
جمی پیج کے لکھے ہوئے گیت ’’کشمیر‘‘ کو لیڈ زیپلن نے عمدگی سے گایا ہے۔ اس گیت کے الفاظ ہیں۔ ’’سورج کو میرے سر پر چمکنے دو۔ ستاروں کو میرے خوابوں میں سما جانے دو۔ میں ایک طویل مدت سے وہاں جانا چاہتا ہوں جہاں سے میں آیا ہوں، جہاں کا ہوں۔ میں اپنے اُن بزرگوں کے پاس بیٹھنا چاہتا ہوں جو انتہائی نرم خُو طبیعت کے ہیں۔ وہ بھی اُس دن کا انتظار کر رہے ہیں جب اُن کی مراد پوری ہوگی۔‘‘
۶۷ سال ہوچکے ہیں مگر کشمیر کا مسئلہ اب تک زندہ ہے۔ بین الاقوامی تعلقات میں یہ مسئلہ اب تک زندہ ہے اور حل طلب ہے۔ اگر بڑی طاقتوں کے مفادات کو ذہن نشین رکھا جائے اور بین الاقوامی تجارت کے تناظر میں سوچا جائے تو کشمیر کوئی ایسا مسئلہ نہیں جو بڑی طاقتوں کے لیے زیادہ اہم ہو۔ وہ اُن خطوں کے بارے میں زیادہ سوچتی ہیں جو اُن کے مفادات کے لیے فیصلہ کن اہمیت رکھتے ہوں۔
یہ بات بھی قابلِ غور ہے کہ کشمیر کے مسئلے کو اگر عالمی سطح پر کچھ اہمیت دی بھی جاتی ہے تو عالمگیریت کے تناظر میں، نہ کشمیریوں کے حقِ خود ارادیت کے حوالے سے۔ اس مسئلے کو جس تناظر میں دیکھا جانا چاہیے، اُس تناظر میں دیکھے جانے کی ابتدا اب تک نہیں ہوئی۔ جن لوگوں سے مرضی کے مطابق زندگی بسر کرنے کا حق چھینا گیا ہے، وہ چاہتے ہیں کہ اُن کے حقوق کا تحفظ ممکن بنایا جائے۔ مگر اب تک ایسا نہیں ہوسکا ہے۔
کشمیر کا مسئلہ اب تک زندہ ہے اور عالمی برادری کو اس کی طرف متوجہ ہونا چاہیے۔ اس مسئلے کے زندہ ہونے کا سب سے بڑا ثبوت یہ ہے کہ بھارت نے مقبوضہ جموں و کشمیر کے چھوٹے سے خطے میں سات لاکھ سے زائد فوجی تعینات کر رکھے ہیں۔ جب عراق پر امریکا کی لشکر کشی نقطۂ عروج پر تھی، تب بھی وہاں تعینات امریکی فوجیوں کی تعداد ایک لاکھ ۶۶ ہزار سے زائد نہ تھی۔ مقبوضہ کشمیر میں کون سی جنگ ہو رہی ہے جو وہاں اِتنے بڑے پیمانے پر فوجی تعینات کیے گئے ہیں؟ مقبوضہ کشمیر پر کسی بھی بیرونی حملے کا کوئی فوری خطرہ بھی نہیں۔ پھر بھارتی حکومت کو ایسی کیا ضرورت پیش آگئی ہے کہ وہاں سات لاکھ سے زائد فوجیوں کو تعینات رکھا جائے۔
مقبوضہ کشمیر میں سات لاکھ سے زائد فوجی تعینات کرنے کے جواب کے طور پر بھارت کہتا ہے کہ یہ (مقبوضہ کشمیر) اس کا حصہ ہے اور دوسری طرف یہ بھی کہا جاتا ہے کہ پاکستان سے دراندازی کا خطرہ موجود رہتا ہے۔ پاکستان اور بھارت دونوں ایٹمی ہتھیاروں سے لیس ہیں۔ ان دونوں کے درمیان کسی بھی وقت کوئی تنازع خطرناک شکل اختیار کرسکتا ہے۔ بھارت کی قیادت بھی اس حقیقت کو جانتی ہے مگر اس کا بنیادی استدلال یہ ہے کہ پاکستان کی طرف سے دراندازی کے باعث جموں و کشمیر میں معاملات پیچیدہ ہو جاتے ہیں۔ وہ پاکستان کی طرف سے دراندازی یا حملے کے خطرے کو ہمیشہ توانا بتا کر عالمی برادری پر یہ جتانے کی کوشش کرتا رہتا ہے کہ مقبوضہ کشمیر میں سات لاکھ سے زائد فوجی تعینات رکھنا انتہائی ضروری نہیں، درست بھی ہے۔ ایسے میں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر بھارت کو یہ شکایت ہے کہ پاکستان کی طرف سے دراندازی ہوتی رہتی ہے تو پھر بھارتی قیادت ایسا کیوں نہیں کرتی کہ بین الاقوامی سرحد اور کنٹرول لائن کی نگرانی اقوام متحدہ کے غیر جانب دار مبصرین کے حوالے کر دے؟
