
ایک ماہ سے زیادہ عرصے سے کشمیر محصور ہے۔ جموں خطہ کے مسلم اکثریتی علاقوں وادی چناب اور پیر پنجال میں بھی اب حالات دن بدن ابتر ہوتے جا رہے ہیں۔ ان علاقوں سے آئے دن چھاپوں اورگرفتاریوں کی خبریں موصول ہو رہی ہیں۔ ایک طرف عوام کرفیو اور ہڑتالوں کی بندشیں جھیل رہے ہیں تو دوسری جانب بھارتی حکومت اپنے عوام اور دنیا کو باورکرانے کی کوشش کر رہی ہے کہ یہ صورت حال سیاسی یا مقامی نوعیت کی نہیں، بلکہ پاکستان اور وہاں موجود غیر ریاستی عناصر کی دین ہے، جن کے تار عالمی دہشت گردی کے ساتھ جڑے ہیں۔ وزیر اعظم نریندر مودی کی حکومت نے جو ایک مہینے سے زیادہ عرصہ گزرنے کے باوجود ٹس سے مس نہیں ہو رہی تھی، پچھلے ہفتے سکوت توڑا مگر زخموں پر مرہم لگانے کے بجائے نمک لگانے کا کام کیا۔
پارلیمان میں کل جماعتی اجلاس کے اختتام پر نریندر مودی نے جو چھ نکاتی حکمت عملی پیش کی، اس نے سیاسی عمل کی موہوم امید بھی معدوم کردی ہے۔ اس کا پہلا ہی نقطہ سکیورٹی دستوں کو صورت حال سے نمٹنے کے لیے کھلی چھوٹ دینا ہے۔ گویا ان کو کسی بھی احتساب کے خوف سے آزاد کرکے تحریک کو دبانے کے لیے کسی بھی حد تک جانے کا لائسنس دے دیا گیا ہے۔ دوسرے نقطے میں وزارت خارجہ کو بتایا گیا کہ وہ بیرون ملک مقیم آزاد کشمیر، گلگت و بلتستان کے شہریوں سے رابطہ کریں اور ان علاقوں کی سیاسی اور انسانی حقوق کی صورت حال کا ادراک کرکے عالمی رائے عامہ کوروشناس کروائیں۔ ان کے مطابق شاید یہ علاقے انسانی تصرف سے باہرکسی دور دراز سیارے میں ہیں اور وہاں کی خبریں عالمی ذرائع ابلاغ اور بین الاقوامی برادری تک نہیں پہنچ پاتیں۔ اس کا واحد مقصد کشمیر میں فوجی کارروائیوں اور سیاسی عمل کی ناکامی سے توجہ ہٹا کر پاکستان اور آزاد کشمیر کو بھی کٹہرے میں لا کھڑا کرنا ہے۔ اس سے نریندر مودی اپنی سخت گیر شبیہ برقرار رکھتے ہوئے قوم پرست حلقے کو متوجہ کرنے میں کامیاب تو ہو جائیں گے لیکن دوسری طرف اگلے چند ماہ کے دوران بھارتی حکومت کی ایما پر عالمی شہروں میں آزاد کشمیر، گلگت اور بلوچستان کے حوالے سے کئی دکانیں کھل جائیں گی۔ اب اگر کوئی خلوصِ نیت سے ان علاقوں کی صورت حال کے حوالے سے فکرمند تھا تو وہ بھی اب شک و شبے کے دائرے میں آجائے گا۔ اس کے علاوہ صوبائی حکومتوں کو بتایا گیا کہ وہ اپنے ہاں مقیم کشمیری شہریوں پر زور دیں کہ وہ کشمیر میں اپنے اعزہ و اقربا کو بھارت کی ترقی اور خوشحالی کے بارے میں آگاہ کریں۔ اپنے خطاب کے شروع میں ہی نریندر مودی نے اپنی نیت ظاہر کرتے ہوئے سیاسی راہنماؤں پر زور دیا کہ ان کو کشمیر کے علاوہ جموں، لداخ اور آزاد کشمیر (ان کے بقول پاکستانی کشمیر بشمول گلگت و بلتستان) پر بھی بات کرنی چاہیے۔ پاکستان کو ہدف بناتے ہوئے انہوں نے کہا وقت آچکا ہے کہ پاکستان کو بلوچستان اور آزاد کشمیر کے معاملات میں جوابدہ بنایا جائے۔
