
ایک ایسے وقت میں کہ جب ایک طرف افغانستان میں لڑائی مزید خوں ریز ہوتی جارہی ہے اور دوسری طرف پاکستان میں سیلاب کی تباہ کاری سے نمٹنے کا سلسلہ جاری ہے، مقبوضہ جموں و کشمیر میں بھی صورت حال تیزی سے بگڑ رہی ہے۔ پاکستان اور افغانستان سے معاملات درست رکھنے کے لیے صدر باراک اوباما کو کشمیر کے حوالے سے متوازن پالیسی کی ضرورت تھی اور اب یہ ضرورت شدت اختیار کرتی جارہی ہے۔
آزاد اور خود مختار کشمیر کے معرض وجود میں لائے جانے کا کوئی امکان نہیں۔ پاکستان چاہتا ہے کہ کشمیر کا اس سے الحاق ہو اور بھارت ۱۹۴۸ء کی جنگ میں جیتے ہوئے جموں و کشمیر کو کسی بھی حال میں پاکستان کے حوالے کرنے کے لیے تیار نہیں۔
مقبوضہ کشمیر میں طویل مدت سے خاموشی تھی۔ اس سال موسم گرما میں کشمیریوں کو ایک بار پھر احتجاج کی راہ پر گامزن ہونا پڑا ہے۔ بھارتی فوج کے ہاتھوں کشمیری نوجوانوں کی ہلاکت کا دائرہ وسیع ہوتا جارہا ہے۔ مقبوضہ وادی میں تعینات سات لاکھ سے زائد فوجیوں اور نیم فوجی دستوں کے اہلکاروں نے نہتے کشمیریوں پر گولیاں برسانے کا سلسلہ جاری رکھا ہے۔ پتھراؤ کرنے والے کشمیری نوجوانوں کو موت کے منہ میں دھکیلا جارہا ہے۔ رائے عامہ کے جائزوں سے اندازہ ہوتا ہے کہ کشمیریوں کی اکثریت اب خود مختاری چاہتی ہے۔
کشمیر کے مسئلے کا ایک ممکن حل یہ ہے کہ سیز فائر لائن یا کنٹرول لائن کو مستقل سرحد تسلیم کرلیا جائے تاکہ کشمیری آسانی ایک دوسرے کے علاقوں میں آ، جاسکیں۔ کنٹرول لائن کے دونوں جانب دونوں ممالک کی کرنسی کو قابل قبول بنایا جائے تاکہ لوگوں کو لین دین میں آسانی ہو۔ سیاحت، تجارت، ماحولیات اور دیگر اہم معاملات کو مل جل کر بھی نمٹایا جاسکتا ہے۔ اس سلسلے میں پاکستان اور بھارت مشترکہ ادارے بھی قائم کر سکتے ہیں۔ اس سلسلے میں شمالی آئر لینڈ کی مثال موجود ہے۔ برطانیہ اور آئر لینڈ نے مل کر یہ مسئلہ جس طرح حل کیا ہے اسی طرح پاکستان اور بھارت بھی کشمیر کا مسئلہ مل کر حل کرسکتے ہیں۔
پاکستان کے سابق صدر پرویز مشرف اور بھارتی وزیراعظم من موہن سنگھ نے کشمیر کے مسئلے کے حل پر چار سال قبل اتفاق کرلیا تھا۔ پرویز مشرف نے مجھے بتایا کہ پاکستان اور بھارت نے کوئی معاہدہ تو نہیں کیا تاہم معاملات طے ہوچکے تھے۔ ایسے میں پاکستان کی اندرونی سیاست نے معاملات الجھادیے۔
