
است جموں و کشمیر میں حکومت سازی کا معاملہ ۱۷؍روز تک تعطل کا شکار رہنے کے بعد ریاست میں گورنر راج کے نفاذ اور بھارتی پارلیمان کی ایک مشترکہ کمیٹی کی طرف سے ۱۹۴۷ء سے جموں خطے میں آباد پاکستان اور آزاد کشمیر سے آئے ہندو مہاجرین کو ۶۷ سال بعد ریاست کا مستقل باشندہ ہونے کی سند اور اسمبلی میں ان کے لیے نشستیں مخصوص کرنے کی سفارش، یہ سب اس خطے میں کسی آنے والے سیاسی طوفان کا پیش خیمہ ثابت ہو سکتا ہے۔ فی الحال کشمیر کی سبھی پارٹیوں‘ بشمول آزادی پسند اور انتخابی عمل میں شریک نیشنل کانفرنس اور پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی (پی ڈی پی)، نے ان مہاجرین کی آباد کاری کو ریاست کی مسلم اکثریتی آبادی کو اقلیت میں بدلنے کی ایک سازش قرار دیا اور گورنر کو خبردار کیا ہے کہ اسمبلی کی عدم موجودگی میں وہ اپنے اختیارات استعمال کرکے ایسا کوئی آرڈیننس جاری نہ کرے۔ دوسری طرف آزادی پسند جماعتوں نے عوام سے کہا ہے کہ اگر اس طرح کا کوئی قدم اٹھایا گیا تو ایک لمبے ایجی ٹیشن کے لیے تیار رہیں۔
گزشتہ ہفتے بھارتی صدر پرناب مکھرجی سے منظوری کے بعد ریاستی گورنر این این وہرہ نے جموں و کشمیر کے آئین کی دفعہ۹۲(۵) کے تحت اختیارات استعمال کرتے ہوئے اعلان کیا کہ ریاستی آئین کی دفعہ۹۲(۱) کے تحت ریاست میں گورنر راج کا نفاذ عمل میں لایا گیا ہے۔ اعلامیہ میں کہا گیا کہ نومبر، دسمبر ۲۰۱۴ء میں ہونے والے اسمبلی انتخابات کے نتائج کا اعلان ۲۳ دسمبر کو کیا گیا، جس کے فوراً بعد وزیر اعلیٰ عمر عبداللہ نے ۲۴ دسمبر کو اپنا استعفیٰ پیش کیا، جسے گورنر نے منظور کرتے ہوئے نئی حکومت بننے تک اُنہیں اپنے عہدے پر برقرار رہنے کی تلقین کی۔ گزشتہ دو ہفتوں میں گورنر نے پی ڈی پی اور بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) سے، جو سب سے بڑی پارٹیاں اُبھر کر سامنے آئی ہیں، حکومت سازی کے معاملے پر بات چیت کی لیکن کسی بھی پارٹی نے حکومت بنانے کا دعویٰ پیش نہیں کیا۔ ۷ جنوری کی شام عمر عبداللہ نے گورنر کو مطلع کیا کہ اُنہوں نے عہدے سے دستبردار ہونے کا فیصلہ کر لیا ہے۔ چونکہ کسی بھی پارٹی نے تب تک حکومت سازی کا دعویٰ پیش نہیں کیا تھا، لہٰذا ریاست میں گورنر راج نافذ کرنے کی منظوری حاصل کی گئی، جو ۸ جنوری ۲۰۱۵ء سے نافذالعمل ہوا۔
یاد رہے کہ اسمبلی انتخابات ۲۰۱۴ء میں پی ڈی پی ۲۸ نشستیں جیت کر سب سے بڑی جماعت کے طور پر اُبھر کر سامنے آئی‘ جبکہ بی جے پی نے جموں کے ہندو خطے میں واضح اکثریت حاصل کرکے ۲۵ نشستوں پر قبضہ کر لیا۔ کانگریس ۱۲؍اور نیشنل کانفرنس ۱۵؍نشستوں پر کامیاب ہوئیں۔ نیشنل کانفرنس اور کانگریس نے پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی کی حمایت کا اعلان بھی کر دیا تھا۔ پی ڈی پی انتخابات کے نتائج آنے کے بعد سے ہی بی جے پی کے ساتھ اتحاد کرنے کے لیے کوشاں رہی، تاہم دونوں جماعتوں میں بعض پیچیدہ معاملات پر کوئی پیش رفت نہ ہو سکی اور اس طرح مخلوط سرکار بنانے کے امکانات معدوم ہوگئے۔ اس صورتحال کے پیش نظر ریاست میں گورنر راج نافذ کر دیا گیا۔ اگرچہ سیاسی جماعتیں اس صورتحال کا ایک دوسرے کو ذمہ دار ٹھہرا رہی ہیں، تاہم یہ بھی حقیقت ہے کہ ریاست میں گورنر راج کے نفاذ کی یہ ساری جماعتیں ذمہ دار ہیں کیونکہ انہوں نے ذاتی اور پارٹی مفادات کو عوامی مفادات پر ترجیح دی۔