بند کمرے کے اس اجلاس کے فوراً بعد پارلیمان کی لائبریری بلڈنگ میں بائیں بازو کے ایک مقتدر رہنما نے جو اس میں شریک تھے، مجھے بتایا کہ قوم پرستی کے خمار میں ڈوبے وزیر اعظم اور حکومت کے دیگر لیڈروں کے رویے سے ظاہر تھا کہ وہ کشمیری عوام اور پاکستان تک پیغام پہنچانا چاہ رہے ہیں کہ ان کی منزل نا قابل حصول ہے اور کسی بیرونی دباؤ کی عدم موجودگی میں ریاست کا وسیع دائرہ بالآخر تحریک کشمیر کو تحلیل کردے گا۔ اجلاس شروع ہوتے ہی وزیر خارجہ سشما سوراج نے بتایا کہ اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کی کونسل کی طرف سے ان کو ایک خط موصول ہوا ہے جس میں کشمیر جانے کی اجازت مانگی گئی ہے۔ وہ اس پر سیاسی جماعتوں کی رائے جاننا چاہ رہی تھیں، ساتھ ہی وزیر موصوفہ نے لقمہ دیا کہ ماضی میں حکومتوں کی لگا تار پالیسی یہ رہی ہے کہ کشمیر یا دیگر اندرونی معاملوں میں کسی بھی بین الاقوامی ادارے کو مداخلت کی اجازت نہ دی جائے۔ اس جملے کے بعد کس کی جرأت تھی کہ اقوام متحدہ کی حمایت کرے۔ سبھی نے اقوام متحدہ کی درخواست رد کردی۔ مودی حکومت اب اسے سیاسی اتفاق رائے سے تعبیر کرے گی۔ مگر اس سے قبل دو بار ۲۰۱۲ء اور ۲۰۱۳ء میں بھارت اقوام متحدہ کے نمائندوں کی مہمان نوازی کرچکا ہے۔ مارچ ۲۰۱۲ء میں ’اسپیشل ریپورٹیئر برائے ماورائے عدالت ہلاکتیں‘ دہلی وارد ہوئے تھے اور اس کے ایک سال بعد اقوام متحدہ کے مبصر برائے حقوقِ خواتین بھی بھارت آئے تھے۔ اور تو اور پچھلے سال بھارت نے نیپال میں بھارت نژاد مدھیشی نسل کے لوگوں کو سرکاری تشدد کا نشانہ بنانے کے خلاف اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کی کونسل میں باضابطہ شکایت درج کی تھی، جس کے بعد کونسل نے وہاں ایک ٹیم بھی بھیجی تھی۔
حیدر آباد کے رکن پارلیمان اور مجلس اتحاد المسلمین کے صدر اسد الدین اویسی، کانگریسی رہنما غلام نبی آزاد کے علاوہ سابق وزیر اعظم من موہن سنگھ اور بائیں بازو کے رہنماؤں نے پیلٹ گنوں پر پابندی لگانے کا معاملہ اٹھایا ہے۔ اویسی نے کرفیو اور بندشوں کی وجہ سے عوام کو درپیش تکالیف کا ذکر کیا۔ انہوں نے حیرت ظاہرکی کہ جب شمالی اور وسطی کشمیر میں حریت نے روز شام کو ۶ بجے کے بعد ہڑتال ختم کرنے اور معمول کی زندگی بحال کرنے کی اپیل کی تھی اور جس کا اثر بھی دکھائی دے رہا تھا تو اس کی حوصلہ افزائی کرنے کے بجائے سکیورٹی فورسز نے رات کے کرفیو کا اعلان کیوں کیا۔ یہ کرفیو اتنی سختی سے لاگو کیا جارہا ہے کہ رات کو ایمبولینس تک کو جانے کی اجازت نہیں دی جارہی۔ اویسی کی اس تجویزکا توڑ شمالی کشمیر کے رکن پارلیمان مظفر حسین بیگ نے کیا۔ انہوں نے مودی کی خوشامدکرتے ہوئے کہا کہ شمالی کشمیر میں رات کے کرفیو کا نفاذ ناگزیر بن گیا ہے، کیونکہ رات کو بارہمولہ کی خواتین گھر کا کام کرنے کے بعد سڑکوں پر آکرگڑ بڑ کرتی ہیں۔ انہوں نے مودی کے سیاسی خاکوں میں رنگ بھرتے ہوئے موجودہ تحریک کو عالمی دہشت گردی، آئی ایس آئی ایس، مدرسوں کی تعلیم اور ہندوؤں سے منافرت کے ساتھ جوڑا۔ حتیٰ کہ وزیر اعلیٰ محبوبہ مفتی نے چند روز قبل جن امور اور اقدامات کا مطالبہ نریندر مودی سے ملاقات کے دوران کیا تھا، بیگ نے اس کا ذکر تک نہ کیا۔ ان کی تقریر پر تبصرہ کرتے ہوئے جنوبی بھارت کے ایک راہنما نے باہر آکرکہا کہ کشمیریوں کے اپنے نمائندے ہی ان کو قتل کروانے کے در پے ہیں۔ اس میٹنگ سے چند روز قبل جموں کے سیاحتی مقام پتنی ٹاپ میں ہندو بنیاد پرست تنظیم راشٹریہ سویم سیوک سنگھ (آر ایس ایس) کے رہنماؤں کا ایک اجلاس منعقد ہوا، جس میں کشمیر کی موجودہ صورت ِ حال کا جائزہ لینے کے بعد اسی روایتی نظریہ کی تکرار کی گئی کہ وادی کے محض آٹھ اضلاع جزوی جبکہ پانچ کُلی طور پر اس احتجاج سے متاثر ہیں اور بقیہ ریاست جس میں پیر پنجال کے دو، چناب کے تین، جموں کے چار اضلاع شامل ہیں میں مکمل امن و امان ہے۔ لہٰذا یہ وقتی اور محدود طرزکی احتجاجی تحریک ہے، جسے کچلنے کے لیے آزادی پسندوں سے سختی سے پیش آنے اور متاثرہ اضلاع کو فوج کے حوالے کرنے کی ضرورت ہے۔ یہی وہ اپروچ ہے جسے بھارتی قیادت گزشتہ ساٹھ سے زائد برسوں سے روا رکھے ہوئے ہے۔ آرایس ایس کی قیادت اس کا برملا اعلان کرنے میں عار محسوس نہیں کرتی۔ مودی کی تقریر دراصل اسی سوچ کی عکاسی تھی۔
دوسری طرف کشمیر میں میں پیلٹ لگنے سے زخمی ہونے والے چار سو سے زیادہ نوجوانوں کی آنکھیں بچانے میں مصروف ڈاکٹر ۵۰۰ سے زائد جراحیاں کرنے کے بعد ذہنی تناؤ کا شکار ہوچکے ہیں، کیونکہ ان کے بقول انہوں نے اپنے پورے کیریئر میں ایسی صورتحال کبھی نہیں دیکھی۔ مقامی اخبارات کے مطابق ڈاکٹروں کا کہنا ہے کہ ذہنی تناؤ اور تکان کے باوجود وہ لوگوں کی جان بچانے کے لیے تیار ہیں اور ان کی کو شش ہوگی کہ زیادہ سے زیادہ زخمی نوجوانوں کی بصارت بچائی جائے۔ کشمیر میں تناؤکا اثر نہ صرف عام شہریوں اور مظاہرین پر پڑ رہا ہے بلکہ اس سے فورسزکی کارروائی میں زخمی ہونے والے نوجوانوں کا علاج کرنے والے طبی اور نیم طبی عملے پر بھی پڑ رہا ہے۔ سرینگر کے صدر اسپتال کے شعبہ چشم میں پچھلے ۳۶ دنوں میں ۴۰۰ سے زائد ایسے زخمیوں کا علاج کیا گیا جن کی آنکھوںمیں پیلٹ لگے تھے اور ڈاکٹروں کو بصارت کی واپسی کے لیے ۵۰۰ سے زیادہ آپریشن کرنے پڑے۔ شعبہ چشم میں بطور سرجن کام کرنے والی ایک خاتون ڈاکٹر نے مقامی میڈیا کو بتایا کہ ’’پچھلے ۳۶ دنوں میں لگاتار ایسے زخمیوں کا علاج کرنا پڑ رہا ہے، جو جوانی میں ہی بصارت کھونے کے قریب پہنچ چکے ہیں‘‘۔ انہوں نے مزید کہا: ’’بیشتر زخمیوں کی عمر ۴ سے ۲۷ سال کے درمیان ہے‘‘۔ انہوں نے بتایا کہ ’’انشا مشتاق نامی لڑکی کی حالت دیکھ کر خود بخود آنکھوں سے آنسو بہنے لگے کیونکہ ایک لڑکی جوانی کی دہلیز میں آتے ہی آنکھوں سے محروم ہوگئی تھی‘‘۔ اس مخدوش صورت حال میں کشمیری عوام کا عزم و حوصلہ اور نامساعد حالات کا مردانہ وار مقابلہ کر نے کا ناقابل تسخیر جذبہ موجود ہے۔آج کی مصروف زندگی میں کسی دوسری جگہ لوگوں پرگولیوں، پیلٹ چھروں، اشک آورگولوں، ہلاکتوں، زخمیوں اورگرفتاریوں کا بھاری بوجھ آن پڑتا تو چالیس دن تو دور کی بات ہے صرف دودن کرفیو کا ہی منہ دیکھنا پڑتا تو وہاں انسانی المیوں کی ناقابلِ یقین سرگزشتیں رقم ہو جاتیں۔ لیکن کشمیر سات ہفتوں سے مسلسل جل رہا ہے، یہاں کہیں امن و سکون نہیں مگراس کے باوجود وادی کے مکین آلام و مشکلات کی شدت برداشت کر کے بھی حالات کے سامنے سپر انداز ہونے کو تیار نہیں۔ شاید اسی حقیقت کا اظہار بارہویں صدی کے مشہور مورخ کلہن پنڈت نے کیا تھاکہ اہل کشمیرکو محض زور بازو سے زیر نہیں کیا جاسکتا۔
(بشکریہ: روزنامہ ’’دنیا‘‘ کراچی۔ ۱۶؍اگست ۲۰۱۶ء)
Leave a Reply