بھارت نے پاکستان کی طرف سے مبینہ دراندازی روکنے کے لیے کئی طرح کے انتظامات کر رکھے ہیں۔ ایک طرف تو ساڑھے تین میٹر تک بلند خاردار باڑ لگا رکھی ہے۔ ساتھ ہی موشن سینسرز بھی ہیں، تھرمل امیجنگ ڈیوائسز بھی ہیں۔ الارمز بھی لگا رکھے ہیں۔ یعنی اگر کنٹرول لائن پر کوئی معمولی سی بھی حرکت ہو تو جدید ترین آلات کی مدد سے اُن کا فوری پتا چل جاتا ہے۔ یہ بات بھی قابلِ غور ہے کہ دونوں ممالک کے درمیان جو زمین ہے، اس پر بھی جگہ جگہ بارودی سرنگیں بچھی ہوئی ہیں۔
بھارت نے اب تک یہ کہتے ہوئے دنیا کو دھوکا دینے کی بھرپور کوشش کی ہے کہ پاکستان کی طرف سے خطرات لاحق ہونے کے باعث وہ مقبوضہ کشمیر میں بڑے پیمانے پر فوجی تعینات رکھنے پر مجبور ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ بھارت کے لیے اصل خطرہ پاکستان نہیں بلکہ خود کشمیری ہیں۔ کشمیریوں کو حقِ خود ارادیت سے محروم رکھ کر بھارت نے اُنہیں اپنا دشمن بنا لیا ہے۔ بھارت چاہتا ہے کہ کشمیری اپنی مرضی سے دست بردار ہو کر بھارت کا حصہ بن جائیں۔ کشمیری اس کے لیے تیار نہیں۔ وہ اپنے حقوق کے لیے ہر دور میں جدوجہد کرتے رہے ہیں۔ جب پرامن طریقوں سے بات نہ بنی تو اُنہوں نے مسلح جدوجہد کی۔ بھارتی قیادت نے کشمیریوں کے جائز مطالبات تسلیم کرنے کے بجائے ہٹ دھرمی کی راہ پر چلنا گوارا کیا۔ طاقت کے استعمال کے ذریعے کشمیریوں کی تحریک آزادی کچلنے کی بھرپور کوشش کی گئی جس کے نتیجے میں ہزاروں کشمیری شہید ہوئے۔ محتاط اندازے کے مطابق اب تک بھارتی فورسز کے ہاتھوں ۷۰ ہزار سے زائد کشمیری جامِ شہادت نوش کرچکے ہیں۔
ایک بہت بڑا ملک ایک چھوٹے سے خطے کی معمولی سی آبادی کو کچل کر رکھنا چاہتا ہے۔ کشمیریوں کو مجبور کیا جارہا ہے کہ وہ بھارت کے زیر سایہ زندگی بسر کرنے کو اپنے مقدر کے طور پر قبول کرلیں۔ بہت سے بین الاقوامی معاہدوں کے ساتھ ساتھ اقوام متحدہ کی قراردادیں بھی موجود ہیں جن میں کشمیر کے خطے کو متنازع تسلیم کیا گیا ہے۔ اقوام متحدہ کی دو درجن سے زائد قراردادوں میں کشمیریوں کا حقِ خود ارادیت تسلیم کیا گیا ہے یعنی اُنہیں پاکستان یا بھارت میں سے کسی ایک کے ساتھ رہنے کا آپشن اختیار کرنے کا حق دیا جانا ہے۔ ان حقائق کی روشنی میں سوچا جائے تو مقبوضہ جموں و کشمیر میں سات لاکھ سے زائد تعینات رکھنے کی پشت پر بھارتی قیادت کا یہی مقصد دکھائی دیتا ہے کہ کشمیریوں کو ہر حال میں جبر تلے رکھنا ہے۔ کشمیر کا مسئلہ حل کرنے سے واضح انکار اور ہٹ دھرمی ہی نے مقبوضہ کشمیر کو ایسے خطے میں تبدیل کردیا ہے جہاں آبادی کے تناسب سے فوجیوں کی تعیناتی دنیا بھر میں سب سے زیادہ ہے۔
