ماحولیات
ماحولیاتی آلودگی ویسے تو اب ایک عالمگیر مسئلہ بن چکا ہے جس سے دنیا کے دیگر ملکوں کی طرح ہمارا ملک بھی متاثر ہو رہا ہے۔ ملک کا سب سے بڑا شہر اور صنعتی و تجارتی مرکز ہونے کے باعث کراچی کا ماحولیاتی آلودگی سے متاثر ہونا ایک یقینی امر ہے جس کا ایک بڑا سبب یہ ہے کہ اس شہر کو صحت و صفائی کا قابلِ اعتماد نظام اب تک میسر نہیں آسکا ہے۔ گاڑیوں کا دھواں‘ ٹریفک کا شور‘ نکاسیٔ آب کے نظام کی خرابی کے باعث اکثر علاقوں میں گٹروں کا آئے دن ابلنا اور گلیوں اور سڑکوں میں جمع شدہ پانی نہ صرف پورے پورے علاقوں کے ماحول کو تعفن زدہ بنائے رکھتا ہے بلکہ اس سے مکھیوں اور مچھروں کی افزائش میں بھی بے تحاشا اضافہ ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ صنعتوں کے فضلے کو ٹھکانے لگانے میں بھی ضروری احتیاط کا فقدان ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ماحولیاتی آلودگی میں اضافے کی تمام بڑی اور بنیادی وجوہات پر قابو پانے کے لیے بلاتاخیر موثر اقدامات روبہ عمل لائے جائیں۔
سمندری آلودگی
سمندری آلودگی کا ایک واقعہ جولائی کے وسط میں کراچی کے ساحل پر پیش آیا جس میں ایک بھوسے اور تیل سے بھری لانچ سمندر میں الٹ گئی جس سے پورا ساحل گندگی اور تیل کی لپیٹ میں آگیا۔ تسمان اسپرٹ کے بعد سمندری آلودگی کا یہ ایک بڑا واقعہ تھا‘ جس کے بعد ساحل کو کئی دن کے لیے بند کیا گیا اور عوام کی بڑی تعداد تفریح سے محروم ہو گئی۔
تسمان اسپرٹ کے عملہ کی رہائی
جوڈیشیل مجسٹریٹ غربی ممتاز علی سولنگی نے کراچی کے ساحل پر پھنسے یونانی آئل ٹینکر تسمان اسپرٹ کے عملے کے ۷ ارکان کو عدالت میں حاضری سے مستثنیٰ قرار دیتے ہوئے انہیں یونان جانے کی اجازت دے دی‘ جس کے بعد ان کے پاسپورٹ‘ سی ٹی سی اور دیگر دستاویزات واپس کر دی گئیں۔ اسلام آباد سے آنے والے یونان کے سفارت کار الیگزینڈر نے عدالت کو یقین دہانی کرائی کہ جب ضرورت پڑی ملزمان کو پیش کر دیا جائے گا۔ ملزمان کے وکلا نے ۱۵ اپریل کو درخواست دی تھی کہ ملزمان ۹ ماہ سے یہاں زیرِ حراست ہیں جبکہ ان کے اہلِ خانہ یونان میں پریشان ہیں۔ وفاقی وزیرِ مواصلات سینیٹر بابر خان غوری نے بتایا کہ حکومتِ پاکستان نے تسمان اسپرٹ تیل بردار جہاز کے ۸ رکنی عملے کو انسانی ہمدردی کی بنیاد پر رہا کیا ہے۔
پانی کی کمی کے اثرات
دریائے سندھ کے پانی میں کمی اور سمندر کے آگے بڑھنے کے نتیجے میں زیریں سندھ کے ساحلی اضلاع ٹھٹھہ اور بدین کی ۴۰ فیصد سے زائد اراضی سمندر برد ہو چکی ہے‘ ان اضلاع کی مجموعی طور پر ۳۷ لاکھ ۶۹ ہزار ۷۸ ایکڑ اراضی میں سے تقریباً ۱۸ لاکھ ایکڑ سے زائد زمین پر سمندر کا پانی آچکا ہے جبکہ دریائی پانی کی کمی کی وجہ سے ۲ لاکھ ۶۳ ہزار ہکٹیئر کے رقبے پر مشتمل تیمر کے جنگلات سکڑ کر ۸۰ ہزار ہکٹیئر رہ گئے ہیں۔ مذکورہ اضلاع میں پانی کی کمی سے زراعت‘ لائیو اسٹاک اور ماہی گیری کی صنعت ۸۰ فیصد ختم ہو کر رہ گئی ہے جس کی وجہ سے ۵۰ ہزار سے زائد افراد نقل مکانی پر مجبور ہو گئے۔