مقبوضہ کشمیر میں جو کچھ ہو رہا ہے اس پر قابو پانے کے لیے پاکستان اور بھارت کو کشمیر کے مسئلے کا کوئی قابل قبول حل تلاش کرنا ناگزیر ہے۔ اس سلسلے میں دونوں ممالک کو مصلحتوں سے بالا تر ہوکر کام کرنا ہوگا۔ صدر آصف علی زرداری بھی پرویز مشرف ہی کی طرز پر مسئلہ کشمیر کا کوئی حل تلاش کرنا چاہیں گے مگر مشکل یہ ہے کہ ان کی پوزیشن خاصی کمزور ہے۔ وہ فی الحال اس حوالے سے اپنی بات منوانے کی پوزیشن میں نہیں۔ انہیں فوج کی حمایت درکار ہوگی۔ اب تک واضح نہیں کہ پرویز مشرف جس نوعیت کا حل چاہتے تھے اسے آرمی چیف جنرل اشفاق پرویز کیانی کی حمایت مل سکے گی یا نہیں۔ کشمیر کا مسئلہ حل کرنے کے لیے بے باک قیادت ناگزیر ہے۔
بھارتی وزیر اعظم من موہن سنگھ یقیناً اب یہ سوچ کر ملول ہوتے ہوں گے کہ پرویز مشرف کے ساتھ کشمیر کے مسئلے پر کوئی معاہدہ ہو جاتا تو اچھا تھا۔ بھارت علاقائی پاور بننے کے موڈ میں ہے مگر ساتھ ہی ساتھ وہ اپنے لوگوں کی خوش حالی کو بھی یقینی بنانا چاہے گا۔ جموں و کشمیر اور شمال مشرقی ریاستوں میں امن قائم کیے بغیر بھارت علاقائی طاقت بننے کے خواب کو احسن طریقے سے شرمندہ تعبیر نہیں کرسکتا۔ کمزور پاکستان بھارت کے لیے خطرناک ثابت ہوتا رہے گا۔ بھارت اس بات کو یقینی بنائے کہ پاکستان میں بھی حالات بہتر ہوں اور امن قائم ہو۔
پاکستان اور بھارت کے درمیان سرد جنگ کو گرم جنگ میں تبدیل ہونے سے روکنا اور کسی جوہری تصادم کی راہ مکمل طور پر مسدود کرنا امریکا کے لیے اہم ہے۔ اس مقصد کے حصول میں کامیابی سے وہ سپر پاور کی حیثیت سے اپنی توقیر میں مزید اضافہ کرسکے گا۔ مشکل یہ ہے کہ بھارت اپنے معاملات میں امریکی مداخلت پسند نہیں کرتا۔ صدر باراک اوباما نے جب کشمیر پر خصوصی نمائندے کا تقرر کرنا چاہا تو بھارت نے شدید ردعمل ظاہر کیا جس پر امریکا کو اپنی تجویز واپس لینی پڑی۔ اب اوباما کے لیے سب سے بڑا چیلینج یہ ہے کہ وہ پرویز مشرف اور من موہن سنگھ کے درمیان طے پانے والی ڈیل کے لیے خاموش کام کریں۔ اس سلسلے میں انہیں اسلام آباد اور نئی دہلی میں بہت خاموشی سے سفارت کاری انجام دینی پڑے گی۔ نومبر میں اوباما بھارت کا دورہ کرنے والے ہیں۔ اس دورے کو کامیابی سے ہمکنار کرنے کے لیے وہ کشمیر کے مسئلے کو اجاگر کرنے کی کوشش بھی کرسکتے ہیں۔ مقبوضہ کشمیر میں جاری انتفاضہ نے اس اشو کو ایک بار پھر پوری دنیا میں نمایاں کردیا ہے۔ اگر کوئی ڈیل ہوتی ہے تو وہ پاکستان، بھارت یا امریکا سے زیادہ خود امریکیوں کے لیے بہت سودمند ثابت ہوگی جو طویل مدت سے مصائب کا سامنا کر رہے ہیں۔
(بروس ریڈل سی آئی اے کے سابق اعلیٰ افسر اور بروکنگ انسٹی ٹیوٹ کے سبان سینٹر کے فیلو ہیں۔)
(بشکریہ: ’’دی ڈیلی بیسٹ ‘‘)
Leave a Reply