آپ شاید یہ سوچ رہے ہوں کہ جب بھارتی قیادت کشمیریوں سے زیادتی روا رکھتی ہے تو عالمی برادری یقیناً متوجہ ہو کر یہ کوشش کرتی ہوگی کہ کشمیریوں کو ان کا حق دلایا جائے۔ آپ کو یاد ہوگا کہ ۲۰۰۸ء میں براک اوباما نے اپنی انتخابی مہم کے دوران اس نکتے پر زور دیا تھا کہ بھارت اور پاکستان کے درمیان کشمیر کے مسئلے کو پرامن اور قابلِ قبول انداز سے حل کیا جانا چاہیے۔ ان کا کہنا تھا کہ ایسے حالات پیدا کرنے چاہئیں کہ دونوں ممالک اس مسئلے کو بہتر انداز سے حل کرکے خطے میں امن اور استحکام کی راہ ہموار کریں۔ مگر یہ بات صرف انتخابات تک تھی۔ جب براک اوباما امریکا کے صدر منتخب ہوگئے تو انہوں نے کشمیر کو یکسر بھلا دیا۔ ان کی وزیر خارجہ ہلیری کلنٹن نے جب نئی دہلی کا دورہ کیا تو بھارت سے تجارت بڑھانے پر زیادہ توجہ دی۔ بھارت کو بوئنگ طیارے فروخت کرنے کے معاملے پر بات چیت ہوئی۔ تب سے اب تک بھارت اور امریکا کے درمیان تجارت کا حجم سو ارب ڈالر ہوچکا ہے۔ دونوں ممالک تجارتی حجم کو پانچ سو ارب ڈالر کرنے کا عزم رکھتے ہیں۔
جب معاملہ تجارت پر ختم ہوتا ہو تو امریکی خارجہ پالیسی بھی اخلاقی بنیاد کے حوالے سے زمین ہی پر آرہے گی۔ یہی حال عالمگیر اصولوں اور جمہوریت کے آدرش کا بھی ہوگا۔ جب کبھی کسی معاملے میں تجارت اولین حیثیت اختیار کر لیتی ہے، تب دیگر تمام معاملات اور اقدار کو ایک طرف ہٹا دیا جاتا ہے۔ بیشتر معاملات اور بالخصوص اخلاقی اصولوں پر مبنی معاملات سرد خانے میں یا ویٹنگ روم میں ڈال دیے جاتے ہیں۔ کشمیر کے مسئلے کے ساتھ بھی یہی ہوا ہے۔ سبھی کچھ صورت حال کے مطابق کیا جارہا ہو تو ایسا ہی ہوا کرتا ہے۔
اگر کسی تنازع کو ختم کرنے میں کوئی بڑا ملک ناراض ہوتا ہو یا معاشی معاملات متاثر ہوتے ہوں تو بڑی طاقتیں بھی کچھ کرنے سے گریز ہی کرتی ہیں۔ مقبوضہ کشمیر میں حال ہی میں موسلا دھار بارش اور سیلاب کے نتیجے میں جو تباہی واقع ہوئی اس سے نمٹنے کے لیے بھارت نے بین الاقوامی امداد لینے سے گریز کیا۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ مقبوضہ کشمیر کے لوگوں کا جو ایک رابطہ بیرونی دنیا سے ہو سکتا تھا، وہ بھی نہ ہوسکا۔
کشمیر کے معاملے میں جو دوغلا پن روا رکھا جارہا ہے، کیا عالمی برادری کو اس کا احساس نہیں؟ کیا ضمیر مکمل مردہ ہوچکے ہیں؟ تمام اخلاقی اصول ایک طرف رکھ دیے گئے ہیں۔ جن لوگوں پر جبر ڈھایا جاتا رہا ہے، کیا یہ صورتِ حال ان کے دلوں میں نفرت کے مزید بیج نہیں بوئے گی؟ کیا وہ اس تنازع کے نتیجے میں ایک بار پھر بھرپور مسلح مزاحمت کی طرف نہیں جائیں گے؟
بارک اوباما نے ۲۴ ستمبر ۲۰۱۴ کو اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے خطاب میں کہا کہ بڑی اقوام کو اس بات کی اجازت نہیں دی جانی چاہیے کہ وہ چھوٹی اقوام کو دباکر رکھیں، ظلم کا نشانہ بنائیں۔ انہوں نے تسلیم کیا کہ بڑے بین الاقوامی ادارے اور بڑی طاقتیں بین الاقوامی اصولوں کا اطلاق اُس وقت کرنے میں ناکام رہے ہیں، جب ایسا کرنا مشکلات پیدا کرتا ہو۔