ماحولیاتی ٹریبونل کا نہ ہونا
ماحولیاتی ٹریبونل نہ ہونے کے سبب مختلف ادارے‘ کارخانے اور ٹرانسپورٹرز ماحولیات ایکٹ کی مختلف دفعات کی خلاف ورزیاں کر رہے ہیں جس کے سبب کراچی میں بری‘ بحری‘ فضائی آلودگی میں خطرناک حد تک اضافہ ہو گیا ہے جس کے باعث ہیپاٹائٹس بی اور سی‘ ناک‘ کان‘ گلا‘ آنکھ کی سوزش اور دیگر امراض میں بھی اضافہ ہو گیا ہے۔ طبی اور ماحولیاتی ماہرین کے مطابق اگر اس صورتحال کا تدارک نہ کیا گیا تو آئندہ تین سے پانچ سال کے دوران کراچی دنیا کا سب سے زیادہ آلودہ شہر بن جائے گا۔ ادارہ تحفظ ماحولیات کے ذرائع کے مطابق کراچی کے ۱۷۰ چمڑے کے کارخانوں کا آلودہ پانی اور بھینس کالونی سے سیکڑوں ٹن گوبر سمندر میں ڈال دیا جاتا ہے جس کی وجہ سے آبی حیات کو شدید خطرات لاحق ہو گئے ہیں‘ اس کے علاوہ خوردنی تیل اور گھی کے کارخانوں کے آلودہ پانی میں گریز کے ذرات کی مقدار 20ppm تک پائی گئی ہے جبکہ نیشنل انوائرنمنٹ کوالٹی اسٹینڈرڈز کے تحت ان ذرات کی مقدار 10ppm سے زیادہ نہیں ہونی چاہیے۔ ذرائع کے مطابق شہر میں آلودگی کا سبب روزانہ ۵ ہزار ۵۰۰ ٹن جمع ہونے والا کچرا بھی ہے جس میں سے صرف ساڑھے تین ہزار ٹن کچرا اٹھایا جاتا ہے جبکہ ۵۰۰ ٹن کچرا جلا دیا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ شہر کے ۴۲ ہزار رکشائوں کا شور ۱۲۰ ڈی بی نوٹ کیا گیا ہے جبکہ انسانی کان ۸۰ تا ۸۵ ڈی بی شور برداشت کر سکتے ہیں۔ دریں اثنا ماحولیاتی مقدمات اور مسائل کو نمٹانے کے لیے ٹریبونل کو فعال نہیں کیا جاسکا اور منصوبہ سرد خانے کی نذر ہو گیا ہے۔ ٹریبونل کی اسامیوں کو پر کرنے کے لیے وفاقی وزارت ماحولیات نے گذشتہ برس وفاقی وزارت قانون کو ایک لیٹر بھی ارسال کیا تھا جس پر تاحال کوئی کارروائی نہیں کی گئی ہے۔
منشیات
پاکستان میں منشیات کے استعمال میں گذشتہ دو تین دہائی میں بے تحاشا اضافہ ہوا ہے۔ ایک اندازے کے مطابق پاکستان میں ۸۰ لاکھ افراد مختلف نوعیت کے نشے میں مبتلا ہیں۔ ملک کی اتنی بڑی آبادی کے نشہ کرنے کی وجہ سے نہ صرف معاشرتی برائیوں میں اضافہ ہوا بلکہ صحت کے حوالے سے بھی صورتحال خطرناک ہو گئی ہے۔ ملک میں نشے کے عادی افراد میں سالانہ ۷ فیصد کا اضافہ ہو رہا ہے۔ نشے کے ان عادی افراد میں ۷۲ فیصد افراد کی تعداد ۳۵ برس سے بھی کم ہے۔
انسداد منشیات
