
کشمیر بلا شبہ دنیا کا سب سے پرانا تصفیہ طلب معاملہ ہے۔ اب یہ مسئلہ ایک بار پھر گرما گرمی پیدا کرتا دکھائی دے رہا ہے۔ صرف تین ماہ کے دوران بھارتی افواج نے مقبوضہ جموں و کشمیر میں ۱۰۰ سے زائد مسلمانوں کو ہلاک کیا ہے۔ نہتے کشمیری صرف پتھراؤ کے ذریعے احتجاج کر رہے ہیں مگر انہیں کچلنے کے لیے سات لاکھ سے زائد فوجی مقبوضہ کشمیر میں تعینات ہیں۔ دارالحکومت سری نگر سخت کرفیو کی زد میں ہیں۔ نیم فوجی دستے بھی طلب کیے گئے ہیں۔ یہ سب کچھ حالات کو مزید خراب کرنے کے لیے کافی ہے۔ مقبوضہ کشمیر کی تیزی سے بگڑتی ہوئی صورت حال کے باعث پاکستان اور بھارت کی افواج بھی الرٹ ہیں۔
ایک صدی قبل برطانوی سیاست دان ہیلفرڈ میکنگر نے لکھا تھا کہ کشمیر مختلف تہذیبوں، سلطنتوں اور بر اعظموں کا سنگم ہے۔ میں نے اپنی پہلی کتاب ’’وار ایٹ دی ٹاپ آف دی ورلڈ‘‘ میں لکھا تھا کہ کشمیر کا مسئلہ دنیا کا سب سے بڑا بحران ہے اور اس فلیش پوائنٹ سے پاکستان اور بھارت کے درمیان ایک ایسی جنگ چھڑ سکتی ہے جسے جوہری تصادم میں تبدیل ہونے میں کچھ وقت نہیں لگے گا۔ کشمیر کے مسئلے پر پاکستان اور بھارت تین جنگیں لڑچکے ہیں اور ان کے درمیان چوتھی جنگ کسی بھی وقت شروع ہوسکتی ہے۔
۱۹۹۹ء میں پاکستانی افواج نے کارگل پر چڑھائی کی اور اس کے نتیجے میں شدید کشیدگی پیدا ہوئی۔ اگر اس وقت کمال ضبط کا مظاہرہ نہ کیا جاتا تو چوتھی پاک بھارت جنگ ناممکن نہ تھی۔ اب اس صورت حال کو مزید بگڑنے سے روکنا ہی ہوگا۔ کارگل کے قضیے کے دوران دونوں ممالک کی افواج مکمل الرٹ تھیں اور کوئی بھی بڑی غلطی بھیانک جنگ پر منتج ہوسکتی تھی۔
اگر پاکستان اور بھارت کے درمیان جوہری تصادم ہوا تو لاکھوں افراد موت کے منہ میں جائیں گے، ماحول میں شدید آلودگی پیدا ہو گی اور خطے کے تمام دریاؤں کا پانی آلودہ ہو جائے گا۔ اور پھر یہ صورت حال پورے کرہ ارض کو اپنی لپیٹ میں بھی لے سکتی ہے۔
کنٹرول لائن پر کشیدگی برقرار رہی ہے۔ پاکستان اور بھارت کے فوجی ایک دوسرے کو فائرنگ کا نشانہ بناتے رہتے ہیں۔ کنٹرول لائن پر ضبط نفس کا مظاہرہ کرنے میں ناکامی کسی بھی لمحے جنگ کو راہ دے سکتی ہے۔ اور اگر ایسا ہوا تو خطے کو تباہی سے بچانا ممکن نہ رہے گا۔
کشمیر کا مجموعی رقبہ ۹۲ ہزار مربع میل ہے جو برطانیہ کے برابر ہے۔ ۸۰ لاکھ کشمیری مقبوضہ کشمیر میں اور ۳۰ لاکھ آزاد کشمیر میں رہتے ہیں۔ کشمیری نسل کے دس لاکھ افراد گلگت بلتستان میں بھی رہتے ہیں جو جغرافیائی طور پر کشمیر ہی کا حصہ ہے۔