اگر صدر اوباما مسئلہ کشمیر کا بھی ذکر کر دیتے تو اچھا تھا مگر یہ بات بالائے فہم نہیں کہ امریکا یا کوئی بھی دوسری بڑی طاقت بہت نمایاں طور پر اسی مسئلے کا ذکر کرتی ہے جو اس کے لیے غیر معمولی معاشی اہمیت کا حامل ہو۔ انہوں نے یوکرین کا ذکر کیا اور روس کی نام نہاد جارحیت کے خلاف اُس کا بھرپور دفاع یقینی بنانے کے عزم کا اظہار کیا۔
امریکا نے یوکرین کے معاملے میں تو اس لیے بولنا گوارا کیا ہے کہ اس کے مفادات کا معاملہ ہے۔ یوکرین امریکا سے پانچ ہزار کلو میٹر کے فاصلے پر واقع ہے۔ دوسری طرف امریکا نے اب تک بھارت پر زور نہیں دیا کہ وہ کشمیر کے معاملے میں بین الاقوامی قوانین، اصولوں اور قراردادوں پر عمل کرے۔ مشرقی یورپ کا معاملہ کسی بھی طور ایسا نہیں کہ عالمی سطح پر کوئی ہلچل مچاسکے مگر امریکا کو اس کی زیادہ فکر ہے۔ دوسری طرف بھارت کشمیر میں جو کچھ کر رہا ہے، اس سے ایک پورا خطہ عدم استحکام کا شکار ہے اور بھارت کے تمام چھوٹے پڑوسی شدید تشویش میں مبتلا ہیں۔ ایسے میں عالمی برادری اور بالخصوص امریکا کا خاموش رہنا بہت عجیب لگتا ہے۔
بھارت کے وزیر اعظم نریندر مودی نے جو کچھ کہا وہ بہت اچھا سنائی دیا مگر یہ صرف باتیں ہیں۔ جب عمل کی بات آتی ہے تو سب پیچھے ہٹ جاتے ہیں۔ دوسروں کے حقوق کے دفاع کی اِتنی باتیں کرنے والوں سے جب کشمیریوں کے حقوق پر بات کرنے کو کہا جاتا ہے تو اپنی بات سے مُکر جاتے ہیں۔ تب خیال نہیں آتا کہ بین الاقوامی اصول اور قوانین کیا کہتے ہیں۔ نریندر مودی نے کہا کہ عالمی امن کے لیے ہمیں آپس کے اختلافات ختم کر کے یا بھلا کر ایک ہو جانا چاہیے۔ بات اچھی ہے مگر اس پر عمل کون کرے گا؟ خود نریندر مودی بھی نہیں۔ کشمیر کا مسئلہ ایک پورے خطے کو عدم استحکام سے دوچار کیے ہوئے ہے۔ ایسے میں نریندر مودی اور دیگر رہنماؤں کی خوش فہمیوں پر مبنی تقریریں کیونکر حلق سے اُتر سکتی ہیں؟ نریندر مودی نے دہشت گردی کے خلاف ایک جامع بین الاقوامی منشور تیار کرنے کی بات بھی کی۔ سوال یہ ہے کہ جو کچھ کشمیریوں کے معاملے میں روا رکھا گیا ہے، کیا وہ دہشت گردی کی کسی بھی تعریف کے دائرے میں نہیں آتا؟ جس اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے خطاب کرتے ہوئے نریندر مودی نے یہ بات کی ہے، اُسی اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے کشمیر کے بارے میں واضح قراردادیں منظور کی ہیں، جن میں کہا گیا ہے کہ کشمیر کے مستقبل کا فیصلہ خود کشمیریوں کی مرضی کے مطابق کیا جائے یعنی انہیں حقِ خود ارادیت دیا جائے تاکہ وہ یہ طے کر سکیں کہ اُنہیں پاکستان کے رہنا ہے یا بھارت کے ساتھ۔