ایک سروے کے مطابق منشیات کے عادی میں مردوں کی تعداد ۹۲ اور خواتین کی ۸ فیصد ہے۔ سروے رپورٹ کے اعداد و شمار کے مطابق شادی شدہ افراد کا ۶۱ فیصد‘ غیرشادی شدہ کی ۲۹ فیصد اور طلاق یافتہ کی ۵ فیصد منشیات کی عادی ہے۔ رپورٹ کے مطابق غربت‘ گھریلو و سماجی مسائل اور بے روزگاری جیسے مسائل کی وجہ سے ابتدا میں لوگ نفسیاتی امراض میں مبتلا ہوتے ہیں۔ سکون اور مسکن ادویات کا استعمال انہیں رفتہ رفتہ نشے کی جانب راغب کر دیتا ہے۔ منشیات کے عادی افراد کی ۴۱ فیصد تعداد ۲۱ سے ۳۰ سال کے درمیان ہے‘ ان میں سے ۲۳ فیصد افراد ہیروئن کا نشہ کرتے ہیں جن میں مردوں کی تعداد ۴ء۵۲ اور خواتین کی تعداد ۶ء۷ فیصد ہے۔ ہیروئن کی عادی تعداد میں اکثریت نشہ ترک کرنا چاہتی ہے لیکن بہت کم لوگ اس میں کامیاب ہو پاتے ہیں۔ ایک رپورٹ کے مطابق جن لوگوں نے علاج کروایا ان کی ۳۵ فیصد تعداد نے دوبارہ نشہ شروع کر دیا ہے۔
پاکستان میں منشیات کے اسمگلروں اور منشیات کی اسمگلنگ میں اضافہ ہو رہا ہے۔ چند روز قبل لاہور ایئرپورٹ پر تین کروڑ روپے کی ہیروئن اسمگل کرنے کی کوشش ناکام بنانے کے بعد ایک کلیئرنگ ایجنٹ اور ایک کوریئر سروس کے منیجر کو گرفتار کر لیا گیا۔ اسی طرح اسلام آباد کے ہوائی اڈے پر ڈائریکٹر کسٹمز نے چھاپہ مار کر ایک کروڑ روپے کی ہیروئن اسمگل کرنے کی کوشش ناکام بنا دی۔ ان واقعات میں زیادہ تر افریقی ممالک کے باشندے ملوث ہیں۔ بعض ایجنٹ اور کوریئر کمپنیاں بھی اس دھندے میں شریک ہیں۔ افغانستان میں پوست کے زیرِ کاشت رقبے اور منشیات کی پیداوار میں غیرمعمولی اضافہ بھی پاکستان کے لیے مشکلات پیدا کر رہا ہے۔ کیونکہ افغان اسمگلر اسمگلنگ کے لیے پاکستان کا راستہ اختیار کرتے ہیں جسے روکنے کے لیے چیک پوسٹوں پر انتظامات کو موثر بنانے کی طرف توجہ دینا ضروری ہے۔ واضح ہو کہ طالبان کے دور میں پوست کی پیداوار اور نتیجتاً ہیروئن کی اسمگلنگ بہت کم ہو گئی تھی لیکن افغانستان پر امریکی قبضہ کے بعد صورتحال بہت خراب ہو گئی ہے۔
کراچی سے ملحقہ بلوچستان کے سب سے بڑے صنعتی شہر حب میں کراچی سے صرف ہیروئن پینے اور ہیروئن کی پُڑیا خریدنے کے لیے آنے والوں کی تعداد روزانہ سولہ سو سے بھی تجاوز کر گئی ہے۔ ہیروئن پینے کے عادی افراد میں بارہ سال سے ۷۰ سال کی عمر کے لوگ بھی شامل ہیں جن میں پانچ فیصد معذور افراد اور پانچ ہی فیصد خواتین بھی شامل ہیں۔ ان دنوں حب اور کراچی کے درمیان ڈیڑھ سو کے لگ بھگ مسافر کوسٹرز چلتی ہیں جو کہ کراچی سے حب کی مسافت صرف آدھے گھنٹے میں طے کر لیتی ہیں۔
مہنگائی
