
بھارت کے زیرانتظام کشمیر میں فی الوقت مسلح شورش زوال پذیر ہے اور حکومت خود یہ تسلیم کررہی ہے کہ شدت پسندوں کی کارروائیوں میں حد درجہ گراوٹ آئی ہے۔ لیکن بعض مبصرین کو خدشہ ہے کہ خطے میں ایک بار پھر مسلح شورش برپا ہوسکتی ہے جبکہ بعض دیگر اس امکان کو مسترد کرتے ہیں۔
جنوب ایشیائی امور کے ماہر اور ایشیائی سلامتی پر کئی کتابوں کے مصنف سیّد تصدق حسین ایڈووکیٹ کا خیال ہے کہ ایشیا کے وسط، جنوب اور مغرب میں جس طرح ملکوں کے مابین نئے اتحاد فروغ پارہے ہیں ایسا لگتا ہے کہ ’’نئی سرد جنگ‘‘ شروع ہوگئی ہے۔
سیّد تصدق حسین کے مطابق اس سرد جنگ میں اپنے مفادات کی حفاظت کے لیے امریکہ کو مسئلہ کشمیر التوا میں رکھنا پڑے گا، تاکہ وہ اس خطے میں مداخلت کی راہ ہموار کرپائے۔
اس خیال کی وضاحت کرتے ہوئے تصدق حسین کہتے ہیں ’’ایران میں امریکی توقعات اور کوششوں کے برعکس احمدی نژاد نے اقتدار پر دوبارہ قبضہ کرلیا ہے اور اس کی فتح پر امریکہ کے حلیف ممالک افغانستان اور پاکستان نے بغلیں بجا کر احمدی نژاد کو مبارک باد دی ہے۔ سب سے بڑی بات یہ ہے کہ روس اور چین نے برملا طور پر ایران نواز پالیسی اپنا لی ہے۔ یہ تو صاف صاف نئی سرد جنگ ہے۔ خطے میں نئی صف بندی ہو رہی ہے۔ ایسے میں بڑی اور متحارب طاقتیں کیسے چاہیں گی کہ مسلہ کشمیر حل ہو۔ہمیں ایک اور مسلح شورش کے لیے ذہنی طور پر تیار رہنا چاہیے‘‘۔
سیّد تصدق حسین مزید کہتے ہیں کہ آئندہ برسوں کے دوران پاکستان اور ہندوستان میں انتہاپسندانہ قوم پرستی کی تحریک شدت اختیار کرے گی۔ ’’بھارت میں تو ہندو انتہا پسندی عروج پر ہے اور بیت اللہ محسود جیسی طاقتیں اس کے عقب میں بیٹھی ہیں۔ اور پھر پانی کی قلت سے پاکستان اور ہندوستان کی قوم پرست تحریکوں کو جِلا ملے گی۔ اس طرح ہتھیاروں کی دوبارہ ریل پیل ہوگی، اور ایک بار پھر ہم فائرنگ، حملے اور قتل و غارت دیکھیں گے‘‘۔
متعدد تبصرہ نگاروں کے ساتھ ساتھ کشمیر یونیورسٹی میں شعبہ سیاسیات کے پرفیسر گْل محمد وانی بھی ایڈوکیٹ تصدق حْسین کے خیال سے متفق نہیں ہیں۔
پروفیسر وانی کا کہنا ہے کہ بھارت خطے میں ایک عظیم طاقت کے طور پر اْبھر رہا ہے اور اس حقیقت کو نظرانداز کرکے نئی مسلح شورش کا بگل بجانا درست نہیں ہوگا۔
