
ہمارے وزیر خارجہ پرنب مکرجی ابھی پچھلے دنوں اسلام آباد گئے تھے۔ وہاں پاکستان کی لیڈر شپ سے ان کی جو بات چیت ہوئی اس کی تفصیل تو ابھی باہر کی دنیا کو نہیں معلوم ہوئی مگر یہ کہا گیا ہے کہ وزیراعظم جلد ہی پاکستان کے دورے پر جائیں گے۔ اس سے اندازا ہوتا ہے کہ پاکستان کے ساتھ بات چیت کچھ نہ کچھ ضرور آگے بڑھی ہے۔ کم از کم اتنا تو ہوا ہے کہ مذاکرات کو مزید آگے بڑھانے کے لیے راستہ کچھ صاف ہوا ہے۔ پاکستان میں آجکل ایک نئی لیڈر شپ برسرِ اقتدار ہے۔ ان لوگوں کی سوچ روایتی لیڈروں سے کچھ ہٹ کر ہے اور بعض اوقات یہ ایسی بات کہہ دیتے ہیں جس کی انہیں بعد میں تردید کرنی پڑتی ہے۔ مثال کے طور پر گزشتہ دنوں آصف علی زرداری جو نئی لیڈر شپ کے ایک اہم رکن ہیں، نے کہا کہ نئی حکومت کشمیر کا مسئلہ حل کرنے کی بجائے تجارت اور دوسرے شعبوں میں ہندوستان سے تعاون بڑھانے میں زیادہ دلچسپی رکھتی ہے۔ اس طرح کی بات پاکستان کی روایتی لیڈر شپ کو ہضم نہیں ہو سکتی اس لیے جب اس بیان پر بہت زیادہ تنقید ہونے لگی تو زرداری صاحب کو اپنی بات واپس لینی پڑی۔ یہی نہیں بلکہ وزیراعظم گیلانی پاکستان کے سیاستدانوں کی پرانی رٹ کو دہرانے لگے کہ کشمیر کا مسئلہ اقوام متحدہ کی قرار داد کے مطابق حل ہونا چاہیے۔ اس سے اندازا ہوتا ہے کہ نئی حکومت میں ذمہ داریاں ابھی پوری طرح تقسیم نہیں ہوئی ہیں اور نہ ہی بہت سے معاملات میں حکومت کی کوئی واضح پالیسی ہے۔
اسلام آباد میں ایک اتحادی حکومت ہے جو مسلم لیگ (نواز گروپ) اور پیپلز پارٹی کے اتحاد سے بنی ہے مگر ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ان دونوں پارٹیوں کے لیڈروں کو ایک دوسرے پر اعتماد نہیں ہے اور وہ مل کر کام نہیں کر سکتے۔ پیپلز پارٹی کے صدر آصف علی زردای مسلم لیگ (نواز گروپ) کے صدر شہباز شریف سے ناراض ہیں جو ان کے دوست رحمت شاہ کو جیل سے رہا کرنے کے لیے تیار نہیں جو منشیات کی اسمگلنگ کے معاملے میں نو سال سے جیل میں بند ہیں۔ شہباز شریف کو بھی غالباً رحمت شاہ سے کسی پرانی عداوت کا بدلہ لینا ہے اس لیے وہ پیپلز پارٹی کے لیڈر کی بات ان سنی کر رہے ہیں۔
یہ سب سیاسی لیڈروں کے ذاتی جھگڑے ہیں۔ اس طرح کے جھگڑے تو دوسرے جمہوری ملکوں میں بھی ہوتے ہیں مگر پاکستان میں خطرہ ہے کہ اس طرح کے تنازعات سے جمہوریت کی حقیقی بحالی خطرے میں پڑ جائے گی۔ پرویز مشرف صاحب بڑی مشکل سے اور بہت زیادہ دباؤ کے بعد اس بات پر راضی ہوئے کہ ملک میں پارلیمانی جمہوریت کو بحال کیا جائے۔ وہ غالباً اس انتظار میں ہیں کہ کب یہ لیڈر ایک جمہوری حکومت چلانے میں ناکام ہوں اور کب انہیں پھر سے پاکستان میں اپنی آمرانہ حکومت قائم کرنے کا موقع ملے۔