ملک میں سالِ رواں کے دوران مہنگائی میں ہوشربا اضافہ نے مزدور طبقے اور غریبوں کی کمر توڑ کر رکھ دی ہے۔ حکومت نے اس مہنگائی کے فروغ میں بنیادی کردار ادا کیا۔ ایک رپورٹ کے مطابق دورانِ سال مہنگائی میں ۱۷۰ فیصد اضافہ ہوا‘ جس میں سب سے زیادہ اضافہ پیٹرول کی قیمتوں میں ہوا۔ پیٹرول کی قیمت میں ۸ مرتبہ اضافہ ہوا‘ بجلی کی قیمتوں میں ۱۴۰ فیصد اضافہ ہوا‘ گیس کی قیمتوں میں ۱۷۰ فیصد اضافہ ہوا‘ پانی کی قیمت میں ۱۲۰ فیصد اضافہ‘ جان بچانے والی ادویات میں ۶۸ فیصد اضافہ ہوا۔ دوسری طرف اشیاے خورد و نوش کی قیمتوں میں بھی بے تحاشا اضافہ ہوا‘ جس سے کم آمدنی والے افراد متاثر ہوئے جبکہ ۳۸ ہزار افراد بے روزگاری کا شکار ہوئے۔ ایک دوسری رپورٹ کے مطابق اس وقت ملک میں ۹۱ لاکھ نوجوان غربت سے نچلی سطح پر زندگی گزار رہے ہیں۔
وفاقی و صوبائی حکومتوں کی جانب سے پیش کیے جانے والے بجٹ کے بعد گراں فروشوں اور ذخیرہ اندوزوں کی من مانیاں عروج پر پہنچ جاتی ہیں جبکہ ضلعی حکومت و انتظامیہ یعنی منتخب ہونے والے ’’نمائندوں‘‘ کی جانب سے مہنگائی کو کنٹرول کرنے کے لیے کوئی انتظامات نہیں کیے گئے ہیں۔ لوگ بدانتظامی کے باعث ماضی کے سسٹم کو یاد کرنے لگے ہیں۔ شہریوں نے گوشت‘ سبزی‘ فروٹ اور دیگر اشیاے خورد و نوش کی قیمتوں میں ۳۰ سے ۵۰ فیصد اضافے پر سخت احتجاج کیا۔ لیکن قیمتوں میں مزید اضافہ ہوتا گیا ہے‘ جس کے سبب مذکورہ اشیا غریبوں کی قوتِ خرید سے باہر ہو چکی ہیں۔ صوبائی و ضلعی حکومتوں اور منتخب نمائندوں کی جانب سے کوئی مثبت اقدامات نہیں کیے گئے۔ کراچی اور حیدرآباد کی انتظامیہ منافع خوروں اور ذخیرہ اندوزوں کے سامنے مکمل طور پر بے بس ہو چکی ہیں۔ گوشت‘ مارکیٹوں میں بکرے کا گوشت ۱۸۰ سے ۲۰۰ روپے تک فی کلو‘ مرغی ۱۱۰ سے ۱۲۰ روپے فی کلو‘ بڑے کا گوشت ۱۱۰ روپے سے ۱۲۰ روپے فی کلو‘ مچھلی ۱۴۰ سے ۱۸۰ روپے فی کلو رہا۔ سبزی کے ریٹ بھی اونچے رہے۔ بھنڈی ۳۰ سے ۳۵ روپے فی کلو‘ گوبھی ۳۰ روپے فی کلو‘ بند گوبھی ۲۵ سے ۳۰ روپے فی کلو‘ مٹر ۶۰ سے ۶۵ روپے فی کلو‘ لیموں ۴۰ سے ۵۰ روپے فی کلو‘ گوار ۲۴ روپے فی کلو‘ لہسن ۴۰ سے ۴۵ روپے فی کلو‘ ہری مرچ ۳۲ سے ۴۰ روپے فی کلو‘ ٹماٹر ۲۰ سے ۳۰ روپے کلو‘ آلو ۱۵ سے ۲۰ روپے فی کلو‘ پیاز ۱۰ سے ۱۵ روپے فی کلو‘ اسی طرح مسالا جات‘ دالیں‘ بیسن اور دیگر اشیاے خورد و نوش کی قیمتیں بھی آسمان سے باتیں کر رہی ہیں‘ جس کے سبب متوسط اور غریب طبقے کے لوگوں کو خریداری میں شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ جبکہ قیمتوں کو کنٹرول میں رکھنے کے لیے قائم پرائس کنٹرول کمیٹیاں اپنی افادیت کھو چکی ہیں اور کوئی ایسا ادارہ موجود نہیں جو شہریوں کو ریلیف دے سکے۔
(بحوالہ: ’’حقوقِ انسانی‘‘۔ رپورٹ ۲۰۰۴ء۔ ہیومن رائٹس نیٹ ورک سندھ چیپٹر)
Leave a Reply