وہ کہتے ہیں ’’کشمیر میں کل کیا ہوگا، یہ پیشن گوئی کوئی نہیں کرسکتا۔ لیکن جس انداز سے بھارت ایک پراعتماد اور طاقتور ملک کے طور خطے میں اْبھر رہا ہے وہ دیکھنا ضروری ہے۔ بھارت افغانستان کے امور میں براہ راست شریک ہے اور پاکستان میں جو کچھ بھی ہورہا ہے اس کے ساتھ بھی اس کے مفادات اور نقصانات وابستہ ہیں۔ مجھے نہیں لگتا کہ کشمیر میں دوبارہ اْسی نوعیت کی مسلح شورش ہوگی جیسی اْنیس سو نواسی میں شروع ہوئی تھی۔ بھارت کی اْٹھان ہی نہیں، خود پاکستان کے اندرونی حالات بھی اس کی اجازت نہیں دینگے۔ وہاں فوج کا غالب حصہ اس کے خلاف ہوگا۔لیکن پھر بھی میں کہوں گا کہ جو امن فی الوقت کشمیر میں ہے اسے فی الحال عبوری امن ہی کہا جائے گا‘‘۔
پروفیسر وانی اس تھیوری سے بھی متفق نہیں ہیں کہ امریکہ اس خطے میں مسلح شورش کو خفیہ طور پر ہوا دے رہا ہے۔ امریکہ تو خود طالبان کے ساتھ بات کرنے پر آمادہ ہیں۔ لیکن کچھ دیگر حلقے اس معاملہ میں الگ سوچ رکھتے ہیں۔
محکمہ تعلیم میں تاریخ کے استاد منظور احمد لون کہتے ہیں ’’بڑی طاقتوں کا جو بھی ایجنڈا ہو، کشمیریوں نے پچھلے سال سے دکھا دیا کہ وہ امن پسند ہیں اور تشدد سے نفرت کرتے ہیں۔ میں نہیں سمجھتا کہ امریکہ، روس، چین یا پاکستان کے لیے کشمیر میں مسلح شورش کو دوبارہ برپا کرنا اتنا آسان ہوگا۔ ہاں اگر ایسا واقعی ہوگا تو مجھے حیرت بھی نہیں ہوگی۔ کیونکہ لوگوں کے امن پسند رویہ کا جواب حکومت نے تشدد سے دیا ہے۔ پرامن مظاہرین پر گولیاں چلائی گئیں‘‘۔
انہوں نے مزید کہا ’’جن لیڈروں نے جلوسوں کی قیادت کی انہیں قید کیا گیا ہے۔ شبیر شاہ کے بارے میں تو خبر ہے کہ جموں کے ادھمپور جیل میں بہت علیل ہیں۔ سید علی گیلانی تو متعدد عارضوں میں مبتلا ہیں، پھر بھی انہیں ایک گیسٹ ہاوس میں نظربند رکھا ہوا ہے‘‘۔
منظور احمد لون کا کہنا ہے ’’جب لوگوں کو یہ احساس دلایا جاتا ہے کہ اپنے مطالبات کا اظہار کرنے کے لیے انہیں پرامن ذرایع استعمال کرنے کی بھی اجازت نہیں ہوگی تو ظاہر ہے وہ کوئی اور راستہ ڈھونڈیں گے۔ہم سب کو تو معلوم ہے کہ بیس سال قبل جب یہاں بندوق کی تحریک اْٹھی تو صرف دو سال قبل وہی لوگ الیکشن لڑرہے تھے جن کے ہاتھ میں بندوق تھی۔ الیکشن میں ان کی جیت کو سبوتاژ کیا گیا اور یہاں تحریک اٹھی‘‘۔ واضح رہے کہ وادی میں کافی عرصے بعد پرتشدد واقعات رونما ہو رہے ہیں۔ سنیچر کو سرینگر میں نامعلوم اسلحہ برداروں نے پولیس اہلکار کو قتل کردیا، اتوار کی شام رام باغ میں ائیرپورٹ روڑ پر نامعلوم حملہ آور نے بم پھینکا جس میں چار افراد زخمی ہو گئے۔ اس دوران کپواڑہ میں ایک تصادم آرائی کے دوران ایک فوجی اور چار شدت پسند مارے گئے۔
(بحوالہ: ’’بی بی سی اردو‘‘)
Leave a Reply