افغانستان کے صدر حامد کرزئی نے اپنی پوزیشن مستحکم کرنے کے لیے طالبان کو منانے کی جو کوششیں کی ہیں وہ تاحال مکمل کامیاب نہیں ہوئیں۔ سچ تو یہ ہے کہ کرزئی کو نئے دوست تو نہ مل سکے مگر ہاں وہ پرانے دوستوں کو ضرور ناراض کر بیٹھے ہیں۔ نسلی اقلیتیں ان سے اس لیے ناراض ہیں کہ طالبان کو منانے کے چکر میں وہ دوسروں کو یکسر نظر انداز کر رہے ہیں۔ ہزارہ، ازبک اور تاجک نسل کے لوگ طالبان کا اقتدار ختم ہونے کے بعد سے حکومت کا حصہ ہیں۔ سچ تو یہ ہے کہ انہیں پہلی بات حکومت میں بھرپور حصہ ملا ہے جس کا انہوں نے خوب فائدہ بھی اٹھایا۔
کرزئی کو صرف اپنا اقتدار بچانے سے غرض ہے۔ انہیں یقین ہے کہ اتحادی افواج طالبان کو بھرپور شکست دینے میں ناکام رہیں گی۔ انہیں امریکی افواج کی صلاحیتوں پر بھروسہ نہیں۔ طالبان کی پوزیشن دن بہ دن مضبوط ہوتی جارہی ہے۔ خود امریکی بھی اب طالبان سے مذاکرات کے حق میں ہیں۔ امریکیوں کو افغانستان سے محفوظ انخلا کی ضمانت چاہیے۔
امریکا اور برطانیہ نے افغانستان میں اپنی افواج کی تعداد میں اضافہ کرکے بھی دیکھ لیا، طالبان پر قابو پانا ان کے بس کی بات نہیں۔ کرزئی کے مشیر محمد معصوم استانک زئی کا کہنا ہے کہ افغانستان کا بحران صرف طاقت کے استعمال سے ختم نہیں کیا جاسکتا۔
افغانستان میں ہزارہ نسل کے شیعوں کی تعداد ۲۵ لاکھ ہے۔ ان کے ایک نمائندے محمد محقق کا کہنا ہے کہ طالبان دوبارہ اقتدار میں آسکتے ہیں اور ایسا ہوا تو خانہ جنگی چھڑ سکتی ہے۔ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ حامد کرزئی طالبانائزیشن کے لیے بے تاب ہیں، ان میں اور طالبان میں صرف محل اور پہاڑ کا فرق ہے۔
حامد کرزئی نے طالبان سے بات چیت کا عمل آگے بڑھانے کے لیے ہائی پیس کونسل بھی قائم کردی ہے جس کی سفارش کابل میں تین ماہ قبل منعقد کیے جانے والے گرینڈ جرگے میں کی گئی تھی۔ حکومت کی ایماء پر علماء کے ایک اجلاس میں شریعت کے ناکافی نفاذ کا جائزہ لے کر طالبان کے مطالبات کا جائزہ لیا گیا۔
حامد کرزئی کی جانب سے مذاکرات کی کوششوں کا طالبان نے اب تک بھرپور اثبات کے ساتھ جواب نہیں دیا۔ انہوں نے غیر ملکی اور بالخصوص امریکی افواج کے خلاف لڑائی تیز کردی ہے۔ امریکی فوجیوں کی ہلاکت کا دائرہ وسیع ہو رہا ہے۔ طالبان کا کہنا ہے کہ جب تک غیر ملکی افواج افغان سرزمین پر ہیں، حکومت سے بات چیت نہیں ہوسکتی۔ امریکیوں کو بھی اندازہ ہے کہ صدر اوباما نے جولائی ۲۰۱۱ء سے افواج کا انخلا شروع کرنے کی جو ڈیڈ لائن مقرر کی ہے اس کے قریب آنے کے ساتھ ساتھ ہلاکتوں میں بھی اضافہ ہوتا جائے گا۔ افغانستان میں امریکی افواج کے چیف کمانڈر جنرل ڈیوڈ پیٹریاس بھی کہتے رہے ہیں کہ طالبان کی سرگرمیوں میں شدت آتی جارہی ہے اور اس کے لیے کچھ نہ کچھ کرنا پڑے گا۔
کرزئی کا بنیادی مسئلہ یہ ہے کہ ان پر کرپشن کے حوالے سے بھی تنقید بڑھتی جارہی ہے اور دوسری جانب انہیں اس الزام کا بھی سامنا ہے کہ صدارتی انتخابات میں دھاندلی ہوئی تھی۔ کرزئی پر دباؤ اس قدر ہے کہ دو تین مواقع پر وہ یہ کہہ چکے ہیں کہ دباؤ ڈالنے کا سلسلہ اسی طرح جاری رہا تو وہ خود طالبان کی صف میں شامل ہو جائیں گے۔ انہوں نے طالبان سے مذاکرات کی مخالف کرنے والے سابق انٹیلی چیف امراللہ صالح کو (جو تاجک نسل سے تعلق رکھتے تھے) برطرف کرکے تاجکوں کو مزید ناراض کردیا ہے۔ اس طرح انہوں نے سابق وزیر داخلہ کو بھی برطرف کردیا۔ وہ بھی طالبان سے مذاکرات کے حق میں نہ تھے۔ امراللہ صالح کا کہنا ہے کہ کرزئی کو نیٹو کی صلاحیتوں پر یقین نہیں اور وہ یہ سمجھتے ہیں کہ طالبان کو شکست نہیں دی جاسکے گی اس لیے ان کی طرف جھکنے ہی میں عافیت ہے۔
