اوباما سے کشمیریوں کو مایوسی

مقبوضہ کشمیر کے دارالحکومت سری نگر میں عرفان انصاری روزانہ سیکڑوں درخواستیں وصول کرتا ہے۔ بہت سے نوجوان کشمیری پرامن زندگی بسر کرنا چاہتے ہیں۔ وہ چاہتے ہیں کہ انہیں باعزت روزگار فراہم کیا جائے۔ عرفان انصاری کا کال سینٹر ہے جس میں ۳۰۰ سے زائد افراد کام کرتے ہیں۔ ان میں اکثریت نوجوانوں کی ہے جو بہتر معاشی امکانات کی تلاش میں ہیں۔ مقبوضہ کشمیر میں بھارتی حکومت کے خلاف جاری تحریک کے تناظر میں دیکھیے تو یہ کال سینٹر جنت معلوم ہوتا ہے۔

عرفان انصاری کے پاس دس ہزار سے زائد نوجوانوں کے کوائف موجود ہیں۔ وہ ان سب کو ملازمت فراہم کرنے سے قاصر ہے تاہم اس کی کوشش ہے کہ زیادہ سے زیادہ نوجوانوں کو باعزت اور مستحکم روزگار ملے۔ کشمیریوں کی نئی نسل جنگ و جدل سے تنگ آچکی ہے۔ وہ امن کے ساتھ جینا چاہتی ہے۔ پانچ عشروں کے دوران مسلح جدوجہد سے کچھ بھی حاصل نہ ہونے کا احساس شدت اختیار کرتا جارہا ہے۔ اس جدوجہد کے نتیجے ہی میں پاکستان اور بھارت کے لیے (جو ایٹمی ہتھیاروں سے لیس ہیں) اب مقبوضہ کشمیر فلیش پوائنٹ میں تبدیل ہوچکا ہے۔

کشمیریوں کو یقین تھا کہ بارک اوباما ان کی تقدیر کا فیصلہ کرنے میں اہم کردار ادا کریں گے۔ مگر اوباما انتظامیہ اب تک ان کے لیے کچھ بھی کرنے سے قاصر ہیں۔ امریکی صدر چاہتے ہیں کہ پاکستان اسلامی شدت پسندوں کے خلاف کارروائی تیز کرے جبکہ ساتھ ہی ساتھ وہ بھارت سے بھی تعلقات بہتر بنانے کے خواہش مند ہیں۔ جب بارک اوباما نے امریکی صدر کے منصب کے لیے حلف اٹھایا تھا تب بیشتر کشمیریوں کو توقع تھی کہ وہ اس دیرینہ مسئلے کے حل میں دلچسپی لیں گے، مرکزی کردار ادا کریں گے۔ ابتدا میں ایسا دکھائی دیا کہ صدر اوباما شاید کشمیر کے معاملے میں کچھ کرنا چاہتے ہیں۔ انہوں نے سابق امریکی صدر ولیم جیفرسن کلنٹن کو کشمیر کے حوالے سے امریکا کا خصوصی ایلچی مقرر کرنے کا عندیہ بھی دیا مگر پھر نہ جانے کیا ہوا کہ یہ تجویز راستے میں کہیں کھوگئی۔

کشمیر کے بارے میں امریکی صدر نے جو رویہ اختیار کیا ہے اس سے کشمیریوں کو مایوسی ہوئی ہے۔ بارک اوباما نے حال ہی میں کہا ہے کہ کشمیریوں کے مستقبل کا فیصلہ پاکستان اور بھارت کو کرنا ہے۔ معروف کشمیری قانون دان اور سول سوسائٹی گروپس کے ایک اتحاد کے سربراہ پرویز امروز کا کہنا ہے کہ بارک اوباما کی وائٹ ہائوس آمد سے بیشتر کشمیری خوش تھے۔ انہیں یقین تھا کہ غیر یقینی کیفیت اب ختم ہوگی اور کچھ نہ کچھ ہو رہے گا۔

مگر جب معاملہ انسانی حقوق کا آتا ہے تو کشمیریوں کو احساس ہوتا ہے کہ انہیں دھوکا دیا گیا ہے۔ کشمیر کے بارے میں جو کچھ بارک اوباما نے کہا تھا وہ انتخابی مہم کے دوران کی جانے والی نعرے بازی سے زیادہ کچھ نہ تھا۔ کشمیر کے معاملے میں اوباما کی خاموشی بلا سبب نہیں۔ تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ وہ پس منظر میں رہتے ہوئے سفارتی کوششیں جاری رکھے ہوئے ہیں۔ اس معاملے میں وہ غیر معمولی احتیاط کا مظاہرہ کر رہے ہیں۔

بھارتی حکومت کشمیری حریت پسندوں کے گروپوں سے خود مختاری اور علاقے کو ہتھیاروں سے پاک کرنے سمیت مختلف آپشنز پر بات چیت کر رہی ہے۔ اس بات چیت کو بھارتی حکومت نے خاموش سفارت کاری کا نام دیا ہے۔ اوباما انتظامیہ اس خاموش سفارت کاری کی حمایت کر رہی ہے۔ ممبئی حملوں نے پاک بھارت مذاکرات کو تو پٹری سے اتار دیا ہے تاہم نئی دہلی اور سری نگر میں بات چیت جاری ہے۔ دونوں مقامات پر ان مذاکرات کو اہم پیش رفت قرار دیا جارہا ہے۔

امریکی دفتر خارجہ کے سابق افسر، جنوبی ایشیائی امور کے ماہر اور ’’دی لَمٹس آف انفلوئنس: امریکاز رول ان کشمیر‘‘ کے مصنف ہاورڈ بی شیفر کا کہنا ہے کہ واشنگٹن کو ڈر ہے کہ کشمیر کے معاملے میں مداخلت کرنے پر کہیں نئی دہلی ناراض نہ ہو جائے۔ کشمیر کے بارے میں خصوصی ایلچی مقرر کرنے کا عندیہ دیے جانے کو بھارت میں اس طرح دیکھا جاتا ہے جیسے زہریلا مادہ پھینک دیا گیا ہو!

