
جموں و کشمیر جل رہا ہے اور دارالحکومت دہلی کے تمام ’’نیرو‘‘ چین کی بانسری بجا رہے ہیں۔ دہلی کے قائدین پارٹی اجلاس کر رہے ہیں جہاں وہ ٹیبل کے اطراف جمع ہوتے ہیں اور اپنے اپنے جذبات کا اظہار کرتے ہیں پھر گھروں کو واپس ہو جاتے ہیں لیکن مسئلہ کا کوئی حل برآمد نہیں ہوتا۔ مرکزی وزیر داخلہ شیوراج پٹیل کے پاس تو کوئی ادھوری تجویز بھی نہیں ہے کہ وہ جموں و کشمیر کے مسئلہ کی یکسوئی کے لیے پیش کر سکیں۔ آخر میں خود انہوں نے کہہ دیا کہ پاکستان سے اتفاق کی صورت میں کشمیری عوام پاکستان کے مقبوضہ کشمیر کو اپنی اشیاء لے جا سکتے ہیں۔
یہ تجویز ہندوستان کے اختیارات کی مکمل طور پر دستبرداری کے مترادف تھی اس لیے کل جماعتی اجلاس میں کسی نے اس پر توجہ نہیں کی اور نہ کوئی ردعمل ظاہر کیا ۔ اس کا یہ مطلب تھا کہ کشمیر کے تمام احتجاجی عوام شاید کوئی پکنک منا رہے تھے اور ملک کے وزیر داخلہ نے یہ فیصلہ کیا کہ اگر یہ کشمیری اپنی پکنک کو وسعت دینا چاہتے ہیں تو وہ مقبوضہ کشمیر کے دارالحکومت مظفر آباد بھی جا سکتے ہیں۔ بے شک ان میں سے کئی ایسے ہیں جنہیں فائرنگ میں ہلاک ہونا پڑا۔ ایسے کچھ واقعات بھی ہوئے جو مختلف نوعیت کے تھے یا جن کا شیوراج پٹیل نے کوئی حوالہ نہیں دیا۔
جموں و کشمیر کے عوام کو بیک وقت ریاستی و مرکزی قیادت نے مایوس کر دیا۔ ایسا پہلے بھی ہوا تھا اور اب بھی ہو رہا ہے۔ کوئی ایک لیڈر بھی اپنے بندھے ٹکے علیحدگی پسندانہ یا فرقہ پرستانہ نظریہ سے بالاتر نہیں ہو سکا اور نہ ہی کسی نے سارے علاقے میں امن و ہم آہنگی پیدا کرنے کی پوری کوشش کی۔ تمام لیڈر گھروں میں بیٹھے رہے یا پھر زیادہ سے زیادہ انہوں نے اپنے چھوٹے چھوٹے علاقوں میں کچھ کرنے کی کوشش کی۔ زیادہ سے زیادہ یہ کیا کہ ایک دوسرے پر الزامات عائد کرتے رہے کہ دوسرے فرقہ پرستی کی آگ دہکا رہے ہیں۔ اب مسئلہ محض امرناتھ شرائن بورڈ کو زمین دینے کا نہیں رہا بلکہ مسئلہ علیحدگی، غصہ اور ناراضی سے تعلق رکھتا ہے۔ ان حالات کے دوران جنونی اور بنیاد پرستوں نے جموں و کشمیر کی سیاست پر اپنی گرفت مضبوط کر لی اور قومی دھارے کے سیاست دان پیچھے ہو گئے ہیں۔ مرکزی حکومت کے پاس بے شک اس کے علاوہ اور کوئی چارۂ کار نہیں تھا کہ وہ روحانی گروہ کو کوئی پیشکش کریں جنہوں نے اپنا ایک ایلچی روانہ کیا تھا۔ غالباً یہی واقعہ کشمیر اور دہلی کے تعلقات میں سب سے زیادہ افسوسناک ثابت ہوا۔ اس وقت ہر ایک دوسرے کو الزام دے رہا ہے۔ حالانکہ معاملہ میں سب ہی پوری طرح غلطی پر ہیں۔ سابق گورنر لیفٹیننٹ جنرل ایس کے سنہا نے جو ان دنوں بی جے پی کی سرپرستی میں ہیں۔ اُس وقت غلطی کی تھی جب انہوں نے نتائج کا اندازہ کیے بغیر متعلقہ فائل کو آگے بڑھایا۔ یہ کام بھی انہوں نے خفیہ طریقہ سے اپنے عہدہ کے آخری دن انجام دیا تھا۔ کشمیر میں اس کے بعد جو ردعمل ہوا وہ مختلف غلط افواہوں کی وجہ سے اور بھی زیادہ شدت اختیار کر گیا۔ عوام ہر افواہ پر یقین کرنے لگے اور انہیں یقین ہو گیا کہ ان کی زمین مستقل طور پر مندر کو دے دی گئی۔ سابق وزیراعلیٰ غلام نبی آزاد نے یہ سب کچھ ہونے دیا جو اُن کی غلطی تھی۔ اس کے بعد انہوں نے اُس عزم و ارادے کے ساتھ مسئلہ پر قابو پانے کی کوشش نہیں کی جس کی ضرورت تھی اور جس کی مدد سے افواہوں کا بازار ٹھنڈا کیا جا سکتا تھا۔ ریاست کے نئے گورنر این این ووہرا نے مندر کو زمین دینے کے فیصلے کو واپس لے کر غلطی کی۔
بی جے پی نے اُس وقت غلطی کی جب اس نے جموں میں فرقہ وارانہ منافرت کے شعلے بھڑکائے اور امرناتھ شرائن کمیٹی نے ساری وادی میں معاشی رکاوٹیں پیدا کر کے غلطی کی۔ یہ شاید سب سے زیادہ بڑی و بھیانک غلطی تھی جس نے اسرائیل کی جانب سے غزہ میں کیے گئے محاصرہ کی یاد تازہ کر دی۔ ریاستی حکومت منظر سے اچانک غائب ہو گئی۔ حریت کانفرنس نے علیحدگی پسندی کے شعلے بھڑکائے۔ حریت کے حریف لیڈر جیسے میر واعظ عمر فاروق اور سید علی گیلانی ایک دوسرے سے قریب ہو گئے۔ ذمہ داری کے ساتھ کام کرنے کے بجائے میر واعظ نے لوگوں کو مظفر آباد کی جانب کوچ کرنے کی ترغیب دی۔ میر واعظ یہ بھول گئے کہ انہوں نے عوام سے نہیں کہا ہے کہ معاشی ناکہ بندی کے راستے پر چلنے والوں کو پولیس کی گولیوں کا بھی سامنا کرنے پڑے گا۔ پیپلز ڈیمو کریٹک پارٹی نے علیحدگی پسندوں کا ساتھ دیا۔ جب اس بارے میں پوچھا گیا تو پارٹی کی لیڈر محبوبہ مفتی کوئی اطمینان بخش وضاحت نہ کر سکیں۔ اُن کے والد و سابق وزیر اعلیٰ جموں و کشمیر مفتی محمد سعید کو تو اس بحران کے دوران کچھ کہتے سنتے دیکھا بھی نہیں گیا۔ ایک اور سابق وزیراعلیٰ اور نیشنل کانفرنس کے صدر فاروق عبداللہ بیرون ملک گئے ہوئے تھے، جیسے ہی واپس آئے انہوں نے سب پر برسنا شروع کر دیا۔ ان کے صاحبزادے عمر عبداللہ بھی ان سنگین حالات میں اپنی نا تجربہ کاری کی وجہ سے کچھ نہ کر سکے۔ کانگریس کا بھی برا حال ہے۔ بی جے پی سلگتے ہوئے حالات سے اپنے ہاتھ سینک رہی ہے۔ علیحدگی پسند اور فرقہ پرست عناصر جو ان واقعات سے پہلے بالکل بے اثر ہو گئے تھے انہیں حیرت انگیز طور پر اپنے مشن کا احیاء کرنے کا موقع مل گیا۔ لیکن جیسا کہ ہمیشہ ہوتا ہے حکومت ہی سب سے بڑی قانون شکن ثابت ہوتی ہے۔ کشمیر میں جب فرقہ پرست و علیحدگی پسند عناصر نے اپنا ایجنڈا منکشف کر دیا ہے ، یہ سمجھنا چاہیے کہ یہ ایجنڈا ملک کے مفادات کے خلاف ہے۔ عوام ہمیشہ حکومت سے یہ توقع رکھتی ہے کہ وہ ان کا تحفظ کرے گی لیکن جموں و کشمیر کی ریاستی حکومت نے خود کو اس بحران سے الگ تھلگ رکھا۔ وزیراعظم ڈاکٹر من موہن سنگھ نے یوم آزادی کے موقع پر لال قلعہ کی فصیل سے کی گئی اپنی تقریر میں جموں و کشمیر کا ذکر کیا۔ اس میں شک نہیں کہ ہر کوئی اس جذبے کی قدر کرے گا کہ جموں و کشمیر میں پہلے امن برقرار کیا جائے۔ لیکن جو سوال اس وقت ساری قوم کے سامنے ہے وہ یہی ہے کہ کیسے جموں اور وادیٔ کشمیر میں امن قائم کیا جا سکتا ہے۔ اس سوال کا جواب بہر صورت حکومت ہی کو دینا ہے لیکن اقتدار پر فائز افراد خاموشی اختیار کیے ہوئے ہیں۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ حکومت کے پاس کوئی حل نہیں ہے۔ حالانکہ یہ بات بالکل صاف ہو گئی ہے کہ جب تک کہ فوری مداخلت کے ذریعہ فریقین کے تعلقات کو مستحکم نہ کیا جائے ریاست کو مستقبل قریب میں اور بھی سنگین حالات سے گزرنا پڑے گا۔
یہ بھی سوال ہے کہ آخر کیا کیا جانا چاہیے تھا؟ جموں و کشمیر کے سابق گورنر اور وزیراعلیٰ کو یکطرفہ طور پر پیش رفت کرنے کی اجازت نہیں دی جانی چاہیے تھی بلکہ اس بات کا تعین کیا جانا چاہیے تھا کہ مندر کو زمین الاٹ کرنے کا فیصلہ پوری طرح سے صلاح و مشورہ کے بعد صاف و شفاف انداز میں کیا جائے۔ سری نگر کی معاشی ناکہ بندی کی اجازت نہیں دی جانی چاہیے تھی۔
ریاستی اور مرکزی حکومت کا تو یہ فرض تھا کہ ایک منٹ کے لیے بھی کسی کو ایسا کرنے کی اجازت نہ دیتے۔ ناکہ بندی کو ختم کرنے کے لیے فوری فوج کو متحرک کیا جانا چاہیے تھا۔ اب بھی اس بحران کو سارے علاقے میں امن کے قیام کا ایک موقع بنایا جا سکتا ہے جس کے لیے ہمیں فوج کو امن بحال کرنے والا کردار دینا پڑے گا۔ متاثرہ لوگوں کو دوائیاں اور ضروری اشیاء فراہم کی جانی چاہیے۔ انہیں گولیوں کا نشانہ نہیں بنایا جانا چاہیے تھا لیکن حکومت نے قصداً اس موقع کو کھو دیا اور سارا معاملہ عوام پر چھوڑ دیا کہ وہ لڑ جھگڑ کر اپنا مسئلہ حل کرے۔ دہلی میں ہوئے کل جماعتی اجلاس کو بہت پہلے منعقد کیا جانا چاہیے تھا۔ بلکہ واقعات کے فوری بعد یہ کارروائی ہوتی تو بہتر تھا۔ وزیراعظم اور مرکزی وزیر داخلہ کو اُسی لمحہ کشمیر جانا چاہیے تھا اور وہاں جانے کے بعد تمام فریقین اور نمائندوں سے بات چیت کرنی چاہیے تھی۔ اگر سڑک کی ناکہ بندی فوج نے ختم کر دی ہوتی اور حکومت نے بات چیت کا آغاز کیا ہوتا تو وہ لوگ جو جموں و کشمیر اور دیگر مقامات پرآگ دہکا رہے ہیں وہ عوام سے الگ تھلگ ہو جاتے۔ اس کے برخلاف حکومت کی مکمل نااہلی کی وجہ سے یہ تمام عناصر ہیرو بن گئے ہیں۔ اب بھی فوری ضرورت یہ نہیں ہے کہ لاء اینڈ آرڈر کو بحال کیا جائے بلکہ فوری ضرورت اس بات کی ہے کہ یہاں فرقہ وارانہ ہم آہنگی کو فروغ دیا جائے۔ یہ کام جنگی خطوط پر کیا جانا چاہیے۔ کیونکہ پہلے ہی بہت دیر ہو گئی ہے یہ نہیں کہا جا سکتا کہ یہاں آسانی سے امن قائم ہو گا اور اگر قائم بھی ہو جائے تو اس کے دیرپا ہونے کی کوئی ضمانت نہیں دی جا سکتی۔ کسی نہ کسی کو معقول رویہ اختیار کرنا پڑے گا۔ وقت ہے کہ اب مرکز صورتحال کو اپنے کنٹرول میں لے۔ بصورتحال دیگر وہ آوازیں جو کشمیر کی مذہبی بنیادوں پر تین حصوں میں تقسیم کی بات کر رہی ہیں وہ مستحکم ہو جائیں گی۔ کیونکہ اس وقت جو مطالبہ کیا جا رہا ہے اُس کے خطرات سے تمام سیکولر اور سماج کے ذمہ دار گوشے واقف ہیں۔
(بحوالہ: ’’ایشین ایج‘‘ دہلی۔بھارت)
Leave a Reply