کشمیر کا مسئلہ ۱۹۴۷ء میں اس وقت پیدا ہوا جب برطانوی حکومت نے بر صغیر پر اپنا اقتدار ختم کیا اور کشمیر کے مسئلے کو غیر حل شدہ چھوڑ دیا۔ برطانوی راج کی خود مختار ریاستوں کو پاکستان یا بھارت سے الحاق کا حق دیا گیا تھا۔ کشمیر کے حکمران گلاب سنگھ ڈوگرہ نے بھارت سے الحاق کیا جس پر قضیہ کھڑا ہوا۔ قیام پاکستان کے قوت کشمیر میں ۷۰ فیصد مسلمان، ۲۰ فیصد ہندو اور باقی سکھ اور بدھ ازم کے ماننے والے بستے تھے۔ کشمیریوں کی اکثریت پاکستان سے الحاق کے حق میں تھے۔ اس مسئلے پر دونوں ممالک نے ۱۹۴۸ء میں پہلی جنگ لڑی۔ بھارت اس معاملے کو اقوام متحدہ میں لے گیا اور سیز فائر کروایا گیا۔ اقوام متحدہ کی قراردادوں میں درج ہے کہ کشمیر کے مستقبل کا فیصلہ استصواب رائے کے ذریعے ہوگا۔ کشمیری جس ملک سے الحاق کے حق میں ووٹ دیں گے اسی ملک کا حصہ بن جائیں گے۔ ۶۳ سال سے پاکستان اور بھارت کے درمیان کشمیر ہی تنازع کا اصل سبب ہے۔ یہ مسئلہ حل ہو تو بہت سے چھوٹے مسائل خود بخود حل ہو جائیں گے۔
۱۹۶۰ء کے عشرے میں معاملات زیادہ خراب اس وقت ہوئے جب چین نے بھارت سے ایک مختصر سی جنگ لڑی اور مقبوضہ کشمیر کا ۱۵ ہزار مربع میل کا علاقہ چھین لیا۔ اس علاقے میں چین نے ایک اہم شاہراہ تعمیر کی ہے جو دفاعی مقاصد کے لیے ہے۔ یہ سڑک مسلم اکثریتی صوبے سنکیانگ کو تبت سے ملاتی ہے۔ چین کا مقبوضہ کشمیر میں ۱۲ ہزار مربع میل پر محیط لداخ پر بھی دعویٰ ہے۔ اس علاقے میں بدھ ازم کے ماننے والوں کی اکثریت ہے۔ تبت میں ہان نسل کے چینیوں کی بڑھتی ہوئی تعداد کے باعث اب لداخ تبتی کلچر کا مرکز بن گیا ہے۔
مقبوضہ کشمیر میں بھرپور مسلح تحریک ۱۹۸۹ء میں شروع ہوئی جب بھارتی افواج نے کشمیریوں پر مظالم ڈھانے کا سلسلہ شروع کیا۔ تب سے اب تک کم و بیش ۷۰ ہزار کشمیریوں کو ہلاک کیا جاچکا ہے۔ بھارت کو اس حوالے سے دنیا بھر میں شرمندگی کا سامنا ہے۔ کشمیر میں سات لاکھ سے زائد سیکورٹی اہلکاروں کی تعیناتی اس بات کا ثبوت ہے کہ بھارت اس خطے کو زیادہ سے زیادہ دباکر رکھنا چاہتا ہے۔ پوری مقبوضہ وادی اور اس سے ملحق علاقے کو پولیس اسٹیٹ میں تبدیل کردیا گیا ہے۔ کشمیریوں نے اب بھارت سے الگ ہونے کیلیے نئے سرے سے تحریک شروع کی ہے۔ نوجوانوں کی اکثریت نہتی ہے تاہم پتھر کو انہوں نے ہتھیار قرار دے دیا ہے۔ بھارتی فوج پتھر کے جواب میں گولیاں اور گولے داغ رہی ہے۔ بھارتی فوج نے بیس سال قبل مسلح تحریک کو غیر معمولی قوت سے کچل دیا تھا تاہم اب یہ تحریک پھر ابھر رہی ہے۔ ایسے میں بھارت کی پاکستان اور چین سے بھی کشیدگی بڑھ رہی ہے۔ بھارتی حکومت کو اب بہت سنبھل کر چلنا ہوگا۔ کوئی بھی بڑی غلطی پورے خطے کو جنگ کی بھٹی میں جھونک سکتی ہے۔
اقوام متحدہ نے بھارت اور پاکستان کو پابند کیا ہے کہ وہ کشمیر کا مسئلہ اس کی طے کردہ قراردادوں کی روشنی میں حل کریں۔ ان قراردادوں کے مطابق کشمیر کے مستقبل کا فیصلہ صرف استصواب رائے سے ہوسکتا ہے۔ پاکستان اس کے لیے تیار ہے تاہم بھارت نے ہمیشہ بین الاقوامی قرار دادوں کی مخالفت کی ہے اور اب بھی وہ اس معاملے میں ہٹ دھرمی کی راہ پر گامزن ہے۔ ایسے میں بھارت کو کشمیر کا مسئلہ حل کرنے کے لیے کس طور راضی کیا جائے، یہ بڑا چیلنج ہے۔ اب یہ مسئلہ اس لیے بھی پیچیدہ ہوتا جارہا ہے کہ کشمیریوں کی ایک معقول تعداد آزاد اور خود مختار کشمیر کے حق میں ہے۔ وہ چاہتے ہیں کہ گلگت بلتستان کو بھی کشمیری ریاست کا حصہ بنایا جائے۔ بھارت نے سفارت کاری کے میدان میں کشمیر کے مسئلے کو بین الاقوامی سطح پر اجاگر ہونے سے روکا ہے۔ پاکستان اس معاملے میں خاصا کمزور ثابت ہوا ہے۔ بھارت نے پاکستان پر بارہا یہ الزام عائد کیا ہے کہ وہ مقبوضہ کشمیر میں صورت حال خراب کر رہا ہے اور نوجوانوں کو تربیت دیکر بھیج رہا ہے۔ پاکستان نے اس الزام کو ہمیشہ مسترد کیا ہے۔ اس کا استدلال یہ ہے کہ کشمیریوں کی جدوجہد ان کی اپنی پیدا کردہ ہے اور وہی اسے چلا رہے ہیں۔ پاکستان ان کی صرف اخلاقی اور سفارتی حمایت کر رہا ہے۔ اب کشمیر کے مسئلے کو اس لیے بھی نظر انداز نہیں کیا جاسکتا کہ پورے خطے کی سلامتی داؤ پر لگی ہوئی ہے۔ پاکستان اور بھارت ایٹمی قوتیں ہیں۔ ان کے درمیان تصادم پوری دنیا کے امن کو داؤ پر لگا سکتا ہے۔ افغانستان میں امن کے لیے پاکستان میں استحکام ناگزیر ہے۔ اور پاکستان کے امن کے لیے کشمیر کا مسئلہ حل کرنا ناگزیر ہے۔ اگر اس معاملے کو نظر انداز کرنے کا سلسلہ جاری رہا تو خطے کی سلامتی کو لاحق خطرات کسی طور کم نہ ہوں گے۔ خطے میں چین کی بڑھتی ہوئی دلچسپی بھی معنی خیز ہے اور بہت کچھ سوچنے پر مجبور کرتی ہے۔
(www.huffingtonpost.com ۔۲۷؍ ستمبر۲۰۱۰ء)
Leave a Reply