اگر نریندر مودی اپنی بات پر قائم ہیں اور حقیقی امن کے لیے کچھ کرنے کا عزم رکھتے ہیں تو اُنہیں مقبوضہ جموں و کشمیر میں تعینات سات لاکھ بھارتی فوجیوں کو فی الفور ہٹا لینا چاہیے۔ جب تک مقبوضہ کشمیر میں بھارت کے ساتھ لاکھ سے زائد فوجی تعینات ہیں، تب تک امن اور استحکام سے متعلق کوئی بھی بات بے دم ہی رہے گی اور خطے میں حقیقی امن و استحکام کا خواب محض خواب ہی رہے گا۔ حالیہ سیلاب کے دوران بھی کشمیریوں کی مدد کرنے کے معاملے میں بھارتی حکومت نے خاطر خواہ دلچسپی نہ لی۔ بھارتی فوج موجود تھی اور اس کے پاس جدید ترین آلات بھی تھے مگر اُس نے منتخب ریسیکو آپریشن کیے۔ بہت سے کم عمر کشمیریوں کی بھی بروقت مدد نہیں کی گئی۔ لوگوں نے اپنی مدد آپ کے تحت ایک دوسرے کو بچایا اور محفوظ مقامات پر منتقل ہوئے۔
بھارت چاہتا ہے کہ اسے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں مستقل نشست دی جائے۔ امریکا اور کئی دوسری بڑی طاقتیں چاہتی ہیں کہ بھارت کو یہ نشست ملے۔ مگر سوال یہ ہے کہ انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں کے مرتکب بھارت کو یہ نشست دینا کسی بھی طور درست ہوگا؟ کیا ایسا کرنا بین الاقوامی اُصولوں کا تمسخر اُڑانے کے مترادف نہیں ہوگا؟
کشمیر کا مسئلہ حل نہ ہونے کے باعث پاکستان اور بھارت کے درمیان کشیدگی بھی برقرار رہتی آئی ہے۔ اب بھی دونوں ممالک کی فوجوں کے درمیان فائرنگ کا تبادلہ ہوتا ہے۔ پاکستان کے وزیراعظم محمد نواز شریف نے جنرل اسمبلی سے خطاب کرتے ہوئے واضح کیا کہ پاکستان کشمیر کے مسئلے سے کسی بھی طور دست بردار نہیں ہوگا۔ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ کشمیر کا مسئلہ کشمیریوں کی امنگوں کے مطابق حل کیے جانے تک خطے میں امن بحال نہیں ہوسکتا اور استحکام بھی یقینی نہیں بنایا جاسکتا۔
پاکستانی وزیر اعظم کے مشیر برائے امور خارجہ سرتاج عزیز کشمیر کے حوالے سے دو ٹوک بات کرنے کے معاملے میں گریز کی راہ پر گامزن ہیں۔ انہوں نے ۲۸ ستمبر ۲۰۱۴ء کو کہا کہ نئی دہلی میں پاکستانی ہائی کمشنر عبدالباسط سے کشمیری قیادت کی ملاقات کی ٹائمنگ غلط تھی جس سے سیکرٹری خارجہ سطح کی ملاقات کا امکان بھی ختم ہوا۔ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ کشمیری قیادت کی پاکستانی ہائی کمشنر سے ملاقات نے پاکستان اور بھارت کے درمیان اعلیٰ سطح کے مذاکرات کی راہ مسدود کر دی۔ انہوں نے خاصا معذرت خواہانہ رویہ اختیار کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ بھارتی قیادت نے کشمیری قیادت کی پاکستانی ہائی کمشنر سے ملاقات رکوانے کی استدعا کی تھی مگر اس معاملے میں تاخیر کر دی تھی۔
اب وقت آگیا ہے کہ اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل بان کی مون کشمیر کے مسئلے کو اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے ایجنڈے میں اوپر لائیں اور اس مسئلے کے جلد از جلد حل کی راہ ہموار کریں۔ اسی صورت عالمی ادارہ جنوبی ایشیا میں حقیقی امن کی راہ ہموار کرنے میں کامیاب ہوسکے گا۔
“Kashmir beyond platitudes: The responsibility to protect”. (“gnfai.com”. October 25, 2014)
Leave a Reply