دہشت گردی کے خلاف جنگ میں بھی کشمیر غیر معمولی اہمیت کا حامل خطہ ہے۔ اوباما انتظامیہ نے کشمیر پر جو اپروچ اختیار کی ہے وہ کسی بھی اعتبار سے معاملے کے حساس ہونے سے مطابقت نہیں رکھتی۔ اسلامی شدت پسندوں نے اس خطے سے نوجوانوں کو بھرتی کرنے کی کوشش کی ہے۔ امریکا کے لیے زیادہ اہمیت اس بات کی ہے کہ پاکستان اور بھارت کے درمیان کشیدگی کم کی جائے تاکہ پاکستانی افواج اپنے ملک کی حدود میں طالبان اور ان کے حامیوں کے خلاف بہتر انداز سے کارروائی کرسکیں۔ کشیدگی ختم یا نمایاں طور پر کم ہونے سے پاکستانی افواج لشکر طیبہ کے خلاف زیادہ وسیع اور موثر کارروائی کے قابل ہوسکیں گی۔ لشکر طیبہ پر ممبئی حملوں کی منصوبہ بندی اور معاونت کا الزام عائد کیا جاتا رہا ہے۔

کشمیریوں کی اکثریت امریکی طریق کار سے مطمئن نہیں۔ وہ چاہتے ہیں کہ امریکا کو خطے کے معاملات میں زیادہ فعال کردار ادا کرنا چاہیے۔ کل جماعتی حریت کانفرنس کے چیئرمین میر واعظ مولوی عمر فاروق کا کہنا ہے کہ امریکا اور بھارت ممبئی حملوں کے پیچھے نہیں چھپ سکتے۔ امریکا کی ذمہ داری ہے کہ پاکستان اور بھارت کو مسئلہ کشمیر پر مذاکرات کے لیے آمادہ کرے۔ ان کا استدلال ہے کہ اگر یہ موقع ضائع ہوگیا تو تشدد کا سلسلہ ایک بار پھر شروع ہوجائے گا۔

انسانی حقوق کے علمبردار گروپ الزام عائد کرتے ہیں کہ بھارتی حکومت عسکریت پسندوں کے خلاف کریک ڈائون کے دوران شہریوں کو بھی موت کے گھاٹ اتار رہی ہے۔ پرویز امروز کا کہنا ہے کہ کشمیریوں کی اکثریت چاہتی ہے کہ امریکا شہریوں کی ہلاکت پر بھارت سے بات کرے، مگر اس نے پراسرار خاموشی اختیار کر رکھی ہے۔

چند ماہ کے دوران بھارتی فوج اور حریت پسندوں کے درمیان تصادم گھٹا ہے۔ کشمیریوں کی نئی نسل معمول کی زندگی گزارنا چاہتی ہے۔ شہریوں کی ہلاکت کی تفتیش سے بھی کشمیری مطمئن نہیں۔ بھارت کے اعلیٰ تفتیشی ادارے نے بتایا ہے کہ حال ہی میں جن دو کشمیری خواتین کے بارے میں خیال تھا کہ انہیں زیادتی کے بعد قتل کیا گیا ہے وہ دراصل ایک پہاڑی نالے میں گر کر ہلاک ہوئیں۔ بیشتر کشمیریوں کا خیال یہ ہے کہ تفتیش کا یہ نتیجہ دراصل بھارتی سیکیورٹی فورسس کے افسران کو بچانے کی کوشش ہے۔ اس نوعیت کے واقعات کشمیر کی حساس نوعیت کی جانب اشارہ کرتے ہیں۔ صورت حال کی نزاکت کے باعث ہی سرمایہ کار کشمیر سے دور رہتے ہیں۔ اگر بیرونی سرمایہ کاری باقاعدگی سے ہوتی رہے تو بہت سے ایسے ادارے قائم کیے جاسکتے ہیں جن سے نوجوانوں کو بڑے پیمانے پر روزگار کے مواقع فراہم کرنے میں مدد ملے۔ کشمیر میں عام تاثر یہ ہے کہ جب تک سیاسی استحکام نہیں ہوگا، سرمایہ کاری نہیں ہوگی اور معاشی نظام مستحکم نہیں ہوگا۔ اگر روزگار کے مواقع نہیں ہوں گے تو کشمیری نوجوان ایک بار پھر عسکریت پسندی کو گلے لگانے پر مجبور ہوں گے۔

(بحوالہ: ’’واشنگٹن پوسٹ‘‘۔ ۳۰ دسمبر ۲۰۰۹ء)

Be the first to comment

Leave a Reply

Your email address will not be published.


*