تاجک نسل کی اکثریت والی وادی پنچ شیر کی صوبائی کونسل کے سربراہ خواجہ میر کا کہنا ہے کہ غیر ملکی افواج کے نکلتے ہی خانہ جنگی چھڑ سکتی ہے۔ وادی پنج شیر میں طالبان کو ہمیشہ مزاحمت کا سامنا رہا ہے۔ خواجہ میر کا کہنا ہے کہ کرزئی محض اپنی سیٹ بچانے کے لیے آگ سے کھیل رہے ہیں۔
ازبک ملیشیا جنبش ملی کے ایک لیڈر مولوی خبیر کا کہنا ہے کہ حامد کرزئی کا واضح لسانی ایجنڈا ہے۔ وہ پشتونوں کو یقین دلا رہے ہیں کہ وہ ان کے ساتھ ہیں۔ مغربی افغانستان میں بارڈر پولیس کے چیف برگیڈیئر جنرل میلہم خان کا کہنا ہے کہ منشیات کی اسمگلنگ کو فروغ دیا جارہا ہے۔ کرزئی پر منشیات کے اسمگلرز کی حوصلہ افزائی کا بھی الزام عائد کیا جارہا ہے۔ کرزئی اس خوف میں بھی مبتلا ہیں کہ بیرونی افواج اچانک ملک چھوڑ کر نہ چلی جائیں۔ اگر انخلا غیر متوقع ہوا تو افغانستان کے حالات یکسر غیر یقینی ہو جائیں گے اور تب کرزئی کی پوزیشن خاصی کمزور ہو جائے گی۔ وہ اپنی کرسی بچانے کے لیے سبھی کو راضی رکھنا چاہتے ہیں۔
ہزارہ حزبِ وحدت پارٹی کے سربراہ محمد ناطقی کہتے ہیں کہ طالبان صرف جنوبی اور جنوب مشرقی افغانستان تک محدود نہیں رہنا چاہتے۔ وہ پورے ملک پر تصرف چاہتے ہیں۔ اب ان کے لیے کابل پر کنٹرول سب سے بڑا مسئلہ ہے۔ کابل پر کنٹرول کی لڑائی سے ایک بار پھر خانہ جنگی چھڑ سکتی ہے۔ دوسری جانب شمالی اور وسطی افغانستان کے لوگ طالبان کا کنٹرول قبول کرنے کے لیے تیار نہیں۔
اکتوبر ۲۰۰۱ء میں امریکا اور اس کے اتحادیوں نے طالبان کی حکومت ختم کرکے افغانستان پر قبضہ کرلیا۔ طالبان کی حکومت کا تختہ الٹنے کے بعد جو سیٹ اپ لایا گیا اس میں پشتونوں کو نظر انداز کرکے اہم عہدوں پر شمالی اتحاد سے تعلق رکھنے والوں کو فائز کیا گیا۔ شمالی افغانستان کو اس دور میں خوب پنپنے کا موقع ملا۔ پشتون آبادیوں کو نظر انداز کرکے غیر پشتون آبادیوں میں ترقیاتی کام کیے گئے۔ جن علاقوں میں طالبان کی پوزیشن مستحکم تھی اور اتحادیوں کو شدید مزاحمت کا سامنا تھا وہاں ترقیاتی کام نہ کیے جاسکے۔
شمالی اور وسطی افغانستان کی نمایاں ترقی نے طالبان کو مشتعل کردیا۔ پشتونوں میں بھی یہ احساس پیدا ہوا کہ انہیں بری طرح نظر انداز کیا جارہا ہے۔ ان کی ناراضی کا طالبان کو بھرپور فائدہ پہنچا۔ بھارت اور دیگر ممالک نے شمالی افغانستان کو ترقی دینے کی بھرپور کوشش کی ہے۔ گویا یہ ملک کو مزید تقسیم کرنے کی سازش ہے۔
سابق سینئر مجاہد کمانڈر صالح ریگستانی کہتے ہیں کہ طالبان کی پوزیشن اس قدر مستحکم ہے کہ اگر انہیں کنٹرول کرنے کی کوشش نہ کی گئی تو وہ پورے ملک پر متصرف ہو جائیں گے۔ اس وقت شمالی اتحاد منتشر ہے۔ اس کے پاس ہتھیار ہیں نہ قیادت۔ اور جو لوگ قیادت کسی نہ کسی طرح سنبھالے ہوئے ہیں ان کا کوئی وژن بھی نہیں۔ صالح ریگستانی کا کہنا ہے کہ ان حالات میں بھی اگر کوئی افغانستان کے بارے میں پرامید ہے تو یا تو وہ نابینا ہے یا پھر افغانستان میں نہیں رہتا۔
(بشکریہ: ’’وال اسٹریٹ جرنل‘‘۔ ۱۰؍ ستمبر ۲۰۱۰ء)
Leave a Reply