ستمبر کے تباہ کن سیلاب کے بعد عوام نے الیکشن کے انعقاد کو زخموں پر نمک پاشی سے تعبیر کرتے ہوئے انتخابی عمل مارچ تک مؤخر کرنے کا مطالبہ کیا تھا، لیکن ان کی خواہشات کے برعکس الیکشن اُن پر ٹھونسا گیا اور انہوں نے اپنی مشکلات کو بھول کر اس عمل میں صرف اس لیے بڑھ چڑھ کر حصہ لیا کہ اُن کے ووٹ کے نتیجے میں بننے والی نئی حکومت ان کی داد رسی کرے۔ موجودہ حالات میں کشمیر کی مقامی سیاسی جماعتیں نیز آزادی پسند حلقے بھی ریاست میں بی جے پی کے بڑھتے ہوئے اثر و نفوذ سے نہ صرف پریشان ہیں بلکہ اس سیلاب کو روکنے کے لیے اشاروں کنایوں میں ہاتھ پاؤں مار رہی ہیں۔ ’’گھر واپسی‘‘ یعنی زبردستی ہندو مت قبول کروانا اور ’’بہو لاؤ اور بیٹی بچاؤ‘‘ جیسے پروگراموں کے بعد اب بی جے پی کے فرقہ پرست رکن پارلیمان ساکھشی مہاراج نے ہندوؤں کو چار چار بچے پیدا کرنے کا مشورہ دے کر نہ صرف بھارتی مسلمانوں بلکہ جموں و کشمیر میں بھی عدم تحفظ کا احساس پیدا کر دیا ہے۔ ایسی صورت حال پیدا ہو گئی ہے کہ اگر بی جے پی جموں و کشمیر کے اقتدار میں براہِ راست حصہ دار بنتی ہے تو نہ صرف یہاں کے مسلمانوں کی مذہبی شناخت، کلچر اور تہذیب خطرے میں پڑے گی بلکہ یہ ہندو قوم پرست پارٹی پوری دنیا کے سامنے یہ دلیل پیش کرے گی کہ ریکارڈ توڑ پولنگ کے نتیجے میں جموں و کشمیر کے عوام نے اس پارٹی کے ایجنڈے کو من و عن تسلیم کیا ہے۔ اس سے کشمیر کاز کو نہ صرف اندرون ریاست اور بیرونی محاذ پر ناقابل تلافی نقصان پہنچے گا بلکہ پاکستان کے لیے کشمیریوں کے جائز مطالبات کی مختلف بین الاقوامی فورموں پر وکالت کرنا بھی بے حد مشکل ہو جائے گا۔
جس طرح بھارتی حکومت نے جموں خطے میں عارضی طور پر آباد شرنارتھیوں یعنی مہاجرین کے لیے بھاری پیکیج کا اعلان کیا ہے، اس سے معمولی سوجھ بوجھ رکھنے والے کشمیریوں کے بھی ہوش اُڑ گئے ہیں۔ بھارتی پارلیمان کی ایک مشترکہ کمیٹی نے دیگر مراعات دینے کی سفارش کرنے کے علاوہ انہیں ریاست کا مستقل باشندہ ہونے کی سند اور اسمبلی الیکشن میں ووٹ ڈالنے کا حق فراہم کرنے، ریاستی آئین میں ترمیم عمل میں لانے اور ریاستی قانون ساز اسمبلیوں کے دونوں ایوانوں میں ان کے لیے نشستیں مخصوص کرنے کی سفارشات بھی کی ہیں۔ جہاں تک آزاد کشمیر کے مہاجرین کا تعلق ہے، وہ آئینی اعتبار سے ریاست کے باشندے ہیں اور انہیں نہ صرف پشتینی باشندگی کی سند فراہم کی جاتی ہے بلکہ انہیں ریاستی اسمبلی کے لیے ووٹ ڈالنے کا بھی حق ہے، تاہم جہاں تک مغربی پاکستان کے مہاجرین کا تعلق ہے، وہ ریاست کے آئین کے اعتبار سے ریاست کے شہری نہیں ہیں اور نہ ہی انہیں اسمبلی کے لیے ووٹ ڈالنے کا حق ہے گو کہ پارلیمنٹ کے لیے وہ ووٹ ڈالتے ہیں کیونکہ بھارتی آئین کی رو سے وہ بھارت کے شہری ہیں۔ اس بات میں کوئی شک نہیں کہ پشتینی باشندگی کی اسناد نہ ہونے کی وجہ سے مغربی پاکستان کے پناہ گزینوں کو مشکلات کا سامنا ہے اور وہ ریاستی حکومت میں نوکریوں کے حصول کے اہل نہیں ہیں تاہم وہ مرکزی اداروں میں نوکریاں کر رہے ہیں۔
