں۔ حیرت کی بات تو یہ ہے کہ کباب دشمنی کا مظاہرہ کرنے والے فرانسیسی سیاست دانوں میں سے کئی ایسے بھی ہیں، جو خود بھی ترکی اور مشرقی کباب کے رسیا سمجھے جاتے ہیں۔
امریکی اخبار ’’نیویارک ٹائمز‘‘ کے مطابق فرانس کی ایک بڑی سیاسی جماعت نیشنل فرنٹ کے عہدیدار کباب مخالف مہم میں پیش پیش ہیں۔ پچھلے چند مہینوں میں ایسا لگ رہا ہے کہ وہ باقاعدہ ’’کباب فوبیا‘‘ کا شکار ہیں۔
کباب فرانس میں مقیم مشرقی تارکین وطن ہی کا نہیں بلکہ خود فرانسیسی عوام کے ایک بڑے طبقے کا پسندیدہ کھابہ بن چکا ہے اور مشرقی کباب کا کاروبار فرانس میں مخالف مہم کے باوجود دن دگنی رات چگنی ترقی کر رہا ہے۔
فرانس کے ایک لگژری ہوٹل منڈرین اورینٹل میں فرانسیسی شیف ٹیری مارکس نے خود بھی کباب تیار کر کے ’’کباب فوبیا‘‘ مہم شروع کر رکھی ہے۔ مارکس مشرقی طریقے سے ہٹ کر کباب تیار کرتا ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ میں نے فرانس کی ایک ایسی کالونی میں آنکھ کھولی جس میں کم سے کم ۱۰۰ مختلف ممالک کے باشندے قیام پذیر تھے۔ مقامی سطح پر تیار کیے جانے والے روایتی کھانوں اور غیر ملکی کھانوں کے درمیان ایک کشمکش موجود رہی ہے جو آج بھی جاری ہے۔
کباب فوبیا کا آغاز
فرانس میں غیرملکی اور روایتی مقامی کھانوں کے درمیان کشمکش نئی نہیں، لیکن کباب فوبیا نے پچھلے چند ماہ میں زیادہ زور پکڑا ہے۔ گزشتہ موسم بہار میں ہوئے یورپی پارلیمان کے انتخابات کے موقع پر دائیں بازو کے شدت پسند امیدواروں نے اپنی انتخابی مہمات میں بھی ’کباب‘ کا خوب ڈھنڈورا پیٹا۔
فرانس کے جنوبی شہر بیزییہ کی میئر شپ کے امیدوار روپیر مینر کی ویب سائٹ پر ۲۰۱۳ء میں ’’شارع فولٹر‘‘ نامی ایک شخص کا مضمون شائع ہوا۔ کالم میں مضمون نگار نے نہایت مبالغہ آرائی سے کام لیتے ہوئے ۲۰۴۷ء کے فرانسیسی معاشرے کی تصویر کشی کچھ اس انداز میں کی کہ مستقبل میں فرانسیسی معاشرے پر مشرقی روایات اس قدر غالب آ جائیں گی کہ تمام عورتیں حجاب اوڑھیں گی اور لوگ برگر اور پیزا جیسے مقامی کھانوں کو بھول چکے ہوں گے اور وہ صرف کباب استعمال کریں گے۔
فرانسیسی وزارت خارجہ کے ایک عہدیدار فیلپ فور کا کہنا ہے کہ کباب پر تنقید کا تعلق شہریوں کی خوش خوراکی سے نہیں بلکہ ایسا محض سیاسی مقاصد کے حصول کے لیے کیا جا رہا ہے۔ انہوں نے کباب کے استعمال پر تنقید کو نسل پرستانہ اور متعصب سیاسی طرزِ عمل قرار دیا۔
روپیر مینر جب جنوبی فرانس کے ایک شہر کے میئر منتخب ہو گئے تو انہوں نے اعلان کیا کہ وہ شہر میں کباب کے بڑھتے نیٹ ورک کو محدود کرنے کے لیے اقدامات کریں گے۔ انہوں نے کہا کہ کباب کے کاروبار کی آڑ میں غیرملکیوں کو غیرقانونی سرگرمیوں کی اجازت نہیں دی جا سکتی، تاہم مسٹر مینر یہ نہیں بتا سکے کہ آیا کباب کی آڑ میں انہیں کون سی غیرقانونی سرگرمیاں دکھائی دے رہی تھیں۔