اس بات میں کوئی شک نہیں کہ پاکستان میں جمہوریت کی ناکامی کا سبب وہاں کے سیاسی لیڈر تھے۔ آزادی کے وقت پاکستان کی سب سے بڑی سیاسی پارٹی پر جاگیرداروں کا قبضہ تھا۔ یہ لوگ چاہتے تھے کہ جس طرح دیہات کے معاشرے پر ان کا غلبہ ہے اس طرح ملک کی کونسلوں اور اسمبلیوں پر بھی ان کا راج ہو جائے۔ ایوب خان کا فوجی انقلاب درحقیقت اس جمہوریت کے خلاف بغاوت تھی جسے وہاں کے جاگیردار چلا رہے تھے۔ مگر فوجی راج تو اس ناکام جمہوریت کا علاج نہیں تھا کیونکہ فوج کے کمانڈر تو ملک کے مسائل حل نہیں کر سکتے۔ پاکستان کی ٹریجیڈی یہ ہے کہ جو سب سے زور دار اور کرشماتی غیرفوجی لیڈر اقتدار میں آیا اس نے بھی جمہوریت کو اپنے ہاتھ کا کھولنا بنانے کی کوشش کی۔ اس لیڈر کا انجام بھی اچھا نہیں ہوا۔ یہی وجہ ہے کہ وہاں ایک کے بعد ایک فوجی حکومتیں قائم ہوتی رہیں۔
پاکستان کی دوسری ٹریجیڈی یہ تھی کہ اس کی قیادت نے ملک کو امریکی بلاک میں شامل کر دیا۔ دنیا کی دو بڑی طاقتوں کے درمیان محاذ آرائی جب زوروں پر تھی تو ریاست ہائے متحدہ کو ایشیاء میں ایک ایسے ملک کی ضرورت تھی جو سوویت یونین کے خلاف اس کا آلہ کار بن سکے۔ پاکستان کے حکمران اس طرح کا رول ادا کرنے کے لیے تیار تھے۔ انہیں سوویت یونین سے تو کوئی عداوت نہیں تھی مگر وہ ہندوستان کے خلاف پاکستان کو مضبوط بنانے کے لیے امریکا کی فوجی مدد چاہتے تھے۔ ریاست ہائے متحدہ کی حکومت ایشیاء اور خاص طور پر شمال مغربی ایشیاء میں اپنے اثر و رسوخ کا دائرہ بڑھانے کے لیے اسلام آباد حکومت کی دامے درمے مدد کرنے لگے۔ اس پالیسی نے برصغیر ہند و پاک کے تعلقات پر جو اثر ڈالا اس سے ہم اچھی طرح واقف ہیں۔ دیکھنے والی بات یہ ہے کہ امریکا کا مقصد تو سوویت یونین کے خلاف اپنا محاذ مضبوط کرنا تھا اور پاکستان کی قیادت یہ سمجھتی تھی کہ امریکا کی دوستی سے اسے کشمیر حاصل کرنے میں مدد ملے گی۔ امریکا نے سیاسی سطح پر اقوام متحدہ اور دوسرے اداروں میں اس سوال پر پاکستان کا ساتھ دیا مگر اس سے زیادہ واشنگٹن کے لیڈر کچھ کرنے کو تیار نہیں تھے۔ اسی وجہ سے پاکستان کے سیاسی حلقوں کو امریکا کے رویے سے خاصی مایوسی ہوئی۔
حالات کی ستم ظریفی یہ ہے کہ آج پاکستان ایشیاء کے اس خطے میں امریکا کا سب سے بڑا حلیف ہے۔ امریکا والے جسے دہشت گردی کہتے ہیں اس کے خلاف پرویز مشرف صاحب امریکا کا پورا ساتھ دے رہے ہیں۔ افغانستان میں طالبان کی حکومت کے خلاف بھی پاکستان کی حکومت واشنگٹن کی پوری مدد کر رہی ہے۔ مگر اس بات کے فی الحال کوئی آثار نہیں ہیں کہ افغانستان سے طالبان کا غلبہ ختم کرنے کی مستقبل قریب میں امید کی جا سکے گی۔ جس طرح ۱۹ ویں صدی میں انگریز کی حکومت کو افغانستان میں ناکامی ہوئی تھی ویسی ہی شکست کا سامنا اب امریکا کو بھی ہے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ بڑی طاقتیں ماضی کے حالات سے کوئی سبق حاصل نہیں کر سکیں۔
(بشکریہ: روزنامہ ’’سیاست‘‘ حیدرآباد دکن۔ شمارہ: ۲۵ مئی ۲۰۰۸ء)
Leave a Reply