اب جہاں تک ان دونوں زمروں میں آنے والے مہاجرین کو مراعات فراہم کرنے کا تعلق ہے، اس پر کسی کو اعتراض نہیں ہونا چاہیے۔ ان کے بچوں کے لیے کشمیری مہاجر پنڈتوں کی طرز پر ملک کے تعلیمی و پیشہ ورانہ اداروں میں داخلہ کے لیے نشستیں مخصوص کی جائیں۔ یہ وہ سارے اقدامات ہیں جن کا تعلق براہ راست ان کا معیار زندگی بہتر بنانے سے ہے، جس کے وہ مستحق بھی ہیں۔ تاہم پارلیمانی کمیٹی کی سفارشات کا تعلق براہ راست ریاست کی آئینی پوزیشن سے جڑا ہوا ہے‘ جس پر عوام کوئی بھی سمجھوتا کرنے کو تیار نہیں ہو سکتے۔ جموں میں مقیم مغربی پاکستان کے مہاجرین کی تعداد ۵ لاکھ کے قریب ہے اور اگر ریاستی آئین میں ترمیم کرکے انہیں شہریت کا حق فراہم کیا گیا تو یقینی طور پر یہ ریاست میں ایک نئی شورش کو جنم دے سکتا ہے۔
اب جہاں تک ریاستی اسمبلی میں آزاد کشمیر کے لیے مخصوص ۲۵ نشستوں میں ہندو مہاجرین کے لیے ۸ نشستیں مخصوص کرنے کا معاملہ ہے، یہ خطرات سے پُر ہے اور اس کے نتیجے میں آئین کی بیخ کنی ہو سکتی ہے۔ یہ نشستیں ریاستی آئین کی رو سے ریاست کے دوسرے حصے کے لیے اس غرض سے مختص کی گئیں جو ریاستی آئین کے مطابق منقسم ریاست جموں و کشمیر کی ایک اکائی ہے اور اس کے حتمی تصفیے تک یہ نشستیں اسی حالت میں مخصوص رہنی چاہئیں۔ بالفاظ دیگر ریاستی آئین میں یہ شق رکھ کر کشمیر کے متنازع ہونے کو سند عطا کی گئی ہے۔ پہلے سے ہی یہ خدشہ ظاہر کیا جا رہا تھا کہ اگر بی جے پی برسرِ اقتدار آئی تو اس منصوبے کو عملی جامہ پہنانے کا آغاز کیا جائے گا۔ وہ کام جو پچاس برسوں سے زائد عرصے میں کوئی نہ کر سکا، اب بی جے پی اور سنگھ پریوار ایک سال میں پورا کرنا چاہتے ہیں۔ اگر بی جے پی اپنے اس منصوبے میں کامیاب ہو گئی تو جموں و کشمیر میں مسلمانوں کا اکثریتی کردار ختم ہو جائے گا۔ بی جے پی کا یہ استدلال کہ پناہ گزینوں کا مسئلہ خالص انسانی مسئلہ ہے، اپنی جگہ درست ہے لیکن اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ جن پناہ گزینوں کو ریاست کے لوگوں نے دہائیوں تک پناہ دی اور سب کچھ دیا، اب انہیں یہاں کا مالک بنا دیا جائے۔ اگر بی جے پی کو پناہ گزینوں کی اتنی ہی فکر ہے تو انہیں بھارت کے مختلف شہروں میں کیوں نہیں بسایا جاتا۔ انصاف کا تقاضا ہے کہ بدلے میں جموں خطے سے ۱۹۴۷ء میں لاکھوں ایسے مسلم خاندانوں کو، جنہیں ہجرت کر کے پاکستان جانے پر مجبور کیا گیا، انہیں واپس اپنے آبائی علاقوں میں بسنے کی اجازت ملنی چاہیے۔
لگتا ہے، موجودہ حکومت کشمیریوں کی حالت فلسطینیوں سے بھی بدتر کرنے کی راہ پر گامزن ہے۔ اس طوفان کو روکنے کے لیے نہ صرف کشمیری لیڈروں کو اکٹھے ہو کر ہوشمندی دکھانے کی ضرورت ہے بلکہ سیاسی اور سفارتی سطح پر بھی بھارتی لیڈروں کو باور کرانے کی ضرورت ہے کہ ایسے کسی قدم کے تباہ کن نتائج برآمد ہو سکتے ہیں، جس کا یہ خطہ متحمل نہیں ہو سکتا۔
(بشکریہ: روزنامہ ’’دنیا‘‘ کراچی۔ ۱۳؍جنوری ۲۰۱۵ء)
Leave a Reply