امریکی اخبار کے مطابق کسی بھی معاشرے کی طرح فرانسیسی قوم نے بھی غیرملکیوں کی ثقافت کے اثرات قبول کیے، تاہم جب غیرملکیوں کے اثرات بڑھنے لگے تو فرانسیسیوں کو اپنی ثقافتی روایت کے مٹ جانے کا خدشہ پیدا ہوا۔ خاص طور پر پیزییہ شہر میں کباب کی دکانوں کے بڑھتے نیٹ ورک نے مقامی کھانے خطرے میں ڈالے جس سے مقامی سیاست دانوں کو یہ خطرہ پیدا ہوا کہ شہر اپنی تاریخی پہچان ہی کھو ڈالے گا۔
فرانس میں کباب فوبیا کا شکار نیشنل فرنٹ کی خاتون سربراہ مارین لوبین ہی کی جانب سے اظہار نہیں کیا گیا بلکہ پچھلے بلدیاتی انتخابات میں فرانس میں دائیں بازو کے ۱۲؍ایسے امیدوار بھی کامیاب ہوئے تھے جو غیرملکی اور مقامی کھانوں کی سیاست پر میدان میں اترے تھے۔
جنوبی قصبے بوکیر میں نیشنل فرنٹ کے امیدوار نے قصبے میں کباب کے چار مرکز کھلنے پر نہایت مایوسی کا اظہار کیا اور انتخابات سے قبل یہ عہد کیا کہ وہ اقتدار میں آکر اس نوعیت کی کاروباری سرگرمیوں پرپابندی لگائیں گے۔ کامیابی کے بعد انہوں نے فوری طور پر پولیس کو حکم دیا کہ وہ قصبے میں موجود تمام غیرملکی کھانوں کے مراکز کی چھان بین کریں۔ بلدیہ کونسل کے بعض عہدیداروں نے کباب فوبیا کا شکار ہونے کے بعد کباب کی دکانوں کے مالکان پر منی لانڈرنگ جیسے بھونڈے الزامات بھی عائد کیے اور کہا کہ کباب شاپس پر صفائی کا انتظام نہایت ناقص ہے، اس لیے انہیں بند کر دیا جائے۔
کباب کا کاروبار فروغ پذیر
فرانسیسی سیاست میں کباب کی مخالفت کے علی الرغم ملک کے طول و عرض میں اس کا کاروبار مزید تیزی کے ساتھ پھیل رہا ہے۔ ایسے لگ رہا ہے کہ فرانسیسی سیاست دانوں کی جانب سے کباب کی مخالفت کی مہم کاروبار کے مزید فروغ کا ذریعہ بن رہی ہے۔
فرانس میں مارکیٹ ریسرچ کمپنی Gira Conseil کی جانب سے جاری ایک رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ ملک بھر میں سالانہ ۳۰۰ ملین کباب کے کھانے تیار کیے جاتے ہیں۔ ملک میں اس وقت کباب سازی کی ایک چین ہے جس میں کم سے کم دس ہزار کباب سینٹر کام کر رہے ہیں۔
کباب فرانسیسی عوام میں بھی پیزا اور برگر کے بعد تیسری مقبول ترین خوراک بن چکی ہے۔
قابلِ ذکر بات یہ ہے کہ فرانس میں سب سے پہلے کباب ۱۹۸۰ء میں ترک تارکین وطن نے متعارف کرایا اور دیکھتے ہی دیکھتے اس کی مقبولیت میں نہایت تیزی کے ساتھ اضافہ ہوتا چلا گیا۔ بعدازاں مراکشی کباب نے بھی شہرت حاصل کی۔
ترکی کے روایتی کھانوں کے ماہر پیرڈ رافارڈ کا کہنا ہے کہ غیرملکی ہونے کے باوجود کباب فرانسیسی شہریوں میں اپنی کم قیمت اور کھانے میں سہولت کی وجہ سے تیزی سے مقبول ہو رہا ہے۔
(بشکریہ: ’’العربیہ ڈاٹ نیٹ‘‘ ۲۵ دسمبر ۲۰۱۴ء)
Kabab and other eastern and islamic food is realy great in taste tken the western food.