کشمیریوں کی ثقافت ’ایکو‘ ممالک سے ہم آہنگ!

ایران میں پاکستان کے سفیر شفقت سعید نے کہا ہے کہ کشمیریوں کا یہ قانونی حق ہے کہ وہ ایک آزاد اور منصفانہ ریفرنڈم کے ذریعہ اپنی تقدیر کا تعین کریں۔ انھوں نے یہ بات کشمیر میں بھارتی فوج کے داخلے کی ۶۰ ویں برسی کے موقع پر منعقدہ اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے کہی۔ انھوں نے کہا کہ کشمیریوں کو اپنی تقدیر کے تعین کے لیے ریفرنڈم کے اپنے قانونی حق سے استفادہ کرنا حتماً ضروری ہے اور ان کے اس حق کا بہر صورت احترام کیا جانا چاہیے۔ انھوں نے اس حوالے سے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی دو قرار دادوں کا بھی تذکرہ کیا۔ شفقت سعید نے کہا کہ کشمیر ی عوام گزشتہ ۶۰ سالوں سے اپنے بنیادی حق سے محروم ہیں جب کہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے ۱۹۴۸ اور ۱۹۴۹ میں دو قراردادیں پاس کر کے بھارت اور پاکستان دونوں کو ریفرنڈم کے انعقاد پر تاکید کی ہے تاکہ کشمیری عوام اس کے ذریعہ یہ فیصلہ کر سکیں کہ آیا انھیں بھارت کے ساتھ ملحق رہنا ہے یا پاکستان کے ساتھ۔ انھوں نے اس بات پر افسوس کااظہار کیا کہ ناہی اقوام متحدہ اور ناہی اسلامی تنظیم کانفرنس (O.I.C) گزشتہ نصف صدی سے تنازعہ کشمیر کو حل کر سکی۔ سفیر پاکستان نے کہا کہ پاکستان سمجھتا ہے کہ مسئلہ کشمیر کا حل مذاکرات سے نکل سکتا ہے۔ انھوں نے کہا کہ پاکستان کشمیری سرحدوں کو کھولنے کا مطالبہ کرتا ہے اور کشمیر میں تعینات دونوں ممالک کی فوجوں میں کمی کی تجویز پیش کرتا ہے۔ شفقت سعید نے ایران سے مطالبہ کیا کہ وہ مسئلہ کشمیر پر پاک بھارت تنازعہ کو دور کرنے کے لیے ثالثی کا کردار ادا کرے۔
دریں اثناء اس موقع پر تہران میں قائم اقتصادی تعاون تنظیم (ECO) سے متعلق کلچرل انسٹی ٹیوٹ کے ڈائریکٹر محمد رجبی نے کہا کہ کشمیری عوام کی ثقافتی ہم آہنگی ECO کے دس رکن ممالک کے ساتھ ہے اس لیے اس تنازعے کا تعلق علاقے کے تمام ممالک سے ہے۔ رجبی نے کہا کہ ’’مسئلہ کشمیر اس وقت کھڑا ہوا جب مسلم دنیا کو مسئلہ فلسطین کا سامنا تھا برطانوی سامراج نے ۱۹۴۷ میں فلسطین کو دو حصوں میں تقسیم کرنے کے منصوبے پر عمل کیا ایک مسلم آبادی والا فلسطین اور دوسرا یہودی آبادی والا فلسطین اور ٹھیک یہی منصوبہ انھوں نے کشمیر کے لیے بنایا۔ رجبی نے کہا کہ مسلمان کشمیری آبادی کا نوے فیصد ہیں لہٰذا مسلم دنیا سے توقع کی جاتی ہے کہ وہ کشمیریوں کی زبوں حالی کے تدارک کے لیے اپنی تگ ودو اس طرح جاری رکھے گی جس طرح وہ فلسطینیوں کی طرح رکھے ہوئی ہے۔ بعض ایرانی دانشور بھی کشمیریوں کی زبوں حالی کی ۶۰ ویں برسی سے متعلق اس اجتماع میں موجود تھے۔

(بحوالہ: “www.irib.com”۔ ۲۷ اکتوبر ۲۰۰۷ء)

Be the first to comment

Leave a Reply

Your email address will not be published.


*